”پردیسی“ مل کر سچے خدا کی عبادت کر رہے ہیں
”پردیسی“ مل کر سچے خدا کی عبادت کر رہے ہیں
”پردیسی . . . اور بیگانوں کے بیٹے تمہارے ہل چلانے والے اور تاکستانوں میں کام کرنے والے ہوں گے۔ پر تُم [یہوواہ] کے کاہن کہلاؤ گے۔“—یسع ۶۱:۵، ۶۔
آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
بعض لوگ پردیسیوں کے بارے میں کیسا نظریہ رکھتے ہیں؟ لیکن یہوواہ خدا پردیسیوں کے بارے میں کیسا نظریہ رکھتا ہے؟
تمام قوموں کے لوگوں کو کونسی دعوت دی جا رہی ہے؟
یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یہوواہ کے گواہوں میں ابھی سے کسی کو پردیسی خیال نہیں کِیا جاتا؟
۱. بعض لوگ پردیسیوں کے بارے میں کیسا نظریہ رکھتے ہیں؟ اور ایسا نظریہ غلط کیوں ہے؟
پچھلے مضمون میں ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ پردیسیوں کو حقیر خیال کرتے ہیں۔ لیکن پردیسیوں کو کمتر خیال کرنا سراسر غلط ہے کیونکہ ایک انسان دوسرے انسان سے برتر نہیں ہے۔ اِس سلسلے میں کتاب انسانی نسلیں بیان کرتی ہے: ”بائبل کی یہ تعلیم بالکل درست ہے کہ تمام رنگونسل کے انسان آپس میں بھائیبھائی ہیں۔“ اکثر سگے بھائی بھی ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں لیکن ہوتے تو وہ بھائی ہی ہیں۔
۲، ۳. پردیسیوں کے بارے میں یہوواہ خدا کا نظریہ کیا ہے؟
۲ کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس میں پردیسی نہ ہوں۔ پُرانے زمانے میں بنیاسرائیل کے ساتھ بھی پردیسی آباد تھے۔ خدا نے سب قوموں میں سے بنیاسرائیل کو چنا تھا اور اُن سے عہد باندھا تھا کہ وہ اُس کی خاص قوم ہوں گے۔ پردیسی، اسرائیلیوں جیسے حقوق نہیں رکھتے تھے۔ پھر بھی یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ پردیسیوں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں اور اُن کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کریں۔ یہ اصول ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سچے مسیحیوں کو بھی تعصب اور طرفداری سے کام نہیں لینا چاہئے۔ اِس سلسلے میں پطرس رسول نے کہا: ”مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔“—اعما ۱۰:۳۴، ۳۵۔
۳ اسرائیل میں رہنے والے پردیسیوں کو بہت سے فائدے حاصل تھے۔ اِس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ یہوواہ خدا نے صرف بنیاسرائیل کا ہی نہیں بلکہ غیرقوموں کے لوگوں کا بھی خیال رکھا تھا۔ کئی صدیوں بعد پولس رسول نے کہا: ”کیا خدا صرف یہودیوں ہی کا ہے غیرقوموں کا نہیں؟ بےشک غیرقوموں کا بھی ہے۔“—روم ۳:۲۹؛ یوایل ۲:۳۲۔
۴. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ”خدا کے اؔسرائیل“ میں کوئی بھی پردیسی نہیں ہے؟
گل ۶:۱۶) پولس رسول نے لکھا کہ اِس نئی قوم میں ”نہ یونانی رہا نہ یہودی۔ نہ ختنہ نہ نامختونی۔ نہ وحشی [”پردیسی،“ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن] نہ سکوتی۔ نہ غلام نہ آزاد۔ صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے۔“ (کل ۳:۱۱) اِس کا مطلب ہے کہ ممسوح مسیحی ایک دوسرے کو پردیسی خیال نہیں کرتے تھے، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی قوم سے تھا۔
۴ پھر ایک وقت آیا جب خدا نے بنیاسرائیل کو رد کر دیا۔ اُس نے ممسوح مسیحیوں کے ساتھ نیا عہد باندھا اور یوں وہ خدا کی قوم بن گئے۔ اِس لئے وہ ’خدا کا اسرائیل‘ کہلائے۔ (۵، ۶. (الف) یسعیاہ ۶۱:۵، ۶ کے بارے میں کونسا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ (ب) ”[یہوواہ] کے کاہن“ اور ”پردیسی“ کون ہیں؟ (ج) یہ دونوں گروہ مل کر کیا کام کر رہے ہیں؟
۵ بعض لوگ شاید سوچیں کہ پھر یسعیاہ ۶۱ باب میں جو پیشینگوئی درج ہے، اُس کا کیا مطلب ہے؟ یہ پیشینگوئی کلیسیا کے سلسلے میں پوری ہو رہی ہے۔ یسعیاہ ۶۱:۶ میں اُن لوگوں کا ذکر کِیا گیا جو ’یہوواہ کے کاہنوں‘ کے طور پر خدمت کریں گے۔ لیکن ۵ آیت میں ’پردیسیوں‘ کا ذکر کِیا گیا جو اِن کاہنوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ اِس پیشینگوئی میں ”پردیسی“ کون ہیں؟
۶ ”[یہوواہ] کے کاہن“ دراصل ممسوح مسیحی ہیں جو ”پہلی قیامت میں شریک“ ہوتے ہیں۔ وہ ”خدا اور مسیح کے کاہن ہوں گے اور اُس کے ساتھ ہزار برس تک بادشاہی کریں گے۔“ (مکا ۲۰:۶) دوسرے مسیحی زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ وہ ممسوح مسیحیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ چونکہ وہ ”خدا کے اؔسرائیل“ کا حصہ نہیں ہیں اِس لئے اِنہیں مجازی معنوں میں پردیسی کہا گیا ہے۔ وہ خوشی سے ’یہوواہ کے کاہنوں‘ کے ’ہل چلانے والوں اور تاکستانوں میں کام کرنے والوں‘ کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کو پاک کلام کی تعلیم دینے میں ممسوح مسیحیوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور یوں خدا کی بڑائی کرنے میں اُن کی حمایت کرتے ہیں۔ لہٰذا ”اَور بھی بھیڑیں“ اور ممسوح مسیحی دونوں مل کر ایسے لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں جو پاک کلام کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر وہ خدا کے معیاروں کے مطابق چلنے میں اُن کی مدد کرتے ہیں۔—یوح ۱۰:۱۶۔
ہم ابرہام کی طرح ”پردیسی“ ہیں
۷. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ آجکل مسیحی، ابرہام اور خدا کے دیگر وفادار خادموں کی طرح ہیں؟
۷ پچھلے مضمون میں بتایا گیا تھا کہ سچے مسیحی اِس دُنیا میں پردیسیوں اور مسافروں کے طور پر رہ رہے ہیں۔ اِس لحاظ سے وہ ابرہام اور پُرانے زمانے کے دیگر وفادار لوگوں کی طرح ہیں۔ اِن وفادار لوگوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ”زمین پر پردیسی اور مسافر“ تھے۔ (عبر ۱۱:۱۳) چاہے ہم آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے ہیں یا زمین پر رہنے کی، ہمیں بھی ویسا ہی اعزاز مل سکتا ہے جیسا ابرہام کو ملا تھا۔ اِس سلسلے میں یعقوب نے لکھا: ”اؔبرہام [یہوواہ] خدا پر ایمان لایا اور یہ اُس کے لئے راستبازی گنا گیا اور وہ [یہوواہ] خدا کا دوست کہلایا۔“—یعقو ۲:۲۳۔
۸. خدا نے ابرہام سے کیا وعدہ کِیا تھا؟ اور ابرہام نے اِس وعدے پر ایمان کیسے ظاہر کِیا؟
۸ خدا نے وعدہ کِیا تھا کہ ابرہام اور اُن کی نسل کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔ (پیدایش ۲۲:۱۵-۱۸ کو پڑھیں۔) ابرہام کو خدا کے وعدے پر پورا بھروسا تھا حالانکہ یہ وعدہ اُن کی زندگی میں پورا نہیں ہوا تھا۔ ابرہام نے اور اُن کے گھر والوں نے ۱۰۰ سال تک پردیسیوں کے طور پر زندگی گزاری۔ لیکن اِس سارے عرصے میں اُنہوں نے خدا کے ساتھ اپنی دوستی پر ذرا بھی آنچ نہ آنے دی۔
۹، ۱۰. (الف) ہم ابرہام کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (ب) ہم لوگوں کو کونسی دعوت دینے میں حصہ لے سکتے ہیں؟
۹ ابرہام یہ نہیں جانتے تھے کہ خدا اپنا وعدہ کب پورا کرے گا۔ پھر بھی خدا سے اُن کی محبت کم نہ ہوئی اور وہ ہمیشہ اُس کے وفادار رہے۔ وہ یہ نہ بھولے کہ وہ اِس دُنیا میں پردیسی ہیں۔ اِس لئے اُنہوں نے اپنے اِردگِرد کسی ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنے کی کوشش نہ کی۔ (عبر ۱۱:۱۴، ۱۵) ابرہام کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی سادہ زندگی گزارنی چاہئے۔ ہمیں اعلیٰ مرتبے، اچھے پیشے یا مالودولت کی دُھن میں نہیں رہنا چاہئے۔ جب یہ دُنیا ختم ہونے والی ہے تو کیا یہ سوچنا مناسب ہے کہ ”مَیں تھوڑا سا اپنے لئے بھی جی لوں؟“ ایسی چیزوں سے دل لگانے کا بھلا کیا فائدہ جو مٹنے والی ہیں؟ ابرہام کی طرح ہم بھی ایک ایسی چیز کے منتظر ہیں جو اِس دُنیا کی چیزوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ہم اُس وقت تک صبر سے انتظار کرنے کے لئے تیار ہیں جب تک ہماری اُمید پوری نہیں ہو جاتی۔—رومیوں ۸:۲۵ کو پڑھیں۔
۱۰ یہوواہ خدا آج بھی تمام قوموں کے لوگوں کو ابرہام کی نسل کے وسیلے سے برکت پانے کی دعوت دے رہا ہے۔ ”[یہوواہ] کے کاہن“ یعنی ممسوح مسیح اور ”پردیسی“ یعنی اَور بھی بھیڑیں لوگوں کو یہ دعوت ۶۰۰ سے زیادہ زبانوں میں دے رہے ہیں۔
نسلی اور قومی تعصب سے آزاد
۱۱. سلیمان نے غیرقوموں کے لوگوں کے لئے خدا سے کیا درخواست کی؟
۱۱ سلیمان بادشاہ نے ۱۰۲۶ قبلازمسیح میں ہیکل کی مخصوصیت کے موقعے پر ایک دُعا کی۔ اِس دُعا میں اُنہوں نے خدا سے درخواست کی کہ جب غیرقوموں کے لوگ ہیکل کی طرف رُخ کرکے دُعا کریں تو وہ اُن کی دُعا سن لے۔ یہ ایک طریقہ تھا جس سے دوسری قوموں کے لوگ اُس وعدے سے فائدہ حاصل کر سکتے تھے جو خدا نے ابرہام سے کِیا تھا۔ سلیمان نے کہا: ”وہ پردیسی جو تیری قوم اسرائیل میں سے نہیں ہے۔ وہ جب دُور مُلک سے تیرے نام کی خاطر آئے (کیونکہ وہ تیرے بزرگ نام اور قوی ہاتھ اور بلند بازو کا حال سنیں گے) سو جب وہ آئے اور اِس گھر کی طرف رخ کرکے دُعا کرے تو تُو آسمان پر سے جو تیری سکونتگاہ ہے سُن لینا اور جس جس بات کے لئے وہ پردیسی تجھ سے فریاد کرے تُو اُس کے مطابق کرنا تاکہ زمین کی سب قومیں تیرے نام کو پہچانیں اور تیری قوم اؔسرائیل کی طرح تیرا خوف مانیں۔“—۱-سلا ۸:۴۱-۴۳۔
۱۲. یہوواہ کے گواہ پردیسیوں کی طرح کیوں ہیں؟
۱۲ پردیسی وہ شخص ہوتا ہے جو کسی دوسرے ملک میں تھوڑے
یا لمبے عرصے کے لئے رہتا ہے۔ اِس لحاظ سے یہوواہ کے گواہ بھی پردیسیوں اور مسافروں کی طرح ہیں۔ وہ اِس دُنیا میں رہتے تو ہیں مگر حمایت صرف خدا کی بادشاہت کی کرتے ہیں جس کے بادشاہ یسوع مسیح ہیں۔ لہٰذا وہ سیاسی معاملوں میں حصہ نہیں لیتے، چاہے کچھ لوگ اُنہیں معاشرے سے کٹا ہوا خیال کیوں نہ کریں۔۱۳. (الف) ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم دوسری قوموں کے لوگوں کو پردیسی سمجھنا چھوڑ دیں؟ (ب) کیا خدا کا مقصد یہ تھا کہ زمین مختلف ملکوں میں بٹی ہوئی ہو اور انسان ایک دوسرے کو پردیسی سمجھیں؟
۱۳ بعض اوقات پردیسی اپنی زبان، رہنسہن، لباس یا شکلوصورت سے پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ بنیادی خصوصیات سب انسانوں میں پائی جاتی ہیں، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی نسل سے ہو۔ لہٰذا جب ہم اُن باتوں پر غور نہیں کرتے جن کی بِنا پر ایک شخص ہم سے فرق نظر آتا ہے تو پھر شاید ہم اُسے پردیسی خیال نہیں کریں گے۔ اگر ساری زمین پر ایک ہی حکومت ہوتی تو پھر کوئی بھی پردیسی نہ ہوتا۔ اصل میں یہوواہ خدا شروع ہی سے یہ چاہتا تھا کہ انسان اُس کی حکمرانی کے تحت زمین پر ایک خاندان کے طور پر رہیں۔ کیا یہ آج بھی ممکن ہے کہ تمام قوموں کے لوگ ایک دوسرے کو پردیسی سمجھنا چھوڑ دیں؟
۱۴، ۱۵. ایک گروہ کے طور پر یہوواہ کے گواہ کونسی مثال قائم کر رہے ہیں؟
۱۴ یہ سچ ہے کہ تعصب کو اپنے دل سے نکالنا آسان نہیں ہے۔ لیکن خوشی کی بات ہے کہ اِس خودغرض اور قومپرست دُنیا میں کچھ ایسے اشخاص بھی ہیں جو دوسری نسلوں اور قوموں کے لوگوں کو پردیسی خیال نہیں کرتے۔ مشہور ٹیوی چینل سیایناین کے بانی نے مختلف قوموں کے لوگوں کے ساتھ کام کِیا ہے۔ اُس نے کہا: ”اِن سب لوگوں کے ساتھ کام کرنے میں مجھے بڑا مزہ آیا۔ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کے بارے میں میرا نظریہ بدلنے لگا۔ مَیں یہ سمجھنے لگا کہ وہ پردیسی نہیں بلکہ میری ہی طرح اِس زمین پر بسنے والے انسان ہیں۔“ اِس لئے اُس نے اپنے سارے عملے کو ہدایت کی کہ وہ آپس میں یا کسی پروگرام میں لفظ پردیسی استعمال نہ کریں۔
۱۵ پوری دُنیا میں ایک گروہ کے طور پر یہوواہ کے گواہ ہی مختلف قوموں کے لئے خدا جیسا نظریہ رکھتے ہیں۔ اِس لئے اُن کی سوچ نسلی اور قومی تعصب کی قید سے آزاد ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور نہ ہی اُن سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ ہر رنگونسل کے لوگوں کی مختلف خصوصیات اور صلاحیتوں کی قدر کرتے ہیں۔ کیا آپ اِس بات کی قدر کرتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ دوسروں سے کسی طرح کا اِمتیاز نہیں برتتے؟ اور اِس سے دوسری نسلوں کے لوگوں کے بارے میں آپ کی سوچ پر کیا اثر ہوا ہے؟
سرحدیں مٹ جائیں گی
۱۶، ۱۷. جب مکاشفہ ۱۶:۱۶ اور دانیایل ۲:۴۴ میں درج پیشینگوئیاں پوری ہوں گی تو زمین پر حالات کیسے ہوں گے؟
۱۶ بہت ہی جلد یسوع مسیح اور اُن کا آسمانی لشکر اُن قوموں کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں جو خدا کی حکمرانی کو رد کرتی ہیں۔ اِس جنگ کا ”نام عبرانی میں ہرمجِدّؔون ہے۔“ (مکا ۱۶:۱۴، ۱۶؛ ۱۹:۱۱-۱۶) کوئی ۲۵۰۰ سال پہلے دانیایل نبی نے بتایا کہ جو انسانی حکومتیں خدا کی بادشاہت کی مخالفت کرتی ہیں، اُن کا انجام کیا ہوگا۔ اُنہوں نے لکھا: ”اُن بادشاہوں کے ایّام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تاابد نیست نہ ہوگی اور اُس کی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالہ نہ کی جائے گی بلکہ وہ اِن تمام مملکتوں کو ٹکڑےٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی ابد تک قائم رہے گی۔“—دان ۲:۴۴۔
۱۷ جب یہ پیشینگوئی پوری ہوگی تو زمین پر حالات کیسے ہوں گے؟ فیالحال تو انسانوں نے زمین کو سرحدوں میں بانٹا ہوا ہے۔ اِس لحاظ سے آجکل ہم سب پردیسی ہیں۔ لیکن ہرمجِدّون کی جنگ کے بعد زمین پر بنائی گئی سرحدیں ختم کر دی جائیں گی۔ اُس وقت بھی انسانوں میں فرقفرق خصوصیات ہوں گی مگر تب لوگ اِس بات سے خوش ہوں گے کہ خدا نے اپنی تخلیق میں رنگارنگی رکھی ہے۔ ایسے شاندار مستقبل کے پیشِنظر ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم اپنے خالق کی اَور زیادہ تمجید اور تعظیم کرتے رہیں۔
۱۸. حال ہی میں کونسی تبدیلیاں کی گئیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے کو پردیسی خیال نہیں کرتے؟
۱۸ کیا واقعی ایسا وقت آئے گا جب کوئی کسی کو پردیسی خیال نہیں کرے گا؟ جیہاں۔ ہمارے پاس اِس بات پر یقین رکھنے کی وجوہات ہیں کہ ایسا ضرور ہوگا۔ یہوواہ کے گواہوں میں تو ابھی سے دوسرے لوگوں کو ”پردیسی“ خیال نہیں کِیا جاتا۔ اُنہیں اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کلیسیا کے ارکان کا تعلق کس قوم یا نسل سے ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں کچھ ملکوں میں چھوٹے برانچ کے دفتر بند کر دئے گئے اور جو کام وہاں ہو رہا تھا، اُسے دیگر ملکوں میں بڑے برانچ کے دفتروں کو سونپ دیا گیا۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ خوشخبری کی مُنادی کے کام کی نگرانی زیادہ مؤثر طریقے سے ہو سکے۔ (متی ۲۴:۱۴) یہ تبدیلیاں کرتے وقت ملکی سرحدوں کی پرواہ نہیں کی گئی تھی۔ اِن کی پرواہ صرف تب کی گئی جب کوئی قانون آڑے آ رہا تھا۔ یہ اِس بات کا ایک اَور ثبوت ہے کہ بادشاہ یسوع مسیح اپنی رعایا کو سکھا رہے ہیں کہ وہ دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے بہنبھائیوں کو پردیسی خیال نہ کریں۔ جلد ہی یسوع مسیح تمام سرحدوں کو ختم کرکے اپنی ”فتح“ کو مکمل کریں گے۔—مکا ۶:۲۔
۱۹. ایک جیسی تعلیمات ماننے کی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کو کیا فائدہ ہوا ہے؟
۱۹ یہوواہ کے گواہ مختلف قوموں سے تعلق رکھتے ہیں اور فرقفرق زبانیں بولتے ہیں۔ لیکن وہ سب کے سب بائبل کی تعلیمات کو مانتے ہیں اور اِن پر چلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اِس لئے اُن میں ایسا اتحاد پایا جاتا ہے جسے توڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ (صفنیاہ ۳:۹ کو پڑھیں۔) وہ ایک بینالاقوامی خاندان ہیں جو شیطان کی دُنیا میں رہتا تو ہے مگر اُس کا حصہ نہیں ہے۔ اُن کے اتحاد کو دیکھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ نئی دُنیا میں کوئی بھی پردیسی نہیں ہوگا۔ تب تمام انسان آپس میں بھائیبھائی ہوں گے۔
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
کیا آپ ابرہام کی طرح اُس وقت کے منتظر رہیں گے جب خدا کے وعدے پورے ہوں گے؟
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
یہوواہ خدا اِن میں سے کسی کو بھی پردیسی خیال نہیں کرتا۔
[صفحہ ۳۱ پر عبارت]
کیا آپ ایسے وقت کے منتظر ہیں جب ملکی سرحدیں ختم ہو جائیں گی اور لفظ ”پردیسی“ کسی کی زبان پر نہیں آئے گا؟