بچوں کی تربیت کب سے شروع کی جائے؟
بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”اولاد [یہوواہ] کی طرف سے میراث ہے اور پیٹ کا پھل اُسی کی طرف سے اجر ہے۔“ (زبور ۱۲۷:۳) اِسی لئے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔
لیکن خوشی کے ساتھساتھ والدین پر بھاری ذمےداری بھی آتی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا بچہ بڑا ہو کر تندرست اور توانا بنے تو ضروری ہے کہ وہ اُسے اچھی اور متوازن غذا کھلائیں۔ اِسی طرح اگر والدین چاہتے ہیں کہ اُن کا بچہ خدا کا وفادار خادم بنے تو ضروری ہے کہ وہ اُسے باقاعدگی سے روحانی خوراک کھلائیں اور اُسے خدا کے حکموں پر چلنا سکھائیں۔ (امثا ۱:۸) سوال یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کب سے شروع کی جائے؟ اور کیسے کی جائے؟
والدین کو رہنمائی کی ضرورت ہے
ذرا منوحہ کی مثال پر غور کریں۔ وہ دان کے قبیلے سے تھے اور قدیم اِسرائیل کے شہر صرعہ میں رہتے تھے۔ ایک فرشتے نے منوحہ کی بانجھ بیوی سے کہا کہ اُس کے ہاں بیٹا ہوگا۔ (قضا ۱۳:۲، ۳) یہ بات سُن کر منوحہ اور اُن کی بیوی پھولے نہ سمائے۔ لیکن اُنہیں یہ فکر بھی تھی کہ وہ اپنے بچے کی تربیت کیسے کریں گے۔ اِس لئے منوحہ نے دُعا کی: ”اَے میرے مالک مَیں تیری مِنت کرتا ہوں کہ وہ مردِخدا جسے تُو نے بھیجا تھا ہمارے پاس پھر آئے اور ہم کو سکھائے کہ ہم اُس لڑکے سے جو پیدا ہونے کو ہے کیا کریں؟“ (قضا ۱۳:۸) بِلاشُبہ اُنہوں نے اپنے بیٹے سمسون کو خدا کی شریعت کی اچھی طرح تعلیم دی اور سمسون نے بھی اپنے والدین کی تعلیموتربیت کو قبول کِیا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ’یہوواہ کی روح سمسون کو تحریک دینے لگی۔‘ وہ بنیاِسرائیل کے قاضی مقرر ہوئے اور اُنہوں نے خدا کی روح کی مدد سے بڑے بڑے کام کئے۔—قضا ۱۳:۲۵؛ ۱۴:۵، ۶؛ ۱۵:۱۴، ۱۵۔
بچے کی تربیت کب شروع کی جانی چاہئے؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ تیمتھیس کی ماں یونیکے اور اُن کی نانی لوئس نے اُن کو ”بچپن سے . . . پاک نوشتوں“ کی تعلیم دی۔ (۲-تیم ۱:۵؛ ۳:۱۵) دوسرا تیمتھیس ۳:۱۵ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”بچپن“ کِیا گیا ہے، وہ ایک ننھے بچے کی طرف اِشارہ کرنے کے لئے بھی اِستعمال ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ تیمتھیس کو بہت ہی چھوٹی عمر سے پاک کلام کی تعلیم دی گئی تھی۔
مسیحی والدین کو بچے کی تربیت کرنے کے سلسلے میں یہوواہ خدا سے رہنمائی مانگنی چاہئے۔ اُنہیں بچے کی پیدائش سے پہلے منصوبے بنانے چاہئیں تاکہ وہ ”بچپن“ سے اُس کی تربیت شروع کر سکیں۔ امثال ۲۱:۵ میں بتایا گیا ہے: ”محنتی کی تدبیریں یقیناً فراوانی کا باعث ہیں۔“ بےشک بچے کے پیدا ہونے سے پہلے والدین بڑی تیاریاں کرتے ہیں۔ وہ ایسی چیزوں کی فہرست بناتے ہیں جو بچے کے لئے ضروری ہوں گی۔ لیکن اُنہیں اِس بات پر بھی پہلے سے غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بچے کو یہوواہ خدا کی راہوں کی تعلیم کیسے دیں گے۔ اُن کا عزم ہونا چاہئے کہ وہ بچے کی تعلیموتربیت شروع کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کریں گے۔
بچوں کی تربیت کے متعلق ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد کے چند مہینے بہت اہم ہوتے ہیں کیونکہ اِس عرصے کے دوران دماغ کی سیکھنے کی صلاحیت بڑی تیزی سے بڑھتی ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اِس وقت سے فائدہ اُٹھائیں اور بچے کے ننھے ذہن پر خدا کی باتیں نقش کریں۔
ایک پہلکار بہن بتاتی ہے کہ ”میری بیٹی صرف ایک ماہ کی تھی جب سے مَیں اُسے اپنے ساتھ مُنادی کے کام میں لے جا رہی ہوں۔ اگرچہ وہ اُس وقت کچھ نہیں سمجھتی تھی مگر مجھے پورا یقین تھا کہ اِس کا اُس پر بہت اچھا اثر پڑے گا۔ جب وہ دو سال کی ہوئی تو وہ مُنادی کے دوران لوگوں کو پرچے دینے سے ذرا بھی نہیں گھبراتی تھی۔“
بچپن سے ہی بچوں کی تربیت کرنا بہت فائدہمند ثابت ہوتا ہے۔ لیکن والدین جانتے ہیں کہ ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔
بچوں کی تربیت کرنے کے لئے وقت نکالیں
والدین کے لئے اپنے بچوں کو تعلیم دینا آسان نہیں ہوتا کیونکہ چھوٹے بچے زیادہ دیر تک کسی ایک بات پر دھیان نہیں دے سکتے۔ وہ اپنے اِردگِرد موجود ہر چیز کو چُھونا چاہتے ہیں اور اُس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ لہٰذا والدین کیا کر سکتے ہیں تاکہ اُن کے بچے اُن باتوں پر دھیان دیں جو وہ اُنہیں سکھانا چاہتے ہیں؟
والدین کو موسیٰ نبی کی اِس بات پر غور کرنا چاہئے: ”یہ باتیں جن کا حکم آج مَیں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔ اور تُو اِن کو اپنی اولاد کے ذہننشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت اِن کا ذکر کِیا کرنا۔“ (است ۶:۶، ۷) کسی بات کو ”ذہننشین“ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُسے باربار دُہرایا جائے۔ ایک چھوٹا بچہ ننھے پودے کی طرح ہوتا ہے جسے وقفے وقفے سے پانی دینا پڑتا ہے۔ آپ اِس بات سے متفق ہوں گے کہ جو بات آپ کے سامنے باربار دُہرائی جاتی ہے، وہ آپ کو یاد ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح والدین اپنے بچوں کے سامنے جو باتیں باربار دُہراتے ہیں، وہ بچوں کے ذہننشین ہو جاتی ہیں۔
بچوں کو خدا کے کلام کی سچائیاں سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اُن کے ساتھ وقت گزاریں۔ لیکن آجکل زیادہتر والدین کے لئے اپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو وقت دینا مشکل ہو سکتا ہے۔ پولس رسول نے مسیحیوں کو یہ نصیحت کی کہ وہ ’وقت کو غنیمت جانیں۔‘ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی مسیحی ذمےداریوں کو پورا کرنے کے لئے وقت نکالنا چاہئے۔ (افس ۵:۱۵، ۱۶) ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ اِس سلسلے میں ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جو کلیسیا میں ایک بزرگ ہے اور جس کی بیوی ایک پہلکار ہے۔ یہ بھائی اپنے وقت کو بڑی سمجھداری سے اِستعمال کرتا ہے۔ اِس لئے وہ ملازمت کرنے اور کلیسیا کی ذمےداریاں نبھانے کے ساتھساتھ اپنی بیٹی کی تربیت کرنے کے لئے بھی وقت نکالتا ہے۔ وہ بھائی بتاتا ہے: ”ہر صبح میرے کام پر جانے سے پہلے مَیں اور میری بیوی اپنی بیٹی کے ساتھ کتاب پاک کلام کی سچی کہانیاں سے کوئی کہانی پڑھتے ہیں یا روزبروز کتابِمقدس سے تحقیق کریں سے آیت پڑھتے ہیں۔ رات کو ہم اُس کے سونے سے پہلے اُس کے ساتھ بائبل یا پھر ہماری کوئی اَور کتاب پڑھتے ہیں۔ ہم اُسے اپنے ساتھ مُنادی کے کام میں بھی لے کر جاتے ہیں۔ ہم اُس کی زندگی کے اِبتدائی سالوں کے دوران اُس کی تربیت کرنے کا موقع گنوانا نہیں چاہتے۔“
بچے تیروں کی مانند ہیں
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر اچھی عادتوں اور اچھی شخصیت کے مالک بنیں۔ لیکن اُن کی تربیت کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ یہوواہ خدا کے دوست بنیں اور اُس سے محبت کریں۔—مر ۱۲:۲۸-۳۰۔
زبور ۱۲۷:۴ میں لکھا ہے: ”جوانی کے فرزند ایسے ہیں جیسے زبردست کے ہاتھ میں تیر۔“ اِس آیت میں بچوں کو تیروں سے تشبیہ دی گئی ہے جن سے ٹھیک نشانہ باندھنا ضروری ہے۔ تیرانداز کا تیر ہمیشہ اُس کی کمان میں نہیں رہتا۔ ایک بار جب وہ کمان سے نکل جائے تو پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ بچے بھی ساری زندگی اپنے ماںباپ کے ہاتھ میں نہیں رہتے۔ اِس لئے جب تک وہ اُن کے ہاتھ میں ہیں، اُنہیں خدا کے اصول اور معیار اپنے بچوں کے دلودماغ پر نقش کرنے چاہئیں۔
یوحنا رسول نے لکھا: ”میرے لئے اِس سے بڑھ کر اَور کوئی خوشی نہیں کہ مَیں اپنے فرزندوں کو حق پر چلتے ہوئے سنوں۔“ (۳-یوح ۴) مسیحی والدین بھی جب اپنے بچوں کو ”حق پر چلتے ہوئے“ دیکھتے ہیں تو اُنہیں بےانتہا خوشی ہوتی ہے۔