کیا آپ ”اَندیکھے“ خدا کو دیکھتے ہیں؟
”وہ اَندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہا۔“—عبر ۱۱:۲۷۔
۱، ۲. (الف) فرعون کے دربار میں جانا موسیٰ کی لیے خطرے سے خالی کیوں نہیں تھا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) موسیٰ کو فرعون کا خوف کیوں نہیں تھا؟
فرعون بہت طاقتور حکمران تھا۔ مصری اُسے دیوتا مانتے تھے۔ قدیم مصر کی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مصریوں کی نظر میں فرعون ”عقلودانش اور طاقت کے لحاظ سے زمین کی سب مخلوقات سے برتر تھا۔“ لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے فرعون ایسا تاج پہنتا تھا جس پر بڑے پھن والا سانپ بنا ہوا تھا۔ یہ سانپ اِس بات کا نشان تھا کہ بادشاہ کے دُشمن زندہ نہیں بچ سکتے۔ ذرا تصور کریں کہ موسیٰ نبی کو اُس وقت کیسا محسوس ہوا ہوگا جب یہوواہ خدا نے اُن سے کہا: ”مَیں تجھے فرؔعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تُو میری قوم بنیاِسرائیل کو مصرؔ سے نکال لائے۔“—خر ۳:۱۰۔
۲ موسیٰ ملک مصر گئے اور فرعون کو خدا کا پیغام دیا۔ یہ پیغام سُن کر فرعون آگ بگولا ہو گیا۔ مصر پر آنے والی نو آفتوں کے بعد فرعون نے موسیٰ کو دھمکی دی: ”ہوشیار رہ۔ پھر میرا مُنہ دیکھنے کو مت آنا کیونکہ جس دن تُو نے میرا مُنہ دیکھا تُو مارا جائے گا۔“ (خر ۱۰:۲۸) موسیٰ نے جاتے جاتے فرعون سے کہا کہ ”تیرا پہلوٹھا بیٹا مر جائے گا۔“ (خر ۱۱:۴-۸) پھر موسیٰ نے بنیاِسرائیل کو ہدایت کی کہ وہ ایک بکرا یا مینڈھا ذبح کرکے اُس کا خون اپنے دروازوں کی چوکھٹوں پر لگا دیں۔ مصری لوگ مانتے تھے کہ مینڈھا، را نامی اُن کے ایک دیوتا کی نظر میں پاک ہے۔ (خر ۱۲:۵-۷) کیا موسیٰ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ مینڈھوں کو ذبح کرنے پر فرعون کا ردِعمل کیا ہوگا؟ جینہیں۔ موسیٰ کو فرعون کا ڈر نہیں تھا کیونکہ وہ یہوواہ خدا پر پکا ایمان رکھتے تھے۔ اور اِسی ایمان کی بدولت اُنہوں نے خدا کا حکم مانا۔ اُنہوں نے ”بادشاہ کے قہر کا خوف نہ“ کِیا اور ”اَندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم“ رہے۔—عبرانیوں ۱۱:۲۷، ۲۸ کو پڑھیں۔
۳. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
۳ کیا آپ کا ایمان اِتنا مضبوط ہے کہ آپ ’خدا کو دیکھ‘ سکتے ہیں؟ (متی ۵:۸) اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے آئیں، موسیٰ کی مثال پر پھر سے غور کریں تاکہ ہم ”اَندیکھے“ خدا کو ایمان کی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ موسیٰ اپنے ایمان کی بدولت اِنسان کے ڈر کا شکار ہونے سے کیسے بچے؟ اُنہوں نے خدا کے وعدوں پر ایمان کیسے ظاہر کِیا؟ جب موسیٰ اور اُن کے لوگ خطرے میں تھے تو ”اَندیکھے“ خدا کو دیکھنا موسیٰ کے لیے ہمت اور حوصلے کا باعث کیسے بنا؟
موسیٰ نے ”بادشاہ کے قہر کا خوف نہ“ کِیا
۴. جو لوگ یہوواہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اُنہوں نے موسیٰ کے بارے میں کیا سوچا ہوگا؟
۴ جو لوگ یہوواہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اُن کے خیال میں فرعون کے مقابلے میں موسیٰ تو کچھ بھی نہیں تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے موسیٰ کی جان اور اُن کا مستقبل فرعون کے ہاتھ میں ہے۔ موسیٰ نے خود بھی یہوواہ خدا سے کہا تھا کہ ”مَیں کون ہوں جو فرؔعون کے پاس جاؤں اور بنیاِسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں؟“ (خر ۳:۱۱) کوئی ۴۰ سال پہلے موسیٰ اپنی جان بچانے کے لیے مصر سے بھاگ گئے تھے۔ اب شاید وہ سوچ رہے ہوں کہ ”کیا مصر واپس جانا اور فرعون سے دُشمنی مول لینا عقلمندی کی بات ہوگی؟“
۵، ۶. کس وجہ سے موسیٰ نے یہوواہ کا خوف مانا اور فرعون سے نہ ڈرے؟
۵ اِس سے پہلے کہ موسیٰ ملک مصر گئے، خدا نے اُنہیں ایک خاص بات سکھائی۔ یہی بات بعد میں موسیٰ نے ایوب کی کتاب میں لکھی۔ اُنہوں نے لکھا: ”[یہوواہ] کا خوف ہی حکمت ہے۔“ (ایو ۲۸:۲۸) یہوواہ خدا نے موسیٰ کو خدا کا خوف اور حکمت پیدا کرنا کیسے سکھایا؟ اُس نے موسیٰ پر ظاہر کِیا کہ اُس کے جیسی طاقت اور اِختیار کسی اِنسان کے پاس نہیں۔ اُس نے کہا: ”آدمی کا مُنہ کس نے بنایا ہے؟ اور کون گونگا یا بہرا یا بینا یا اندھا کرتا ہے؟ کیا مَیں ہی جو [یہوواہ] ہوں یہ نہیں کرتا؟“ (خر ۴:۱۱) یوں موسیٰ نے سیکھا کہ اُنہیں صرف یہوواہ خدا کا خوف ماننا چاہیے جس سے اُنہیں حکمت حاصل ہوگی۔
۶ موسیٰ کو کسی اِنسان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اُنہیں یہوواہ خدا نے بھیجا تھا اور اُسی نے فرعون کو پیغام دینے میں ہر لحاظ سے اُن کی مدد بھی کی۔ اِس کے علاوہ یہوواہ خدا کے مقابلے میں فرعون کچھ بھی نہیں تھا۔ موسیٰ پہلے شخص نہیں تھے جنہیں مصری حکمرانوں کی طرف سے خطرے کا سامنا تھا۔ شاید اُنہوں نے اِس بات پر غور کِیا ہو کہ جب وہ پیدا ہوئے تھے تو یہوواہ خدا نے اُنہیں اُس زمانے کے فرعون سے کیسے بچایا تھا اور اُن کے باپدادا یعنی ابرہام اور یوسف کو اُن کے دَور کے فرعونوں سے کیسے بچایا تھا۔ (پید ۱۲:۱۷-۱۹؛ ۴۱:۱۴، ۳۹-۴۱؛ خر ۱:۲۲–۲:۱۰) ”اَندیکھے“ خدا یہوواہ پر ایمان رکھنے کی وجہ سے موسیٰ فرعون کے سامنے گئے اور دلیری سے خدا کا پیغام سنایا۔
۷. ہماری ایک بہن اِنسان کے ڈر کا شکار کیوں نہ ہوئی؟
۷ یہوواہ خدا پر ایمان رکھنے کی وجہ سے ہماری ایک بہن بھی اِنسان کے ڈر کا شکار نہ ہوئی۔ اُس کا نام ایلا تھا۔ سن ۱۹۴۹ء میں ایسٹونیا کی خفیہ پولیس نے اُنہیں گِرفتار کر لیا۔ سپاہیوں نے اُن کے کپڑے اُتار دیے اور اُنہیں گھورنے لگے۔ ایلا نے بتایا کہ ”مجھے بڑی ذلت محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن جب مَیں نے یہوواہ خدا سے دُعا کی تو مجھ پر سکون طاری ہو گیا۔“ اِس کے بعد ایلا کو تین دن کے لیے اکیلے قید میں ڈال دیا گیا۔ اُنہوں نے بتایا: ”سپاہیوں نے چلّا کر کہا: ”ہم تُم لوگوں کا وہ حشر کر دیں گے کہ ایسٹونیا میں یہوواہ کا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ تمہیں تو ہم یہیں پر قید رکھیں گے اور تمہارے باقی ساتھیوں کو سائبیریا بھیج دیں گے۔“ اُنہوں نے مجھے طنز کرتے ہوئے کہا: ”کہاں ہے تمہارا یہوواہ؟““ کیا ایلا اُن سپاہیوں سے ڈر گئیں یا کیا اُنہوں نے یہوواہ خدا پر پورا بھروسا رکھا؟ جب سپاہیوں نے اُن سے پوچھگچھ کی تو اُنہوں نے بڑی دلیری سے اُن سے کہا: ”مَیں نے اِس معاملے کے بارے میں کافی سوچا ہے اور یہ فیصلہ کِیا ہے کہ آزاد ہو کر خدا کی خوشنودی سے محروم ہونے سے بہتر یہ ہے کہ مَیں قید میں ہی اُس کی قربت میں رہوں۔“ ایلا ایمان کی آنکھوں سے یہوواہ خدا کو ویسے ہی اپنے سامنے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ اپنے سامنے کھڑے سپاہیوں کو دیکھ رہی تھیں۔ ایمان کی بدولت وہ ثابتقدم رہیں۔
۸، ۹. (الف) اِنسان کے ڈر کا تریاق کیا ہے؟ (ب) اگر آپ کو کسی صورتحال میں اِنسان کا ڈر ہے تو آپ کو کیا یاد رکھنا چاہیے؟
۸ یہوواہ خدا پر ایمان رکھنے سے آپ بھی ڈر اور اندیشوں پر غالب آ سکتے ہیں۔ اگر حکومت کے افسر آپ کو خدا کی عبادت کرنے سے روکیں تو شاید آپ کو لگے کہ آپ کی زندگی اور مستقبل اُن کے ہاتھ میں ہے۔ شاید آپ یہ سوچنے لگیں کہ کیا خدا کی خدمت جاری رکھنا اور حکمرانوں کی دُشمنی مول لینا واقعی عقلمندی کی بات ہے؟ یاد رکھیں کہ خدا پر بھروسا رکھنا ہی اِنسان کے ڈر کا تریاق ہے۔ (امثال ۲۹:۲۵ کو پڑھیں۔) یہوواہ نے فرمایا ہے: ”تُم کو تسلی دینے والا مَیں ہی ہوں۔ تُو کون ہے جو فانی اِنسان سے اور آدمزاد سے جو گھاس کی مانند ہو جائے گا ڈرتا ہے؟“—یسع ۵۱:۱۲، ۱۳۔
۹ اپنی آس اپنے آسمانی باپ پر رکھیں جو بڑی قدرت والا ہے۔ اُس کی نگاہ اُن لوگوں پر ہے جو کسی قسم کی نااِنصافی کا شکار ہوتے ہیں۔ اُسے اُن پر ترس آتا ہے اور وہ اُن کی مدد کرتا ہے۔ (خر ۳:۷-۱۰) اگر آپ کو حکومت کے افسروں کے سامنے اپنے ایمان کا دِفاع کرنا پڑتا ہے تو گھبرائیں مت۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”فکر نہ کرنا کہ ہم کس طرح کہیں یا کیا کہیں کیونکہ جو کچھ کہنا ہوگا اُسی گھڑی تُم کو بتایا جائے گا۔“ (متی ۱۰:۱۸-۲۰) اِنسانی حکومتیں اور افسر یہوواہ خدا کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ اگر آپ اپنے ایمان کو مضبوط کرتے رہتے ہیں تو آپ یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے پائیں گے اور یہ بھروسا رکھیں گے کہ وہ آپ کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
موسیٰ نے خدا کے وعدوں پر ایمان ظاہر کِیا
۱۰. (الف) سن ۱۵۱۳ قبلازمسیح میں نیسان کے مہینے میں یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو کیا ہدایت کی؟ (ب) موسیٰ نے یہوواہ خدا کی ہدایت پر عمل کیوں کِیا؟
۱۰ سن ۱۵۱۳ قبلازمسیح میں نیسان کے مہینے میں یہوواہ خدا نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ وہ بنیاِسرائیل کو یہ ہدایت کریں کہ ایک بےعیب مینڈھے یا بکرے کو ذبح کرکے اُس کا خون اپنی چوکھٹوں پر لگائیں۔ (خر ۱۲:۳-۷) کیا موسیٰ نے ایسا کِیا؟ پولُس رسول نے بعد میں موسیٰ کے بارے میں لکھا: ”ایمان ہی سے اُس نے فسح کرنے اور خون چھڑکنے پر عمل کِیا تاکہ پہلوٹھوں کا ہلاک کرنے والا بنیاِؔسرائیل کو ہاتھ نہ لگائے۔“ (عبر ۱۱:۲۸) موسیٰ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا اپنی بات کا پکا ہے اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ کے اِس وعدے پر ایمان رکھا کہ وہ مصریوں کے پہلوٹھوں کو ہلاک کرے گا۔
۱۱. موسیٰ نے دوسروں کو یہوواہ خدا کے حکم کے بارے میں کیوں بتایا؟
۱۱ ایسا لگتا ہے کہ اُس وقت موسیٰ کے اپنے بیٹے ملک مِدیان میں تھے اور وہ ’ہلاک کرنے والے‘ کے ہاتھوں مارے جانے کے خطرے میں نہیں تھے۔ * (خر ۱۸:۱-۶) پھر بھی موسیٰ نے بنیاِسرائیل کو خدا کے حکم کے بارے میں بتایا کیونکہ اِسرائیلی پہلوٹھوں کی جان خطرے میں تھی۔ موسیٰ کو دوسروں سے بڑا پیار تھا اور وہ اُن کی جان بچانا چاہتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے بنیاِسرائیل کے ’سب بزرگوں کو بلا کر اُن کو کہا کہ فسح کا برّہ ذبح کرو۔‘—خر ۱۲:۲۱۔
۱۲. یہوواہ خدا نے ہمیں کونسا اہم پیغام سنانے کا حکم دیا ہے؟
۱۲ آجکل یہوواہ کے بندے فرشتوں کی رہنمائی میں یہ پیغام سنا رہے ہیں: ”خدا سے ڈرو اور اُس کی تمجید کرو کیونکہ اُس کی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے اور اُسی کی عبادت کرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور پانی کے چشمے پیدا کئے۔“ (مکا ۱۴:۷) یہ پیغام سنانا بہت ہی ضروری ہے۔ ہمیں لوگوں کو بتانا چاہئے کہ اُنہیں بڑے شہر بابل یعنی جھوٹے مذاہب سے نکل آنا چاہیے تاکہ اُس کی ”آفتوں میں سے کوئی [اُن] پر نہ آ جائے۔“ (مکا ۱۸:۴) یسوع مسیح کی ”اَور بھی بھیڑیں“ اور ممسوح مسیحی مل کر اُن لوگوں کو ”خدا سے میلملاپ“ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں جو اُس سے دُور ہیں۔—یوح ۱۰:۱۶؛ ۲-کر ۵:۲۰۔
۱۳. ہمارے دل میں خوشخبری سنانے کی خواہش کیسے بڑھے گی؟
۱۳ ہمیں پورا یقین ہے کہ ”عدالت کا وقت آ پہنچا ہے۔“ یہوواہ خدا مُنادی کے کام کو بہت اہم خیال کرتا ہے اور ہمیں اِس کام کے بارے میں یہوواہ جیسا نظریہ رکھنا چاہئے۔ یوحنا رسول نے ایک رویا میں ”چار فرشتے کھڑے دیکھے۔ وہ زمین کی چاروں ہواؤں کو تھامے ہوئے تھے۔“ (مکا ۷:۱) کیا آپ بھی ایمان کی آنکھوں سے اِن چار فرشتوں کو دیکھتے ہیں جو بڑی مصیبت کی تیز ہواؤں کو اِس دُنیا پر چھوڑنے والے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ دلیری سے خوشخبری سنانے کے قابل ہوں گے۔
۱۴. ہمیں شریروں کو خبردار کرنے کی ترغیب کیوں ملتی ہے؟
۱۴ ہمیں خوشی ہے کہ یہوواہ خدا ہمارا دوست ہے اور اُس نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید بخشی ہے۔ پھر بھی ہماری ذمےداری ہے کہ ہم شریروں کو خبردار کریں کہ وہ اپنی بُری روِش سے باز آئیں تاکہ اُن کی جان بچ جائے۔ (حزقیایل ۳:۱۷-۱۹ کو پڑھیں۔) ہم صرف اِس لیے مُنادی نہیں کرتے کہ ہم دوسروں کے خون سے بَری رہیں بلکہ ہم یہوواہ خدا اور اپنے پڑوسیوں سے محبت کی وجہ سے بھی ایسا کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے دوسروں سے محبت کرنے اور رحم ظاہر کرنے کے سلسلے میں ایک مثال دی۔ یہ مثال ایک رحمدل سامری کے بارے میں تھی۔ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا مَیں اُس سامری کی طرح ہوں یا پھر اُس کاہن اور لاوی کی طرح؟ کیا مَیں ہر موقعے پر دوسروں کو گواہی دینے کو تیار رہتا ہوں یا پھر ’کترا کر چلا جاتا‘ ہوں؟“ (لو ۱۰:۲۵-۳۷) خدا کے وعدوں پر ایمان رکھنے اور لوگوں سے محبت کرنے سے ہمیں یہ ترغیب ملے گی کہ ہم مُنادی کا کام پوری لگن سے کریں، اِس سے پہلے کہ خاتمہ آ جائے۔
بنیاِسرائیل ’بحرِقلزم سے گذر گئے‘
۱۵. بنیاِسرائیل کو ایسا کیوں لگا کہ وہ بُری طرح پھنس گئے ہیں؟
۱۵ موسیٰ نے اُس وقت بھی ”اَندیکھے“ خدا پر ایمان ظاہر کِیا جب بنیاِسرائیل مصر سے نکل رہے تھے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”بنیاِسرائیل نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا کہ مصری اُن کا پیچھا کئے چلے آتے ہیں اور وہ نہایت خوفزدہ ہو گئے۔ تب بنیاِسرائیل نے [یہوواہ] سے فریاد کی۔“ (خر ۱۴:۱۰-۱۲) کیا بنیاِسرائیل کو حیران ہونا چاہیے تھا کہ مصری اُن کا پیچھا کر رہے ہیں؟ جینہیں۔ یہوواہ خدا نے اُنہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ”مَیں فرؔعون کے دل کو سخت کروں گا اور وہ اُن کا پیچھا کرے گا اور مَیں فرؔعون اور اُس کے سارے لشکر پر ممتاز ہوں گا اور مصری جان لیں گے کہ [یہوواہ] مَیں ہوں۔“ (خر ۱۴:۴) اِس کے باوجود بنیاِسرائیل صرف اُنہی چیزوں پر دھیان دے رہے تھے جو اُنہیں اُس وقت نظر آ رہی تھیں۔ اُن کے آگے بحرِقلزم تھا جسے پار کرنا مشکل تھا، اُن کے پیچھے فرعون کے تیز رفتار جنگی رتھ تھے اور اُن کی رہنمائی کرنے کے لیے ۸۰ سالہ چرواہا تھا۔ اِسی لیے بنیاِسرائیل کو لگا کہ اب وہ بُری طرح پھنس گئے ہیں۔
۱۶. بحرِقلزم کے کنارے موسیٰ نے کس بات پر ایمان رکھنے سے اپنا حوصلہ برقرار رکھا؟
۱۶ موسیٰ خوفزدہ نہیں تھے کیونکہ اُنہیں پورا یقین تھا کہ یہوواہ خدا مصری فوج اور سمندر سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ایمان کی آنکھوں سے وہ ”[یہوواہ] کی نجات کے کام کو“ دیکھ سکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا، بنیاِسرائیل کی خاطر لڑے گا۔ (خروج ۱۴:۱۳، ۱۴ کو پڑھیں۔) موسیٰ کے مضبوط ایمان کو دیکھ کر بنیاِسرائیل کو بھی حوصلہ ملا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے: ”ایمان ہی سے وہ بحرِقلزؔم سے اِس طرح گذر گئے جیسے خشک زمین پر سے اور جب مصریوں نے یہ قصد کِیا تو ڈوب گئے۔“ (عبر ۱۱:۲۹) اِس واقعے کے بعد ”لوگ [یہوواہ] سے ڈرے اور [یہوواہ] پر اور اُس کے بندہ موسیٰؔ پر ایمان لائے۔“—خر ۱۴:۳۱۔
۱۷. کونسا وقت آنے والا ہے جس کے دوران ہمارا ایمان آزمایا جائے گا؟
۱۷ ایسا وقت آنے والا ہے جب ہمیں بھی لگے گا کہ ہماری جان خطرے میں ہے۔ ہرمجِدّون شروع ہونے سے پہلے صرف سچا مذہب یعنی یہوواہ کے گواہ باقی بچیں گے۔ اِس دُنیا کی حکومتیں دوسرے تمام مذاہب کو ختم کر چکی ہوں گی جن میں سے بعض ہم سے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ (مکا ۱۷:۱۶) ایک پیشگوئی میں یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کی حالت کو ایسی سرزمین سے تشبیہ دی جس کی ”نہ فصیل ہے نہ اڑبنگے اور نہ پھاٹک ہیں۔“ (حز ۳۸:۱۰-۱۲، ۱۴-۱۶) جو لوگ یہوواہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے، اُنہیں لگے گا کہ خدا کے بندوں کے بچنے کی کوئی اُمید نہیں۔ لیکن آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟
۱۸. ہم بڑی مصیبت کے دوران کیوں ثابتقدم رہ سکیں گے؟
۱۸ ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر کیوں نہیں؟ یہوواہ خدا نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اُس کے بندوں کو حملے کا نشانہ بنایا جائے گا۔ لیکن اُس نے یہ بھی بتایا ہے کہ اِس کا انجام کیا ہوگا۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”اُن ایّام میں جب جوؔج اِؔسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرے گا تو میرا قہر میرے چہرہ سے نمایاں ہوگا [یہوواہ] خدا فرماتا ہے۔ کیونکہ مَیں نے [یہ] اپنی غیرت اور آتشِقہر میں فرمایا“ ہے۔ (حز ۳۸:۱۸-۲۳) یہوواہ خدا اُن سب کو ختم کر دے گا جو اُس کے بندوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے ”خوفناک روزِعظیم“ کے دوران آپ کی حفاظت کرے گا تو پھر آپ ثابتقدم رہیں گے اور ”[یہوواہ] کی نجات“ کو دیکھیں گے۔—یوایل ۲:۳۱، ۳۲۔
۱۹. (الف) یہوواہ خدا اور موسیٰ نبی کتنے گہرے دوست تھے؟ (ب) اگر آپ اپنی سب راہوں میں خدا کو پہچانیں گے تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟
۱۹ ”اَندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم“ رہنے سے ہم آنے والے حیرتانگیز وقت کے لیے خود کو تیار کر سکتے ہیں۔ باقاعدگی سے پاک کلام کا مطالعہ کرنے اور دُعا کرنے سے خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کریں۔ موسیٰ بھی خدا کے ساتھ گہری دوستی رکھتے تھے اور خدا نے اُنہیں بڑے شاندار کاموں کے لیے اِستعمال کِیا۔ بائبل میں تو یہاں تک بتایا گیا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے ”روبرو باتیں کیں۔“ (است ۳۴:۱۰) موسیٰ واقعی ایک بےمثال نبی تھے۔ اگر آپ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں تو آپ بھی اُس کے اِتنے قریبی دوست بن جائیں گے کہ گویا آپ اُسے دیکھ سکیں۔ اگر آپ اُسے ’اپنی سب راہوں میں پہچانیں گے تو وہ آپ کی راہنمائی کرے گا۔‘—امثا ۳:۶۔
^ پیراگراف 11 ایسا لگتا ہے کہ ’ہلاک کرنے والے‘ فرشتے تھے جنہیں یہوواہ خدا نے مصریوں کے پہلوٹھوں کو مارنے کے لیے بھیجے تھے۔—زبور ۷۸:۴۹-۵۱۔