مواد فوراً دِکھائیں

اِن جیسا ایمان ظاہر کریں | ایوب

یہوواہ نے اُن کی تکلیف کو دُور کر دیا

یہوواہ نے اُن کی تکلیف کو دُور کر دیا

آخرکار وہ تینوں آدمی چپ ہو گئے۔‏ اب وہاں صرف اُس گرم ہوا کی دھیمی سی آواز سنائی دے رہی تھی جو عرب کے صحرا کی طرف سے آ رہی تھی۔‏ اُن آدمیوں کی لمبی چوڑی تقریر کے بعد اب ایوب کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔‏ ذرا تصور کریں کہ ایوب اپنے تینوں دوستوں الیفز،‏ بلدد اور ضوفر کی طرف غصے سے دیکھ رہے ہیں،‏ جیسے وہ اُن سے کہہ رہے ہوں کہ آج وہ تینوں وہ سب کچھ کہہ ڈالیں جو اُن کے دل میں بھرا ہے۔‏ لیکن اُن تینوں نے اپنی نظریں جھکائی ہوئی ہیں اور وہ ایوب پر ایک نظر بھی نہیں ڈالنا چاہ رہے۔‏ وہ مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں کیونکہ اُن کی تلخ باتوں،‏ جھوٹے اِلزاموں اور ”‏بےفائدہ کلام“‏ کا ایوب پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔‏ (‏ایوب 16:‏3‏؛‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ اُس وقت ایوب بس ایک ہی بات کے بارے میں سوچ رہے تھے اور وہ یہ کہ وہ خود کو یہوواہ خدا کا وفادار ثابت کریں۔‏

ایوب کو لگ رہا تھا کہ اب اُن کے پاس یہوواہ کی وفاداری کے سوا کچھ نہیں بچا۔‏ ایوب کے ہاتھ سے اُن کی ساری دولت چلی گئی،‏ اُنہوں نے اپنے دس بچوں کو موت کے ہاتھوں کھو دیا،‏ اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کی نظر میں اُن کی کوئی عزت نہیں رہی اور وہ سب اُن کے خلاف ہو گئے،‏ یہاں تک کہ اُنہیں ایک تکلیف‌دہ بیماری نے جکڑ لیا۔‏ اِس بیماری کی وجہ سے اُن کی جِلد کالی سیاہ ہو چُکی تھی،‏ اُن کے جسم پر جگہ جگہ پپڑیاں بن گئی تھیں اور اُن کے زخموں پر سنڈیاں چل رہی تھیں،‏ یہاں تک کہ جب وہ سانس لیتے تھے تو اُن سے اِنتہائی گندی بو آتی تھی۔‏ (‏ایوب 7:‏5؛‏ 19:‏17؛‏ 30:‏30‏)‏ اُن تینوں کی تلخ باتوں کی وجہ سے ایوب شدید غصے میں آ گئے تھے۔‏ وہ بس یہ ثابت کرنے پر تُلے تھے کہ اُنہوں نے کوئی گُناہ نہیں کِیا جیسے کہ وہ آدمی اُن پر اِلزام لگا رہے تھے۔‏ ایوب کے بات کرنے کے بعد اُن آدمیوں کو چپ لگ گئی۔‏ آخرکار اُن کی تلخ باتوں کا دریا بہنا بند ہو گیا۔‏ لیکن ایوب کی تکلیف جوں کی توں رہی۔‏ اُنہیں اِس مشکل گھڑی میں مدد اور تسلی کی بڑی ضرورت تھی۔‏

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایوب اپنی صورتحال کو لے کر اِتنے تلخ کیوں ہو گئے تھے۔‏ اُنہیں رہنمائی اور اِصلاح کی ضرورت تھی۔‏ اِس کے علاوہ اُنہیں کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو صحیح معنوں میں اُنہیں تسلی دے سکے اور اُن کا حوصلہ بڑھا سکے۔‏ اصل میں اُن کے تین دوستوں کو اُنہیں تسلی اور حوصلہ دینا چاہیے تھا لیکن اُنہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کِیا۔‏ کیا آپ نے کبھی محسوس کِیا ہے کہ آپ کو رہنمائی اور تسلی کی ضرورت ہے؟‏ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جن لوگوں کو آپ اپنا دوست خیال کرتے تھے اُنہوں نے آپ کو مایوس کِیا ہو؟‏ یہوواہ نے اپنے بندے ایوب کی مدد کی اور ایوب نے بھی اِس مدد سے پورا پورا فائدہ حاصل کِیا۔‏ جب ہم اِن باتوں پر غور کرتے ہیں تو اِس سے ہمیں بھی اُمید اور تسلی مل سکتی ہے۔‏

سمجھ‌داری اور نرمی سے اِصلاح کرنے والا ایک دوست

ایوب کی کتاب میں آگے جو کچھ بتایا گیا ہے،‏ وہ جان کر شاید ہم حیران ہوں۔‏ ایوب اور اُن تین آدمیوں سے ذرا فاصلے پر ایک نوجوان بیٹھا تھا جس کا نام اِلیہو تھا۔‏ اِلیہو نے ایوب اور اُن آدمیوں کی بات‌چیت کو بڑے غور سے سنا تھا۔‏ اور وہ اُن کی باتوں سے ذرا بھی خوش نہیں تھے۔‏

اِلیہو،‏ ایوب کی باتیں سُن کر بہت پریشان ہو گئے۔‏ اُنہیں یہ دیکھ کر بڑا دُکھ ہو رہا تھا کہ وہ اُن تین آدمیوں کے دباؤ میں آ کر ”‏خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست“‏ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ اِلیہو نے دل سے اُس تکلیف کو محسوس کِیا جس سے ایوب گزر رہے تھے۔‏ اُنہوں نے دیکھا کہ ایوب کا دل صاف ہے اور اُنہیں اِصلاح اور تسلی کی کتنی ضرورت ہے۔‏ اُن تین آدمیوں کی جھوٹی باتیں سُن کر اِلیہو کا صبر ٹوٹ گیا۔‏ اُنہوں نے دیکھا کہ وہ تینوں ایوب کے خلاف کتنی تلخ باتیں کہہ رہے تھے۔‏ وہ اُن کے ایمان کو کمزور کرنے،‏ اُنہیں بےعزت کرنے اور یہوواہ کے لیے اُن کی وفاداری کو توڑنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔‏ سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ تھی کہ وہ باتوں کو اِس طرح توڑ مروڑ کر بیان کر رہے تھے جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ خدا ایک ظالم ہستی ہے۔‏ یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اِلیہو کو لگا کہ اب وہ اَور چپ نہیں رہ سکتے۔‏—‏ایوب 32:‏2-‏4،‏ 18‏۔‏

اِلیہو نے کہا:‏ ”‏مَیں جوان ہوں اور تُم عمررسیدہ ہو اِس لئے مَیں رُکا رہا اور اپنی رائے دینے کی جُرأت نہ کی۔‏“‏ لیکن وہ زیادہ دیر تک خود کو خاموش نہیں رکھ سکے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏بڑے آدمی ہی عقل‌مند نہیں ہوتے اور عمررسیدہ ہی اِنصاف کو نہیں سمجھتے۔‏“‏(‏ایوب 32:‏6،‏ 9‏)‏ پھر اِلیہو نے کافی دیر تک ایوب سے بات‌چیت کی۔‏ اور اِس طرح اُنہوں نے ثابت کِیا کہ صرف بڑی عمر والے ہی نہیں بلکہ نوجوان بھی دوسروں کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں اور اُنہیں تسلی دے سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے ایوب سے اُس انداز میں بات نہیں کی جس طرح الیفز،‏ بلدد اور ضوفر نے کی تھی۔‏ اِلیہو نے ایوب کو یقین دِلایا کہ وہ اپنی باتوں سے نہ تو اُنہیں بےعزت کریں گے اور نہ ہی اُن کے زخموں پر نمک چھڑکیں گے۔‏ اُنہوں نے ایوب کے لیے احترام دِکھاتے ہوئے اُنہیں اُن کے نام سے پکارا اور یہ تسلیم کِیا کہ اُن تین آدمیوں نے ایوب کے لیے بالکل کوئی عزت اور احترام نہیں دِکھایا۔‏ * اُنہوں نے بڑے احترام سے ایوب سے کہا:‏ ”‏اؔیوب ذرا میری تقریر سُن لے۔‏“‏—‏ایوب 33:‏1،‏ 7؛‏ 34:‏7‏۔‏

اِلیہو نے ایوب کو اُن کے نام سے پکارا اور اِس طرح اُن کے لیے عزت ظاہر کی۔‏

اِلیہو نے بڑے صاف اور واضح الفاظ میں ایوب کی اِصلاح کرتے ہوئے کہا:‏”‏مَیں نے تجھے بہت کچھ بولتے سناُ ہے،‏ کہ میں پاک ہوں اور بیگناہ؛‏ میں صاف ہوں اور خطا سے منزہ [‏یعنی بَری]‏۔‏ پھر بھی خدا نے مجھ میں خامی پائی؛‏ وہ مجھے اپنا دُشمن سمجھتا ہے۔‏“‏ (‏ایوب 33:‏8-‏10‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ اِلیہو نے ایوب سے کہا کہ اصل میں اُنہیں اپنی سوچ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اِلیہو نے کہا:‏ ”‏کیا تُو اِسے اپنا حق سمجھتا ہے یا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیری صداقت خدا کی صداقت سے زیادہ ہے“‏؟‏ (‏ایوب 35:‏2‏)‏ اِلیہو چاہتے تھے کہ ایوب اپنی سوچ کو بدلیں اِس لیے اُنہوں نے ایوب سے کہا:‏ ”‏اِس بات میں تُو حق پر نہیں۔‏“‏ (‏ایوب 33:‏12‏)‏ اِلیہو جانتے تھے کہ ایوب شدید غصے میں ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے اور اُن کے جھوٹے دوستوں نے بھی اُنہیں تسلی دینے کی بجائے اُنہیں بُرا بھلا کہا ہے۔‏ اِس لیے اِلیہو نے ایوب کو غصے کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏خبردار!‏ تیرا قہر تجھ سے تکفیر نہ کرائے [‏یعنی کفر نہ بلوائے]‏۔‏“‏—‏ایوب 36:‏18‏۔‏

اِلیہو نے یہوواہ کی مہربانی کی خوبی پر روشنی ڈالی

اِلیہو نے سب سے زیادہ اِس بات پر زور دیا کہ یہوواہ جو کچھ کرتا ہے،‏ وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔‏ اُنہوں نے سادہ لفظوں میں ایک بڑی اہم سچائی کو بیان کِیا:‏ ”‏یہ ہرگز ہو نہیں سکتا کہ خدا شرارت کا کام کرے اور قادرِمطلق بدی کرے۔‏ ‏.‏.‏.‏ قادرِمطلق سے بےاِنصافی نہ ہوگی۔‏“‏ (‏ایوب 34:‏10،‏ 12‏)‏ اِلیہو نے یہ سمجھنے میں ایوب کی مدد کی کہ یہوواہ خدا کتنا مہربان اور اِنصاف‌پسند ہے۔‏ ایوب صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچ رہے تھے اِس لیے اُنہوں نے خدا کے بارے میں کچھ تلخ باتیں کہیں۔‏ اگر یہوواہ چاہتا تو اُنہیں اِن باتوں کی وجہ سے سزا دے سکتا تھا لیکن اُس نے ایسا نہیں کِیا۔‏ (‏ایوب 35:‏13-‏15‏)‏ اِلیہو نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اُنہیں سب باتوں کا علم ہے بلکہ اُنہوں نے خاکساری سے تسلیم کِیا:‏ ”‏خدا بزرگ ہے اور ہم اُسے نہیں جانتے۔‏“‏—‏ایوب 36:‏26‏۔‏

حالانکہ اِلیہو نے بڑے صاف اور واضح الفاظ میں ایوب کی اِصلاح کی لیکن اُنہوں نے ایسا بڑی نرمی سے کِیا۔‏ اُنہوں نے ایوب کو ایک شان‌دار اُمید کے بارے میں بتایا کہ ایک دن یہوواہ اُنہیں پھر سے صحت‌مند کر دے گا۔‏ خدا اپنے وفادار بندے کے بارے میں کچھ یوں کہے گا:‏ ”‏تب اُس کا جسم بچے کے جسم سے بھی تازہ ہوگا اور اُس کی جوانی کے دن لوٹ“‏ آئیں گے۔‏ اِلیہو نے ایک اَور طرح سے بھی ایوب کے لیے نرمی اور ہمدردی ظاہر کی۔‏ وہ صرف خود ہی نہیں بولتے جا رہے تھے بلکہ اُنہوں نے ایوب کو بھی بولنے کا موقع دیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏بول کیونکہ مَیں تجھے راست ٹھہرانا چاہتا ہوں۔‏“‏ (‏ایوب 33:‏25،‏ 32‏)‏ لیکن ایوب نے کوئی جواب نہیں دیا۔‏ اِلیہو کی تسلی‌بخش باتوں کی وجہ سے ایوب نے محسوس کِیا کہ اُنہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ جب اُنہوں نے دیکھا کہ اِلیہو کو اُن کی کتنی فکر ہے تو وہ بہت روئے۔‏

ہم خدا کے اِن دونوں بندوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ اِلیہو سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اِصلاح کیسے کر سکتے ہیں اور اُنہیں تسلی کیسے دے سکتے ہیں۔‏ ایک سچا دوست وہی ہوتا ہے جو آپ کو آپ کی خامیوں کے بارے میں بتائے یا کسی غلط راہ سے خبردار کرے،‏ پھر چاہے اُس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہی کیوں نہ ہو۔‏ (‏امثال 27:‏6‏)‏ ہمیں بھی دوسروں کے سچے دوست بننا چاہیے اور اُس وقت بھی اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے جب وہ بِلا سوچے سمجھے کچھ کہہ جاتے ہیں۔‏ ایوب سے ہم سیکھتے ہیں کہ جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو ہمیں اِسے رد کرنے کی بجائے خاکساری سے قبول کرنا چاہیے۔‏ ہم سب کو اِصلاح کی ضرورت پڑتی ہے اور اِسے قبول کرنے سے ہماری زندگی بچ سکتی ہے۔‏—‏امثال 4:‏13‏۔‏

ہوا کے ”‏بگولے میں سے“‏ یہوواہ کی آواز

جب اِلیہو بات کر رہے تھے تو اُنہوں نے اکثر ہوا،‏ بادلوں،‏گرج اور بجلی کے چمکنے کا ذکر کِیا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کے بارے میں کہا:‏ ”‏ذرا اُس کے بولنے کی آواز سنو۔‏“‏ کچھ دیر بعد اِلیہو نے ”‏آندھی“‏ کا ذکر کِیا۔‏ (‏ایوب 37:‏2،‏ 9‏)‏ ہو سکتا ہے کہ جب اِلیہو ایوب سے بات کر رہے تھے تو آندھی آہستہ آہستہ شدید طوفان میں بدل رہی تھی۔‏ دیکھتے ہی دیکھتے آندھی ایک تباہ‌کُن بگولا بن گئی۔‏ اور پھر جو کچھ ہوا،‏ وہ بہت حیران کر دینے والا تھا۔‏ اُس ”‏بگولے میں سے“‏ یہوواہ کی آواز سنائی دی۔‏—‏ایوب 38:‏1‏۔‏

ذرا تصور کریں کہ وہ کتنا شان‌دار منظر ہوگا جب کائنات کا خالق خود ایوب کو اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے بارے میں سکھا رہا تھا!‏

جب ہم ایوب کی کتاب میں اُن ابواب کو پڑھتے ہیں جہاں یہوواہ ایوب سے بات کر رہا ہے تو ہمیں دلی تسلی ملتی ہے۔‏ جس طرح ہوا کا بگولا سب کچھ اُڑا لے جاتا ہے،‏ اُسی طرح یہوواہ کی سچائی بھری باتیں الیفز،‏ بلدد اور ضوفر کی فضول باتوں کو اُڑا لے گئیں۔‏ اب تک یہوواہ نے اُن تینوں آدمیوں سے بات نہیں کی تھی۔‏ اُس کی توجہ صرف اور صرف اپنے عزیز بندے ایوب پر تھی۔‏ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کی اِصلاح کرتا ہے،‏ اُسی طرح یہوواہ نے بڑی شفقت سے ایوب کی اِصلاح کی۔‏

یہوواہ جانتا تھا کہ ایوب کس کرب سے گزر رہے ہیں۔‏ جب یہوواہ اپنے بندوں کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو اُسے اُن پر بڑا ترس آتا ہے اور ایوب کی تکلیف کو دیکھ کر بھی اُس نے ایسا ہی محسوس کِیا۔‏ (‏یسعیاہ 63:‏9؛‏ زکریاہ 2:‏8‏)‏ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایوب ”‏نادانی“‏ سے یعنی بِلا سوچے سمجھے بول رہے ہیں اور اِس طرح اپنی تکلیف کو اَور بڑھا رہے ہیں۔‏ اِس لیے یہوواہ نے ایوب کی سوچ کو درست کرنے کے لیے اُن سے بہت سے سوال پوچھے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏تُو کہاں تھا جب مَیں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟‏ تُو دانش‌مند ہے تو بتا۔‏“‏ جب یہوواہ نے تخلیق کا کام شروع کِیا تو ”‏صبح کے ستارے“‏ یعنی فرشتے اُس کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر خوش ہوئے۔‏ (‏ایوب 38:‏2،‏ 4،‏ 7‏)‏ لیکن ایوب کے پاس اِن باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ وہ اِس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔‏

یہوواہ نے ہوا کے ”‏بگولے میں سے“‏ ایوب سے بات کی اور بڑی محبت سے اُن کی اِصلاح کی۔‏

ایوب سے بات کرتے ہوئے یہوواہ نے اپنی بنائی ہوئی کچھ چیزوں کا بھی ذکر کِیا۔‏ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے یہوواہ نے ایوب کو ستاروں،‏ جانوروں،‏ زمین،‏ توانائی اور مادے کے بارے میں سبق پڑھایا۔‏ یہوواہ نے کچھ ایسے فرق فرق جانوروں کا بھی ذکر کِیا جو اُس زمانے میں ایوب کے علاقے میں پائے جاتے تھے جیسے کہ شیر،‏ پہاڑی کوّا،‏ جنگلی بکری،‏ جنگلی گدھا،‏ جنگلی سانڈ،‏ شترمُرغ،‏ گھوڑا،‏ باز،‏ عقاب،‏ دریائی گھوڑا اور مگرمچھ۔‏ ذرا سوچیں کہ یہ ایوب کے لیے کتنا بڑا اعزاز تھا کہ کائنات کا خالق خود ایوب کو اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے بارے میں سکھا رہا تھا!‏ *

خاکساری اور محبت کا سبق

ایوب کو یہ سب باتیں بتانے کا کیا مقصد تھا؟‏ اصل میں ایوب کو اَور زیادہ خاکسار بننے کی ضرورت تھی۔‏ ایوب یہ سوچ رہے تھے کہ یہوواہ نے اُن کے ساتھ نااِنصافی کی ہے۔‏ ایسا کرنے سے وہ خود کو اپنے شفیق آسمانی باپ سے دُور کر رہے تھے اور اپنی مشکل کو اَور بڑھا رہے تھے۔‏ اِس لیے یہوواہ نے اُن سے بار بار پوچھا کہ وہ اُس وقت کہاں تھے جب وہ اِن شان‌دار چیزوں کو بنا رہا تھا۔‏ اور کیا وہ یہوواہ کے بنائے ہوئے جانوروں کو کھلا پلا سکتے اور اُنہیں اپنے قابو میں کر سکتے ہیں؟‏ اگر ایوب یہوواہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو قابو نہیں کر سکتے تو وہ اِن چیزوں کے بنانے والے کو کیسے بتا سکتے ہیں کہ اُسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں؟‏ بےشک یہوواہ ایوب سے کہیں اچھی طرح یہ جانتا تھا کہ اُسے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔‏

ایوب نے یہوواہ سے بحث نہیں کی اور نہ ہی اپنی صفائیاں پیش کیں۔‏

یہوواہ نے ایوب سے جو کچھ کہا،‏اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کو ایوب سے بےاِنتہا محبت تھی۔‏ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہوواہ ایوب سے کہہ رہا ہو:‏ ”‏میرے بیٹے،‏ اگر مَیں اِن تمام چیزوں کو بنا سکتا اور اِن کی دیکھ‌بھال کر سکتا ہوں تو کیا مَیں تمہاری دیکھ‌بھال نہیں کر سکتا؟‏ کیا مَیں تمہارا ساتھ چھوڑ سکتا ہوں؟‏ تمہارے بچوں کو تُم سے چھین سکتا ہوں؟‏ یا تُم سے وہ چیزیں لے سکتا ہوں جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں؟‏ یا تمہیں بیمار کر سکتا ہوں؟‏ کیا مَیں ہی وہ نہیں ہوں جو تمہاری ساری چیزیں تمہیں لوٹا سکتا ہوں اور تمہاری تکلیف کو دُور کر سکتا ہوں؟‏“‏

یہوواہ نے ایوب سے جو سوال پوچھے،‏ اُن سے اُنہیں سوچنے کی ترغیب ملی۔‏ اور اِس ساری بات‌چیت کے دوران ایوب نے صرف دو دفعہ جواب دیا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ سے بحث نہیں کی اور نہ ہی اپنی صفائیاں پیش کیں۔‏ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ وہ یہوواہ کی عظمت کے سامنے کتنے چھوٹے ہیں اور اپنی تلخ باتوں پر یہوواہ سے معافی بھی مانگی۔‏ (‏ایوب 40:‏4،‏ 5؛‏ 42:‏1-‏6‏)‏ اِن باتوں سے ایوب نے ظاہر کِیا کہ وہ کتنے مضبوط ایمان کے مالک ہیں۔‏ سب کچھ برداشت کرنے کے بعد بھی یہوواہ پر ایوب کا ایمان کم نہیں ہوا تھا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو دل سے قبول کِیا۔‏ ہم بھی خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏جب میری اِصلاح کی جاتی ہے تو کیا مَیں اُسے خاکساری سے قبول کرتا ہوں؟‏“‏ ہم سب کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ہم اِسے قبول کرتے ہیں تو ہم ایوب جیسا ایمان ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔‏

‏”‏تُم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے“‏

یہوواہ نے ایوب کی تکلیف میں اُنہیں تسلی دینے کے لیے قدم اُٹھایا۔‏ یہوواہ نے الیفز سے بات کی جو بلدد اور ضوفر سے عمر میں بڑے تھے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏میرا غضب تجھ پر اور تیرے دونوں دوستوں پر بھڑکا ہے کیونکہ تُم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے۔‏“‏ (‏ایوب 42:‏7‏)‏ ذرا یہوواہ کی اِس بات پر غور کریں۔‏ کیا یہوواہ کی بات کا یہ مطلب تھا کہ اُن تین آدمیوں نے جو کچھ بھی کہا،‏ وہ سب غلط تھا یا ایوب نے جو کچھ بھی کہا،‏ وہ سب صحیح تھا؟‏ بالکل نہیں۔‏ * ایوب کی باتوں اور اُن پر اِلزام لگانے والے تین آدمیوں کی باتوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔‏ ایوب کا دل ٹوٹ چُکا تھا،‏ وہ غم سے نڈھال تھے اور جھوٹے اِلزاموں نے اُنہیں گہرے گھاؤ دیے تھے۔‏ اِس لیے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے کچھ باتیں بِلا سوچے سمجھے کیوں کہی ہوں گی۔‏ لیکن الیفز اور اُس کے دو دوستوں کو ایوب جیسی صورتحال کا سامنا نہیں تھا۔‏ اُنہوں نے جان بُوجھ کر دل دُکھانے والی باتیں کیں کیونکہ وہ مغرور تھے اور یہوواہ پر مضبوط ایمان نہیں رکھتے تھے۔‏ اُنہوں نے ایوب کو تو اپنی تلخ باتوں سے چھلنی کِیا لیکن زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی باتوں سے یہ تاثر دیا کہ یہوواہ ایک بہت ہی ظالم خدا ہے۔‏

ہمیں اِس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ یہوواہ نے اُن تین آدمیوں کو بڑی مہنگی قربانی کرنے کو کہا۔‏ اُنہیں یہوواہ کے حضور سات بیل اور سات مینڈھے قربان کرنے تھے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق اگر کاہن سے کوئی ایسی خطا ہو جاتی تھی جس سے پوری قوم مُجرم ٹھہرتی تھی تو اُسے یہوواہ کے حضور ایک بیل قربان کرنا ہوتا تھا۔‏ (‏احبار 4:‏3‏)‏ شریعت میں جتنی بھی قربانیوں کا حکم دیا گیا تھا یہ اُن میں سب سے مہنگی قربانی تھی۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ نے یہ بھی کہا کہ وہ اُن آدمیوں کی قربانی کو صرف اُس صورت میں قبول کرے گا اگر پہلے ایوب اُن آدمیوں کے لیے دُعا کریں گے۔‏ * (‏ایوب 42:‏8‏)‏ یہوواہ نے ایوب کو عزت دی اور اُنہیں اِنصاف دِلایا۔‏ واقعی اِس سے ایوب کے دل کو بڑی تسلی ملی ہوگی!‏

‏”‏میرا بندہ اؔیوب تمہارے لئے دُعا کرے گا۔‏“‏—‏ایوب 42:‏8‏۔‏

یہوواہ کو ایوب پر پورا اِعتماد تھا کہ وہ اُس کی بات ضرور مانیں گے اور اُن آدمیوں کو معاف کر دیں گے جنہوں نے اپنی باتوں سے ایوب کو بہت دُکھ دیا تھا۔‏ ایوب نے اپنے آسمانی باپ کو مایوس نہیں کِیا۔‏ (‏ایوب 42:‏9‏)‏ ایوب نے اپنی باتوں سے زیادہ اپنے کاموں سے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کے وفادار ہیں۔‏ یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے کی وجہ سے ایوب کو بڑی برکتیں ملیں۔‏

‏”‏بہت ہی شفیق“‏ خدا

‏”‏یہوواہ بہت ہی شفیق اور رحیم ہے۔‏“‏ (‏یعقوب 5:‏11‏)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ یہوواہ نے ایوب کی بیماری کو دُور کر دیا۔‏ ذرا تصور کریں کہ ایوب کو یہ دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ہوگی کہ اُن کا ”‏جسم بچے کے جسم سے بھی تازہ“‏ ہو گیا تھا جیسے کہ اِلیہو نے کہا تھا۔‏ اب ایوب اکیلے نہیں تھے بلکہ اُن کے گھر والے اور دوست اُن کے ساتھ تھے۔‏ اور اُنہیں حوصلہ اور تسلی دے رہے تھے۔‏ ایوب کے پاس پہلے جتنی دولت تھی،‏ یہوواہ نے اُس سے دُگنی دولت اُنہیں لوٹائی۔‏ لیکن یہوواہ نے ایوب کے اُس دُکھ کو کم کرنے کے لیے کیا کِیا جو اُنہیں اپنے بچوں کو کھونے کی وجہ سے پہنچا تھا؟‏ اُس نے ایوب اور اُن کی بیوی کو دس اَور بچے دیے تاکہ اُن کا غم کسی حد تک کم ہو سکے۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ نے معجزانہ طور پر ایوب کی زندگی کو بھی بڑھایا۔‏ وہ مزید 140 سال زندہ رہے اور اپنی اولاد کی چار پُشتیں دیکھیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ایوب ایک لمبی اور مطمئن زندگی گزارنے کے بعد فوت ہوئے۔‏ (‏ایوب 42:‏10-‏17‏)‏ نئی دُنیا میں ایوب اور اُن کی بیوی اپنے بچوں سے دوبارہ ملیں گے جن میں وہ دس بچے بھی شامل ہوں گے جو شیطان نے اُن سے چھین لیے تھے۔‏—‏یوحنا 5:‏28،‏ 29‏۔‏

یہوواہ نے ایوب کو اِتنی برکت کیوں دی؟‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏آپ نے ایوب کی ثابت‌قدمی کے بارے میں سنا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب 5:‏11‏)‏ ایوب کو جن مشکلات کا سامنا ہوا ہم میں سے زیادہ‌تر تو شاید اُن مشکلات کا تصور بھی نہ کر سکیں۔‏ بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ”‏ثابت‌قدمی“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب صرف مشکلات کو برداشت کرنا نہیں ہے بلکہ اِس میں کچھ اَور بھی شامل ہے۔‏ ایوب اِس لیے ثابت‌قدم رہ پائے کیونکہ وہ یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے تھے اور اُس سے گہری محبت کرتے تھے۔‏ اپنے دل میں رنجش پالنے کی بجائے ایوب دوسروں کو معاف کرنے کے لیے تیار رہتے تھے،‏ یہاں تک کہ اُن کو بھی جنہوں نے جان بُوجھ کر اُن کا دل دُکھایا تھا۔‏ اُنہوں نے اپنی شان‌دار اُمید کو تھامے رکھا اور ہمیشہ یہوواہ کے لیے اپنی وفاداری کو بیش‌قیمت خیال کِیا۔‏—‏ایوب 27:‏5‏۔‏

ہم سب کو مشکلوں کے باوجود ثابت‌قدم رہنا ہوگا۔‏ ہم جانتے ہیں کہ جس طرح سے شیطان نے ایوب کو بےحوصلہ کرنے کی کوشش کی وہ ہمارے ساتھ بھی ایسا کرے گا۔‏ لیکن اگر ہم مضبوط ایمان رکھیں گے،‏ خاکسار رہیں گے،‏ دوسروں کو معاف کرنے کے لیے تیار ہوں گے اور یہوواہ کے وفادار رہنے کے اپنے عزم پر قائم رہیں گے تو ہم بھی اپنی شان‌دار اُمید کو تھامے رکھیں گے۔‏ (‏عبرانیوں 10:‏36‏)‏ اگر ہم ایوب جیسا ایمان ظاہر کریں گے تو اِس سے شیطان دُکھی ہوگا لیکن یہوواہ کا دل اُتنا ہی زیادہ خوش ہوگا۔‏

^ پیراگراف 9 الیفز،‏ بلدد اور ضوفر نے ایوب سے اِتنی زیادہ باتیں کی کہ ایوب کی کتاب کے نو ابواب میں اِنہی کی باتیں لکھی ہیں۔‏ لیکن اِس دوران اُنہوں نے ایک بار بھی ایوب کو نام لے کر نہیں پکارا۔‏

^ پیراگراف 19 ایوب سے بات کرتے وقت یہوواہ نے کچھ باتوں کو علامتی معنوں میں اور کچھ کو شاعری میں بیان کِیا۔‏ (‏مثال کے طور پر ایوب 41:‏1،‏ 7،‏ 8،‏ 19-‏21 کو دیکھیں۔‏)‏ لیکن چاہے یہوواہ نے جس بھی انداز میں باتوں کو بیان کِیا،‏ اُس کا مقصد ایوب کے دل میں اپنے خالق کے لیے قدر کو اَور بڑھانا تھا۔‏

^ پیراگراف 25 پولُس رسول نے اپنے ایک خط میں الیفز کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اہم سچائی بیان کی۔‏ (‏ایوب 5:‏13؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 3:‏19‏)‏ الیفز نے جو بات کہی تھی،‏ وہ بالکل سچ تھی لیکن اُس نے جس طرح سے اِسے ایوب پر لاگو کِیا،‏ وہ غلط تھا۔‏

^ پیراگراف 26 بائبل میں اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ یہوواہ نے ایوب سے کہا ہو کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے ایسی ہی قربانی پیش کریں۔‏