”دُنیا کی روح“ کا مقابلہ کریں
”دُنیا کی روح“ کا مقابلہ کریں
”ہم نے نہ دُنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا جو خدا کی طرف سے ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۲:۱۲۔
۱، ۲. (ا) برطانوی کانکنوں کو ہر کان کے لئے دو چھوٹی چڑیاں کیوں رکھنی تھیں؟ (ب) مسیحی کس خطرناک ماحول میں رہ رہے ہیں؟
سن۱۹۱۱ میں برطانیہ کی حکومت نے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں کے تحفظ کے لئے ایک نیا قانون جاری کِیا۔ کانکنوں کو ہر کان کے لئے دو چھوٹی چڑیاں پنجرے میں رکھنی تھیں۔ اُن کو ایسا کیوں کرنا تھا؟ اگر کان میں آگ لگ جاتی تو کانکنوں کو بچانے کے لئے جو لوگ جاتے وہ اِن چڑیوں کو اپنے ساتھ کان میں لے جاتے۔ آگ کی وجہ سے کان میں کاربنمونوکسائڈ جیسی زہریلی گیسیں پھیل سکتی تھیں۔ اگر ہوا میں یہ گیس ہوتی تو چڑیاں بےچین ہو کر پھرپھرانے لگتیں اور اکثر وہ مر جاتیں۔ یہ کانکنوں کے لئے ایک آگاہی تھی جس پر اُنہیں فوراً عمل کرنا پڑتا تھا۔ کاربنمونوکسائڈ گیس کا نہ رنگ ہے اور نہ بُو۔ یہ نہایت زہریلی گیس ہے جو خون کے سُرخ خلیوں کو بدن کو آکسیجن پہنچانے سے روکتی ہے۔ اگر کانکُن ہوا میں اِس گیس کی موجودگی سے بےخبر رہتے تو وہ بےہوش ہو جاتے اور آخرکار مر جاتے۔
۲ اِن کانکنوں کی طرح مسیحی بھی خطرناک ماحول میں رہ رہے ہیں۔ یہ دُنیا شیطان کے قبضے میں ہے اور اُس کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو اِس خطرناک ماحول میں خوشخبری سنانے کے لئے بھیجا۔ (متی ۱۰:۱۶؛ ۱-یوح ۵:۱۹) یسوع کو اپنے شاگردوں کی اتنی فکر تھی کہ اُس نے اپنی موت سے پہلے یوں دُعا کی: ”مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو اُنہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے اُن کی حفاظت کر۔“—یوح ۱۷:۱۵۔
۳، ۴. (ا) یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو کس خطرے سے آگاہ کِیا؟ (ب) یہ آگاہی ہمارے لئے اہمیت کیوں رکھتی ہے؟
۳ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو اِس زہریلے ماحول سے خبردار کِیا تاکہ وہ روحانی طور پر سُست نہ پڑ جائیں۔ اُس کی آگاہی پر عمل کرنا خاص طور پر اِس اخیر زمانے میں بہت اہم ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ ”ہر وقت جاگتے ... رہو تاکہ تُم کو اِن سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابنِآدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو۔“ (لو ۲۱:۳۴-۳۶) اس کے ساتھ ساتھ یسوع مسیح نے یہ وعدہ بھی کِیا کہ یہوواہ خدا اُس کے شاگردوں کو اپنی پاک روح بخشے گا تاکہ وہ سیکھی ہوئی باتوں کو یاد رکھ سکیں اور روحانی طور پر جاگتے اور مضبوط رہیں۔—یوح ۱۴:۲۶۔
۴ کیا یہوواہ خدا اپنی پاک روح کے ذریعے ہماری مدد بھی کرتا ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ یہ پاک روح ہمیں بخشی جائے؟ دُنیا کی روح سے کیا مُراد ہے اور یہ ہمیں کیسے متاثر کرتی ہے؟ ہم اِس روح کے اثر میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟—۱-کرنتھیوں ۲:۱۲ کو پڑھیں۔
پاک روح یا دُنیا کی روح
۵، ۶. (ا) پاک روح کی مدد سے ہم کیا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں؟ (ب) خدا کی پاک روح پانے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
۵ یہوواہ خدا نے اپنی پاک روح صرف پہلی صدی کے مسیحیوں کو نہیں بخشی۔ خدا آج بھی اپنے خادموں کو یہ روح عنایت کرتا ہے تاکہ وہ اِس کی مدد سے اُس کی مرضی بجا لائیں اور جوش سے اُس کی خدمت کر سکیں۔ (روم ۱۲:۱۱؛ فل ۴:۱۳) پاک روح ہم میں ”روح کا پھل“ پیدا کر سکتی ہے جس میں محبت، مہربانی اور نیکی جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ (گل ۵:۲۲، ۲۳) مگر یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو اپنی پاک روح نہیں عنایت کرتا جو اِسے نہیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
۶ اس لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”خدا کی پاک روح پانے کے لئے مجھے کیا کرنا ہوگا؟“ بائبل میں اِس سلسلے میں کئی باتیں بتائی گئی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم خدا سے پاک روح کی درخواست کر سکتے ہیں۔ (لوقا ۱۱:۱۳ کو پڑھیں۔) دوسری بات یہ ہے کہ ہم خدا کے الہامی کلام کا مطالعہ کریں اور اِس کی ہدایات پر عمل کریں۔ (۲-تیم ۳:۱۶) اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بائبل کو پڑھنے سے ہی ہمیں خدا کی پاک روح بخشی جائے گی۔ لیکن جب ایک خلوصدل مسیحی خدا کے کلام کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ اِس میں پائے جانے والے خیالات اور نظریات کو اپنے دل میں جذب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بہت اہم ہے کہ ہم یسوع مسیح کو خدا کے نمائندے کے طور پر قبول کریں اور یہ بھی تسلیم کریں کہ خدا، یسوع کے ذریعے ہی اپنی پاک روح بخشتا ہے۔ (کل ۲:۶) ایسا کرنے کے نتیجے میں ہمارے دل میں یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلنے کی خواہش پیدا ہوگی۔ (۱-پطر ۲:۲۱) جس حد تک ہم یسوع کی مانند بننے کی کوشش کریں گے اُسی حد تک ہمیں پاک روح بخشی جائے گی۔
۷. دُنیا کی روح کن طریقوں سے لوگوں پر اثر کرتی ہے؟
۷ البتہ جو لوگ دُنیا کی روح کی پیروی کرتے ہیں وہ شیطان کی سوچ اور اُس کے رویے کو اپناتے ہیں۔ (افسیوں ۲:۱-۳ کو پڑھیں۔) دُنیا کی روح مختلف طریقوں سے لوگوں پر اثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ لوگوں کو خدا کے احکام کی خلافورزی کرنے پر اُکساتی ہے۔ یہ ”جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی“ کو فروغ دیتی ہے۔ (۱-یوح ۲:۱۶) اس کے اثر میں لوگ ”جسم کے کام“ کرنے لگتے ہیں جن میں حرامکاری، بُتپرستی، جادوگری، حسد، غصہ اور نشہبازی شامل ہیں۔ (گل ۵:۱۹-۲۱) یہ روح لوگوں کو خدا کے پاک کلام کے خلاف بیہودہ بکواس کرنے پر ورغلاتی ہے۔ (۲-تیم ۲:۱۴-۱۸) جس حد تک ایک شخص دُنیا کی روح کو جذب کرے گا اُسی حد تک وہ شیطان کی مانند بنے گا۔
۸. ہم میں سے ہر ایک کو کس بات کا انتخاب کرنا ہوگا؟
۸ ہم میں سے ہر ایک کو انتخاب کرنا ہوگا کہ آیا وہ دُنیا کی روح کے مطابق چلے گا یاپھر خدا کی پاک روح کے مطابق۔ جو لوگ دُنیا کی روح کے مطابق چل رہے ہیں وہ اِس کے اثر سے رِہا ہو کر پاک روح کے مطابق چلنا سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ پاک روح کے مطابق چل رہے ہیں وہ دُنیا کی روح سے متاثر ہو کر گمراہ ہو جائیں۔ (فل ۳:۱۸، ۱۹) آئیں دیکھیں کہ ہم دُنیا کی روح کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
آگاہی پر دھیان دیں
۹-۱۱. اگر دُنیا کی روح ہم پر اثر ڈال رہی ہے تو ہم اِس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟
۹ برطانوی کانکنوں کو چڑیوں کی مدد سے ہوا میں موجود زہریلی گیس کا پتہ چلتا تھا۔ جب کانکُن دیکھتا کہ چڑیا بےچینی سے پھرپھرا رہی ہے تو اُسے اندازہ لگ جاتا کہ اُسے فوراً وہاں سے بھاگ نکلنا چاہئے۔ اگر دُنیا کی روح ہم پر اثر ڈال رہی ہے تو ہم اِس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟
۱۰ جس وقت ہم نے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنا شروع کِیا اور اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر دی تو بِلاشُبہ اُس وقت ہم بڑے شوق سے بائبل کی پڑھائی کرتے تھے۔ ہم دل سے دُعا کرتے تھے اور ایسا دن میں بار بار کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہم خوشی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے تھے کیونکہ ہم اِن سے بالکل اس طرح تازہدم ہو جاتے جس طرح ایک مسافر ریگستان میں پانی کے چشمے سے تازہدم ہو جاتا ہے۔ ایسا معمول اختیار کرنے سے ہم دُنیا کی روح سے رِہا ہو گئے اور اِس سے دُور رہ سکے۔
۱۱ کیا ہم اب بھی روزانہ بائبل کی پڑھائی کرتے ہیں؟ (زبور ۱:۲) کیا ہم اب بھی دل سے دُعا کرتے ہیں اور ایسا بار بار کرتے ہیں؟ کیا ہم اب بھی خوشی سے کلیسیا کے تمام اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں؟ (زبور ۸۴:۱۰) یا پھر کیا ہم اِن اہم باتوں میں سے کچھ کو نظرانداز کرنے لگے ہیں؟ یہ سچ ہے کہ ہماری بہت سی ذمہداریاں ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے ہمیں توانائی اور وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ اِس وجہ سے شاید ہمیں خدا کی خدمت کرنے کے معمول کو برقرار رکھنا مشکل لگے۔ لیکن اگر ہم اِن اہم باتوں میں سے کچھ کو نظرانداز کرنے لگے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم دُنیا کی روح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیا ہم خدا کی خدمت کرنے کے معمول کو دوبارہ سے قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے؟
سُست نہ پڑ جائیں
۱۲. یسوع نے اپنے شاگردوں کو کس بات سے خبردار رہنے کی تاکید کی؟
۱۲ ہم دُنیا کی روح کا مقابلہ کرنے کے لئے اَور کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ اِس سے پہلے کہ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو ’جاگتے رہنے‘ کی تاکید کی، اُس نے کہا: ”پس خبردار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہبازی اور اِس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تُم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔“—لو ۲۱:۳۴، ۳۵۔
۱۳، ۱۴. کھانے اور شراب پینے کے سلسلے میں ہمیں خود سے کونسے سوال کرنے چاہئیں؟
۱۳ ذرا یسوع کی آگاہی پر غور کریں۔ کیا اُس نے یہ کہا تھا کہ ہمیں کھانےپینے سے لطفاندوز نہیں ہونا چاہئے؟ ہرگز نہیں۔ یسوع، سلیمان کے اِس بیان سے واقف تھا: ”مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ انسان کے لئے یہی واعظ ۳:۱۲، ۱۳) لیکن یسوع یہ بھی جانتا تھا کہ دُنیا کی روح انسان کو حد سے زیادہ کھانےپینے پر اُکساتی ہے۔
بہتر ہے کہ خوش وقت ہو اور جب تک جیتا رہے نیکی کرے۔ اور یہ بھی کہ ہر ایک انسان کھائے اور پئے اور اپنی ساری محنت سے فائدہ اُٹھائے۔ یہ بھی خدا کی بخشش ہے۔“ (۱۴ جیہاں، دُنیا کی روح ہماری سوچ کو اِس حد تک آلودہ کر سکتی ہے کہ ہم حد سے زیادہ شراب پینے اور کھانا کھانے کے پھندے میں پھنس سکتے ہیں۔ اِس پھندے کو پہچاننے کے لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: جب بائبل میں یا ہمارے رسالوں میں حد سے زیادہ کھانے سے منع کِیا جاتا ہے تو میرا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ کیا مَیں سوچتا ہوں کہ ایسی ہدایات بہت سخت ہیں یا مجھ پر لاگو نہیں ہوتی ہیں؟ کیا مَیں کھانے کے معاملے میں اپنی عادتوں کے لئے بہانے بنانے لگتا ہوں؟ * بائبل میں شراب کے سلسلے میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر ہم اِسے استعمال کریں تو ہمیں حد سے زیادہ نہیں پینا چاہئے اور ”نشہبازی“ ہرگز نہیں کرنی چاہئے۔ خود سے پوچھیں کہ مَیں بائبل کی اِس ہدایت کو کیسا خیال کرتا ہوں؟ کیا مَیں اِس ہدایت کو اہمیت نہیں دیتا ہوں یاپھر یہ سوچتا ہوں کہ یہ مجھ پر لاگو نہیں ہوتی ہے؟ جب لوگ مجھے اِس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ مَیں زیادہ پی رہا ہوں تو کیا مَیں غصہ ہو جاتا ہوں یاپھر اپنی صفائی پیش کرنے لگتا ہوں؟ کیا مَیں دوسروں کو بائبل کی اِس ہدایت کو نظرانداز کرنے پر اُکساتا ہوں؟ ایک شخص کی سوچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیا وہ دُنیا کی روح سے آلودہ ہو رہا ہے یا نہیں۔—رومیوں ۱۳:۱۱-۱۴ پر غور کریں۔
پریشانیوں سے نپٹنا سیکھیں
۱۵. یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو کونسی ہدایت دی؟
۱۵ دُنیا کی روح کا مقابلہ کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں سے نپٹنا سیکھیں۔ یسوع مسیح جانتا تھا کہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ معمولی باتوں کے بارے میں پریشان ہونے لگتا ہے۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو بڑے پیار سے سمجھایا کہ ”فکر نہ کرنا۔“ (متی ۶:۲۵) یہ سچ ہے کہ ہمیں چند باتوں کی فکر رکھنی چاہئے، مثلاً خدا کی خوشنودی حاصل کرنے، کلیسیا میں اپنی ذمہداریوں کو پورا کرنے اور اپنے خاندان کی ضروریاتِزندگی پوری کرنے کی فکر۔ (۱-کر ۷:۳۲-۳۴) تو پھر متی ۶:۲۵ میں یسوع کس قسم کی فکر سے خبردار کر رہا تھا؟
۱۶. دُنیا کی سوچ کی وجہ سے بہتیرے لوگ کس فکر میں رہتے ہیں؟
۱۶ دُنیا مالودولت کا دکھاوا کرنے پر زور دیتی ہے۔ دُنیا کی سوچ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس جتنا مال ہے اتنا ہی وہ بےفکر رہتے ہیں۔ عام طور پر ایک شخص کی عزت اُس کی خوبیوں کی بجائے اُس کی دولت کی بِنا پر کی جاتی ہے۔ دراصل جو لوگ دُنیا کی اِس سوچ سے دھوکا کھاتے ہیں وہ مالودولت جمع کرنے کی تگودو میں رات دن ایک کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ سب سے جدید اور سب سے شاندار چیزوں کو حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ (امثا ۱۸:۱۱) مالودولت جمع کرنے کو بڑی اہمیت دینے سے ایک شخص غیرضروری فکروں میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ روحانی طور پر نقصان اُٹھاتا ہے۔—متی ۱۳:۱۸، ۲۲ کو پڑھیں۔
۱۷. ہم فکروں میں مبتلا ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
متی ۶:۳۳) ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم اِس وعدے پر بھروسہ رکھتے ہیں؟ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم کاروباری معاملوں میں خدا کی راستبازی کی تلاش کریں یعنی اُس کے اصولوں پر عمل کریں۔ مثال کے طور پر ہم نہ تو ٹیکس کی ادائیگی میں کمیبیشی کرتے ہیں اور نہ ہی نفع کی خاطر چھوٹےموٹے جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر ہمارے قرض ہیں تو ہم اُن کو ادا کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کریں گے۔ اِس سلسلے میں ہم اِس اصول پر عمل کریں گے: ”تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو۔“ (متی ۵:۳۷؛ زبور ۳۷:۲۱) ہو سکتا ہے کہ اِن اصولوں پر عمل کرنے سے ہم دولتمند نہیں بن جائیں گے لیکن ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی، ہمارا ضمیر صاف ہوگا اور ہم بہت سی پریشانیوں سے بچے رہیں گے۔
۱۷ ہم فکروں میں مبتلا ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ایسا کرنے کے لئے ہمیں یسوع کے اِس حکم پر عمل کرنا چاہئے: ”تُم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تُم کو مل جائیں گی۔“ (۱۸. (ا) یسوع مسیح نے ہمارے لئے کونسی عمدہ مثال قائم کی؟ (ب) ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنے سے کونسے فائدے حاصل کرتے ہیں؟
۱۸ خدا کی راستبازی کی تلاش کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اِس بات کی پہچان رکھیں کہ ہمیں کن باتوں کو پہلا درجہ دینا چاہئے۔ اِس سلسلے میں یسوع مسیح کی مثال پر غور کریں۔ وہ کئی موقعوں پر اعلیٰ قسم کا لباس پہنتا تھا۔ (یوح ۱۹:۲۳) وہ دوستوں کی محفل میں اچھی خوراک اور مے سے لطفاندوز ہوتا تھا۔ (متی ۱۱:۱۸، ۱۹) البتہ ایسی چیزیں یسوع کی زندگی کا مرکز نہیں تھیں۔ دراصل یسوع اِن کو نمک مسالا کی طرح خیال کرتا تھا جو کھانے کو مزیدار بناتا ہے لیکن کھانے کی جگہ نہیں لیتا ہے۔ یسوع کے نزدیک اُس کا کھانا اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کرنا تھا۔ (یوح ۴:۳۴-۳۶) یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنے سے ہماری زندگی بامقصد ہو جاتی ہے۔ ہم مظلوم لوگوں کو بائبل کی سچائیاں سکھانے سے بڑی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں کلیسیا کے بہنبھائیوں کا سہارا اور اُن کی محبت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہوواہ خدا کے دل کو شاد کرتے ہیں۔ جب ہم اِس بات کی پہچان رکھتے ہیں کہ ہمیں کن باتوں کو پہلا درجہ دینا چاہئے تو ہم تفریح اور مادی چیزوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔ اس کی بجائے ہم انہیں صرف اِس حد تک اہمیت دیں گے کہ ہم ان کی مدد سے یہوواہ خدا کی خدمت کو جاری رکھ سکیں۔ ہم خدا کی خدمت میں جتنا وقت صرف کریں گے اُتنا ہی ہم دُنیا کی روح کے قبضے میں آنے سے بچے رہیں گے۔
’روحانی نیت رکھیں‘
۱۹-۲۱. (ا) ہم ”روحانی نیت“ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ (ب) ایسا کرنا اہم کیوں ہے؟
۱۹ یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ کرنے سے پہلے ہم اِس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لہٰذا بہت سے ایسے کام جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ یہ سوچےسمجھے بغیر کئے گئے ہیں دراصل یہ جسمانی سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اِس وجہ سے پولس رسول نے ہمیں اپنی سوچ کے بارے میں خبردار رہنے کو کہا۔ اُس نے لکھا: ”جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔“—روم ۸:۵۔
۲۰ ہم اپنی سوچ کو دُنیا کی روح سے آلودہ ہونے سے کیسے بچائے رکھ سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے خیالات کو قابو میں رکھنا چاہئے تاکہ دُنیا کی روح ہم پر اثر نہ کر سکے۔ مثال کے طور پر ہمیں ایسی فلمیں اور پروگرام نہیں دیکھنے چاہئیں جو ظلموتشدد اور جنسی بداخلاقی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا اپنی پاک روح ایک ایسے شخص کو نہیں بخشتا ہے جس کا ذہن دُنیاوی سوچ سے آلودہ ہے۔ (زبور ۱۱:۵؛ ۲-کر ۶:۱۵-۱۸) خدا کی پاک روح پانے کے لئے ہمیں باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرنا، اِس پر غوروخوض کرنا، دُعا کرنا اور تمام اجلاسوں پر حاضر ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہمیں خدا کی پاک روح کی ہدایت کے مطابق باقاعدگی سے بادشاہت کی خوشخبری سنانی چاہئے۔
۲۱ ہمیں دُنیا کی روح اور اُس کی بدکار خواہشات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ایسا کرنے سے ہمیں بڑا فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ پولس رسول نے کہا: ”جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔“—روم ۸:۶۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 14 ایک شخص کی جسامت سے اِس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ آیا وہ حد سے زیادہ کھانے کی عادت میں مبتلا ہے یا نہیں۔ ایک دُبلاپتلا شخص بھی کھانےپینے کے معاملے میں لالچی ہو سکتا ہے۔ کئی اشخاص کسی بیماری کی وجہ سے موٹے ہو جاتے ہیں یاپھر وہ خاندانی طور پر زیادہ جسامت رکھتے ہیں۔ چاہے ایک شخص موٹا ہو یا دُبلا، اُسے اُس وقت کھاؤ قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ کھانے کے معاملے میں نہایت لالچی ہو اور حد سے زیادہ کھانے کی عادت رکھتا ہو۔—مینارِنگہبانی نومبر۱، ۲۰۰۴ میں مضمون ”سوالات از قارئین“ کو بھی دیکھیں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• خدا کی پاک روح کو پانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
• دُنیا کی روح ہمیں کن طریقوں سے متاثر کر سکتی ہے؟
• ہم دُنیا کی روح کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
اپنی سوچ کو آلودہ ہونے سے بچائے رکھیں، کاروباری معاملوں میں خدا کے اصولوں پر عمل کریں اور حد سے زیادہ کھانےپینے سے گریز کریں
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
سکول یا کام پر جانے سے پہلے خدا سے پاک روح کی درخواست کریں