ابرہام نبی—عاجزی کی مثال
ابرہام نبی—عاجزی کی مثال
سورج آگ اُگل رہا تھا۔ ابرہام نبی دھوپ سے بچنے کے لئے اپنے خیمے میں بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو اُنہیں دُور سے تین مسافر آتے دکھائی دئے۔ * ابرہام نبی فوراً اُن سے ملنے کے لئے بھاگے۔ اُنہوں نے مسافروں کو مجبور کِیا کہ وہ کچھ دیر آرام کریں اور اُن کے ہاں کھانا کھائیں۔ ابرہام نے اُن سے کہا: ”مَیں کچھ روٹی لاتا ہوں۔“ لیکن وہ صرف روٹی نہیں بلکہ مکھن، دودھ اور گوشت کا سالن بھی لائے۔ اُن مسافروں کے لئے ایسا اہتمام کرنے سے ابرہام نبی نے نہ صرف مہماننوازی کی مثال قائم کی بلکہ عاجزی کی بھی۔—پیدایش ۱۸:۱-۸۔
عاجزی سے کیا مراد ہے؟ ایک عاجز شخص فروتن اور خاکسار ہوتا ہے۔ اُس میں غرور اور گھمنڈ نہیں ہوتا۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ دوسرے لوگوں میں ایسی صلاحیتیں ہیں جو اُس میں نہیں ہیں۔ (فلپیوں ۲:۳) وہ دوسروں کے مشوروں کو سنتا ہے اور اُن کی خدمت کرنے کو تیار رہتا ہے۔
ابرہام نبی نے عاجزی کیسے ظاہر کی؟ ابرہام نبی نے خوشی سے دوسروں کی خدمت کی۔ جیسے کہ ہم نے اِس مضمون کے شروع میں دیکھا، ابرہام نبی فوراً ہی مسافروں کی خدمت کرنے لگے۔ اُن کی بیوی سارہ جلدی جلدی کھانا پکانے لگیں۔ لیکن ابرہام نے خود بھی کافی کام کِیا۔ وہ مسافروں سے ملنے کے لئے بھاگے، اُنہوں نے اُن کو اپنے ہاں کھانا کھانے کی دعوت دی، پھر وہ گلّے کی طرف دوڑے اور ایک بچھڑے کو چن کر اِسے ذبح کروایا۔ بعد میں اُنہوں نے کھانے پینے کی ساری چیزیں لا کر مہمانوں کے سامنے رکھیں۔ اُنہوں نے سارا اِنتظام نوکروں کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا بلکہ خود بھی کام کِیا۔ وہ دوسروں کی خدمت کرنا اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے تھے۔
ابرہام نبی نے اُن لوگوں کے مشوروں پر دھیان دیا جو اُن کے اختیار میں تھے۔ خدا کے کلام میں ہم چند جگہوں پر ابرہام اور سارہ کے درمیان ہونے والی باتچیت کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اور اِن میں سے دو جگہوں پر یہ بتایا گیا کہ ابرہام نے سارہ کے مشورے پر عمل کِیا۔ (پیدایش ۱۶:۲؛ ۲۱:۸-۱۴) ایک موقعے پر تو ابرہام کو سارہ کی بات ”نہایت بُری معلوم ہوئی۔“ لیکن جب یہوواہ خدا نے اُنہیں بتایا کہ سارہ کا مشورہ اچھا ہے تو اُنہوں نے اِسے انکساری سے قبول کر لیا۔
ہم ابرہام نبی کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟ اگر ہم واقعی ایک عاجز شخص ہیں تو ہم خوشی سے دوسروں کی خدمت کریں گے۔
دوسروں کے مشوروں پر دھیان دینے سے بھی ہم عاجزی ظاہر کریں گے۔ کئی لوگ صرف اِس لئے کسی کے مشورے کو رد کر دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں خود اِس کا خیال نہیں آیا تھا۔ لیکن دوسروں کی رائے لینا سمجھداری کی بات ہے۔ (امثال ۱۵:۲۲) ایسے لوگوں کو بھی مشوروں پر دھیان دینا چاہئے جنہیں دوسروں پر اختیار دیا گیا ہے۔ ایک تجربہکار سُپروائزر جن کا نام جان ہے، اُنہوں نے کہا: ”مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک اچھا نگران کام کی جگہ پر ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جس میں سب کُھل کر اپنی رائے پیش کر سکیں۔ جو لوگ آپ کے تحت کام کرتے ہیں، شاید وہ ایک کام آپ سے بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کرنے کے لئے عاجزی کی ضرورت ہے۔ کسی کو، یہاں تک کہ سُپروائزر کو بھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ صرف اُسی کی رائے ٹھیک ہے۔“
اگر ہم ابرہام نبی کی طرح دوسروں کی خدمت کرتے ہیں اور اُن کے مشوروں کو سنتے ہیں تو ہمیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“—۱-پطرس ۵:۵۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 2 یہ مسافر خدا کے فرشتے تھے لیکن شاید ابرہام کو فوراً اِس کا پتہ نہیں چلا تھا۔—عبرانیوں ۱۳:۲۔