زندگی کا مقصد کیا ہے؟
زندگی کا مقصد کیا ہے؟
اِس سوال کا جواب حاصل کرنا کیوں اہم ہے؟ ایسے لوگ جن کا خیال ہے کہ اُن کی زندگی بےمعنی ہے وہ اکثر نااُمید ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص جو کسی خاص مقصد کے لئے زندگی بسر کرتا ہے وہ بڑی سے بڑی مشکل کو برداشت کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ ماہرِنفسیات وِکٹر فرانکل جنہوں نے نازیوں کے ہاتھ اذیت سہی، اُنہوں نے لکھا: ”میرا دعویٰ ہے کہ جو بات انسان کو کٹھن حالات برداشت کرنے کی سب سے زیادہ قوت دیتی ہے، وہ یہ علم ہے کہ اُس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے۔“
البتہ جہاں تک زندگی کے مقصد کا تعلق ہے، لوگ اِس کے بارے میں طرح طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہر شخص کو خود ہی طے کرنا چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کس مقصد کے لئے بسر کرے گا۔ جبکہ ارتقا کے نظریے کو ماننے والوں کا دعویٰ ہے کہ زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے۔
ہم زندگی کے مقصد کو کیسے دریافت کر سکتے ہیں؟ اصل میں اِس کے بارے میں ہمیں وہی ہستی بتا سکتی ہے جس نے ہمیں زندگی عطا کی ہے، یعنی یہوواہ خدا۔ آئیں دیکھیں کہ خدا کے کلام میں اِس سلسلے میں کیا بتایا گیا ہے۔
پاک صحائف کی تعلیم کیا ہے؟
پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ خدا نے پہلے مرد اور پہلی عورت کو ایک خاص مقصد کے لئے خلق کِیا تھا۔ اُس نے آدم اور حوا کو یوں حکم دیا:
پیدایش ۱:۲۸۔ ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔“
خدا نے آدم اور حوا کو اِس مقصد کے لئے خلق کِیا تاکہ وہ اور اُن کی اولاد پوری زمین کو فردوس بنائیں۔ خدا نہ تو یہ چاہتا تھا کہ انسان بوڑھا ہو کر مر جائے اور نہ ہی یہ کہ انسان زمین کو آلُودہ کرے۔ یہ سب اس لئے ہوا کیونکہ آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کرکے گُناہ کِیا۔ اُن کے گُناہ کی وجہ سے ہم سب نے گُناہ اور موت کو ورثے میں پایا ہے۔ (پیدایش ۳:۲-۶؛ رومیوں ۵:۱۲) اس کے باوجود انسانوں کے لئے یہوواہ خدا کا مقصد اب بھی وہی ہے۔ جلد ہی زمین ایک فردوس بن جائے گی۔—یسعیاہ ۵۵:۱۰، ۱۱۔
یہوواہ خدا نے ہمیں ایسی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ خلق کِیا جن کے ذریعے ہم اُس کے مقصد کو پورا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اُس نے ہمیں اس طرح خلق نہیں کِیا کہ ہم اُس کی ہدایت کے بغیر زندگی گزار سکیں۔ ذرا دیکھیں کہ اِن صحیفوں میں اُس نے ہمیں کونسی ہدایات فراہم کی ہیں۔
واعظ ۱۲:۱۳۔ ”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔“
میکاہ ۶:۸۔ ”[یہوواہ] تجھ سے اِس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تُو انصاف کرے اور رحمدلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟“
متی ۲۲:۳۷-۳۹۔ ”[یہوواہ] اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔“
یہ جان کر ہمیں دلی سکون کیوں ملتا ہے؟
ذرا ایک مثال پر غور کریں۔ ہر مشین کسی مخصوص مقصد کے لئے بنائی جاتی ہے۔ وہ صرف اُس صورت میں صحیح طرح سے کام کرے گی اگر اِسے اُسی مقصد کے لئے استعمال کِیا جائے جس کے لئے وہ بنائی گئی ہے ورنہ وہ ٹوٹ
سکتی ہے۔ اسی طرح ہمیں اُس مقصد کے لئے اپنی زندگی گزارنی چاہئے جس کے لئے ہمارے خالق نے ہمیں بنایا ہے۔ ورنہ ہم جسمانی، روحانی یا ذہنی طور پر نقصان اُٹھائیں گے۔ ذرا چند نکات پر غور کیجئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم اُس مقصد سے واقف ہیں جو خدا نے انسان کے لئے ٹھہرایا ہے تو ہم اطمینان پائیں گے۔ہمیں زندگی میں کونسی باتوں کو اہمیت دینی چاہئے؟ آجکل بہت سے لوگ مالودولت حاصل کرنے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ تاہم پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ . . . آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں۔“—۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰۔
اس کے برعکس ایسے لوگ جو دولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے خدا کی خدمت کو پہلا درجہ دیتے ہیں، وہ مطمئن رہتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۶:۷، ۸) وہ جانتے ہیں کہ اُنہیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت کرنی چاہئے۔ (افسیوں ۴:۲۸) لیکن وہ یسوع مسیح کی اِس آگاہی پر بھی دھیان دیتے ہیں: ”کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔ یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تُم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔“—متی ۶:۲۴۔
اِس وجہ سے خدا سے محبت رکھنے والے لوگ ملازمت کو یا دولت جمع کرنے کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں بلکہ وہ خدا کی مرضی پوری کرنے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی کا مرکز بنا لیتے ہیں، خدا اُن کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ درحقیقت خدا نے ایسا کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔—متی ۶:۲۵-۳۳۔
دوسروں سے پیش آتے وقت بہت سے لوگ اپنے ہی فائدے کا خیال رکھتے ہیں۔ آج کی دُنیا میں لڑائیجھگڑے اس لئے اتنے عام ہو گئے ہیں کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد ’خودغرض اور محبت سے خالی‘ ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۲، ۳) ایسے لوگ جب دوسروں سے ناخوش ہوتے ہیں یا اُن کی رائے سے متفق نہیں ہوتے تو وہ ”قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی“ کرنے پر اُتر آتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۳۱) جو شخص ضبط نہیں کر سکتا اُس کو سکون نہیں ملتا بلکہ وہ ”فتنہ برپا کرتا ہے۔“—امثال ۱۵:۱۸۔
اس کے برعکس جو لوگ خدا کے حکم کے مطابق اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھتے ہیں وہ ’ایک دوسرے پر مہربان اور نرمدل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرتے ہیں۔‘ (افسیوں ۴:۳۲؛ کلسیوں ۳:۱۳) جب دوسرے لوگ اُن کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں تو وہ یسوع مسیح کی مثال کی نقل کرتے ہیں جو ’گالیاں کھا کر گالی نہیں دیتا تھا۔‘ (۱-پطرس ۲:۲۳) یسوع مسیح کی طرح وہ دوسرے لوگوں کی خدمت کرنے سے مطمئن ہوتے ہیں، چاہے لوگ اِس کی قدر کریں یا نہیں۔ (متی ۲۰:۲۵-۲۸؛ یوحنا ۱۳:۱۴، ۱۵؛ اعمال ۲۰:۳۵) یہوواہ خدا اپنی پاک رُوح ایسے لوگوں کو بخشتا ہے جو یسوع مسیح کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ پاک رُوح انسان کے دل میں اطمینان پیدا کرتی ہے۔—گلتیوں ۵:۲۲۔
آپ یہ جان کر کہ مستقبل کیا لائے گا دلی سکون کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۶ پر عبارت]
انسان کو زندگی میں ایک خاص مقصد کی ضرورت ہوتی ہے
[صفحہ ۷ پر تصویر]
ہم مطمئن ہونے کا راز یسوع مسیح سے سیکھ سکتے ہیں