آپبیتی
اچھے اور بُرے وقت میں یہوواہ خدا کی برکتیں
مَیں مارچ 1930ء میں پیدا ہوا۔ مَیں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو یہوواہ خدا کی عبادت کرتا تھا۔ ہم نامکومبا نامی گاؤں میں رہتے تھے جو ملاوی کے شہر لیلونگوے کے قریب واقع ہے۔ مَیں نے 1942ء میں اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کی اور ایک دریا میں بپتسمہ لیا۔ مَیں نے اگلے 70 سال میں پولسُ رسول کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی کہ ”دل لگا کر خدا کے کلام کی مُنادی کریں، چاہے اچھا وقت ہو یا بُرا۔“—2-تیم 4:2، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
سن 1948ء میں یہوواہ کے گواہوں کے مرکزی دفتر کے دو نمائندے ملاوی آئے۔ یہ بھائی ناتھن نار اور بھائی ملٹن ہینشل تھے۔ اِن بھائیوں کی حوصلہافزا باتوں سے میرے دل میں کُلوقتی خدمت کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم تقریباً 6000 لوگ کیچڑ سے بھرے میدان میں کھڑے ہو کر بھائی نار کی تقریر بڑے دھیان سے سُن رہے تھے۔ اُن کی تقریر کا عنوان تھا: ”تمام قوموں کا دائمی سردار۔“
پھر میری ملاقات ایک بڑی پیاری بہن سے ہوئی جس کا نام لڈاسی ہے۔ میری طرح اُن کی پرورش بھی سچائی میں ہوئی تھی۔ مَیں نے دیکھا کہ اُن کا اِرادہ بھی کُلوقتی خدمت کرنے کا تھا۔ اِس لیے 1950ء میں ہم نے شادی کر لی اور 1953ء تک ہمارے دو بچے ہو گئے۔ حالانکہ ہمارے سر پر بہت سی گھریلو ذمےداریاں تھیں لیکن پھر بھی ہمیں لگا کہ ہم میں سے ایک پہلکار کے طور پر خدمت کر سکتا ہے۔ اِس لیے مَیں نے پہلکار کے طور پر خدمت کرنا شروع کی۔ دو سال بعد مجھے خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے لیے پوچھا گیا۔
اِس کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کا شرف ملا۔ لڈاسی نے میرا پورا پورا ساتھ دیا جس کی وجہ سے مَیں اپنے گھرانے کی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ کُلوقتی خدمت جاری رکھنے کے قابل ہوا۔ * لیکن ہم دونوں کی ہی شدید خواہش تھی کہ ہم مل کر کُلوقتی خدمت کریں۔ لہٰذا اچھی منصوبہسازی اور بچوں کے تعاون سے لڈاسی نے بھی 1960ء میں کُلوقتی خدمت شروع کر لی۔
اِس اچھے وقت میں ہمیں مختلف کلیسیاؤں میں خدمت کرنے سے بہت خوشی ملی۔ اِس دوران ہم نے ملاوی کے جنوب میں واقع پہاڑی وادیوں سے لے کر شمال میں واقع ملاوی جھیل کے علاقوں تک سفر کِیا۔ جن علاقوں کا ہم نے دورہ کِیا، وہاں ہم نے دیکھا کہ کلیسیاؤں اور مبشروں کی تعداد میں تیزی سے اِضافہ ہوا ہے۔
سن 1962ء میں ایک صوبائی اِجتماع منعقد ہوا جس کا موضوع تھا: ”دلیر مُناد۔“ اِس کے ایک سال بعد بھائی ہینشل، ملاوی کے شہر بلنٹائر میں بینالاقوامی اِجتماع کے لیے آئے۔ اِس اِجتماع پر تقریباً 10 ہزار لوگ آئے۔ یہ اِجتماع ملاوی
کے سب بہن بھائیوں کے لیے بہت بروقت تھا کیونکہ اِس کی وجہ سے ہم اُن مشکلوں سے نپٹنے کے لیے تیار ہو گئے جو ہم پر آنے والی تھیں۔مشکل وقت کا آغاز
سن 1964ء میں یہوواہ کے گواہوں کی سخت مخالفت کی گئی کیونکہ اُنہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے اِنکار کر دیا تھا۔ تقریباً 100 کنگڈمہالوں اور بہن بھائیوں کے 1000 سے زیادہ گھروں کو تہسنہس کر دیا گیا۔ البتہ ہم اُس وقت تک آزادی سے کلیسیاؤں کا دورہ کرتے رہے جب تک 1967ء میں حکومت نے ہمارے کام پر پابندی نہیں لگا دی۔ اُس وقت حکومت نے شہر بلنٹائر میں ہمارے برانچ کے دفتر کو ضبط کر لیا، مشنریوں کو ملاوی سے نکال دیا اور بہت سے مقامی گواہوں کو جیل میں ڈال دیا جن میں لڈاسی اور مَیں بھی شامل تھے۔ لیکن رِہا ہونے کے بعد مَیں نے اور لڈاسی نے بڑے محتاط ہو کر کلیسیاؤں کا دورہ کرنا جاری رکھا۔
اکتوبر 1972ء میں ایک شدتپسند سیاسی گروہ کے کوئی 100 لوگوں نے ہمارے گھر پر چڑھائی کر دی۔ لیکن اِس گروہ کا ایک رُکن اپنے ساتھیوں کے پہنچنے سے پہلے ہمارے پاس بھاگا بھاگا آیا اور ہمیں چھپنے کے لیے کہا کیونکہ یہ گروہ مجھے مارنے کے لیے آ رہا تھا۔ مَیں نے اپنی بیوی اور بچوں سے کہا کہ وہ کیلے کے درختوں کے پیچھے چھپ جائیں۔ پھر مَیں ایک بڑے سے آم کے درخت پر چڑھ گیا۔ وہاں سے مَیں اپنے گھر اور سازوسامان کو تباہ ہوتے دیکھ رہا تھا۔
جیسے جیسے مخالفت میں شدت آتی گئی، ہمارے ہزاروں بہن بھائیوں کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ مجھے اور میرے بیوی بچوں کو جون 1974ء تک مغربی موزمبیق کے پناہگزین کیمپ میں رہنا پڑا۔ اِس دوران ہمیں موزمبیق کے ایک چھوٹے قصبے میں خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے لیے پوچھا گیا۔ یہ قصبہ ملاوی کی سرحد کے نزدیک تھا۔ ہم اُس وقت تک خصوصی پہلکاروں کے طور پر خدمت کرتے رہے جب تک 1975ء میں موزمبیق کی حکومت کو ملک پُرتگال سے آزادی نہیں مل گئی۔ پھر یہاں کی حکومت نے ہمیں اور دیگر گواہوں کو واپس ملاوی بھیج دیا جہاں مخالفت پھر ہمارا اِنتظار کر رہی تھی۔
ملاوی جانے کے بعد ہمیں شہر لیلونگوے کی کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ حالانکہ ہم سب بہن بھائیوں کی راہ میں اِتنی مخالفت اور مشکلیں تھیں لیکن پھر بھی کلیسیاؤں کی تعداد میں اِضافہ ہوتا گیا۔
یہوواہ خدا کا ساتھ
ایک دفعہ جب ہم ایک گاؤں سے گزر رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں ایک سیاسی جلسہ ہو رہا تھا۔ سیاسی پارٹی کے کچھ حمایتیوں کو پتہ چلا کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں۔ اُنہوں نے ہمیں زبردستی اِس جلسے میں بیٹھنے کو کہا۔ اِس دوران ہم مسلسل یہوواہ خدا سے مدد اور رہنمائی مانگتے رہے۔ پھر جب جلسہ ختم ہوا تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے ہمیں مارنا شروع کر دیا۔ مگر پھر اچانک ایک عورت بھاگتے بھاگتے آئی اور چلّانے لگی کہ ”یہ آدمی میرا بھتیجا ہے۔ اِنہیں چھوڑ دو! اِنہیں جانے دو۔“ جو آدمی جلسے سے خطاب کر رہا تھا، اُس نے کہا: ”چھوڑ دو اِنہیں!“ ہم نہیں جانتے کہ اِس عورت کے ذہن میں کیا تھا جو اِس نے ہمیں اپنا رشتےدار کہا حالانکہ ہم تو اِسے جانتے بھی نہیں تھے۔ لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ یہوواہ خدا نے ہماری دُعا کا جواب دیا۔
سن 1981ء میں ہمارا سامنا پھر اِسی سیاسی پارٹی کے کچھ لوگوں سے ہوا۔ اِن لوگوں نے ہمارے سامان کو، ہماری سائیکلوں اور کتابوں کو اور کلیسیاؤں کے بارے میں کاغذات کو چھین لیا۔ ہم نے جیسے تیسے کرکے اپنی جان اُن کے ہاتھوں سے بچائی اور ایک بزرگ کے گھر بھاگ گئے۔ ہم نے پھر یہوواہ خدا سے دُعا کی۔ ہمیں فکر تھی کہ اُن کے ہاتھ ہماری کلیسیاؤں کی معلومات لگ گئی ہے۔ جب اِن سیاسی لوگوں نے اُن خطوں کو دیکھا جو ملاوی کے مختلف علاقوں کی کلیسیاؤں سے میرے نام پر آئے تھے تو وہ ڈر گئے۔ اُنہیں لگا کہ مَیں حکومتی اہلکار ہوں اِس لیے اُنہوں نے جلدازجلد سارے کاغذات ویسے کے ویسے ہی مقامی بزرگوں کے حوالے کر دیے۔
ایک دفعہ ہم کشتی میں دریا پار کر رہے تھے۔ چونکہ اِس کشتی کا مالک علاقے کا سیاسی رہنما تھا اِس لیے وہ سب مسافروں کے پاس جا کر چیک کرنے لگا کہ آیا اُن کے پاس سیاسی پارٹی کا کارڈ ہے یا نہیں۔ وہ ہم تک پہنچنے ہی والا تھا کہ اُس کی نظر ایک ایسے آدمی پر پڑی جسے پولیس کافی عرصے سے تلاش کر رہی تھی۔ اِس وجہ سے کافی ہلچل مچ گئی اور کشتی کے مالک نے باقی مسافروں کے کارڈ نہیں دیکھے۔ ایک دفعہ پھر ہمیں یقین ہو گیا کہ یہوواہ خدا ہماری مدد کر رہا ہے۔
گِرفتاری اور قید
مَیں فروری 1984ء میں لیلونگوے جا رہا تھا تاکہ کلیسیاؤں کی رپورٹیں کسی کے ہاتھ زمبیا کے برانچ کے دفتر کو بھیج سکوں۔ راستے میں ایک پولیس والے نے مجھے روک کر میرے بیگ کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ اُسے میرے بیگ میں ہماری کچھ کتابیں اور رسالے ملے جس کی وجہ سے وہ مجھے تھانے لے گیا۔ وہاں اُس نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ اِس کے بعد اُس نے مجھے رسیوں سے باندھ کر اُن قیدیوں کے ساتھ بند کر دیا جو چور تھے۔
اگلے دن تھانےدار مجھے دوسرے کمرے میں لے گیا اور ایک کاغذ پر لکھا کہ ”مَیں ٹروفیم نسومبا، اب سے یہوواہ کا گواہ نہیں ہوں اِس لیے مجھے رِہا کر دیا جائے۔“ مَیں نے اُس تھانےدار سے کہا: ”مجھے چاہے رسیوں سے باندھو یا مار ڈالو۔ مَیں اب بھی یہوواہ کا گواہ ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔“ مَیں نے اُس کاغذ پر دستخط کرنے سے اِنکار کر دیا۔ اِس پر تھانےدار نے غصے میں آ کر میز پر اِتنی زور سے مکا مارا کہ ساتھ والے کمرے سے ایک پولیس والا بھاگتا ہوا آیا۔ تھانےدار نے اُس سے کہا: ”یہ آدمی اِس کاغذ پر دستخط نہیں کر رہا جس پر لکھا ہے کہ اب وہ یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔ اِس لیے ایک کاغذ پر لکھو کہ یہ یہوواہ کا گواہ ہے اور اِس کے دستخط کرواؤ۔ پھر ہم اِسے لیلونگوے جیل میں بھیج دیں گے۔“ اِس دوران میری بیوی کو گمان بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن پھر چار دن بعد کچھ بھائیوں نے میری بیوی کو بتایا کہ میرے ساتھ کیا کیا ہوا ہے۔
پھر اُنہوں نے مجھے لیلونگوے کے ایک تھانے میں بھیج دیا جہاں میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کِیا گیا۔ یہاں کے تھانےدار نے مجھ سے کہا: ”مَیں تمہارے لیے چاول لایا ہوں۔ مَیں تمہیں یہ اِس لیے دے رہا ہوں کیونکہ تمہیں خدا کا کلام سنانے کی وجہ سے قید میں ڈالا گیا ہے جبکہ باقی لوگ تو چوری کرنے کی وجہ سے یہاں ہیں۔“ پھر اُنہوں نے مجھے دوسری جیل بھیج دیا جس کا نام کاچیرے ہے۔ وہاں مَیں پانچ مہینے تک رہا۔
اُس جیل کا نگران میرے آنے پر بہت خوش تھا کیونکہ وہ مجھے جیل
کا پادری بنانا چاہتا تھا۔ پہلے جو قیدی یہاں پر پادری تھا، اُس سے اِس نگران نے کہا: ”مَیں نہیں چاہتا کہ تُم آئندہ یہاں پر خدا کے کلام کی تعلیم دو کیونکہ تمہیں تو خود چرچ سے چوری کرنے کے جُرم میں قید کِیا گیا ہے۔“ لہٰذا مجھے ہر ہفتے قیدیوں کو بائبل کی تعلیم دینے کی ذمےداری دی گئی۔لیکن بعد میں حالات بہت خراب ہو گئے۔ جیل کے افسروں نے مجھ سے پوچھگچھ کی کہ ملاوی میں یہوواہ کے کتنے گواہ ہیں۔ جب مَیں نے اُن کو نہیں بتایا تو وہ مجھے اُس وقت تک مارتے رہے جب تک مَیں بےہوش نہ ہو گیا۔ ایک اَور موقعے پر وہ جاننا چاہتے تھے کہ ہمارا مرکزی دفتر کہاں ہے۔ مَیں نے اُن سے کہا: ”آپ نے بہت آسان سا سوال پوچھا ہے اور مَیں اِس کا جواب ضرور دوں گا۔“ یہ سُن کر پولیس والے خوش ہو گئے اور میرا جواب ریکارڈ کرنے کے لیے ٹیپ آن کر لی۔ مَیں نے کہا کہ یہوواہ کے گواہوں کے مرکزی دفتر کے بارے میں بائبل میں بتایا گیا ہے۔ اُنہوں نے حیران ہو کر پوچھا: ”بائبل میں کہاں پر؟“
مَیں نے جواب دیا: ”یسعیاہ 43:12 میں۔“ اُنہوں نے بائبل میں سے یہ آیت کھولی اور بڑے دھیان سے اِسے پڑھنے لگے: ”تُم میرے گواہ ہو [یہوواہ] فرماتا ہے کہ مَیں ہی خدا ہوں۔“ اُنہوں نے اِس آیت کو تین دفعہ پڑھا اور پھر پوچھا: ”یہ کیسے ممکن ہے کہ یہوواہ کے گواہوں کا مرکزی دفتر امریکہ میں نہیں ہے بلکہ اِس کا پتہ بائبل میں بتایا گیا ہے؟“ مَیں نے اُن سے کہا: ”امریکہ میں رہنے والے یہوواہ کے گواہ بھی اپنے مرکزی دفتر کا پتہ بتانے کے لیے اِسی آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔“ چونکہ مَیں نے اُنہیں وہ جواب نہیں دیا جو وہ سننا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے مجھے ایک اَور جیل میں بھیج دیا جو لیلونگوے کے شمال میں واقع ہے۔
بُرے وقت میں برکتیں
مَیں جولائی 1984ء میں اِس جیل میں پہنچا جہاں پہلے سے 81 یہوواہ کے گواہ قید تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی جیل تھی لیکن اِس میں 300 قیدی تھے۔ سب فرش پر سوتے تھے اور جگہ اِتنی تنگ تھی کہ ہم کروٹ بھی نہیں لے سکتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں موقع ملا کہ ہم چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں ہر روز بائبل کی ایک آیت پر باتچیت کر سکیں۔ اِس سے ہمیں بہت حوصلہ ملا۔
پھر جیل کے نگران نے ہمیں دوسرے قیدیوں سے الگ کر دیا۔ ایک حوالدار نے ہمیں چوری چھپے بتایا کہ ”حکومت آپ سے نفرت نہیں کرتی۔ دراصل ہم نے آپ کو دو باتوں کی وجہ سے قید میں رکھا ہے۔ پہلی تو یہ کہ حکومت کو فکر ہے کہ کہیں سیاسی پارٹی کے کچھ اِنتہاپسند کارکُن آپ کو قتل نہ کر دیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ ایک آنے والی جنگ کے بارے میں لوگوں کو بتاتے ہیں اور حکومت کو ڈر ہے کہ کہیں اُن کے فوجی ڈر کے مارے بھاگ نہ جائیں۔“
اکتوبر 1984ء میں ہمیں عدالت میں پیش کِیا گیا اور ہم سب کو دو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پہلے کی طرح ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ رکھا گیا جو یہوواہ کے گواہ نہیں تھے۔ لیکن جیل کے نگران نے یہ اِعلان کِیا: ”یہوواہ کے گواہ سگریٹ نہیں پیتے۔ اِس لیے حوالداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اُن سے نہ تو سگریٹ مانگیں اور نہ ہی اپنے سگریٹ سلگانے کے لیے اُنہیں جلتا ہوا کوئلہ لانے کے لیے بھیجیں۔ وہ خدا کے بندے ہیں۔ یہوواہ کے گواہوں کو دن میں دو بار کھانا دیا جائے گا کیونکہ وہ یہاں پر کسی جُرم کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس وجہ سے قید ہیں کیونکہ وہ بائبل میں درج باتوں پر عمل کرتے ہیں۔“
1-پطر 2:12۔
ہماری اچھی شہرت کی وجہ سے ہمیں اَور بھی فائدے ہوئے۔ اندھیرے یا بارش میں قیدیوں کو باہر جانے کی اِجازت نہیں تھی لیکن ہمیں اِجازت دی گئی کہ اگر ہم چاہیں تو عمارت سے باہر جا سکتے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ حوالداروں کو ہم پر بھروسا تھا اور وہ جانتے تھے کہ ہم فرار ہونے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جب ہم کھیتوں میں کام کر رہے تھے تو اچانک پہرےدار بیمار پڑ گیا۔ لیکن ہم اُسے واپس جیل لے آئے تاکہ اُس کا علاج ہو سکے۔ لہٰذا ہمارے اچھے چالچلن کی وجہ سے جیل کے عملے نے یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی کی۔—اچھا وقت لوٹ آیا
مجھے 11 مئی 1985ء کو اِس جیل سے رِہا کر دیا گیا۔ اِتنے عرصے بعد اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ ہم یہوواہ خدا کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے مشکل وقت میں ثابتقدم رہنے میں ہماری مدد کی۔ آج بھی جب ہم اُس مشکل گھڑی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم پولسُ رسول کی طرح محسوس کرتے ہیں جنہوں نے لکھا: ”ہم نہیں چاہتے کہ تُم اُس مصیبت سے ناواقف رہو جو ... ہم پر پڑی کہ ہم حد سے زیادہ اور طاقت سے باہر پست ہو گئے۔ یہاں تک کہ ہم نے زندگی سے بھی ہاتھ دھو لئے۔ بلکہ اپنے اُوپر موت کے حکم کا یقین کر چکے تھے تاکہ اپنا بھروسا نہ رکھیں بلکہ خدا کا جو مُردوں کو جِلاتا ہے۔ چُنانچہ اُسی نے ہم کو ایسی بڑی ہلاکت سے چھڑایا۔“—2-کر 1:8-10۔
سچ ہے کہ بعض اوقات ہمیں لگا کہ ہمیں موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔ لیکن ہم نے ہمیشہ یہوواہ خدا سے دلیری، دانشمندی اور خاکساری کے لیے دُعا کی تاکہ ہم اُس کے نام کو جلال دے سکیں۔
چاہے وقت اچھا تھا یا بُرا، یہوواہ خدا نے ہمیشہ ہم پر اپنی برکتیں نچھاور کیں۔ ہم یہ دیکھ کر بہت خوش ہیں کہ سن 2000ء میں لیلونگوے میں ہمارا برانچ کا دفتر تعمیر کِیا گیا۔ اِس کے علاوہ اب تک پورے ملاوی میں 1000 سے زیادہ عبادتگاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ یہوواہ خدا نے مجھے اور لڈاسی کو اِتنی برکتوں سے نوازا ہے جن کا ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ *
^ پیراگراف 7 اب ایسے بھائیوں سے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے نہیں پوچھا جاتا جن کے بچے چھوٹے ہیں۔
^ پیراگراف 34 جب یہ مضمون شائع ہونے کے مرحلے میں تھا تو بھائی نسومبا 83 سال کی عمر میں فوت گئے۔