اِن جیسا ایمان پیدا کریں | یوسف
”بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں؟“
یوسف مصر کی گرم ہوا میں سانس لے رہے تھے۔ پوری فضا کنول کے پھولوں اور دیگر آبی پودوں کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔ یوسف سوداگروں کے قافلے کے ساتھ جا رہے تھے جو دریائےنیل کے میدانی علاقے سے گزر رہا تھا۔ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں کہ اِن سوداگروں کی قطار اپنے اُونٹوں کے ہمراہ دریا کے کنارے کنارے ہو کر مصر کے ایک اَور شہر کو جا رہی ہے۔ جوںجوں یہ آدمی آگے بڑھ رہے ہیں، اُنہیں دیکھ کر دریا میں بیٹھے بگلے اور لقلق بڑی تیزی سے ہوا میں اُڑ رہے ہیں۔ یوسف کو ایک بار پھر اپنا گھر یاد آ رہا تھا جو یہاں سے سینکڑوں میل دُور حبرون کے پہاڑی علاقے میں تھا۔ لیکن اب وہ ایک بالکل الگ دُنیا میں آ گئے تھے۔
تصور کریں کہ یوسف اپنے آسپاس سے گزرنے والے لوگوں کی باتیں سُن رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ سُن رہے ہیں کہ کھجور اور اِنجیر کے درختوں پر بندر ککیا رہے ہیں۔ یوسف کو بندروں کے ککیانے اور لوگوں کی زبان میں کوئی فرق نہیں لگ رہا۔ یہ دونوں ہی اُن کے سر سے گزر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے لوگوں کے کچھ لفظوں اور جملوں کو یاد رکھنے کی کوشش کی ہو۔ شاید اُنہیں لگ رہا تھا کہ اُنہیں اِن لوگوں کی زبان سیکھنی ہی پڑے گی کیونکہ اب وہ کبھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکیں گے۔
سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی یوسف کو ایسی ایسی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے ایک جوان آدمی بھی گھبرا جائے۔ اُن کے اپنے بھائی اُن سے حسد کرتے تھے کیونکہ اُن کے والد یعقوب، یوسف کو اُن سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ اُن کے حسد کی یہ اِنتہا تھی کہ وہ یوسف کو قتل کرنے والے تھے۔ لیکن پھر اُنہوں نے یوسف کو سوداگروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ (پیدایش 37:2، 5، 18-28) پھر یہ سوداگر کئی ہفتوں کا سفر طے کرنے کے بعد مصر کے ایک بہت بڑے شہر کے قریب پہنچ گئے۔ جیسے جیسے اُن کے قدم اِس شہر کی طرف بڑھ رہے تھے، اُن کی خوشی میں اِضافہ ہوتا جا رہا تھا کیونکہ یہاں وہ یوسف اور اپنی قیمتی چیزوں کو بیچ کر خوب منافع کما سکتے تھے۔ ایسے حالات میں یوسف یقیناً نااُمید ہو گئے ہوں گے۔ لیکن اُنہوں نے کیا کِیا تاکہ یہ نااُمیدی اُن کے دل میں جڑ نہ پکڑے اور نہ ہی اُنہیں جذباتی طور پر توڑے؟ اور آج ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ زندگی کی مشکلوں کی وجہ سے ہمارا ایمان تباہ نہ ہو جائے؟ اِس سلسلے میں ہم یوسف سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
”[یہوواہ] یوؔسف کے ساتھ تھا“
پھر سوداگر ”یوؔسف کو مصرؔ میں لائے اور فوؔطیفار مصری نے جو فرؔعون کا ایک حاکم اور جلوداروں کا سردار تھا اُس کو اِسمٰعیلیوں کے ہاتھ سے جو اُسے وہاں لے گئے تھے خرید لیا۔“ (پیدایش 39:1) اِن الفاظ کو پڑھ کر ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یوسف کو اُس وقت کتنی بےعزتی محسوس ہوئی ہوگی جب اُنہیں ایک بار پھر بیچ دیا گیا۔ یہ ایسے تھا جیسے وہ اِنسان نہیں بس ایک ایسی چیز ہوں جسے جب کوئی چاہے، بیچ دے۔ اب ذرا تصور کریں کہ یوسف اپنے نئے مالک کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں جو مصر میں ایک اعلیٰ افسر ہے۔ وہ بِھیڑبھاڑ والے بازاروں سے گزرتے ہوئے اپنے نئے گھر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
یوسف کے وہموگمان میں بھی نہیں تھا کہ جس گھر میں وہ جا رہے ہیں، وہ اُن کے اپنے گھر سے کتنا فرق ہے۔ وہ ایک ایسے گھرانے میں پلے بڑھے تھے جو خیموں میں رہتا تھا۔ وہ لوگ اکثر اپنا ٹھکانا بدلتے رہتے تھے اور بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ لیکن یہاں مصر میں فوطیفار ایک بہت ہی شاندار گھر میں رہتے تھے۔ ماہرِآثارِقدیمہ کے مطابق قدیم مصر کے لوگ اپنے گھروں میں عالیشان باغ بنوانا بہت پسند کرتے تھے۔ اِن باغوں میں سایے کے لیے بہت سے گھنے درخت لگائے جاتے تھے۔ اِن میں تالاب بھی ہوتے تھے جن میں کنول اور دوسرے آبی پودے لگوائے جاتے تھے۔ کچھ گھر تو باغ کے اندر بنائے جاتے تھے۔ اِن میں برآمدہ بھی ہوتا تھا جہاں بیٹھ کر مصری ٹھنڈی ہوا سے محظوظ ہوتے تھے۔ گھر میں بہت زیادہ کمرے ہوتے تھے جن میں تازہ ہوا کے لیے اُونچی کھڑکیاں ہوتی تھیں۔ اِس میں کھانے کا ایک بڑا کمرہ اور نوکروں کے کوارٹر بھی ہوتے تھے۔
کیا اِتنی زیادہ آسائشوں کو دیکھ کر یوسف کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں؟ ایسا لگتا نہیں۔ شاید جس بات کا اُنہیں شدت سے احساس ہو رہا تھا، وہ یہ تھی کہ وہ کتنے اکیلے پیدایش 39:2) یوسف نے یقیناً اپنا دل اپنے خدا کے آگے اُنڈیل دیا ہوگا۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] اُن سب کے قریب ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں۔“ (زبور 145:18) یوسف اَور کس طرح خدا کے قریب ہو گئے؟
ہیں۔ مصری اُن کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ اُن کی زبان، لباس، بناؤسنگھار اور سب سے بڑھ کر اُن کا مذہب بہت فرق تھا۔ وہ طرح طرح کے دیوتاؤں کو پوجتے تھے، جادوگری کرتے تھے اور موت اور اِس کے بعد کی زندگی میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ لیکن ایسے ماحول میں یوسف کے پاس ایک ایسا سہارا تھا جس کی وجہ سے وہ اکیلے پن کا مقابلہ کر پائے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] یوؔسف کے ساتھ تھا۔“ (یوسف نااُمیدی میں نہیں گِھرے رہے۔ اِس کی بجائے وہ پوری لگن سے وہ کام کرتے رہے جو اُنہیں سونپا گیا۔ اِس وجہ سے یہوواہ خدا نے اُنہیں بہت برکتیں دیں اور یوسف نے جلد ہی اپنے مالک فوطیفار کی خوشنودی حاصل کر لی۔ فوطیفار دیکھ رہے تھے کہ یوسف کا خدا یوسف کو برکتوں سے نواز رہا ہے اور اُن کے گھر کی خوشحالی میں جو اِضافہ ہو رہا ہے، وہ بھی یوسف کی وجہ سے ہی ہے۔ یوسف نے آہستہ آہستہ فوطیفار کا دل جیت لیا اور آخرکار فوطیفار نے اپنا سارا گھربار یوسف کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔—پیدایش 39:3-6۔
یوسف نے اُن نوجوانوں کے لیے بہت شاندار مثال قائم کی جو خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یہ نوجوان سکول میں ہوتے ہیں تو اُن کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو جادوگری کو پسند کرتے ہیں اور جن کو اپنے مستقبل کے حوالے سے اُمید کی کوئی کِرن نظر نہیں آتی۔ ایسے ماحول میں یہ نوجوان شاید خود کو بہت اکیلا اور اجنبی محسوس کریں۔ اگر آپ کو بھی ایسے ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا آج بھی نہیں بدلا۔ (یعقوب 1:17) وہ آج بھی اُن لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو اُس کے وفادار رہتے ہیں اور جو اُسے خوش کرنے کے لیے ہر کام محنت سے کرتے ہیں۔ وہ اِن لوگوں پر ڈھیر ساری برکتیں نچھاور کرتا ہے۔
پاک کلام میں آگے بتایا گیا ہے کہ جب یوسف جوان ہوئے تو وہ بہت ”خوبصورت اور حسین“ تھے۔ چونکہ ظاہری حسن کی وجہ سے اکثر ایک شخص نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اِس لیے خطرہ یوسف کے سر پر منڈلا رہا تھا۔
’یوسف نے فوطیفار کی بیوی کی بات نہ مانی‘
یوسف کی نظر میں یہ بات بہت اہم تھی کہ وہ اپنے خدا اور اپنے مالک فوطیفار کے وفادار رہیں۔ لیکن فوطیفار کی بیوی کی نظر میں اپنے شوہر کا وفادار رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ’یوسف کے آقا کی بیوی کی آنکھ اُس پر لگی اور اُس نے یوسف سے کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو۔‘ (پیدایش 39:7) کیا یوسف کے دل میں اِس بُتپرست عورت کی بات ماننے کا خیال آیا؟ پاک کلام میں ایسی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی جس سے یہ لگے کہ یوسف کے دل میں جوان مردوں جیسی خواہشیں نہیں تھیں یا فوطیفار کی بیوی جسے ہر طرح کی آسائش میسر تھی، پُرکشش نہیں تھی۔ کیا یوسف نے یہ سوچا کہ اگر وہ فوطیفار کی بیوی کی بات مان بھی لیتے ہیں تو فوطیفار کو اِس کا کون سا پتہ چلے گا؟ یا کیا اُنہوں نے یہ سوچا کہ اِس ناجائز رشتے سے اُنہیں مالی طور پر بہت فائدہ ہو سکتا ہے؟
پیدایش 39:8، 9) اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف کو اُس کام کے بارے میں سوچ کر ہی تکلیف پہنچ رہی تھی جو یہ عورت اُنہیں کرنے کو کہہ رہی تھی۔ ایسا کیوں تھا؟
سچ تو یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یوسف کے ذہن میں ایسے خیال آئے تھے یا نہیں۔ لیکن اُن کے دل میں کیا تھا، یہ بالکل واضح تھا۔ یہ بات اُن کے جواب سے پتہ چلتی ہے جو اُنہوں نے فوطیفار کی بیوی کو دیا۔ اُنہوں نے کہا: ”دیکھ میرے آقا کو خبر بھی نہیں کہ اِس گھر میں میرے پاس کیا کیا ہے اور اُس نے اپنا سب کچھ میرے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے۔ اِس گھر میں مجھ سے بڑا کوئی نہیں اور اُس نے تیرے سوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تُو اُس کی بیوی ہے سو بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“ (فوطیفار کو یوسف پر پورا بھروسا تھا۔ اُنہوں نے اپنی بیوی کے سوا اپنا پورا گھربار یوسف کے ہاتھوں میں سونپ دیا تھا۔ بھلا یوسف اپنے مالک کا بھروسا کیسے توڑ سکتے تھے! اُنہیں اِس خیال سے ہی نفرت تھی۔ لیکن یوسف کے اِنکار کرنے کے پیچھے ایک اَور اہم وجہ بھی تھی۔ وہ یہوواہ خدا کے گُناہگار نہیں بننا چاہتے تھے۔ یوسف نے اپنے ماں باپ سے سیکھا تھا کہ یہوواہ خدا شادی کے بندھن اور جیون ساتھی سے وفاداری کو کیسا خیال کرتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا نے سب سے پہلے آدمی اور عورت کو شادی کے بندھن میں باندھا تھا اور بتایا تھا کہ شوہر اور بیوی ”ایک تن ہوں گے“ اور ایک دوسرے کو نہیں چھوڑیں گے۔ (پیدایش 2:24) اُنہوں نے یہ بھی سیکھا کہ جو لوگ اِس بندھن کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن پر خدا کا غضب نازل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک آدمی نے یوسف کی پردادی یعنی ابرہام کی بیوی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اُس پر خدا کا غضب نازل ہونے والا تھا۔ اِس کے علاوہ خدا کا غضب اُس آدمی پر بھی نازل ہونے والا تھا جس نے یوسف کی دادی یعنی اِضحاق کی بیوی کا دامن داغدار کرنے کی کوشش کی۔ (پیدایش 20:1-3؛ 26:7-11) یوسف نے اِن واقعات سے جو بات سیکھی، اُنہوں نے اِسے اپنے دل میں بٹھا لیا۔
فوطیفار کی بیوی کو یوسف کا اِنکار بالکل اچھا نہیں لگا۔ اُس کی نظر میں ایک معمولی سے نوکر نے اُسے ٹھکرا دیا اور اُس کام کو ”بڑی بدی“ کہا جو اُس نے اُسے کرنے کو کہا تھا۔ اِس کے باوجود وہ یوسف کے پیچھے پڑی رہی۔ شاید یوسف کے اِنکار سے اُس کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی اور اِس لیے اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یوسف کی نہ کو ہاں میں بدل کر رہے گی۔ یوں اُس نے شیطان جیسا رُجحان ظاہر کِیا۔ شیطان نے یسوع مسیح کو ورغلانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہا۔ پھر بھی اُس نے ہار نہیں مانی۔ اِس کی بجائے وہ کسی اَور موقعے کا اِنتظار کرنے لگا۔ (لوقا 4:13) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے بندوں کو اپنے عزم پر قائم اور ایمان میں مضبوط رہنے کی ضرورت ہے۔ اِنہی باتوں کی وجہ سے یوسف اِس مشکل صورتحال میں کمزور نہیں پڑے۔ حالانکہ فوطیفار کی بیوی ’ہر روز‘ یوسف کو اُکساتی رہی لیکن یوسف نے اُس کی ایک نہیں سنی۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”[یوسف] نے [فوطیفار کی بیوی] کی بات نہ مانی۔“ (پیدایش 39:10) لیکن فوطیفار کی بیوی یوسف کو بہکانے کے اِرادے پر قائم رہی۔
پھر ایک دن فوطیفار کی بیوی کو وہ موقع مل گیا جس کا اُسے اِنتظار تھا۔ اُس وقت گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ جانتی تھی کہ یوسف اپنا کامکاج کرنے کے لیے گھر کے اندر آئیں گے۔ اور جب یوسف آئے تو اُس نے موقعے سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ اُس نے کس کر یوسف کا پیراہن پکڑ لیا اور اُن سے آخری بار کہا: ”میرے ساتھ ہمبستر ہو۔“ یوسف نے جلدی سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی اور پیچھے ہٹے۔ لیکن فوطیفار کی بیوی نے اُن کا پیراہن نہیں چھوڑا۔ اِس پر یوسف اپنا پیراہن اُس کے ہاتھ میں چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئے۔—پیدایش 39:11، 12۔
اِس سے شاید ہمیں یسوع مسیح کے شاگرد پولُس کی یہ بات یاد آئے: ”حرامکاری سے بھاگو۔“ (1-کرنتھیوں 6:18) اِس سلسلے میں یوسف نے خدا کے بندوں کے لیے واقعی بڑی اچھی مثال قائم کی۔ کبھی کبھار زندگی ہمیں ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے جب ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پڑتا ہے جن کی نظر میں خدا کے معیاروں کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُن کی طرح ہم بھی خدا کے معیاروں کو نظرانداز کرنے لگیں۔ چاہے ہمیں کوئی بھی قیمت کیوں نہ چُکانی پڑے، ہمیں حرامکاری سے بھاگنا چاہیے۔
یوسف کو حرامکاری سے بھاگنے کی بھاری قیمت چُکانی پڑی۔ فوطیفار کی بیوی بدلہ لینے پر اُتر آئی۔ جیسے ہی یوسف اُس کے پاس سے بھاگ گئے، وہ چیخنے چلّانے لگی اور سارے نوکروں کو اِکٹھا کر لیا۔ اُس نے یوسف پر اِلزام لگایا کہ اُنہوں نے اُس کی عزت لُوٹنے کی کوشش کی اور جب وہ چلّانے لگی تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ اُس نے یوسف کے پیراہن کو ثبوت کے طور پر اپنے پاس رکھا اور اپنے شوہر کے واپس آنے کا اِنتظار کرنے لگی۔ جب فوطیفار گھر آئے تو اُس نے اُن سے بھی وہی جھوٹ بولا اور ساری غلطی اُن کے سر ڈالنے کی کوشش کی کیونکہ وہی اِس اجنبی کو گھر لائے تھے۔ اپنی بیوی کی ساری بات سُن کر فوطیفار کا کیا ردِعمل تھا؟ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ’اُن کا غضب بھڑکا‘ اور اُنہوں نے یوسف کو قید میں ڈلوا دیا۔—پیدایش 39:13-20۔
”اُنہوں نے اُس کے پاؤں کو بیڑیوں سے دُکھ دیا“
ہم اِس بارے میں اِتنا نہیں جانتے کہ یوسف کے زمانے میں مصری قیدخانے کیسے ہوتے تھے۔ لیکن ماہرِآثارِقدیمہ نے مصر میں ایسے کھنڈرات دریافت کیے ہیں جو قلعوں کی طرح تھے اور جن میں قیدخانے اور تہخانے تھے۔ یوسف نے قیدخانے کا ذکر کرتے وقت جو لفظ اِستعمال کِیا، عبرانی زبان میں اُس کا مطلب ہے: پیدایش 40:15) زبور میں ہم پڑھتے ہیں کہ یوسف کو اَور بھی اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ اِس میں لکھا ہے: ”اُنہوں نے اُس کے پاؤں کو بیڑیوں کے ذریعہ ایذا پہنچائی، اور اُس کی گردن لوہے کی زنجیروں سے جکڑی رہی۔“ (زبور 105:17، 18، نیو اُردو بائبل ورشن) مصری کبھی کبھار قیدیوں کو اذیت پہنچانے کے لیے اُن کے بازو پیچھے کی طرف کرکے کہنیوں کو باندھ دیتے تھے یا کچھ قیدیوں کی گردن میں لوہے کا کالر ڈال دیتے تھے۔ ذرا سوچیں کہ یوسف کو ایک ایسے گُناہ کی سزا بھگتنی پڑی جو اُنہوں نے کِیا بھی نہیں تھا۔
گڑھا۔ یہ ایک ایسی جگہ کا خیال پیش کرتا ہے جو بہت تاریک ہے اور جہاں سے نکلنے کی کوئی اُمید نہیں۔ (یہ سزا کوئی تھوڑی مُدت کے لیے نہیں تھی۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ’یوسف قید میں رہے۔‘ اُنہیں اِس اذیتناک جگہ پر کئی سالوں تک رہنا پڑا۔ * اُنہیں تو یہ اُمید بھی نہیں تھی کہ وہ یہاں سے کبھی نکلیں گے۔ اُن کی سزا دنوں سے ہفتوں میں اور پھر مہینوں میں بدلتی گئی۔ لیکن اِس صورتحال میں بھی یوسف پر مایوسی اور نااُمیدی کے بادل نہیں چھائے۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟
اِس کی وجہ یہ تھی کہ ”[یہوواہ] اُس کے ساتھ تھا۔ وہ یوؔسف پر مہربان ہوا۔“ (پیدایش 39:21، نیو اُردو بائبل ورشن) جیل کی دیواریں، بیڑیاں، تاریکی یا کوئی بھی چیز یہوواہ خدا کو اپنے بندوں کے لیے محبت دِکھانے سے نہیں روک سکتی۔ (رومیوں 8:38، 39) ہم تصور کر سکتے ہیں کہ جب یوسف اپنا سارا درد اپنے خدا کے آگے بیان کرتے ہوں گے تو اُنہیں ایسا اِطمینان اور سکون ملتا ہوگا جو صرف ”ہر طرح کی تسلی کا خدا“ ہی دے سکتا ہے۔ (2-کرنتھیوں 1:3، 4؛ فلپیوں 4:6، 7) یہوواہ خدا نے یوسف کے لیے اَور کیا کِیا؟ پاک کلام میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے ”قیدخانہ کے داروغہ کی نظر میں اُسے مقبول بنایا۔“—پیدایش 39:21۔
ایسا لگتا ہے کہ مصری اپنے قیدیوں سے کام بھی کرواتے تھے۔ قیدخانہ کا داروغہ یوسف کو جو بھی کام سونپتا تھا، یوسف اپنی طرف سے اُسے بڑی محنت سے کرتے تھے اور باقی سب یہوواہ خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیتے تھے۔ اِس کے نتیجے میں خدا نے یوسف کو برکت دی۔ یہ یہوواہ خدا کی برکت ہی تھی کہ جیل میں بھی یوسف نے ویسی ہی عزت کمائی جیسی اُنہیں فوطیفار کے گھر میں ملی تھی۔ اور قیدخانہ کا داروغہ بھی فوطیفار کی طرح یوسف پر بہت بھروسا کرنے لگا۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ’قیدخانہ کے داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے، یوسف کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے، اُنہی کے حکم سے کرتے تھے۔ اور قیدخانہ کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو یوسف کے ہاتھ میں تھے، بےفکر تھا اِس لئے کہ یہوواہ یوسف کے ساتھ تھا اور جو کچھ یوسف کرتے، یہوواہ اُس میں اِقبالمندی بخشتا تھا۔‘ (پیدایش 39:22، 23) یقیناً یوسف کو اِس بات سے بڑی تسلی ملتی ہوگی کہ یہوواہ خدا اُن کا خیال رکھ رہا ہے۔
ہماری زندگی میں بھی ایسے اُتارچڑھاؤ آ سکتے ہیں جو ہمیں توڑ کر رکھ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ہمیں بہت نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ہم یوسف سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں، اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں اور محنت سے وہ کام کرتے ہیں جو اُسے پسند ہیں تو وہ ہماری جھولی برکتوں سے بھر دے گا۔
^ پیراگراف 23 پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ جب یوسف فوطیفار کے گھر گئے تو اُن کی عمر تقریباً 17 یا 18 سال تھی۔ وہ کچھ سال تک وہاں رہے۔ جب وہ قید سے رِہا ہوئے تو اُن کی عمر 30 سال تھی۔—پیدایش 37:2؛ 39:6؛ 41:46۔