یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کریں
یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کریں
”خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم سخت نہیں۔“—۱-یوح ۵:۳۔
۱، ۲. (ا) آجکل بہت سے لوگ کسی کے اختیار کو قبول کرنا کیوں پسند نہیں کرتے؟ (ب) جو لوگ اپنی منمانی کرتے ہیں وہ آزاد کیوں نہیں ہیں؟
آجکل بہت سے لوگ کسی کے اختیار کو قبول کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگ اپنی منمانی کرنے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ وہ خود کو آزاد سمجھتے ہوئے یہ کہتے ہیں: ”مجھے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں۔“ لیکن کیا یہ لوگ واقعی آزاد ہیں؟ جینہیں۔ دراصل یہ لوگ اُن لوگوں کے معیاروں کو اپنا رہے ہیں جو ”اِس جہان کے ہمشکل“ ہیں۔ (روم ۱۲:۲) پطرس رسول اِن لوگوں کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ ”خرابی کے غلام“ ہیں۔ (۲-پطر ۲:۱۹) یہ لوگ ’دُنیا کی روِش پر چلتے ہیں اور ہوا کی عملداری کے حاکم کی پیروی کرتے ہیں۔‘—افس ۲:۲۔
۲ ایک مصنف نے بڑے فخر سے کہا: ”مَیں کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ مجھے بتائے کہ اچھائی کیا ہے اور بُرائی کیا۔ مَیں یہ حق نہ اپنے ماںباپ کو، نہ کسی پادری یا مذہبی پیشوا کو، نہ کسی گُورو کو اور نہ ہی بائبل کو دیتا ہوں۔“ یہ سچ ہے کہ کئی لوگ اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی بات ماننا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن کیا اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم کسی بھی قسم کی راہنمائی کو قبول نہ کریں؟ اخبار کی شہسُرخیوں پر نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ راہنمائی کو قبول نہ کرنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسے دَور میں جب انسان کو راہنمائی کی اشد ضرورت ہے زیادہتر لوگ اِسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
اختیار والوں کے بارے میں ہمارا نظریہ
۳. ہم کیسے جانتے ہیں کہ پہلی صدی کے مسیحیوں نے بااختیار لوگوں کے ہر حکم پر عمل نہیں کِیا تھا؟
۳ اختیار والوں کی بات ماننے کے سلسلے میں مسیحیوں کی سوچ دُنیا کی سوچ سے فرق ہے۔ ہم بِلا سوچےسمجھے بااختیار لوگوں کے ہر حکم کو بجا نہیں لاتے ہیں۔ کبھیکبھار ہمیں اُن کے حکم پر عمل کرنے سے انکار بھی کرنا پڑتا ہے۔ بائبل میں چند ایسے واقعات کا ذکر ہے جب پہلی صدی کے مسیحیوں نے بھی ایسا اعمال ۵:۲۷-۲۹ کو پڑھیں۔
ہی کِیا۔ مثال کے طور پر جب سردارکاہن اور صدرِعدالت کے باقی اراکین نے رسولوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خوشخبری کی مُنادی کرنا بند کر دیں تو اُنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں اور اِس وجہ سے اُنہوں نے انسانی پیشواؤں کا حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا۔—۴. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسوع کے زمانے سے پہلے بھی خدا کے خادم انسانی حکمرانوں کا ہر حکم بجا نہیں لاتے تھے؟
۴ یسوع کے زمانے سے پہلے بھی خدا کے خادم انسانی حکمرانوں کے ہر حکم کو بجا نہیں لاتے تھے۔ اِس کی چند مثالوں پر غور کریں۔ موسیٰ نے ”فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے اِنکار کِیا“ کیونکہ اُس نے ”خدا کی اُمت کے ساتھ بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کِیا۔“ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اُس کو ”بادشاہ کے قہر“ کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پھر بھی اُس نے ایسی روش اختیار کی۔ (عبر ۱۱:۲۴، ۲۵، ۲۷) یوسف جانتا تھا کہ فوطیفار کی بیوی کی حکمعدولی کرنا خطرناک ہے۔ لیکن پھر بھی جب فوطیفار کی بیوی نے اُسے زِنا کرنے پر اُکسایا تو یوسف نے اُس کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ (پید ۳۹:۷-۹) دانیایل نے ’اپنے دل میں ارادہ کِیا کہ وہ اپنے آپ کو شاہی خوراک سے ناپاک نہیں کرے گا‘ جبکہ خواجہسراؤں کا سردار اُس کی درخواست منظور نہیں کرنا چاہتا تھا۔ (دان ۱:۸-۱۴) اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے خادم ہمیشہ سے اُس کے معیاروں پر قائم رہے ہیں۔ وہ انسانوں کی خوشامد کرنے کے لئے غلط کام کرنے کو تیار نہیں تھے چاہے اُنہیں اِس وجہ سے سزا یا اذیت کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑا۔ ہمیں بھی اُن جیسا دلیر بننا چاہئے۔
۵. اختیار والوں کے سلسلے میں مسیحیوں کی سوچ اور دُنیا کی سوچ میں کونسا فرق ہے؟
۵ جب ہم اختیار والوں کی بات ماننے سے اِنکار کرتے ہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم ہٹدھرم ہیں یا ہمیں بغاوت کرنے کا شوق ہے۔ بلکہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہوواہ خدا کے اختیار کو ماننے کی ٹھان لی ہے۔ اس لئے جب انسان ہمیں کوئی ایسا حکم دیتے ہیں جو خدا کے حکموں سے ٹکراتا ہے تو ہم بِلاجھجھک خدا کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ جیہاں، یسوع کے رسولوں کی طرح ہم بھی آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض سمجھتے ہیں۔
۶. یہوواہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے میں ہماری بہتری کیوں ہے؟
۶ ہم خدا کے اختیار کو کن وجوہات کی بِنا پر قبول کرتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم امثال ۳:۵، ۶ میں درج اِس بیان سے متفق ہیں: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔“ ہمیں اِس بات کا پورا یقین ہے کہ خدا کے احکام پر عمل کرنے سے ہمارا ہی بھلا ہوگا۔ (استثنا ۱۰:۱۲، ۱۳ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا نے بنیاسرائیل سے مخاطب ہو کر کہا: ”مَیں ہی [یہوواہ] تیرا خدا ہوں جو تجھے فائدہمند باتیں سکھاتا ہوں۔ اَور اُس راہ کی تجھے ہدایت کرتا ہوں جس میں تجھے چلنا ہے۔“ پھر یہوواہ خدا نے کہا: ”کاش کہ تُو میرے حکموں کا شنوا ہوتا۔ تو تیری سلامتی دریا کی طرح اور تیری راستبازی سمندر کی موجوں کی مانند ہوتی۔“ (یسع ۴۸:۱۷، ۱۸، کیتھولک ترجمہ) ہمیں یہوواہ خدا کے اِن الفاظ پر پورا اعتبار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اُس کے حکموں پر عمل کرنے میں ہی ہماری بہتری ہے۔
۷. اگر ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ خدا نے اپنے کلام میں ایک حکم کیوں دیا ہے تو بھی ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۷ کبھیکبھار ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ خدا نے اپنے کلام میں ایک حکم کیوں دیا ہے لیکن اِس کے باوجود ہم اِس حکم کو بجا لاتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اندھادُھند خدا کی مرضی پر چلتے ہیں۔ بلکہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لئے کونسی بات مفید ہے۔ خدا کے فرمانبردار رہنے سے ہم یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں اُس سے محبت ہے۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم سخت نہیں۔“ (۱-یوح ۵:۳) آئیں اب ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے اختیار کو قبول کرنے میں کیا کچھ شامل ہے۔
نیکوبد میں امتیاز کرنا سیکھیں
۸. ہمیں ’اپنے حواس کو نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز‘ کیوں کرنا چاہئے؟
۸ بائبل میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہمیں ’اپنے حواس کو نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز کرنا چاہئے۔‘ (عبر ۵:۱۴) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں خدا کے حکموں پر سوچےسمجھے بغیر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ اِس کی بجائے ہمیں یہوواہ خدا کے معیاروں کو سمجھنا چاہئے اور پھر اِن کے مطابق ”نیکوبد میں امتیاز کرنے“ کی صلاحیت پیدا کرنی چاہئے۔ ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ یہوواہ کی راہیں سب سے اچھی کیوں ہیں۔ یوں ہم بھی زبور نویس کی طرح کہہ سکیں گے کہ ”اَے میرے خدا! . . . تیری شریعت میرے دل میں ہے۔“—زبور ۴۰:۸۔
۹. (ا) ہم خدا کے معیاروں کے مطابق نیکوبد میں امتیاز کرنا کیسے سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) ایسا کرنا اہم کیوں ہے؟
۹ زبورنویس خدا کے حکموں کی قدر کرتا تھا۔ اگر ہم بھی اپنے دل میں خدا کے حکموں کے لئے قدر کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن باتوں پر غوروخوض کرنا چاہئے جن کے بارے میں ہم بائبل میں پڑھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم بائبل میں خدا کے کسی حکم یا اصول کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں خود سے ایسے سوال پوچھنے چاہئیں: ”یہ حکم فائدہمند کیوں ہے؟ اِس پر عمل کرنے میں میری بہتری کیوں ہے؟ جن لوگوں نے اِس حکم پر عمل نہیں کِیا، اُن کا کیا انجام ہوا؟“ جب ہم خدا کے معیاروں کے مطابق نیکوبد میں امتیاز کرنا سیکھ لیں گے تو ہم ایسے فیصلے کریں گے جن سے ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ یوں ہم ”[یہوواہ] کی مرضی“ کے بارے میں اپنی سمجھ کو بڑھاتے رہیں گے اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے رہیں گے۔ (افس ۵:۱۷) البتہ خدا کے حکموں پر عمل کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔
شیطان لوگوں کو خدا کے معیاروں کی خلافورزی پر اُکساتا ہے
۱۰. شیطان لوگوں کو خدا کے معیاروں کو رد کرنے پر کیسے اُکساتا ہے؟ اِس کی ایک مثال دیں۔
۱۰ شیطان بڑے عرصے سے خدا کی مرضی کی خلافورزی کر رہا ہے۔ اُس کی باغی سوچ کا دُنیا پر بڑا اثر ہے۔ مثال کے طور پر ذرا سوچیں کہ دُنیا کے لوگ شادی کے پاک بندھن کو کیسا خیال کرنے لگے ہیں۔ کئی لوگ شادی کئے بغیر اکٹھے رہتے ہیں اور کئی شادی کے بندھن کو توڑ کر کسی اَور سے شادی کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ بِلاشُبہ ایسے لوگ ایک مشہور اداکارہ سے متفق ہوں گے، جس نے کہا: ”چاہے مرد ہو یا عورت، کوئی بھی ایک ہی جیونساتھی کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتا۔“ پھر اُس نے کہا: ”مَیں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی جس نے اپنے جیونساتھی سے بےوفائی نہ کی ہو یا جو اپنے جیونساتھی سے بےوفائی نہ کرنا چاہتا ہو۔“ ایک نامور اداکار جس کی نہ تو شادی اور نہ ہی دیگر لڑکیوں کے ساتھ دوستی کامیاب رہی ہے، اُس نے کہا: ”میرے خیال میں یہ بات انسان کی فطرت میں ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی ایک ہی شخص کے ساتھ گزار دے۔“ ایسی سوچ بہت عام ہے اس لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”کیا مَیں شادی کے بندھن کے بارے میں یہوواہ خدا کے معیاروں کو قبول کرتا ہوں یاپھر کیا دُنیا کی سوچ مجھے بھی متاثر کر رہی ہے؟“
۱۱، ۱۲. (ا) یہوواہ خدا کے حکموں پر عمل کرنا نوجوانوں کے لئے مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟ (ب) ایک مثال دے کر واضح کریں کہ خدا کے حکموں پر عمل کرنا دانشمندی کی بات کیوں ہے؟
۱۱ کیا آپ نوجوان ہیں اور یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ جان لیں کہ شیطان خاص طور پر آپ کو نشانہ بناتا ہے۔ وہ آپ کو خدا کے حکموں کی خلافورزی کرنے کے لئے اُکسانا چاہتا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے وہ کن باتوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے؟ شاید آپ کے دل میں ’جوانی کی خواہشیں‘ ٹھاٹھیں مار رہی ہوں۔ اس کے علاوہ شاید دوسرے نوجوان آپ کو غلط کام کرنے کے لئے اُکسا رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اِس دباؤ کی وجہ سے آپ خدا کے معیاروں کو بوجھ سمجھنے لگیں۔ (۲-تیم ۲:۲۲) ایسا کبھی نہ ہونے دیں۔ خود کو اِس بات پر قائل کریں کہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے آپ فائدے میں رہیں گے۔ مثال کے طور پر بائبل میں لکھا ہے کہ ”حرامکاری سے بھاگو۔“ (۱-کر ۶:۱۸) خود سے پوچھیں: ”اِس حکم پر عمل کرنا دانشمندی کی بات کیوں ہے؟ اِس پر عمل کرنے سے مجھے کونسے فائدے ہوں گے؟“ شاید آپ کسی ایسے مسیحی کو جانتے ہوں جس نے اِس حکم کو نظرانداز کِیا اور اِس وجہ سے اُسے بھاری قیمت چکانی پڑی۔ کیا وہ واقعی خوش ہے؟ کیا اب وہ اُس وقت کی نسبت زیادہ خوش ہے جب وہ یہوواہ خدا کی تنظیم کا رُکن تھا؟ کیا اُس نے واقعی حقیقی خوشی کا راز دریافت کر لیا ہے؟—یسعیاہ ۶۵:۱۴ کو پڑھیں۔
۱۲ اِس سلسلے میں شیرن نامی ایک مسیحی کے تجربے پر غور کریں۔ اُس نے لکھا: ”مَیں نے یہوواہ خدا کے حکموں کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے مجھے ایڈز کی بیماری لگ گئی۔ مَیں اکثر اُس وقت کو یاد کرتی ہوں جب مَیں یہوواہ خدا کی خدمت کر رہی تھی۔ وہ کتنا اچھا وقت تھا۔“ شیرن کو اِس بات کا احساس ہو گیا کہ اُس نے یہوواہ خدا کے حکموں کو توڑنے سے بڑی بیوقوفی کی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ اُسے اِن حکموں کی قدر کرنی چاہئے تھی۔ واقعی خدا کے حکموں کو ماننے سے ہم بہت سی مشکلات سے محفوظ رہتے ہیں۔ اُوپر بیان کی گئی بات کو لکھنے کے سات ہفتے بعد ہی شیرن فوت ہو گئی۔ اُس کی مثال سے ہم جان جاتے ہیں کہ جو لوگ شیطان کی دُنیا کا ساتھ دینے لگتے ہیں اُنہیں خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ شیطان ”جھوٹ کا باپ“ ہے۔ وہ بہت سی چیزوں کا وعدہ تو کرتا ہے لیکن اِسے پورا نہیں کرتا۔ اُس نے حوا کے ساتھ بھی ایسا ہی کِیا تھا۔ (یوح ۸:۴۴) اِس وجہ سے ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے اختیار کو مانیں اور اُس کی مرضی پوری کریں۔
اپنی منمانی کرنے سے خبردار رہیں
۱۳. ایک ایسے معاملے کا ذکر کریں جس میں ہمیں اپنی منمانی کرنے سے خبردار رہنا چاہئے؟
۱۳ یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنی منمانی نہ کریں۔ شاید ہم غرور کرتے ہوئے یہ سوچنے لگیں کہ ہمیں کسی کی سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شاید ہم اُن لوگوں کی ہدایت پر عمل کرنے سے انکار کریں جنہیں یہوواہ خدا نے کلیسیا میں اختیار سونپا ہے۔ خدا نے دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کو مقرر کِیا ہے تاکہ وہ ہمیں وقت پر روحانی خوراک فراہم کرے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) ہمیں اِس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ یہوواہ خدا اِسی جماعت کے ذریعے اپنے خادموں کی راہنمائی کر رہا ہے۔ ہمیں یسوع کے رسولوں کی طرح وفادار رہنا چاہئے۔ جب یسوع کے بعض پیروکار اُس کی بات پر ٹھوکر کھا کر چلے گئے تو اُس نے اپنے رسولوں سے پوچھا: ’کیا تُم بھی چلے جانا چاہتے ہو؟‘ اِس پر پطرس رسول نے جواب دیا: ”اَے خداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔“—یوح ۶:۶۶-۶۸۔
۱۴، ۱۵. ہمیں بائبل کے مطابق دی جانے والی ہدایات پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟
۱۴ یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اُن ہدایات پر عمل کریں جو اُس کے کلام کے مطابق دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت بڑے عرصے سے ہمیں اِس بات کی تاکید کر رہی ہے کہ ”جاگتے اور ہوشیار رہیں۔“ (۱-تھس ۵:۶) یہ تاکید ہمارے زمانے میں بہت ہی موزوں ہے کیونکہ آجکل لوگ ”خودغرض“ اور ”زردوست“ ہیں۔ (۲-تیم ۳:۱، ۲) کیا اِن لوگوں کی سوچ ہم پر بھی اثر کر سکتی ہے؟ جی بالکل۔ ہو سکتا ہے کہ ہم دُنیاداری میں اتنے مگن ہو جائیں کہ ہم روحانی طور پر سُست پڑ جائیں یا پھر ہم مالودولت جمع کرنے کو خدا کی خدمت سے زیادہ اہمیت دینے لگیں۔ (لو ۱۲:۱۶-۲۱) اِس خطرے سے بچنے کے لئے ہمیں بائبل میں پائی جانے والی ہدایات پر عمل کرنا چاہئے اور اِس دُنیا کی سوچ اور طورطریقوں سے کنارہ کرنا چاہئے۔—۱-یوح ۲:۱۶۔
۱۵ دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت بزرگوں کے ذریعے کلیسیا کو روحانی خوراک فراہم کرتی ہے۔ اِس وجہ سے ہمیں بائبل میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ ”اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے اُن کی طرح جاگتے رہتے ہیں جنہیں حساب دینا پڑے گا تاکہ وہ خوشی سے یہ کام کریں نہ کہ رنج سے کیونکہ اِس صورت میں تمہیں کچھ عبر ۱۳:۱۷) کیا اِس کا مطلب ہے کہ کلیسیا کے بزرگ غلطیاں نہیں کرتے؟ جینہیں۔ یہوواہ خدا اُن کی خامیوں اور غلطیوں سے بخوبی واقف ہے۔ لیکن اِس کے باوجود وہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم کلیسیا کے بزرگوں کے تابعدار رہیں۔ ایسا کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا کے اختیار کو مانتے ہیں۔
فائدہ نہیں۔“ (غرور نہ کریں
۱۶. تمام مسیحی کلیسیا کے سردار یسوع مسیح کا احترام کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۶ یسوع مسیح کلیسیا کا سردار ہے۔ (کل ۱:۱۸) اِس وجہ سے ہم اُن آدمیوں کی راہنمائی قبول کرتے ہیں جن کو اُس نے کلیسیا کے بزرگوں کے طور پر مقرر کِیا ہے۔ ہم ”اُن کی بڑی عزت“ کرتے ہیں۔ (۱-تھس ۵:۱۲، ۱۳) کلیسیا کے بزرگ یسوع مسیح کے لئے اپنی تابعداری اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کلیسیا کو اپنی سوچ کے مطابق نہیں بلکہ خدا کے کلام کے مطابق تعلیم دیتے ہیں۔ وہ اپنی رائے کا چرچا کرنے کے لئے ”لکھے ہوئے سے تجاوز“ نہیں کرتے ہیں۔—۱-کر ۴:۶۔
۱۷. اپنی بڑائی کرنے کی خواہش ہمارے لئے خطرناک کیوں ہے؟
۱۷ کلیسیا کے تمام بہنبھائیوں کو اِس بات سے خبردار رہنا چاہئے کہ وہ اپنی بڑائی نہ کریں۔ (امثا ۲۵:۲۷) یوحنا رسول کی ملاقات ایک ایسے مسیحی سے ہوئی جو اپنے گن گاتا تھا۔ اِس لئے یوحنا رسول نے اُس کے بارے میں لکھا: ”دیترفیسؔ جو اُن میں بڑا بننا چاہتا ہے ہمیں قبول نہیں کرتا۔ پس جب مَیں آؤں گا تو اُس کے کاموں کو جو وہ کر رہا ہے یاد دلاؤں گا کہ ہمارے حق میں بُری باتیں بکتا ہے۔“ (۳-یوح ۹، ۱۰) ہمیں اِس مثال سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اگر ہم میں بڑا بننے کی خواہش پیدا ہونے لگے تو ہمیں اِسے فوراً ختم کرنا چاہئے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”ہلاکت سے پہلے تکبّر اور زوال سے پہلے خودبینی ہے۔“ جو لوگ یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کرتے ہیں وہ اپنے دل سے ہر قسم کے غرور کو نکال دیتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اُن کی رسوائی ہوگی۔—امثا ۱۱:۲؛ ۱۶:۱۸۔
۱۸. یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کرنے میں کونسی باتیں ہماری مدد کریں گی؟
۱۸ جیہاں، اِس بات کی ٹھان لیں کہ آپ دُنیا کی سوچ سے کنارہ کریں گے، اپنی منمانی کرنے سے خبردار رہیں گے اور یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کریں گے۔ وقتاًفوقتاً اِس بات پر غور کریں کہ یہوواہ کی خدمت کرنا آپ کے لئے کتنا بڑا شرف ہے۔ آپ یہوواہ خدا کے خادموں کے ساتھ ملکر اُس کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ خدا نے اپنی پاک روح کے ذریعے آپ کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ (یوح ۶:۴۴) خدا کی قربت کو معمولی نہ سمجھیں۔ اپنی زندگی کے ہر پہلو سے یہ ظاہر کریں کہ آپ اپنی منمانی کرنے کی بجائے خدا کے اختیار کو قبول کرتے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
• ہمیں ’اپنے حواس کو نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز‘ کیوں کرنا چاہئے؟
• شیطان ہمیں کن معاملوں میں خدا کے حکموں کی خلافورزی کرنے پر اُکساتا ہے؟
• یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کرنے کے لئے غرور کو اپنے دل سے نکالنا کیوں اہم ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
”ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے“
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
خدا کے معیاروں پر عمل کرنا دانشمندی کی بات ہے