مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ کو معلوم ہے؟‏

کیا آپ کو معلوم ہے؟‏

کیا آپ کو معلوم ہے؟‏

لوگ دُعا کے آخر میں ”‏آمین“‏ کیوں کہتے ہیں؟‏

‏”‏آمین“‏ ایک عبرانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے،‏ ”‏ایسا ہی ہو“‏ یا ”‏یوں ہی ہو“‏۔‏ لفظ ”‏آمین“‏ عموماً دُعا،‏ قسم،‏ برکت یا لعنت کے آخر پر استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ اِسی لئے اُوپر بیان‌کردہ مختلف موقعوں پر جب لوگ ہم‌آواز ہو کر آمین کہتے ہیں تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب اُن خیالات اور احساسات سے متفق ہیں جن کا اظہار کِیا گیا ہے۔‏ ایک کتاب کے مطابق ”‏اِس لفظ میں کسی بات کا یقین کرنے،‏ اُسے سچ ماننے اور کسی بھی طرح سے شک‌وشُبہ نہ کرنے کا عنصر پایا جاتا ہے۔‏“‏ قدیم زمانے میں کسی شخص کا لفظ آمین کہنا اُسے قانونی طور پر قسم،‏ وعدے اور عہد کا پابند بنا دیتا تھا۔‏ اِس کے علاوہ،‏ اُس شخص کو اِن کے نتائج بھی بھگتنے پڑتے تھے۔‏—‏استثنا ۲۷:‏۱۵-‏۲۶‏۔‏

یسوع مسیح نے بھی مُنادی کرتے اور تعلیم دیتے وقت بعض‌اوقات اپنے بیانات کے شروع میں لفظ ”‏آمین“‏ کو استعمال کِیا جس کا ترجمہ ”‏سچ ہے“‏ کے طور پر کِیا گیا ہے۔‏ ایسا کرنے سے اُس نے یہ ظاہر کِیا کہ جوکچھ وہ کہنے جا رہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ متی ۵:‏۱۸؛‏ ۶:‏۲،‏ ۵ میں یسوع مسیح نے ”‏سچ کہتا ہوں“‏ کے الفاظ کہے جوکہ آمین ہی کا مطلب رکھتے ہیں۔‏ جبکہ یوحنا کی انجیل میں یسوع مسیح نے آمین کے لئے جو یونانی لفظ استعمال کِیا اُس کا ترجمہ ”‏سچ‌سچ“‏ کِیا گیا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱:‏۵۱‏؛‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح کا لفظ ”‏آمین“‏ کو اِس پیرائے میں استعمال کرنا مذہبی تحریروں میں ایک منفرد استعمال ہے۔‏

اناجیل اور رسولوں کے خطوط میں یسوع کو ”‏آمین“‏ کا لقب دیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع کی گواہی ’‏سچ اور برحق‘‏ ہے۔‏—‏مکاشفہ ۳:‏۱۴‏۔‏

اُوریم اور تمیم کیا تھے؟‏

قدیم اسرائیل میں قوم اور پیشواؤں سے متعلق مختلف معاملات کے بارے میں یہوواہ خدا کی مرضی جاننے کے لئے غالباً اُوریم اور تمیم استعمال کئے جاتے تھے۔‏ یہ سردار کاہن کے پاس ہوتے تھے جنہیں وہ اپنے ”‏عدل کے سینہ بند“‏ میں رکھتا تھا۔‏ (‏خروج ۲۸:‏۱۵،‏ ۱۶،‏ ۳۰‏)‏ اگرچہ پاک کلام میں یہ تو بیان نہیں کِیا گیا کہ یہ کیا تھے اور اِنہیں کیسے استعمال کِیا جاتا تھا تو بھی مختلف بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اِن سے قرعہ ڈالا جاتا تھا۔‏ جن کی مدد سے خدا کا جواب ”‏ہاں“‏ یا ”‏نہ“‏ کی صورت میں مل جاتا تھا۔‏

اِس کے استعمال کی ایک مثال داؤد کے زمانہ سے ملتی ہے۔‏ جب اخیملک کاہن کا بیٹا ابی‌یاتر داؤد کے پاس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک افود (‏سردار کاہن کا لباس)‏ بھی تھا جس میں اُوریم اور تمیم تھے۔‏ داؤد نے ابی‌یاتر کاہن کو وہ افود لانے کے لئے کہا تاکہ اپنے بارے میں یہوواہ خدا کی مرضی معلوم کر سکے۔‏ اُس نے یہوواہ خدا سے دو سوال کئے:‏ ’‏کیا ساؤل میرا پیچھا کرے گا؟‏‘‏ اور ’‏کیا قعیلہ کے لوگ مجھے اُس کے حوالہ کر دیں گے؟‏‘‏ اِن دونوں سوالوں کا جواب خدا نے ہاں میں دیا جس سے داؤد کو مناسب فیصلے کرنے کے لئے موقع مل گیا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۳:‏۶-‏۱۲‏۔‏

اِس سے پہلے ساؤل بادشاہ نے اُوریم اور تمیم کو استعمال کِیا تھا۔‏ ساؤل بھی دو باتیں جاننا چاہتا تھا۔‏ پہلی یہ کہ آیا اسرائیلی خطاکار تھے یا وہ اور اُس کا بیٹا یونتن۔‏ دوسری یہ کہ غلطی اُس کی ہے یا اُس کے بیٹے کی۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۴:‏۴۰-‏۴۲‏)‏ بعدازاں،‏ جب یہوواہ خدا ساؤل کے ساتھ نہ رہا تو اُس نے ’‏خوابوں اور اُوریم اور نبیوں کے وسیلہ‘‏ سے اُس کی راہنمائی کرنا بند کر دی۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۸:‏۶‏۔‏

یہودی روایت کے مطابق،‏ جب سن ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں ہیکل کو تباہ کر دیا گیا تو اُوریم اور تمیم کا استعمال بھی ختم ہو گیا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

‏”‏آمین“‏ مکاشفہ ۳:‏۱۴‏۔‏ پانچویں صدی عیسوی کی ایک قلمی تحریر۔‏