نوجوانوں کا سوال
مَیں پریشانی سے کیسے نمٹ سکتا ہوں؟
آپ کن باتوں کی وجہ سے پریشان ہو جاتے ہیں؟
کیا آپ بھی کبھی کبھار ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسے یہاں بتایا گیا ہے؟
”میں ہر وقت یہ سوچتا رہتا ہوں کہ کہیں ہماری گاڑی کا ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے؟ کہیں وہ جہاز نہ گِر جائے جس میں ہم سفر کر رہے ہیں؟ مَیں اکثر اُن چیزوں کے بارے میں سوچ کر پریشان رہتا ہوں جن کے بارے میں شاید کوئی دوسرا شخص زیادہ نہ سوچے۔“—چارلس۔
”مَیں ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مَیں ایک ایسے چوہے کی طرح ہوں جو ایک پہیے پر بھاگتا جا رہا ہے لیکن کہیں پہنچتا نہیں۔ مَیں حد سے زیادہ محنت کر رہی ہوں لیکن مجھے زندگی میں کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا۔“—اینا۔
”جب لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تُم بڑے مزے میں ہو کہ ابھی سکول میں ہو تو مَیں خود سے کہتا ہوں: ”اِنہیں کیا پتہ کہ مجھے سکول میں کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے!““—ڈینئل۔
”مَیں ایک پریشر کُکر کی طرح محسوس کرتی ہوں (یعنی مَیں ہر وقت خود پر بہت زیادہ دباؤ محسوس کرتی ہوں) اور ہمیشہ یہ سوچ کر پریشان رہتی ہوں کہ اب آگے کیا ہوگا اور مَیں آگے کیا کروں گی۔“—لورا۔
حقیقت: پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”آخری زمانے میں مشکل وقت آئے گا“ اور آج ہم اِسی زمانے میں رہ رہے ہیں۔ (2-تیمُتھیُس 3:1) اِس وجہ سے نہ صرف بالغ بلکہ نوجوان بھی پریشانی کا شکار ہیں۔
کیا پریشان ہونا ہمیشہ غلط ہے؟
نہیں! بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں سے ہم پیار کرتے ہیں، اُن کے لیے پریشان یا فکرمند ہونا غلط نہیں ہے۔—1-کُرنتھیوں 7:32-34؛ 2-کُرنتھیوں 11:28۔
یہ بات بھی بالکل سچ ہے کہ پریشانی ہمیں یہ احساس دِلاتی ہے کہ ہمیں ایک کام کو کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ اگلے ہفتے سکول میں آپ کا کوئی ٹیسٹ ہو اور آپ پریشانی یا فکرمندی کی وجہ سے اِسی ہفتے اُس کی تیاری کرنا شروع کر دیں۔ اِس طرح ٹیسٹ میں آپ کے اچھے نمبر آ سکتے ہیں۔
کبھی کبھی فکرمندی کی وجہ سے آپ آنے والے خطرے کو بھانپ سکتے ہیں۔ سرینا نام کی ایک لڑکی نے کہا: ”ہو سکتا ہے کہ جب آپ کوئی غلط قدم اُٹھانے والے ہوں تو آپ پریشان ہو جائیں اور اِس پریشانی کی وجہ سے آپ اپنا فیصلہ بدل لیں تاکہ آپ کا ضمیر مطمئن رہے۔“—یعقوب 5:14 پر غور کریں۔
حقیقت: پریشانی اُس وقت تک ہمارے لیے ٹھیک ہے جب تک یہ ہمیں صحیح کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
لیکن اگر آپ پریشانی کی وجہ سے مایوسی کی بھول بھلیاں میں پھنس جاتے ہیں تو آپ کو کس بات پر دھیان دینا چاہیے؟
مثال: رچرڈ جن کی عمر 19 سال ہے، اُنہوں نے کہا: ”مَیں اُس وقت بہت زیادہ پریشان ہو جاتا ہوں جب مَیں یہ سوچتا ہوں کہ ایک خراب صورتحال کن کن طریقوں سے اَور زیادہ بگڑ سکتی ہے۔ مَیں بار بار اُس صورتحال کو اپنے دماغ میں دُہراتا ہوں جس کی وجہ سے مَیں اَور زیادہ پریشان ہو جاتا ہوں۔“
پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”پُرسکون دل جسم میں جان ڈالتا ہے۔“ (اَمثال 14:30) لیکن اگر ہم حد سے زیادہ پریشان رہتے ہیں تو اِس کا ہمارے جسم پر بہت بُرا اثر ہوتا ہے جیسے کہ سردرد ہونا، چکر آنا، پیٹ خراب ہونا اور دل کی دھڑکن کا بہت تیز ہو جانا۔
لیکن آپ اُس وقت کیا کر سکتے ہیں جب آپ کو پریشان یا فکرمند رہنے کی وجہ سے فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہو؟
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
خود سے پوچھیں کہ اِس معاملے کے بارے میں مجھے کس حد تک پریشان ہونا چاہیے۔ ”اپنی ذمےداریوں کے بارے میں فکرمند ہونا ٹھیک ہے پر اُن کے بارے میں حد سے زیادہ پریشان ہونا ایک فرق بات ہے۔ پریشان رہنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک کُرسی پر جھول رہے ہوں۔ آپ جھولتے تو رہتے ہیں لیکن اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ آپ کہیں پہنچتے نہیں۔“—کیتھرین۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”آپ میں سے کون فکر کر کے اپنی زندگی کو ایک پَل کے لیے بھی بڑھا سکتا ہے؟“—متی 6:27۔
اِس کا کیا مطلب ہے؟ اگر پریشانی یا فکرمندی کی وجہ سے آپ ایک مسئلہ حل کر لیتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ لیکن اگر آپ صرف پریشان ہی رہتے ہیں تو اِس سے صرف آپ کی مشکل میں اِضافہ ہوگا۔
آج کے دن آج کے بارے میں سوچیں۔ ”اِس بات پر سوچ بچار کریں کہ جس بات کی وجہ سے آپ پریشان ہو رہے ہیں، کیا وہ کچھ دنوں، مہینوں یا سالوں بعد بھی اِتنی ہی اہم رہے گی؟“—انتھونی۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”کبھی اگلے دن کی فکر نہ کریں کیونکہ اگلے دن کے اپنے مسئلے ہوں گے۔ آج کے لیے آج کے مسئلے کافی ہیں۔“—متی 6:34۔
اِس کا کیا مطلب ہے؟ یہ سمجھداری کی بات نہیں ہے کہ ہم آنے والی مشکلوں کے بارے میں حد سے زیادہ پریشان ہوں جن میں سے کچھ تو شاید آئیں گی بھی نہیں۔
یاد رکھیں کچھ چیزیں آپ کے بس میں نہیں ہوتیں۔ ”جو آپ کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ آپ خود کو صورتحال کے لیے پہلے سے تیار کریں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہر چیز آپ کے اِختیار میں نہیں ہے۔“—رابرٹ۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”تیز دوڑنے والا ہمیشہ دوڑ نہیں جیتتا؛ ... نہ اُن لوگوں کو ہمیشہ کامیابی ملتی ہے جن کے پاس علم ہوتا ہے کیونکہ کسی پر بھی بُرا وقت آ سکتا ہے اور کسی کے ساتھ اچانک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔“—واعظ 9:11۔
اِس کا کیا مطلب ہے؟ کبھی کبھار آپ حالات کو بدل نہیں سکتے لیکن آپ اِن کے حوالے سے اپنی سوچ ضرور بدل سکتے ہیں۔
پوری صورتحال کو دھیان میں رکھیں۔ ”مَیں کوشش کرتی ہوں کہ مَیں پوری صورت حال کو دھیان میں رکھوں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان نہ ہوں۔ مَیں دیکھتی ہوں کہ کون سی چیزیں زیادہ ضروری ہیں اور پہلے اُن سے نمٹتی ہوں۔“—الیکسِس۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”معلوم کرتے رہیں کہ کون سی باتیں زیادہ اہم ہیں۔“—فِلپّیوں 1:10۔
اِس کا کیا مطلب ہے؟ جو لوگ ضروری یا اہم مسئلوں کو پہلے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔
کسی سے بات کریں۔ ”جب مَیں چھٹی کلاس میں تھی تو مَیں سکول میں پریشان رہتی تھی اور مجھے اگلے دن سکول جانے سے بہت ڈر لگتا تھا۔ جب میں اپنے امی ابو سے بات کرتی تھی تو وہ بڑھے دھیان سے میری بات سنتے تھے۔ اُن سے بات کر کے مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ مَیں اُن پر بھروسا کر سکتی تھی اور اُن سے دل کھول کر بات کر سکتی تھی۔ اِس سے مجھے ہمت ملتی تھی کہ مَیں اگلے دن سکول جا سکوں۔“—مارلین۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”اِنسان کا دل فکروں کے بوجھ سے دب جاتا ہے لیکن اچھی بات سے کِھل اُٹھتا ہے۔“—اَمثال 12:25۔
اِس کا کیا مطلب ہے؟ آپ کے امی یا ابو یا کوئی دوست آپ کو اِس بارے میں اچھے مشورے دے سکتا ہے کہ آپ اپنی پریشانی کو کیسے کم کر سکتے ہیں۔
دُعا کریں۔ ”دُعا کرنے سے مجھے بہت فائدہ ہوتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب مَیں اُونچی آواز میں دُعا کرتی ہوں اور اپنی آواز سنتی ہوں۔ اِس طرح مَیں پریشانی کو اپنے دل میں رکھنے کی بجائے اِس کے بارے میں بات کرتی ہوں۔ اِس سے مَیں یہ بھی سمجھ جاتی ہوں کہ یہوواہ میری پریشانی سے بڑا ہے۔“—لورا۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”اپنی ساری پریشانیاں [خدا] پر ڈال دیں کیونکہ اُس کو آپ کی فکر ہے۔“—1-پطرس 5:7۔
اِس کا کیا مطلب ہے؟ دُعا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے مسئلے خود ہی حل کر لیں گے۔ دُعا کے ذریعے ہم یہوواہ خدا سے بات کرتے ہیں جس نے وعدہ کِیا ہے: ”پریشان نہ ہو کیونکہ مَیں تیرا خدا ہوں۔ مَیں تجھے مضبوط کروں گا، ہاں، مَیں تیری مدد کروں گا۔“—یسعیاہ 41:10، ترجمہ نئی دُنیا۔