اِن جیسا ایمان پیدا کریں | یوسف
”کیا مَیں خدا کی جگہ پر ہوں؟“
ذرا اِس منظر کا تصور کریں۔ سورج غروب ہو رہا ہے اور یوسف اپنے باغ میں کھڑے ہیں۔ وہ کھجور اور دوسرے پھلوں کے درختوں اور تالاب میں لگے آبی پودوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اُنہیں اپنے گھر کی دیوار کی دوسری طرف فرعون کا محل بھی نظر آ رہا ہے۔ اِس دوران اُنہیں اپنے گھر سے اپنے بیٹے منسّی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو اپنے چھوٹے بھائی اِفرائیم کے ساتھ مستیاں کر رہا ہے۔ پھر اُنہیں اپنی بیوی کے ہنسنے کی آواز سنائی دیتی ہے جو اپنے بیٹوں کی شرارتوں پر خوش ہو رہی ہے۔ یہ آوازیں سُن کر وہ مسکرانے لگتے ہیں۔ یوسف جانتے ہیں کہ خدا نے اُنہیں بہت برکت دی ہے۔
اُنہوں نے اپنے پہلوٹھے بیٹے کا نام منسّی رکھا جس کا مطلب ہے: ”جو بُھلا دیتا ہے۔“ (پیدایش 41:51) خدا نے پچھلے کچھ سالوں میں یوسف کو جتنی برکتیں دی تھیں، اُن کی وجہ سے یقیناً وہ اپنے گھر، اپنے والد اور اپنے بھائیوں سے جُڑی یادوں کو کسی حد تک بُھلا پائے ہوں گے۔ اُن کے بھائیوں کی نفرت نے اُن کی زندگی بدل دی تھی۔ اُنہوں نے یوسف کو گڑھے میں پھینک دیا، اُنہیں قتل کرنے کے بارے میں سوچا اور پھر اُنہیں کچھ تاجروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ اِس کے بعد یوسف کی زندگی میں کئی موڑ آئے۔ اُنہیں تقریباً 12 سال تک ایک غلام اور قیدی کے طور پر زندگی گزارنی پڑی اور قید کے دوران کچھ عرصے تک تو اُنہیں بیڑیوں میں باندھ کر رکھا گیا۔ لیکن اب وہ مصر میں فرعون کے بعد دوسرے بڑے حاکم تھے۔ *
پچھلے کچھ سالوں میں یوسف نے دیکھا تھا کہ جو کچھ یہوواہ خدا نے کہا، وہ سب پورا ہوا ہے۔ مصر میں سات سال تک خوب فصلیں پیدا ہوئیں اور یوسف کی نگرانی میں اِنہیں گوداموں میں جمع کِیا گیا۔ اِس دوران اُن کی شادی ہو گئی اور اُن کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ لیکن اُنہیں اکثر اپنے گھر والوں کی یاد آتی تھی، خاص طور پر اپنے والد یعقوب اور اپنے چھوٹے بھائی بنیمین کی۔ یوسف ضرور یہ سوچتے ہوں گے کہ اُن کے گھر والے کیسے ہیں اور اُن کے بڑے بھائی بدل گئے ہیں یا نہیں۔ شاید وہ یہ بھی سوچتے ہوں کہ اُن کے اور اُن کے گھر والوں میں جو دُوری پیدا ہو گئی ہے، کیا وہ کبھی مٹ پائے گی؟
شاید حسد، دھوکے یا نفرت کی وجہ سے آپ اور آپ کے گھر والوں میں دُوری پیدا ہو گئی ہو۔ اگر ایسا ہے تو آپ یوسف کے احساسات کو سمجھ سکتے ہیں۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم سب یوسف کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
”یوؔسف کے پاس جاؤ“
یوسف اُن سات سالوں میں بہت مصروف رہے جن میں فصل جمع کی گئی۔ یہ عرصہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا۔ اِس کے بعد قحط کے سال شروع ہوئے جن کے بارے میں یہوواہ خدا نے فرعون کو خواب دِکھایا تھا۔ جلد ہی اِس قحط نے آسپاس کے ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”ملکِمصرؔ میں ہر جگہ خورش [یعنی خوراک] موجود تھی۔“ (پیدایش 41:54) چونکہ یوسف نے پہلے سے قحط کے بارے میں بتا دیا تھا اور بڑے منظم طریقے سے مصر میں خوراک جمع کی تھی اِس لیے مصریوں کو بہت فائدہ ہوا۔
مصری یقیناً یوسف کے بہت احسانمند ہوں گے اور اُنہوں نے اُن کے کام کو سراہا ہوگا۔ لیکن یوسف اپنی نہیں بلکہ اپنے خدا یہوواہ کی بڑائی چاہتے تھے۔ اگر ہم اپنی صلاحیتوں کو خدا کی خدمت کرنے کے لیے اِستعمال کرتے ہیں تو خدا ہمیں ایسے کام کرنے کے قابل بنا سکتا ہے جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصری بھی قحط سے متاثر ہونے لگے۔ لیکن جب وہ مدد کے لیے فرعون کے پاس گئے تو اُس نے اُن سے کہا: ”یوؔسف کے پاس جاؤ۔ جو کچھ وہ تُم سے کہے سو کرو۔“ اور یوسف نے گودام کھلوائے اور وہ لوگوں کو اُن کی ضرورت کے مطابق اناج بیچنے لگے۔—لیکن آسپاس کے ملکوں میں اناج نہیں تھا۔ مصر سے سینکڑوں میل دُور کنعان میں یوسف کے خاندان کے پاس بھی اناج تقریباً ختم ہونے والا تھا۔ جب یعقوب نے سنا کہ مصر میں اناج ہے تو اُنہوں نے اپنے دس بیٹوں کو وہاں بھیجا۔—پیدایش 42:1، 2۔
لیکن اُنہوں نے اپنے اِن بیٹوں کے ساتھ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے بنیمین کو نہیں بھیجا تھا۔ اُنہیں وہ وقت یاد تھا جب اُنہوں نے یوسف کو اپنے باقی بیٹوں کی خبر لینے کے لیے اکیلا بھیجا تھا۔ اِس کے بعد وہ کبھی یوسف کا مُنہ نہیں دیکھ پائے تھے۔ دراصل اُن کے بڑے بیٹوں نے یوسف کا پھٹا اور خون سے تر چوغہ اُن کے پاس بھجوایا تھا تاکہ وہ یہ سوچنے لگیں کہ یوسف کو جنگلی جانوروں نے مار ڈالا ہے۔—پیدایش 37:31-35۔
یوسف کو خواب یاد آئے
ایک لمبے سفر کے بعد آخرکار یعقوب کے بیٹے مصر پہنچے۔ وہاں جب اُنہوں نے پوچھا کہ وہ اناج کہاں سے خرید سکتے ہیں تو اُنہیں مصر کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے پاس جانے کو کہا گیا جس کا نام صفناتفعنیح تھا۔ (پیدایش 41:45) کیا اِس افسر کو دیکھ کر وہ پہچان گئے کہ یہ یوسف ہیں؟ بالکل نہیں۔ اُن کے سامنے تو اعلیٰ مصری حاکم کھڑا تھا جو اُن کی مدد کر سکتا تھا۔ اِس حاکم کے احترام میں وہ ”اپنے سر زمین پر ٹیک کر اُس کے حضور آداب بجا لائے۔“—پیدایش 42:5، 6۔
کیا یوسف نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا؟ جی ہاں۔ وہ اُنہیں دیکھتے ہی پہچان گئے۔ اور جب اُنہوں نے اپنے بھائیوں کو اپنے سامنے جھکتے دیکھا تو اُنہیں وہ خواب یاد آئے جو یہوواہ خدا نے اُنہیں اُس وقت دِکھائے تھے جب وہ نوجوان تھے۔ اِن خوابوں میں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ اُن کے بھائی اُن کے سامنے جھکیں گے۔ اور اب یوسف اپنی آنکھوں سے اِن خوابوں کو پورا ہوتے دیکھ رہے تھے۔ (پیدایش 37:2، 5-9؛ 42:7، 9) لیکن اب یوسف کیا کریں گے؟ کیا وہ سب کچھ بُھلا کر اپنے بھائیوں کو گلے لگا لیں گے یا پھر اُن سے بدلہ لیں گے؟
یوسف جانتے تھے کہ اُنہیں جلدبازی میں کوئی قدم نہیں اُٹھانا چاہیے۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ معاملات پوری طرح سے یہوواہ خدا کے ہاتھ میں تھے تاکہ وہ اپنا مقصد پورا کر سکے۔ یاد کریں کہ خدا نے وعدہ کِیا تھا کہ یعقوب کی نسل ایک زبردست قوم بنے گی۔ (پیدایش 35:11، 12) لیکن اگر یوسف کے بھائی ابھی تک ظالم، خودغرض اور دھوکےباز ہوتے تو آگے چل کر خدا کے مقصد میں رُکاوٹ پیدا ہو سکتی تھی۔ اِس کے علاوہ اگر یوسف اپنے بھائیوں کو اپنے بارے میں بتا دیتے تو وہ اُن کے والد اور اُن کے بھائی بنیمین کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔ یوسف تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ یعقوب اور بنیمین ابھی تک زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ لہٰذا یوسف نے فیصلہ کِیا کہ وہ اپنے بھائیوں کو اپنے بارے میں نہیں بتائیں گے۔ وہ اپنے بھائیوں کا اِمتحان لینا چاہتے تھے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ اُن کے بھائی بدلے ہیں یا نہیں۔ پھر ہی اُنہیں پتہ چل سکتا تھا کہ اب یہوواہ خدا اُن سے کیا کرانا چاہتا ہے۔
امثال 14:12) یاد رکھیں کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ صلح کرنا ضروری تو ہے لیکن اِس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے ساتھ صلح برقرار رکھیں۔—متی 10:37۔
شاید آپ کو یوسف جیسی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔ لیکن یہ سچ ہے کہ آجکل گھروں میں لڑائی جھگڑے اور اِختلافات بہت عام ہیں۔ اگر ہمارے گھر میں ایسا ہو تو شاید ہم اپنے دل کی سنیں اور جلدبازی میں کوئی غلط قدم اُٹھا لیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہوگی کہ ہم یوسف کی مثال پر عمل کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ معاملے کو حل کرنے کے سلسلے میں یہوواہ خدا ہم سے کیا چاہتا ہے۔ (”تمہاری آزمایش اِس طرح کی جائے گی“
یوسف جاننا چاہتے تھے کہ اُن کے بھائیوں کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں اِس لیے اُنہوں نے فرق فرق طریقوں سے اُن کا اِمتحان لیا۔ اُنہوں نے ایک ترجمہ نگار کے ذریعے اُن سے سختی سے بات کی اور اُن پر جاسوس ہونے کا اِلزام لگایا۔ اِس پر اُن کے بھائیوں نے اپنی صفائی دینے کے لیے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتایا۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کا ایک چھوٹا بھائی ہے جو گھر پر ہے۔ یوسف یہ سُن کر بہت خوش ہوئے کہ اُن کا چھوٹا بھائی زندہ ہے لیکن اُنہوں نے اپنی خوشی ظاہر نہیں ہونے دی۔ اُنہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا: ”تمہاری آزمایش اِس طرح کی جائے گی کہ . . . تُم یہاں سے جانے نہ پاؤ گے جب تک تمہارا سب سے چھوٹا بھائی یہاں نہ آ جائے۔“ بعد میں یوسف نے فیصلہ کِیا کہ اُن کا ایک بھائی مصر میں قید رہے گا جبکہ باقی بھائی جا کر اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لائیں گے۔—پیدایش 42:9-20۔
یوسف کے بھائی یہ نہیں جانتے تھے کہ یوسف اُن کی زبان سمجھ سکتے ہیں۔ لہٰذا یوسف کا فیصلہ سُن کر وہ اُس گُناہ پر پچھتانے لگے جو اُنہوں نے 20 سال پہلے کِیا تھا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ”ہم دراصل اپنے بھائی کے سبب سے مُجرم ٹھہرے ہیں کیونکہ جب اُس نے ہم سے مِنت کی تو ہم نے یہ دیکھ کر بھی کہ اُس کی جان کیسی مصیبت میں ہے اُس کی نہ سنی۔ اِسی لئے یہ مصیبت ہم پر آ پڑی ہے۔“ اُن کی باتیں سُن کر یوسف کی آنکھیں بھر آئیں مگر وہ وہاں سے ہٹ گئے تاکہ اُن کے بھائی اُن کے آنسو نہ دیکھ سکیں۔ (پیدایش 42:21-24) لیکن یوسف جانتے تھے کہ دل سے توبہ کرنے کا مطلب صرف اپنے کیے پر پچھتانا نہیں ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے ایک اَور طریقے سے اپنے بھائیوں کا اِمتحان لیا۔
اُنہوں نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ اُن کے بھائیوں کی اناج کی بوریوں میں پیسے چھپا دیے جائیں۔ پھر اُنہوں نے اپنے نو بھائیوں کو روانہ کر دیا لیکن شمعون کو قیدی بنا کر رکھ لیا۔ جب اُن کے بھائی گھر پہنچے تو اُنہوں نے بڑی مشکل سے یعقوب کو اِس بات پر راضی کِیا کہ وہ بنیمین کو اُن کے ساتھ جانے دیں۔ جب وہ واپس مصر آئے تو اُنہوں نے یوسف کے گھر کے منتظم کو اُن پیسوں کے بارے میں بتایا جو اُن کی بوریوں میں رکھے گئے تھے اور ساری رقم واپس لوٹانے کی کوشش بھی کی۔ اُن کی یہ کوشش قابلِتعریف تھی لیکن یوسف ابھی بھی یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اُن کے بھائی واقعی بدل گئے ہیں یا نہیں۔ لہٰذا اُنہوں نے اپنے بھائیوں کی دعوت کی۔ اِس دوران اُنہوں نے بڑی مشکل سے یہ چھپایا کہ وہ بنیمین کو دیکھ کر کتنے خوش ہیں۔ پھر اُنہوں نے اپنے سارے بھائیوں کو مصر سے روانہ کِیا۔ اِس بار بھی اُن کی بوریاں اناج سے بھری گئیں لیکن بنیمین کی بوری میں چاندی کا ایک پیالہ چھپا دیا گیا۔—پیدایش 42:26–44:2۔
یوسف کے بھائی ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ اُنہیں سپاہیوں نے دھر لیا اور اُن پر یہ اِلزام لگایا کہ اُنہوں نے چاندی کا پیالہ چُرایا ہے۔ جب اُن کی تلاشی لی گئی تو پیالہ بنیمین کی بوری سے نکلا۔ اِس پر اُن سب کو یوسف کے پاس واپس لایا گیا۔ اب یوسف دیکھ سکتے تھے کہ اُن کے بھائیوں میں کس حد تک بدلاؤ آیا ہے۔ یہوداہ نے اپنے باقی بھائیوں کی طرف سے یوسف سے بات کی۔ اُنہوں نے یوسف سے رحم کی بھیک مانگی یہاں تک کہ اُنہوں نے کہا کہ وہ سب بھائی مصر میں غلام بننے کو تیار ہیں۔ لیکن یوسف نے کہا کہ ”جس شخص کے پاس یہ پیالہ نکلا وہی میرا غلام ہوگا اور تُم اپنے باپ کے پاس سلامت چلے جاؤ۔“—پیدایش 44:2-17۔
اِس پر یہوداہ نے بڑے جذباتی انداز میں کہا: ”وہ اپنی ماں کا ایک ہی [بیٹا] رہ گیا ہے۔ سو اُس کا باپ اُس پر جان دیتا ہے۔“ اِس بات نے یقیناً یوسف کے دل پر اثر کِیا ہوگا کیونکہ وہ یعقوب کی پیاری بیوی راخل کے بڑے بیٹے تھے اور راخل بنیمین کی پیدائش کے وقت فوت ہو گئی تھیں۔ اپنے والد یعقوب کی طرح یوسف بھی راخل کو یاد کرتے ہوں گے۔ چونکہ یوسف اور بنیمین ایک ہی ماں کی اولاد تھے اِس لیے یوسف، بنیمین سے بہت پیار کرتے تھے۔—پیدایش 35:18-20؛ 44:20۔
یہوداہ نے یوسف سے اِلتجا کی کہ وہ بنیمین کو اپنا غلام نہ بنائیں۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے بنیمین کی جگہ خود کو غلام کے طور پر پیش کِیا۔ آخر میں اُنہوں نے درد بھرے انداز میں یوسف سے کہا: ”لڑکے کے بغیر مَیں کیا مُنہ لے کر اپنے باپ پیدایش 44:18-34) اِن باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ یہوداہ بالکل بدل گئے ہیں۔ اُنہیں نہ صرف اپنے کیے پر پچھتاوا تھا بلکہ اب وہ ایک رحمدل، مخلص اور ہمدرد شخص تھے۔
کے پاس جاؤں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے وہ مصیبت دیکھنی پڑے جو ایسے حال میں میرے باپ پر آئے گی۔“ (یوسف اپنے جذبات کو مزید نہیں چھپا پائے۔ اُنہوں نے اپنے ملازموں کو باہر بھیج دیا اور اِتنی اُونچی آواز میں رونے لگے کہ فرعون کے محل تک آواز پہنچ گئی۔ آخر اُنہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ ”مَیں یوسف ہوں۔“ یہ سُن کر اُن کے بھائی ہکا بکا رہ گئے۔ یوسف نے اپنے بھائیوں کو گلے لگایا اور اُنہیں معاف کر دیا۔ (پیدایش 45:1-15) اِس طرح اُنہوں نے یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کِیا جو کُھلے دل سے اِنسانوں کو معاف کرتا ہے۔ (زبور 86:5) کیا ہم بھی دوسروں کو معاف کرتے ہیں؟
”تُو ابھی جیتا ہے“
جب فرعون کو پتہ چلا کہ یوسف اِتنی اُونچی آواز میں کیوں رو رہے ہیں تو اُس نے اُن سے کہا کہ وہ اپنے بوڑھے باپ اور اپنے سارے خاندان کو مصر بلا لیں۔ کچھ ہی عرصے میں یعقوب اور اُن کا خاندان مصر پہنچ گیا۔ یعقوب، یوسف سے مل کر بہت روئے اور اُن سے کہا: ”اب چاہے مَیں مر جاؤں کیونکہ تیرا مُنہ دیکھ چُکا کہ تُو ابھی جیتا ہے۔“—پیدایش 45:16-28؛ 46:29، 30۔
اِس کے بعد یعقوب 17 سال تک زندہ رہے۔ اپنی موت سے پہلے اُنہوں نے اپنے 12 بیٹوں کو برکت دیتے ہوئے اُن کے بارے میں پیشگوئیاں کیں۔ اُنہوں نے اپنے گیارہویں بیٹے یعنی یوسف کو دُگنی برکت دی جو عموماً سب سے بڑے بیٹے کو دی جاتی تھی۔ یوسف کو یہ شرف حاصل ہوا کہ بنیاِسرائیل کے دو قبیلے اُن کے بیٹوں کے نام سے کہلائے۔ لیکن یعقوب نے اپنے چوتھے بیٹے یہوداہ کو کیا برکت دی جنہوں نے اپنے بھائیوں سے بڑھ کر یہ ظاہر کِیا کہ وہ دل سے توبہ کر چکے ہیں؟ اُنہیں یہ شاندار اعزاز حاصل ہوا کہ مسیح اُن کی نسل سے آئے۔—پیدایش 48، 49۔
جب یعقوب 147 سال کی عمر میں فوت ہوئے تو یوسف کے بھائیوں نے سوچا کہ شاید اب یوسف اُن سے بدلہ لیں گے۔ لیکن یوسف نے اُنہیں یقین دِلایا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ دراصل یوسف سمجھتے تھے کہ اُن کے گھر والوں کے مصر آنے کے پیچھے یہوواہ خدا کا ہاتھ تھا اِس لیے اُنہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا: ”مت ڈرو۔ کیا مَیں خدا کی جگہ پر ہوں؟“ (پیدایش 15:13؛ 45:7، 8؛ 50:15-21) یوسف نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا تھا کہ یہوواہ خدا راستی سے اِنصاف کرتا ہے۔ تو پھر وہ اُن لوگوں سے بدلہ کیسے لے سکتے تھے جنہیں یہوواہ خدا نے معاف کر دیا تھا؟—عبرانیوں 10:30۔
کیا کبھی کبھار آپ کو دوسروں کو معاف کرنا مشکل لگتا ہے؟ ایسا کرنا خاص طور پر اُس وقت مشکل ہو سکتا ہے جب کوئی جان بُوجھ کر ہمیں نقصان پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر ہم اُس شخص کو کُھلے دل سے معاف کرتے ہیں جو سچی توبہ کرتا ہے تو ہم اپنے اور اُس کے زخموں کو بھرنے کے لیے اِن پر مرہم لگاتے ہیں۔ یوں ہم یوسف جیسا ایمان پیدا کرتے ہیں اور اُن کے رحمدل خدا یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔
^ پیراگراف 4 مینارِنگہبانی 1 اکتوبر 2014ء، 1 جنوری 2015ء اور 1 اپریل 2015ء میں مضامین کے سلسلے ”اِن جیسا ایمان پیدا کریں“ کو دیکھیں۔