آنے والے کل کو یاد رکھیں
آنے والے کل کو یاد رکھیں
گلیل میں اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں یسوع مسیح نے فرمایا: ”کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔“—متی ۶:۳۴۔
آپ کے خیال میں یسوع کے الفاظ ”کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا“ کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ الفاظ اِس نظریے کی حمایت کرتے ہیں کہ ہمیں صرف آج ہی کے لئے جینا چاہئے اور کل کو بالکل نظرانداز کر دینا چاہئے؟ کیا یسوع مسیح اور اُس کے پیروکار بھی یہی ایمان رکھتے تھے؟
’فکر نہ کریں‘
متی ۶:۲۵-۳۲ میں درج یسوع کے اِن الفاظ کو پڑھیں۔ اِن آیات میں یسوع مسیح نے فرمایا: ”اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ . . . ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں توبھی تمہارا آسمانی باپ اُن کو کھلاتا ہے۔ . . . تُم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ . . . اِس لئے فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں غیرقومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔“
اپنے پہاڑی وعظ کے اختتام پر یسوع مسیح دو باتوں کی نصیحت کرتا ہے۔ اوّل: ”پہلے [خدا کی] بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تُم کو مل جائیں گی۔“ دوم: ”کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے۔“—متی ۶:۳۳، ۳۴۔
تمہارا باپ تمہاری ضروریات سے واقف ہے
آپ کے خیال میں کیا یسوع مسیح ’فصل بونے، کاٹنے یا جمع کرنے‘ کے سلسلے میں اپنے شاگردوں کی حوصلہشکنی کر رہا تھا؟ یا پھر اُنہیں پہننے کے لئے درکار کپڑا تیار کرنے کے لئے ”محنت“ کرنے سے منع کر رہا تھا؟ (امثال ۲۱:۵؛ ۲۴:۳۰-۳۴؛ واعظ ۱۱:۴) بیشک نہیں۔ اگر وہ کام کرنا بند کر دیتے تو ایک دن آتا کہ اُن کے پاس کھانےپینے اور پہننے کے لئے کچھ نہ ہوتا اور ”فصل کاٹنے کے وقت وہ بھیک“ مانگ رہے ہوتے۔—امثال ۲۰:۴۔
فکر کرنے کی بابت کیا ہے؟ کیا یسوع مسیح کا یہ مطلب تھا کہ اُس کے شاگردوں کو کوئی فکر لاحق نہیں ہوگی؟ ایسا سوچنا معقول نہیں ہوگا۔ یسوع مسیح خود بھی اپنے پکڑوائے جانے اور سولی دئے جانے سے پہلے سخت پریشانی میں مبتلا تھا۔—لوقا ۲۲:۴۴۔
دراصل یسوع مسیح ایک بنیادی سچائی بیان کر رہا تھا۔ آپ کو خواہ کیسی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو حد سے زیادہ پریشان یا فکرمند ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مثال کے طور پر، فکرمند ہونے سے آپ اپنی زندگی نہیں بڑھا سکیں گے۔ یسوع مسیح نے کہا کہ ایسا کرنے سے آپ ”اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی“ نہیں بڑھا سکتے۔ (متی ۶:۲۷) سچ تو یہ ہے کہ زیادہ دیر تک پریشان رہنا آپ کی زندگی کو کم کر سکتا ہے۔
یسوع مسیح کی مشورت واضح طور پر عملی تھی۔ بعضاوقات ہم ایسی باتوں کے بارے میں بِلاوجہ پریشان ہوتے رہتے ہیں جو کبھی واقع ہی نہیں ہوتیں۔ برطانوی سیاستدان ونسٹن چرچل دوسری عالمی جنگ کے تکلیفدہ دَور کی بابت یہ بات سمجھ گیا تھا۔ اُس وقت کی اپنی بعض پریشانیوں کے متعلق اُس نے لکھا: ”جب مَیں اُنہیں یاد کرتا ہوں تو مجھے اُس بوڑھے شخص کا واقعہ یاد آتا ہے جس نے مرنے سے کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ وہ زندگیبھر چند ایسے مسائل کی بابت پریشان رہا جن کا درحقیقت کوئی وجود ہی نہیں تھا۔“ واقعی، ہر دن کو اُس کے مطابق جینے میں ہی دانشمندی ہے۔ اِسلئےکہ ہمیں جن دباؤ اور مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہ بڑی آسانی سے ہمیں پریشانی میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
’پہلے خدا کی بادشاہی کی تلاش کرو‘
دراصل یسوع مسیح کے ذہن میں اُس کے سامعین کی جسمانی اور جذباتی خوشی ہی نہیں تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ضروریاتِزندگی، مالودولت اور فلپیوں ۱:۱۰) آپ شاید سوچیں، ’وہ کونسی چیز ہے جو ہماری ضروریاتِزندگی سے بھی زیادہ اہم ہو سکتی ہے؟‘ اِس کا جواب ہے، ایسی روحانی چیزیں جن کا تعلق خدا کی پرستش سے ہے۔ یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ ہمیں ’خدا کی بادشاہی اور راستبازی کی تلاش‘ کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔—متی ۶:۳۳۔
عیشوعشرت کے بارے میں فکرمند رہنا زیادہ اہم چیزوں کو پسِپشت ڈال سکتا ہے۔ (یسوع مسیح کے زمانے میں بہتیرے لوگ مادی چیزوں کی تلاش میں مصروف تھے۔ اُن کی زندگی کا اوّلین مقصد مالودولت جمع کرنا تھا۔ تاہم، یسوع مسیح نے اپنے سامعین کو زندگی کی بابت مختلف نقطۂنظر رکھنے کی تاکید کی تھی۔ خدا کے لئے مخصوص لوگوں کے طور پر اُن کا ’فرضِکُلی خدا سے ڈرنا اور اُس کے حکموں کو ماننا تھا۔‘—واعظ ۱۲:۱۳۔
”دُنیا کی فکر اور دولت کا فریب“ یعنی مادی چیزوں کے پیچھے بھاگنا خدا کے ساتھ اُن کے رشتے کو تباہ کر سکتا تھا۔ (متی ۱۳:۲۲) پولس رسول نے لکھا: ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۹) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو اِس ”پھندے“ میں پھنسنے سے بچانے کے لئے یاددہانی کرائی کہ اُن کا آسمانی باپ جانتا ہے کہ اُنہیں مادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ خدا اُن کے لئے یہ سب چیزیں فراہم کرے گا جیسے وہ ”ہوا کے پرندوں“ کے لئے مہیا کرتا ہے۔ (متی ۶:۲۶، ۳۲) پریشان ہونے کی بجائے، اُنہیں اپنی مادی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرنے کے بعد اپنی تمام فکریں یہوواہ خدا پر ڈال دینی چاہئیں۔—فلپیوں ۴:۶، ۷۔
جب یسوع مسیح نے فرمایا کہ ”کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا“ تو اُس کا یہ مطلب تھا کہ ہمیں مستقبل کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اِس طرح ہمارے آج کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اِس لئے بائبل بیان کرتی ہے: ”کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے۔“—متی ۶:۳۴۔
”تیری بادشاہی آئے“
تاہم، مستقبل کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند ہونے اور آنے والے وقت کو بالکل نظرانداز کرنے میں بہت فرق ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی کبھی بھی یہ حوصلہافزائی نہیں کی تھی کہ آنے والے کل کو یاد نہ رکھیں۔ اِس کے برعکس، اُس نے اُنہیں تاکید کی تھی کہ اپنے مستقبل کو یاد رکھیں۔ اُنہیں اپنی روزمرّہ ضروریات کے لئے دُعا کرنی تھی مگر اِس سے پہلے اُنہیں مستقبل سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے لئے دُعا کرنی تھی۔ اُنہیں پہلے خدا کی بادشاہی کے آنے اور زمین پر خدا کی مرضی پوری ہونے کے لئے دُعا کرنی تھی۔—متی ۶:۹-۱۱۔
ہمیں نوح کے زمانے کے لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ ’طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھانے پینے اور بیاہشادی کرنے میں‘ اتنے زیادہ مصروف تھے کہ اُنہیں آنے والے وقت کی ’خبر نہ ہوئی۔‘ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ’طوفان آ کر اُن سب کو بہا لے گیا۔‘ (متی ۲۴:۳۶-۴۲) مستقبل کو یاد رکھنے پر زور دینے کے لئے پطرس رسول نے اِس تاریخی واقعہ کو استعمال کِیا۔ اُس نے لکھا: ”جب یہ سب چیزیں اِس طرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔ اور خدا کے اُس دن کے آنے کا کیسا کچھ منتظر اور مشتاق رہنا چاہئے۔“—۲-پطرس ۳:۵-۷، ۱۱، ۱۲۔
آسمان پر مال جمع کریں
پس یہوواہ کے دن کے ”مشتاق“ رہیں۔ ایسا کرنا اِس بات پر اثرانداز ہوگا کہ ہم اپنے وقت، قوت، مہارتوں، وسائل اور صلاحیتوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں مادی چیزیں یا زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے میں اتنے مگن نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم ”دینداری“ کے کاموں کو وقت ہی نہ دے پائیں۔ صرف آج ہی کی بابت سوچنے سے فوری طور پر فائدہ تو پہنچ سکتا ہے لیکن یہ عارضی ہوگا۔ اِسی لئے یسوع مسیح نے کہا تھا کہ دانشمندی کی بات یہی ہے کہ زمین پر مال جمع کرنے کی بجائے ”آسمان پر مال جمع“ کریں۔—متی ۶:۱۹، ۲۰۔
لوقا ۱۲:۱۵-۲۱؛ امثال ۱۹:۲۱۔
اِس بات کو یسوع مسیح نے اُس شخص کی تمثیل سے نمایاں کِیا جو مستقبل کی بابت بڑے بڑے منصوبے بنا رہا تھا۔ اُس کے منصوبوں میں خدا کے ساتھ رشتہ رکھنا شامل نہیں تھا۔ اُس شخص کے پاس بڑی زرخیز زمین تھی۔ پس، اُس نے بڑے گودام تعمیر کرنے کا فیصلہ کِیا تاکہ اُس کے پاس نہ صرف کھانےپینے کی افراط ہو بلکہ وہ عیشوآرام کی زندگی بھی گزار سکے۔ مگر اِس میں کیا خرابی تھی؟ اِس سے پہلے کہ وہ اپنی محنت کے پھل سے فائدہ اُٹھاتا اُس کی زندگی نے ساتھ چھوڑ دیا۔ علاوہازیں، وہ خدا کے ساتھ رشتہ قائم کرنے میں بھی ناکام رہا۔ آخر میں یسوع مسیح نے کہا: ”ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔“—آپ کیا کر سکتے ہیں؟
یسوع مسیح کی تمثیل والے شخص جیسی غلطی نہ کریں۔ مستقبل کیلئے خدا کے مقصد کے بارے میں جانیں اور پھر اِس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ خدا نے انسانوں کو اِس بات سے بےخبر نہیں رکھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ عاموس نبی نے لکھا: ”یقیناً [یہوواہ] خدا کچھ نہیں کرتا جب تک کہ اپنا بھید اپنے خدمتگذار نبیوں پر پہلے آشکارا نہ کرے۔“ (عاموس ۳:۷) یہوواہ خدا نے اپنے نبیوں کی معرفت جوکچھ آشکارا کِیا وہ اب اُس کے الہامی کلام بائبل میں دستیاب ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷۔
بائبل بیان کرتی ہے کہ مستقبل قریب میں کچھ ایسا واقع ہونے والا ہے جس سے ساری زمین متاثر ہوگی۔ یسوع مسیح نے فرمایا: ”اُس وقت ایسی بڑی مصیبت ہوگی کہ دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔“ (متی ۲۴:۲۱) کوئی بھی انسان اِسے واقع ہونے سے نہیں روک سکتا۔ بِلاشُبہ، سچے پرستار بھی اِسے روکنا نہیں چاہیں گے۔ مگر کیوں؟ کیونکہ اِس کی بدولت زمین سے تمام بدکاری کا خاتمہ ہو جائے گا اور اِس کی جگہ ’نیا آسمان اور نئی زمین‘ یعنی ایک نئی آسمانی حکومت اور نیا زمینی معاشرہ قائم ہو جائیں گے۔ اُس نئی دُنیا میں یہوواہ خدا ”اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“—مکاشفہ ۲۱:۱-۴۔
پس کیا یہ معقول بات نہ ہوگی کہ بائبل اِس کی بابت جوکچھ بیان کرتی ہے اُسے پڑھنے کے لئے اب وقت نکالیں؟ کیا آپ کو ایسا کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے؟ یہوواہ کے گواہوں سے مدد لیں۔ یا پھر اِس رسالے کو شائع کرنے والوں کو لکھیں۔ پس اِس بات کا یقین کر لیں کہ آپ آج ہی کے لئے نہ جئیں بلکہ آنے والے کل کو بھی یاد رکھیں۔
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
”فکر نہ کرو . . . کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا“