بزرگو، آپ بھائیوں کو تربیت دینے کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
”ہر چیز کا ایک ... وقت ہے۔“—واعظ 3:1۔
1، 2. حلقے کے نگہبانوں نے بہت سی کلیسیاؤں میں کون سی صورتحال دیکھی ہے؟
ایک حلقے کا نگہبان بزرگوں کی جماعت کے ساتھ اِجلاس کر رہا تھا۔ اُسے اِن بزرگوں پر بہت پیار آ رہا تھا کیونکہ وہ کلیسیا میں بڑی محنت سے کام کر رہے تھے۔ اِن میں سے کچھ بزرگ تو اُس کے باپ کی عمر کے تھے۔ اِس حلقے کے نگہبان کو اِن بزرگوں سے محبت تو تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اُسے ایک بات کی فکر بھی تھی۔ اِس لیے اُس نے بزرگوں سے پوچھا: ”بھائیو، آپ نے دوسرے بھائیوں کو تربیت دینے کے سلسلے میں کیا کچھ کِیا ہے تاکہ وہ کلیسیا میں اَور ذمےداریاں اُٹھانے کے لائق بنیں؟“ اِن بزرگوں کو اچھی طرح سے یاد تھا کہ پچھلی دفعہ حلقے کے نگہبان نے اُن کی حوصلہافزائی کی تھی کہ وہ دوسروں کو تربیت دینے کے معاملے پر زیادہ توجہ دیں۔ آخرکار ایک بزرگ نے جواب دیا: ”سچ کہوں تو ہم نے اِس سلسلے میں کچھ خاص اِقدام نہیں اُٹھائے۔“ باقی بزرگوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کِیا۔
2 اگر آپ بزرگ ہیں اور حلقے کا نگہبان آپ سے یہ سوال پوچھتا ہے تو کیا آپ کا جواب بھی یہی ہوگا؟ شاید ہاں۔ پوری دُنیا میں حلقے کے نگہبانوں نے دیکھا ہے کہ بہت سی کلیسیاؤں میں بزرگوں کو ہر عمر کے بھائیوں کو تربیت دینے کے لیے زیادہ وقت نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بھائی بھی کلیسیا کی
دیکھبھال کرنے میں مدد کر سکیں۔ لیکن بزرگوں کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟3. (الف) بائبل میں تربیت دینے کی اہمیت پر کیسے زور دیا گیا ہے اور ہم سب کو اِس بات میں دلچسپی کیوں لینی چاہیے؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔) (ب) بعض بزرگوں کو تربیت دینا مشکل کیوں لگ سکتا ہے؟
3 ایک چرواہے کے طور پر آپ یقیناً اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو تربیت دینا اہم ہے۔ * آپ جانتے ہیں کہ کلیسیاؤں کو روحانی طور پر مضبوط رکھنے اور نئی کلیسیائیں قائم کرنے کے لیے زیادہ لائق بھائیوں کی ضرورت ہے۔ (یسعیاہ 60:22 کو پڑھیں۔) آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کے کلام میں آپ کو نصیحت کی گئی ہے کہ آپ دوسروں کو سکھائیں۔ (2-تیمتھیس 2:2 کو پڑھیں۔) مگر اِن سب باتوں کے باوجود آپ کے لیے بھائیوں کو تربیت دینے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ پر گھر والوں کی ذمےداری ہے، آپ ملازمت پیشہ ہیں، آپ کو کلیسیا میں ذمےداریاں نبھانی پڑتی ہیں اور دیگر ضروری معاملات نپٹانے پڑتے ہیں۔ سچ ہے کہ آپ کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں لیکن آئیں، دیکھیں کہ دوسروں کو تربیت دینا اِس قدر اہم کیوں ہے۔
تربیت دینے کی اہمیت
4. بعض اوقات بزرگ تربیت دینے کے کام کو کیوں ٹالتے رہتے ہیں؟
4 بعض بزرگوں کو بھائیوں کو تربیت دینے کے لیے وقت نکالنا مشکل کیوں لگتا ہے؟ شاید کچھ بزرگ سوچیں: ”تربیت دینا اہم تو ہے لیکن کلیسیا میں بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جنہیں فوراً حل کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ اگر مَیں تھوڑے عرصے کے لیے کسی بھائی کو تربیت نہیں بھی دیتا تو بھی کلیسیا چلتی رہے گی۔“ سچ ہے کہ کلیسیا کے بعض معاملات کو فوراً حل کِیا جانا چاہیے لیکن اگر تربیت دینے کے کام کو ٹالا جائے گا تو اِس سے کلیسیا کو روحانی لحاظ سے نقصان ہو سکتا ہے۔
5، 6. (الف) ایک ڈرائیور انجن میں تیل بدلنے کے سلسلے میں کیا سوچ سکتا ہے؟ (ب) بزرگ کلیسیا کے بھائیوں کو تربیت دینے کے سلسلے میں ڈرائیور کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
5 ذرا اِس مثال پر غور کریں: ایک ڈرائیور جانتا ہے کہ اُسے اپنی گاڑی کے انجن کو رواں رکھنے کے لیے اُس کا تیل باقاعدگی سے بدلنا چاہیے۔ لیکن شاید اُسے لگے کہ یہ کام کرنا اِتنا ضروری نہیں ہے جتنا ٹینکی میں پٹرول بھرنا کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو گاڑی بند ہو جائے گی۔ شاید وہ سوچے: ”اگر ابھی میرے پاس تیل بدلنے کے لیے وقت نہیں بھی ہے تو بھی کچھ دیر کے لیے انجن چلتا رہے گا۔“ لیکن اِس سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ اگر ڈرائیور انجن میں تیل ڈالنے کو ٹالتا رہے گا تو ایک وقت آئے گا کہ انجن کام کرنا بالکل بند کر دے گا۔ اور پھر اُسے انجن کو ٹھیک کروانے میں اپنا بہت سا وقت اور پیسہ لگانا پڑے گا۔ اِس سے بزرگ کیا سبق سیکھتے ہیں؟
6 بزرگوں کو بہت سے ایسے کاموں کی نگرانی کرنی پڑتی ہے جنہیں اگر فوری طور پر نہ نپٹایا جائے تو کلیسیا بُری طرح سے متاثر ہو سکتی ہے۔ جس طرح ایک ڈرائیور اِس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے گاڑی کی ٹینکی میں پٹرول بھرتا رہے اُسی طرح بزرگوں کو بھی اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ”زیادہ اہم“ باتوں پر توجہ دیں۔ (فل 1:10، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن) لیکن کچھ بزرگ کلیسیا کے ضروری کاموں میں اِتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ وہ تربیت دینے کے کام کو ٹالتے رہتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح ڈرائیور انجن میں تیل ڈالنے کو ٹالتا رہتا ہے۔ لیکن اگر بزرگ ایسا کریں گے تو ایک وقت آئے گا کہ ایسے بھائیوں کی کمی ہو جائے گی جو کلیسیا کی دیکھبھال کر سکیں۔
7. ہمیں اُن بزرگوں کو کیسا خیال کرنا چاہیے جو دوسروں کو تربیت دینے کے لیے وقت نکالتے ہیں؟
1-پطرس 4:10 کو پڑھیں۔) بزرگوں کی کوششوں سے کلیسیا کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟
7 لہٰذا بزرگوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ دوسروں کو تربیت دینا اِتنا اہم نہیں ہے۔ جو بزرگ کلیسیا کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں اور دوسروں کو تربیت دینے کے لیے وقت نکالتے ہیں، وہ خود کو اچھا مختار ثابت کرتے ہیں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ (وقت کا اچھا اِستعمال کریں
8. (الف) بزرگ کن خوبیوں اور باتوں کی وجہ سے دوسروں کو تربیت دیتے ہیں؟ (ب) اُن بزرگوں پر کیا ذمےداری آتی ہے جو ایسے علاقے میں خدمت کرتے ہیں جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے؟ (بکس ” ایک اہم ذمےداری“ کو دیکھیں۔)
8 ایک بزرگ چاہے کتنا ہی تجربہکار کیوں نہ ہو، اُسے خاکساری سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اُس کے لیے وہ تمام کام کرنا ممکن نہیں ہوگا جو وہ ابھی کلیسیا میں کر رہا ہے۔ (میک 6:8) اُسے اِس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ’وقت اور حادثے‘ کی وجہ سے اُس کے لیے اپنی ذمےداریوں کو نبھانا مشکل ہو سکتا ہے۔ (واعظ 9:11، 12؛ یعقو 4:13، 14) چونکہ بزرگوں کو یہوواہ خدا کی بھیڑوں کی فکر ہے اور وہ اُن سے پیار کرتے ہیں اِس لیے وہ جوان بھائیوں کو اُن سب باتوں کی تربیت دیتے ہیں جو وہ خود سالوں سے سیکھتے آئے ہیں۔—زبور 71:17، 18 کو پڑھیں۔
9. کس وجہ سے بزرگوں کو ابھی سے بھائیوں کو تربیت دینی چاہیے؟
9 دوسروں کو تربیت دینے والے بزرگ اِس لیے بھی ایک نعمت کی طرح ہیں کیونکہ اُن کی کوششوں سے کلیسیا مضبوط ہوتی ہے۔ ایسا کیوں کہا جا سکتا ہے؟ جو بھائی بزرگوں سے تربیت پاتے ہیں، وہ کلیسیاؤں کو متحد اور ایمان میں مضبوط رکھنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ بات نہ صرف اب بلکہ آنے والی بڑی مصیبت کے دوران بھی ہمارے بہت کام آئے گی۔ (حز 38:10-12؛ میک 5:5، 6) لہٰذا عزیز بزرگو، ابھی سے دوسروں کو باقاعدگی سے تربیت دینے کے لیے وقت نکالیں۔
10. بعض بزرگ کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ دوسروں کو تربیت دینے کے لیے وقت نکال سکیں؟
10 بِلاشُبہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کے سر پر کلیسیا کی بہت سی ذمےداریاں ہیں جنہیں نبھانے میں آپ کا بہت سا وقت لگ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگے کہ بھائیوں کو تربیت دینے کے لیے آپ کے شیڈول میں گنجائش نہیں۔ اگر ایسا ہے تو جو وقت آپ کلیسیا کی ذمےداریاں پوری کرنے میں صرف کرتے ہیں، شاید آپ اُس میں سے کچھ وقت نکال کر بھائیوں کو تربیت دے سکتے ہیں۔ (واعظ 3:1) یوں آپ اپنے وقت کا اچھا اِستعمال کریں گے اور اِس سے مستقبل میں کلیسیا کو بہت فائدہ ہوگا۔
خوشگوار ماحول پیدا کریں
11. (الف) مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے بزرگوں نے تربیت دینے کے سلسلے میں جو صلاح دی، اُس میں دلچسپی کی بات کیا ہے؟ (ب) امثال 15:22 کے مطابق دوسرے بزرگوں کی تجاویز پر غور کرنا کیوں فائدہ ہے؟
11 کچھ ایسے بزرگ جو بڑی کامیابی سے بھائیوں کو تربیت دیتے ہیں، حال ہی میں اُن سے یہ پوچھا گیا کہ وہ تربیت دینے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ * حالانکہ اِن بزرگوں کا تعلق مختلف ملکوں سے تھا لیکن سبھی نے تقریباً ایک ہی جیسی صلاح دی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل پر مبنی تربیت ”ہر جگہ ہر کلیسیا“ کے بھائیوں کے لیے فائدہمند ہے بالکل اُسی طرح جس طرح پولسُ رسول کے زمانے میں تھی۔ (1-کر 4:17) لہٰذا اِس مضمون اور اگلے مضمون میں ہم اِن بزرگوں کی کچھ تجاویز پر غور کریں گے۔—امثا 15:22۔
12. ایک بزرگ کو کیا کرنے کی ضرورت ہے اور کیوں؟
12 ایک بزرگ کو دوسروں کو تربیت دینے کے لیے اچھا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ایک مالی بیج بونے سے
پہلے زمین کو تیار کرتا ہے اُسی طرح ایک بزرگ کو بھی دوسروں کو نئی مہارتیں سکھانے سے پہلے اُن کے دل کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک بزرگ بھائیوں کو تربیت دینے کے لیے اچھا ماحول کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ اِس سلسلے میں وہ سموئیل نبی کی مثال پر عمل کر سکتا ہے جو ایک بہترین اُستاد تھے۔13-15. (الف) یہوواہ خدا نے سموئیل نبی کو کون سی ذمےداری سونپی؟ (ب) سموئیل نے اپنی ذمےداری کو کیسے نبھایا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ج) بزرگوں کو سموئیل کی زندگی کے اِس واقعے پر کیوں غور کرنا چاہیے؟
13 تقریباً 3000 سال پہلے خدا نے اپنے عمررسیدہ نبی سموئیل سے کہا: ”کل اِسی وقت مَیں ایک شخص کو بنیمینؔ کے ملک سے تیرے پاس بھیجوں گا۔ تُو اُسے مسح کرنا تاکہ وہ میری قوم اِؔسرائیل کا پیشوا ہو۔“ (1-سمو 9:15، 16) اِس بات سے سموئیل سمجھ گئے کہ اب سے وہ اِسرائیلیوں کی پیشوائی نہیں کریں گے اور یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ وہ کسی اَور کو اپنی جگہ پیشوا مقرر کریں۔ سموئیل نے یقیناً سوچا ہوگا کہ وہ اِس شخص کو یہ ذمےداری نبھانے کے لیے کیسے تیار کریں گے۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے ایک منصوبہ بنایا۔
14 اگلے دن جب سموئیل نے ساؤل کو دیکھا تو یہوواہ خدا نے سموئیل سے کہا: ”یہی وہ شخص ہے۔“ پھر سموئیل نے وہی کِیا جس کا اُنہوں نے منصوبہ بنایا تھا۔ وہ ساؤل کو کھانا کھلانے کے لیے مہمانخانے میں لے گئے۔ وہاں اُنہوں نے ساؤل اور اُن کے نوکر کو سب سے اچھی جگہ پر بٹھایا اور پھر گوشت کا سب سے اچھا حصہ ساؤل کو دیا۔ پھر سموئیل نے ساؤل کو بتایا کہ یہ گوشت اِس موقعے کے لیے اُسی کے واسطے الگ کر لیا گیا تھا۔ اِس کے بعد سموئیل نبی ساؤل کو اپنے گھر لے گئے۔ راستے میں دونوں نے خوب باتیں کیں۔ سموئیل نے ساؤل کے ساتھ اچھا کھانا کھانے اور چہلقدمی کرنے سے ایک خوشگوار ماحول پیدا کر لیا تھا۔ اب ساؤل کا دل تربیت پانے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔ پھر سموئیل اور ساؤل چھت پر گئے اور وہاں بھی وہ دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اگلے دن سموئیل نے ساؤل کو مسح کِیا، اُنہیں چُوما اور مزید ہدایات دیں۔ اِس کے بعد اُنہوں نے ساؤل کو روانہ کر دیا۔ اب ساؤل اپنی ذمےداری نبھانے کے لیے بالکل تیار تھے۔—1-سمو 9:17-27؛ 10:1۔
15 بےشک ایک آدمی کو قوم کا پیشوا مقرر کرنے اور ایک بھائی کو کلیسیا میں بزرگ یا خادم کی تربیت دینے میں بہت فرق ہے۔ لیکن پھر بھی بزرگ سموئیل کی اِس مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آئیں، دو باتوں پر غور کریں۔
اچھا اُستاد اور سچا دوست بنیں
16. (الف) جب بنیاِسرائیل نے اپنے لیے ایک بادشاہ کی درخواست کی تو سموئیل کو کیسا لگا؟ (ب) جب یہوواہ خدا نے سموئیل کو ساؤل کو مسح کرنے کو کہا تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟
16 مجبوری سے نہیں بلکہ خوشی سے تربیت دیں۔ جب سموئیل نے سنا کہ بنیاِسرائیل اپنے لیے ایک بادشاہ چاہتے ہیں تو وہ بہت مایوس ہوئے۔ اُنہیں لگا کہ جیسے لوگوں نے اُنہیں ٹھکرا دیا ہے۔ (1-سمو 8:4-8) سموئیل لوگوں کی بات ماننے سے اِتنا ہچکچا رہے تھے کہ یہوواہ خدا کو تین بار سموئیل سے کہنا پڑا کہ وہ لوگوں کی بات سنیں۔ (1-سمو 8:7، 9، 22) حالانکہ سموئیل کو لوگوں کی فرمائش پر بہت دُکھ ہوا تو بھی اُنہوں نے اُس آدمی پر نہ غصہ کِیا اور نہ اُس سے حسد کِیا جس نے اُن کی جگہ پیشوا بننا تھا۔ جب یہوواہ خدا نے سموئیل کو ساؤل کو مسح کرنے کو کہا تو سموئیل نے مجبوری سے نہیں بلکہ خوشی سے ایسا کِیا کیونکہ وہ یہوواہ خدا سے محبت کرتے تھے۔
17. کلیسیا کے بزرگ سموئیل کی مثال پر کیسے عمل کرتے ہیں اور اُنہیں کس بات سے خوشی ملتی ہے؟
17 سموئیل کی طرح تجربہکار بزرگ بھی اُن بھائیوں کے ساتھ پیار سے پیش آتے ہیں جنہیں وہ تربیت دیتے ہیں۔ (1-پطر 5:2) یہ بزرگ اِس وجہ سے دوسروں کو تربیت دینے سے نہیں ہچکچاتے کہ جو اعزاز اُنہیں ملے ہیں، اِن میں سے کچھ اعزاز اُنہیں دوسروں کو دینے پڑیں گے۔ اِن بزرگوں کا دل بہت بڑا ہے اِس لیے وہ تربیت پانے والے بھائیوں کے بارے میں یہ نہیں سوچتے کہ وہ اُن کے مقابلے پر آ جائیں گے۔ اِس کی بجائے وہ اِن بھائیوں کو ”ساتھ مل کر خدمت“ کرنے والا سمجھتے ہیں جو کلیسیا کی دیکھبھال کرنے میں اُن کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ (2-کر 1:24، اُردو جیو ورشن؛ عبر 13:16) جب بزرگ دیکھتے ہیں کہ تربیت پانے والے بھائی اپنی صلاحتیوں سے کلیسیا کو کتنا فائدہ پہنچا رہے ہیں تو اُنہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔—اعما 20:35۔
18، 19. ایک بزرگ بھائیوں کو تربیت دینے سے پہلے اُن کے دل کو کیسے تیار کر سکتا ہے اور ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟
18 صرف اُستاد ہی نہیں دوست بھی بنیں۔ اگر سموئیل چاہتے تو وہ اُسی وقت تیل نکال کر ساؤل کو مسح کر سکتے تھے جب وہ اُن سے پہلی بار ملے تھے۔ مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا کیونکہ اِس طرح ساؤل، بادشاہ کے طور پر تو مقرر ہو جاتے لیکن یہ نہیں سیکھ پاتے کہ اُنہیں اپنی ذمےداری کو کیسے نبھانا ہے۔ اِس کی بجائے سموئیل نے وقت نکال کر ساؤل کے دل کو اِس نئی ذمےداری کے لیے تیار کِیا۔ اُنہوں نے ساؤل کو مسح کرنے سے پہلے اُنہیں کھانا کھلایا، اُن کے ساتھ چہلقدمی کی، خوب باتچیت کی اور اُنہیں اچھی نیند لینے کا موقع دیا۔ اِن سب باتوں کے بعد سموئیل کو لگا کہ اب ساؤل کو بادشاہ کے طور پر مقرر کرنے کا مناسب وقت آ گیا ہے۔
19 اِسی طرح ایک بزرگ کو بھی دوسروں کو تربیت دینے سے پہلے اُن کے ساتھ دوستی کرنی چاہیے اور خوشگوار ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ ہر بزرگ اپنی ثقافت کے مطابق ایسا کر سکتا ہے۔ لیکن چاہے آپ کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، جب آپ اپنے مصروف شیڈول میں سے وقت نکال کر کسی بھائی کو تربیت دیتے ہیں تو آپ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ اُس بھائی کو اہم سمجھتے ہیں۔ (رومیوں 12:10 کو پڑھیں۔) یقیناً تربیت پانے والا بھائی بھی آپ کے پیار اور توجہ کے لیے دل سے آپ کا شکر گزار ہوگا۔
20، 21. (الف) ایک کامیاب اُستاد کیسا ہوتا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
20 بزرگو، اِس بات کو یاد رکھیں کہ ایک کامیاب اُستاد وہی ہوتا ہے جسے نہ صرف تربیت دینے سے پیار ہوتا ہے بلکہ جو تربیت پانے والے شخص سے بھی پیار کرتا ہے۔ (یوحنا 5:20 پر غور کریں۔) ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ جب تربیت پانے والا شخص دیکھے گا کہ آپ اُس کی فکر رکھتے ہیں تو اِس بات کا زیادہ اِمکان ہوگا کہ وہ آپ سے تربیت پانے کو تیار ہو جائے۔ لہٰذا جب آپ تربیت دیتے ہیں تو صرف اُستاد ہی نہیں بلکہ دوست بننے کا بھی عزم کریں۔—امثا 17:17؛ یوح 15:15۔
21 ایک بزرگ کسی بھائی کے دل کو تیار کرنے کے بعد اُسے تربیت دینا شروع کر سکتا ہے۔ اِس کے لیے بزرگ کون سے طریقے اپنا سکتا ہے؟ اگلے مضمون میں اِس کے بارے میں بات کی جائے گی۔
^ پیراگراف 3 یہ مضمون اور اگلا مضمون خاص طور پر بزرگوں کے لیے ہے۔ لیکن کلیسیا کے ہر رُکن کو اِن مضامین میں دلچسپی لینی چاہیے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ اِن مضامین کے ذریعے تمام بپتسمہیافتہ بھائیوں کی یہ سمجھنے میں مدد کی گئی ہے کہ کلیسیا میں اَور ذمےداریاں اُٹھانے کے لائق بننے کے لیے اُنہیں تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کلیسیا میں زیادہ تربیتیافتہ بھائی ہوں گے تو سب کو فائدہ ہوگا۔
^ پیراگراف 11 اِن بزرگوں کا تعلق آسٹریلیا، بنگلہدیش، بیلجیئم، برازیل، فرانس، فرانسیسی گیانا، جاپان، کوریا، میکسیکو، نمیبیا، نائیجیریا، رییونین، روس، جنوبی افریقہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ سے ہے۔