مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمیشہ کی زندگی دینے والے کی مثال پر عمل کریں

ہمیشہ کی زندگی دینے والے کی مثال پر عمل کریں

‏”‏عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔‏“‏—‏افس 5:‏1‏۔‏

1.‏ کس صلاحیت کو کام میں لانے سے ہم یہوواہ جیسی خوبیاں ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

یہوواہ خدا نے ہمیں دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنے کی صلاحیت دی ہے۔‏ اِس صلاحیت کی وجہ سے ہم کسی حد تک اُن حالات کا تصور کر سکتے ہیں جن کا ہم نے کبھی خود سامنا نہیں کِیا۔‏ ‏(‏افسیوں 5:‏1،‏ 2 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس صلاحیت کو کام میں لانے سے ہم یہوواہ جیسی خوبیاں کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں اِس صلاحیت کو سمجھ‌داری سے کیوں اِستعمال کرنا چاہیے؟‏

2.‏ ہمیں تکلیف میں دیکھ کر یہوواہ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏

2 ہمیں خوشی ہے کہ یہوواہ خدا نے یہ وعدہ کِیا ہے کہ وہ ممسوح مسیحیوں کو آسمان پر غیرفانی زندگی عطا کرے گا اور یسوع مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو زمین پر ہمیشہ کی زندگی بخشے گا۔‏ (‏یوح 10:‏16؛‏ 17:‏3؛‏ 1-‏کر 15:‏53‏)‏ بِلاشُبہ آسمان اور زمین پر زندگی پانے والوں کو اُس دُکھ تکلیف کا سامنا نہیں ہوگا جو آج‌کل عام ہے۔‏ جس طرح یہوواہ مصر میں اپنے لوگوں کی تکلیفوں سے واقف تھا اُسی طرح وہ ہمارے دُکھ درد کو بھی جانتا ہے۔‏ اِسرائیلیوں کی ”‏تمام مصیبتوں میں وہ مصیبت‌زدہ ہوا۔‏“‏ (‏یسع 63:‏9‏)‏ اِس کے کئی صدیوں بعد جب اُس کے بندے ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے لگے تو وہ آس‌پاس کے لوگوں کی دھمکیوں سے ڈر گئے۔‏ لیکن یہوواہ نے اپنے بندوں سے کہا:‏ ”‏جو کوئی تُم کو چُھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چُھوتا ہے۔‏“‏ (‏زک 2:‏8‏)‏ جیسے ایک ماں اپنے بچے سے پیار کرتی ہے ویسے ہی یہوواہ خدا اپنے خادموں سے پیار کرتا ہے اور اُن کی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔‏ (‏یسع 49:‏15‏)‏ یہوواہ دوسروں کے احساسات کو محسوس کر لیتا ہے اور یہی صلاحیت اُس نے ہمیں بھی دی ہے۔‏—‏زبور 103:‏13،‏ 14‏۔‏

یسوع مسیح نے یہوواہ جیسی محبت ظاہر کی

3.‏ یسوع مسیح لوگوں کے ساتھ پیار سے کیوں پیش آتے تھے؟‏

3 یسوع مسیح بھی لوگوں کے درد کو محسوس کر لیتے تھے حالانکہ شاید وہ خود بعض ایسی مشکلات سے نہیں گزرے تھے جن سے لوگ گزر رہے تھے۔‏ مثال کے طور پر لوگ مذہبی پیشواؤں سے ڈرتے تھے جنہوں نے اُنہیں گمراہ کِیا ہوا تھا اور اُن پر اِنسانی روایتوں کا بوجھ ڈال رکھا تھا۔‏ (‏متی 23:‏4؛‏ مر 7:‏1-‏5؛‏ یوح 7:‏13‏)‏ یسوع مسیح اُن پیشواؤں سے نہ تو ڈرتے تھے اور نہ ہی اُن کی تعلیم کو مانتے تھے پھر بھی وہ لوگوں کے احساسات کو محسوس کر سکتے تھے۔‏ اِسی لیے ”‏جب اُس نے بِھیڑ کو دیکھا تو اُس کو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ تھے۔‏“‏ (‏متی 9:‏36‏)‏ اپنے آسمانی باپ کی طرح یسوع مسیح بھی بڑے ”‏رحیم اور کریم“‏ تھے۔‏—‏زبور 103:‏8‏۔‏

4.‏ دوسروں کو مشکل میں دیکھ کر یسوع مسیح کو کیا کرنے کی ترغیب ملتی تھی؟‏

4 چونکہ یسوع مسیح لوگوں سے پیار کرتے تھے اِس لیے جب وہ اُنہیں مشکل میں دیکھتے تھے تو وہ اُن کی مدد کرتے تھے۔‏ یوں اُنہوں نے اُسی طرح محبت ظاہر کی جیسے یہوواہ خدا کرتا ہے۔‏ ایک مرتبہ مُنادی کا کام کرنے کے بعد یسوع مسیح اور اُن کے رسول کسی جگہ آرام کرنے جا رہے تھے۔‏ لیکن اُن کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ایک بہت بڑی بِھیڑ وہاں پہنچ گئی۔‏ یسوع مسیح کو اُن پر ترس آیا اور وہ ”‏اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے“‏ لگے۔‏—‏مر 6:‏30،‏ 31،‏ 34‏۔‏

ہم یہوواہ جیسی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

5،‏ 6.‏ یہوواہ خدا کی طرح محبت ظاہر کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

5 یہوواہ خدا کی طرح محبت ظاہر کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ فرض کریں کہ ایک نوجوان بھائی جس کا نام ایلن ہے،‏ وہ ایک ایسے عمررسیدہ بھائی کے بارے میں سوچ رہا ہے جس کی نظر کمزور ہے اور وہ اچھی طرح چل نہیں سکتا۔‏ ایلن کو یسوع مسیح کی یہ بات یاد آتی ہے:‏ ”‏جیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔‏“‏ (‏لو 6:‏31‏)‏ لہٰذا ایلن خود سے پوچھتا ہے:‏ ”‏مَیں دوسروں سے کیا چاہتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ کریں؟‏“‏ پھر وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں تو چاہتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں۔‏“‏ لیکن وہ عمررسیدہ بھائی تو کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔‏ تو ایلن کو دراصل خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ”‏اگر مَیں اُس بھائی کی جگہ ہوتا تو پھر مَیں دوسروں سے کیا چاہتا کہ وہ میرے ساتھ کریں؟‏“‏

6 حالانکہ ایلن نوجوان ہے پھر بھی وہ اِس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ اگر وہ بوڑھا ہوتا تو کیسا محسوس کرتا۔‏ وہ اُس عمررسیدہ بھائی کے ساتھ وقت گزارتا ہے اور اُس کی باتیں بڑے دھیان سے سنتا ہے۔‏ یوں وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس بھائی کے لیے بائبل کو پڑھنا اور گھر گھر مُنادی کرنا بہت مشکل ہے۔‏ اِس لیے ایلن کے دل میں اُس بھائی کی مدد کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‏ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‏ یہوواہ جیسی محبت ظاہر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کے احساسات کو محسوس کریں۔‏—‏1-‏کر 12:‏26‏۔‏

یہوواہ جیسی محبت ظاہر کریں (‏پیراگراف 7 کو دیکھیں۔‏)‏

7.‏ دوسروں کی تکلیفوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

7 دوسروں کی تکلیف کو سمجھنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا،‏ خاص طور پر اُس وقت جب ہم نے اُن مشکلوں کا سامنا نہیں کِیا جن سے وہ گزر رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہمارے بہت سے بہن بھائی کسی بیماری،‏ حادثے یا بڑھاپے کی وجہ سے تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔‏ کچھ افسردگی کا شکار ہیں،‏ کچھ فکروں میں اُلجھے ہوئے ہیں جبکہ کچھ ماضی کی کسی بدسلوکی کی وجہ سے تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔‏ کچھ بہن بھائی اپنے بچوں کی پرورش اکیلے کر رہے ہیں یا پھر اُن کے گھر والے یہوواہ کی خدمت نہیں کرتے۔‏ مشکلات تو سب پر آتی ہیں لیکن سب کو ایک جیسی مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا۔‏ ایسی صورت میں ہم یہوواہ جیسی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ ہر ایک کی صورتحال فرق ہوتی ہے۔‏ اِس لیے اگر ہم دوسروں کی بات کو دھیان سے سنیں گے اور اُن کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو ہم اُن کی اچھی طرح مدد کر پائیں گے،‏ مثلاً ہم اُنہیں یقین دِلا سکتے ہیں کہ یہوواہ اُن کی مشکل سے واقف ہے اور اُس کو اُن کی فکر ہے۔‏ یا پھر ہم کچھ اَور ایسے طریقوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جن سے ہم اُن کے کام آ سکتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے۔‏‏—‏رومیوں 12:‏15؛‏ 1-‏پطرس 3:‏8 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ جیسی نرمی ظاہر کریں

8.‏ یسوع مسیح دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کے قابل کیوں ہوئے؟‏

8 یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏خدا تعالےٰ .‏ .‏ .‏ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔‏“‏ (‏لو 6:‏35‏)‏ یسوع بھی دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے۔‏ وہ ایسا کرنے کے قابل کیوں ہوئے؟‏ وہ پہلے سے اِس بات کے بارے میں سوچتے تھے کہ اُن کی باتوں اور کاموں کا دوسروں کے جذبات پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ایک بار ایک بدچلن عورت اُن کے پاس آئی اور اُن کے پاؤں پر گِر کر اِتنا روئی کہ اُن کے پاؤں بھیگ گئے۔‏ یسوع جانتے تھے کہ اُس نے اپنے گُناہوں سے توبہ کر لی ہے اور اگر اُنہوں نے اُسے ڈانٹ دیا تو وہ اَور بھی دُکھی ہو جائے گی۔‏ لہٰذا اُنہوں نے اُسے شاباش دی اور اُس کے گُناہ معاف کر دیے۔‏ جب ایک فریسی نے اِس بات پر اِعتراض کِیا تو یسوع نے اُسے بھی بڑی نرمی سے جواب دیا۔‏—‏لو 7:‏36-‏48‏۔‏

9.‏ ہم یہوواہ کی طرح نرمی اور مہربانی ظاہر کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏ مثال دیں۔‏

9 ہم یہوواہ کی طرح نرمی اور مہربانی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں کوئی بھی بات اپنے مُنہ سے نکالنے سے پہلے سوچنا چاہیے تاکہ ہم دوسروں کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے۔‏“‏ (‏2-‏تیم 2:‏24‏)‏ ذرا سوچیں کہ آپ اِن صورتوں میں دوسروں کے ساتھ نرمی سے کیسے پیش آ سکتے ہیں:‏ اگر آپ کے کام کی جگہ پر کوئی شخص اپنا کام صحیح طرح نہیں کرتا تو آپ کیا کریں گے؟‏ اگر ایک بھائی کئی مہینوں بعد اِجلاس پر آتا ہے تو آپ اُس سے کیا کہیں گے؟‏ اگر کوئی صاحبِ‌خانہ آپ سے کہتا ہے کہ ”‏مَیں بہت مصروف ہوں“‏ تو آپ کیسا ردِعمل ظاہر کریں گے؟‏ اگر آپ کا جیون ساتھی پوچھتا ہے کہ ”‏آپ نے اِتوار کے دن کے لیے جو منصوبہ بنایا ہے،‏ اُس کے بارے میں مجھے کیوں نہیں بتایا؟‏“‏ تو آپ کیسے جواب دیں گے؟‏ ایسی صورتوں میں ہمیں دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنا چاہیے اور اِس بات کا تصور کرنا چاہیے کہ ہماری باتوں کا دوسروں پر کیا اثر ہوگا۔‏ یوں ہم اپنی باتوں اور کاموں سے یہوواہ جیسی نرمی ظاہر کر پائیں گے۔‏‏—‏امثال 15:‏28 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ کی طرح حکمت سے کام لیں

10،‏ 11.‏ ہم یہوواہ کی طرح حکمت سے کام لینے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏ مثال دیں۔‏

10 ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہم اُن حالات کا تصور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کا ہم نے کبھی خود سامنا نہیں کِیا۔‏ اِس صلاحیت کی بدولت ہم یہوواہ کی طرح حکمت سے کام لے سکتے ہیں اور اپنے کاموں کے نتائج کو پہلے سے بھانپ سکتے ہیں۔‏ حکمت یہوواہ کی بنیادی صفات میں شامل ہے۔‏ اور اگر وہ چاہے تو وہ ہمارے کاموں کے انجام کو مکمل طور پر دیکھ سکتا ہے۔‏ ہم تو ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہم میں یہوواہ جتنی حکمت نہیں ہے۔‏ پھر بھی یہ ضروری ہے کہ ہم کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اُس کے نتائج کے بارے میں سوچیں۔‏ ہمیں بنی‌اِسرائیل کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔‏ اُنہوں نے ذرا بھی نہ سوچا کہ اگر وہ یہوواہ کی نافرمانی کریں گے تو اُن کا انجام کیا ہوگا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کے سب کاموں کو اور اُس کے ساتھ اپنی دوستی کو نظرانداز کر دیا۔‏ چونکہ موسیٰ سمجھتے تھے کہ بنی‌اِسرائیل اپنے کاموں کے نتائج کے بارے میں نہیں سوچتے اِس لیے وہ جانتے تھے کہ اِسرائیلی آئندہ بھی گُناہ کریں گے۔‏ موسیٰ نے ساری قوم سے کہا کہ ”‏وہ ایک ایسی قوم ہیں جو مصلحت سے خالی ہو اُن میں کچھ سمجھ نہیں۔‏ کاش وہ عقل‌مند ہوتے کہ اِس کو سمجھتے اور اپنی عاقبت پر غور کرتے!‏“‏—‏است 31:‏29،‏ 30؛‏ 32:‏28،‏ 29‏۔‏

11 یہوواہ کی طرح حکمت سے کام لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اُس کے نتائج کے بارے میں سوچیں۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ کسی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور اِس اِرادے سے آپ دونوں اکثر ملتے جلتے ہیں تو آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی صورتحال میں جنسی خواہشات کو قابو میں رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ اِس لیے کبھی ایسا کام نہ کریں جو یہوواہ کے ساتھ آپ کی بیش‌قیمت دوستی کو نقصان پہنچائے۔‏ اِس کی بجائے پاک کلام کی یہ بات ذہن میں رکھیں:‏ ”‏ہوشیار بلا کو دیکھ کر چھپ جاتا ہے لیکن نادان بڑھے چلے جاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔‏“‏—‏امثا 22:‏3‏۔‏

اپنے خیالات کو قابو میں رکھیں

12.‏ ہمارے خیالات ہمیں نقصان کیسے پہنچا سکتے ہیں؟‏

12 ایک عقل‌مند شخص سمجھتا ہے کہ ہمارے خیالات  آگ کی طرح ہوتے ہیں۔‏ یہ یا تو ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں یا پھر نقصان۔‏ جب ہم آگ کو احتیاط سے اِستعمال کرتے ہیں تو ہم اِس سے مختلف کام لے سکتے ہیں جیسے کہ کھانا پکانا۔‏ لیکن اگر یہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے تو ہمارے گھر اور عزیزوں کو تباہ کر سکتی ہے۔‏ اِسی طرح اگر ہم یہوواہ کی صفات کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں اُس کی مثال پر عمل کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ لیکن اگر ہمارے خیالات بُری باتوں سے بھرے رہتے ہیں تو یہ ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ہم گندے کاموں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں تو زیادہ اِمکان ہے کہ ہم وہ کام کریں گے اور یوں یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی تباہ کر لیں گے۔‏‏—‏یعقوب 1:‏14،‏ 15 کو پڑھیں۔‏

13.‏ حوا نے کس طرح کی زندگی گزارنے کا تصور کِیا ہوگا؟‏

13 ذرا حوا کی مثال پر غور کریں۔‏ اُن کے دل میں ”‏نیک‌وبد کی پہچان کے درخت“‏ کا پھل کھانے کی خواہش کیسے پیدا ہوئی؟‏ (‏پید 2:‏16،‏ 17‏)‏ سانپ نے اُن سے کہا تھا:‏ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔‏“‏ حوا نے ”‏دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوش‌نما معلوم ہوتا ہے۔‏“‏ اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟‏ اُنہوں نے ”‏پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا۔‏“‏ (‏پید 3:‏1-‏6‏)‏ حوا کو شیطان کی باتوں میں اپنا فائدہ نظر آیا۔‏ اُنہیں یہ بات پسند آئی کہ اچھے بُرے کا فیصلہ کرنے کے لیے اُنہیں خدا سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ خود یہ فیصلہ کر سکتی ہیں۔‏ شیطان کی باتوں پر سوچتے رہنے سے بڑا نقصان ہوا۔‏ اُن کے گُناہ میں شریک ہونے والے اُن کے شوہر آدم کی وجہ سے ”‏گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی۔‏“‏—‏روم 5:‏12‏۔‏

14.‏ بائبل میں بدکاری سے بچنے کے سلسلے میں کیا نصیحت کی گئی ہے؟‏

14 حوا نے بدکاری تو نہیں کی تھی لیکن وہ غلط کام کے بارے میں سوچتی رہیں اور یوں گُناہ کر بیٹھیں۔‏ یسوع مسیح نے بتایا کہ بدکاری کرنے کے بارے میں سوچتے رہنا خطرناک ہوتا ہے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا۔‏“‏ (‏متی 5:‏28‏)‏ پولُس رسول نے بھی نصیحت کی کہ ”‏جسم کی خواہشوں کے لئے تدبیریں نہ کرو۔‏“‏—‏روم 13:‏14‏۔‏

15.‏ ہمیں کہاں پر خزانہ جمع کرنا چاہیے اور کیوں؟‏

15 امیر بننے کے خواب دیکھنا بھی نقصان‌دہ ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اِس کی وجہ سے شاید ہم خدا کی خدمت پر دھیان نہ دیں۔‏ دراصل ”‏دولت‌مند آدمی کا مال .‏ .‏ .‏ اُس کے تصور میں اُونچی دیوار کی مانند ہے۔‏“‏ (‏امثا 18:‏11‏)‏ یسوع مسیح نے اپنی ایک تمثیل میں بتایا کہ اُس آدمی کی حالت کتنی افسوس‌ناک ہوتی ہے ”‏جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولت‌مند نہیں“‏ ہوتا۔‏ (‏لو 12:‏16-‏21‏)‏ لیکن یہوواہ تب بہت خوش ہوتا ہے جب ہم اُس کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں۔‏ (‏امثا 27:‏11‏)‏ ”‏آسمان پر مال جمع“‏ کرنے کی وجہ سے ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور یہ ہمارے لیے بڑی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔‏ (‏متی 6:‏20‏)‏ یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی یقیناً ہماری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔‏

فکروں پر قابو پائیں

16.‏ پریشانی اور فکر پر قابو پانے کا ایک طریقہ کیا ہے؟‏

16 ذرا سوچیں کہ اگر ہم ”‏زمین پر مال جمع“‏ کرنے کی جستجو میں رہیں گے تو ہم کتنی پریشانیوں میں ڈوب جائیں گے۔‏ (‏متی 6:‏19‏)‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏دُنیا کی فکر اور دولت کا فریب“‏ بادشاہت کے پیغام کو دبا سکتا ہے۔‏ (‏متی 13:‏18،‏ 19،‏ 22‏)‏ بعض لوگوں کو چاہے پیسے کی فکر ہو یا نہ ہو،‏ وہ ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ اُن کے ساتھ کچھ بُرا ہونے والا ہے۔‏ لیکن اگر فکر اور پریشانی کو قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ ہمیں جسمانی اور روحانی دونوں طرح سے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‏ ہمیشہ یہوواہ پر بھروسا رکھیں اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ ”‏آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔‏“‏ (‏امثا 12:‏25‏)‏ لہٰذا اگر آپ پریشانی میں مبتلا ہیں تو کسی ایسی گواہ بہن یا بھائی سے بات کریں جو آپ کو اچھی طرح جانتا ہے۔‏ آپ کے والدین،‏ آپ کا جیون ساتھی یا پھر دوست،‏ یہوواہ پر بھروسا کرنے کے سلسلے میں آپ کی حوصلہ‌افزائی کر سکتا ہے اور آپ کی پریشانی کا بوجھ بانٹ سکتا ہے۔‏

17.‏ یہوواہ خدا فکروں پر قابو پانے کے سلسلے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

17 یہوواہ سے بہتر اَور کوئی ہماری فکروں کو نہیں سمجھتا۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏ تو خدا کا اِطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔‏“‏ (‏فل 4:‏6،‏ 7‏)‏ لہٰذا جب آپ فکرمند ہوں تو یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا آپ کے مسیحی بہن بھائیوں،‏ بزرگوں،‏ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر،‏ فرشتوں اور یسوع مسیح کے ذریعے آپ کی مدد کرتا ہے تاکہ اُس کے ساتھ آپ کی دوستی مضبوط رہے۔‏

18.‏ دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنے کی صلاحیت سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

18 ہم نے سیکھ لیا ہے کہ دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنے کی صلاحیت کو اِستعمال کرنے سے ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏یوح 4:‏8‏)‏ جب ہم دوسروں کے ساتھ محبت اور نرمی سے پیش آتے ہیں؛‏ جب ہم کاموں کے نتائج کا تصور کرتے ہیں اور جب ہم فکروں میں اُلجھنے سے بچتے ہیں تو ہم خوش رہتے ہیں۔‏ آئیں،‏ ہم خدا کے وعدوں کی تکمیل کو اپنے ذہن کی آنکھوں سے دیکھتے رہیں۔‏ اور اِس صلاحیت کی بدولت یہوواہ کی طرح محبت،‏ نرمی،‏ اور حکمت بھی ظاہر کرتے رہیں۔‏—‏روم 12:‏12‏۔‏