واعظ کی کتاب سے اہم نکات
یہوواہ کا کلام زندہ ہے
واعظ کی کتاب سے اہم نکات
خدا کے راستباز بندے ایوب نے فرمایا: ”انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔“ (ایوب ۱۴:۱) یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم بیکار کاموں اور فکروں کے پیچھے بھاگنے سے اپنی اس مختصر سی زندگی کو ضائع نہ کریں! ہمیں اپنے وقت، توانائی اور وسائل کو کن کاموں میں استعمال کرنا چاہئے؟ اس کے علاوہ، ہمیں کن کاموں سے گریز کرنا چاہئے؟ بائبل میں واعظ کی کتاب میں درج حکمت کی باتیں اس سلسلے میں قابلِبھروسا راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ بائبل کی یہ باتیں ”دل کے خیالوں اور ارادوں“ کو جانچنے اور ہمیں ایک بامقصد زندگی گزارنے میں مدد دے سکتی ہیں۔—عبرانیوں ۴:۱۲۔
واعظ کی کتاب اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے تحریر کی، جو اپنی حکمت کے لئے مشہور تھا۔ اس کتاب میں پائی جانے والی عملی حکمت اس بات کو بیان کرتی ہے کہ ہماری زندگی میں کونسے کام واقعی مفید اور کونسے بیکار ہیں۔ سلیمان نے اپنی کتاب میں چند تعمیراتی کاموں کا بھی ذکر کِیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس نے یہ کتاب ان تعمیراتی کاموں کے مکمل ہو جانے کے بعد اور سچی پرستش سے دُور ہو جانے سے پہلے لکھی تھی۔ (نحمیاہ ۱۳:۲۶) یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب ۱۰۰۰ قبلازمسیح میں سلیمان کے ۴۰ سالہ دورِحکومت کے اختتام سے پہلے لکھی گئی تھی۔
کیا سب کچھ باطل نہیں؟
(واعظ ۱:۱–۶:۱۲)
واعظ کہتا ہے: ”سب کچھ باطل ہے۔ انسان کو اُس ساری محنت سے جو وہ دُنیا میں کرتا ہے کیا حاصل ہے؟“ (واعظ ۱:۲، ۳) واعظ کی کتاب میں ”باطل“ اور ”بطلان“ جیسے الفاظ باربار استعمال ہوئے ہیں۔ عبرانی زبان میں باطل کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے اُس کا مطلب ”سانس“ یا ”بخارات“ ہے اور یہ کسی چیز کے غیراہم، غیرمستحکم اور ناپائیدار ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پس، انسان کی ہر وہ کوشش باطل یا بیکار ہے جس میں خدا کی مرضی کو نظرانداز کِیا جاتا ہے۔
سلیمان نے فرمایا: ”جب تُو خدا کے گھر کو جاتا ہے تو سنجیدگی سے قدم رکھ کیونکہ شنوا ہونے کے لئے جانا . . . بہتر ہے۔“ (واعظ ۵:۱) یہوواہ خدا کی سچی پرستش میں مشغول رہنا باطل نہیں۔ درحقیقت، ایک بامقصد زندگی گزارنے کے لئے بنیادی چیز خدا کے ساتھ اپنے رشتے پر توجہ دینا ہے۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۴-۱۰—کس لحاظ سے دُنیا میں واقع ہونے والے فطرتی چکر یا گردشیں ”ماندگی سے پُر“ ہیں؟ اگرچہ دُنیا میں واقع ہونے والے فطرتی چکر یا گردشیں بہت ساری اور انتہائی پیچیدہ ہیں توبھی واعظ صرف تین بنیادی گردشوں کا ذکر کرتا ہے جو زمین پر زندگی کو ممکن بناتی ہیں۔ سورج کی گردش، ہوا کا چکر اور آبی چکر۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنی ساری عمر بھی اِن کا مطالعہ کرنے میں گزار دے تو شاید انہیں مکمل طور پر نہ سمجھ پائے۔ اس لحاظ سے یہ کام واقعی ”ماندگی سے پُر“ ہو سکتا ہے۔ جب ہم اپنی مختصر سی زندگی کا موازنہ ان کبھی نہ ختم ہونے والی فطرتی گردشوں سے کرتے ہیں تو یہ بھی پریشانکُن ہو سکتا ہے۔ نئی نئی چیزیں دریافت کرنا بھی ماندگی سے پُر یعنی تھکا دینے والا کام ہے۔ بڑی حد تک نئی ایجادیں بھی اُن ہی اُصولوں پر مبنی ہیں جنہیں خدا دُنیا کو خلق کرتے وقت کام میں لایا تھا۔
۲:۱، ۲—ہنسی کو ’دیوانگی یا دیوانہپن‘ کیوں کہا گیا ہے؟ ہنسی یا عیشوعشرت وقتی طور پر ہمارے ذہن کو اپنی مشکلات کی طرف سے ہٹانے یا اُنہیں نظرانداز کر دینے میں مدد دے سکتی ہے۔ تاہم یہ وقتی شادمانی ہماری مشکلات کو ختم نہیں کرتی۔ اس لئے عیشوعشرت کے ذریعے زندگی سے خوشی حاصل کرنے کو واعظ کی کتاب میں ’دیوانگی یا دیوانہپن‘ کہا گیا ہے۔
۳:۱۱—کس چیز کو خدا نے ”اُس کے وقت میں خوب بنایا“ ہے؟ بعض چیزیں جنہیں یہوواہ خدا نے اُن کے وقت میں ”خوب“ بنایا ہے اُن میں آدم اور حوا کی تخلیق، بادلوں میں کمان یا قوسِقزح کے ساتھ عہد، ابرہامی عہد، داؤد کے ساتھ عہد، مسیحا کی آمد اور یسوع مسیح کا خدا کی بادشاہی کے بادشاہ کے طور پر تختنشین کِیا جانا شامل ہے۔ لیکن ایک اَور بھی چیز ہے جسے یہوواہ مستقبل قریب میں ”خوب“ بنائے گا۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وقت آنے پر ایک راست نئی دُنیا قائم کی جائے گی۔—۲-پطرس ۳:۱۳۔
۵:۹—”زمین کا حاصل سب کے لئے“ کیسے ہے؟ زمین پر رہنے والے سب لوگ ’زمین کے حاصل‘ یعنی زمین کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں جس میں بادشاہ بھی شامل ہیں۔ بادشاہ کے غلام بھی سخت محنت سے کام کرتے ہیں تاکہ بادشاہ زمین کی پیداوار سے فائدہ اُٹھا سکے۔
ہمارے لئے سبق:
۱:۱۵۔ آجکل جو ظلموستم اور ناانصافی ہو رہی ہے اُسے دُرست کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہے۔ خدا کی آسمانی بادشاہت ہی اِن بُری حالتوں کو ختم کر سکتی ہے۔—دانیایل ۲:۴۴۔
۲:۴-۱۱۔ فنِتعمیر، کاشتکاری اور موسیقی سے متعلق کئے جانے والے مختلف کام اور اس کے ساتھ ساتھ عیشوعشرت کی زندگی سب کے سب ”ہوا کی چران“ ہیں کیونکہ نہ تو یہ زندگی کو بامقصد بناتے ہیں اور نہ ہی دائمی خوشی کا باعث بنتے ہیں۔
۲:۱۲-۱۶۔ حکمت کو حماقت پر اس لحاظ سے سبقت حاصل ہے کہ یہ مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن جہاں تک موت کا تعلق ہے تو انسانی حکمت اس سلسلے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اگر کوئی شخص انسانی حکمت کی بدولت شہرت حاصل کر لیتا ہے توبھی لوگ اُسے زیادہ دیر تک یاد نہیں رکھتے۔
۲:۲۴؛ ۳:۱۲، ۱۳، ۲۲۔ اپنی محنت سے فائدہ اُٹھانے اور خوش ہونے میں کوئی خرابی نہیں۔
۲:۲۶۔ خوشی کا باعث بننے والی خدائی حکمت ایسے شخص کو ملتی ہے جو ’یہوواہ کے حضور راست ہے۔‘ خدا کے ساتھ اچھا رشتہ رکھے بغیر ایسی حکمت حاصل کرنا ممکن نہیں۔
۳:۱۶، ۱۷۔ ہر معاملے میں انصاف کی توقع کرنا دُرست نہیں۔ آجکل دُنیا میں جوکچھ ہو رہا ہے اُس کی بابت فکرمند ہونے کی بجائے ہمیں معاملات کو دُرست کرنے کے لئے یہوواہ خدا کا انتظار کرنا چاہئے۔
۴:۴۔ سخت محنت خوشی بخشتی ہے۔ تاہم، دوسروں کو نیچا دکھانے یا اُن پر سبقت لیجانے کے لئے محنت کرنا مقابلہبازی کی روح پیدا کرتا اور ہمارے اندر حسد اور بغض کے احساسات کو فروغ دیتا ہے۔ منادی کے کام میں بھی ہمیں نیکنیتی کے ساتھ محنت کرنی چاہئے۔
۴:۷-۱۲۔ انسانی رشتے مادی چیزوں سے زیادہ اہم ہیں اور انہیں مالودولت حاصل کرنے کے لئے قربان نہیں کرنا چاہئے۔
۴:۱۳۔ عمر اور مرتبہ ہمیشہ عزت کا باعث نہیں بنتے۔ پس، ذمہداری کے عہدوں پر فائز اشخاص کو دانشمندی سے چلنا چاہئے۔
۴:۱۵، ۱۶۔ ہو سکتا ہے کہ بادشاہ کے جانشین بننے والے شخص کو شروع شروع میں سب لوگوں کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل ہو۔ مگر جلد ہی وہ اُس سے تنگ آ جاتے ہیں یعنی وہ اُس سے ”خوش“ نہیں رہتے۔ سچ ہے کہ مقبولیت دیرپا نہیں ہوتی۔
۵:۲۔ ہمیں اپنے دلوں کو خدا کے حضور اُنڈیل دینا چاہئے اور لفظی دُعاؤں کی بجائے خوب سوچسمجھ کر اور احترام کے ساتھ دُعا کرنی چاہئے۔
۵:۳-۷۔ مالودولت حاصل کرنے کی بابت حد سے زیادہ سوچنا خودغرضی کو تحریک دے سکتا ہے۔ یہ ایک شخص کی راتوں کی نیند بھی حرام کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، بہت زیادہ بولنے کی وجہ سے ایک شخص دوسروں کی نظروں میں احمق بن سکتا ہے۔ اس وجہ سے وہ جلدبازی میں خدا کے حضور منت بھی مان سکتا ہے۔ سچے خدا کا خوف ماننا ہمیں یہ دونوں کام کرنے سے باز رکھے گا۔
۶:۱-۹۔ اگر حالات ہمیں مالودولت، آسائشوں، لمبی عمر اور بڑے خاندان سے لطفاندوز ہونے کا موقع نہیں دیتے تو پھر یہ تمام چیزیں کسی کام کی نہیں۔ ”آنکھوں سے دیکھ لینا“ یا حقائق کا سامنا کرنا ”آرزو کی آوارگی“ یعنی ایسی خواہشوں کے پیچھے بھاگنے سے ”بہتر ہے“ جن کا حصول ممکن نہیں۔ پس بہترین زندگی یہی ہے کہ اگر ہمارے پاس کھانےپہننے کو ہے تو ”اُسی پر قناعت کریں“ اور زندگی میں اچھی چیزوں سے لطفاندوز ہوں اور خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط رکھیں۔—۱-تیمتھیس ۶:۸۔
دانشمند کے لئے نصیحت
(واعظ ۷:۱–۱۲:۸)
ہم اپنی نیکنامی یا شہرت کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟ دُنیاوی حکمرانوں اور دُنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کی بابت ہمارا رُجحان کیا ہونا چاہئے؟ مرنے کے بعد ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے اس لئے ہمیں اپنی زندگی کو کس طرح بسر کرنا چاہئے؟ نوجوان اپنے وقت اور توانائی کو دانشمندی سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ مذکورہبالا معاملات پر واعظ کی مشورت ہمارے لئے اس کتاب کے ۷ تا ۱۲ ابواب میں درج ہے۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۷:۱۹—حکمت ”دس حاکموں“ سے زورآور کیسے ہے؟ بائبل میں دس کے عدد کو علامتی معنوں میں کسی چیز کے مکمل ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔ یہاں سلیمان یہ کہہ رہا ہے کہ حکمت کی حفاظت کرنے کی خوبی کسی شہر کی حفاظت کرنے والے دس جنگی مردوں سے بھی زیادہ ہے۔
۱۰:۲—دل کے ”دہنے ہاتھ“ یا ”بائیں طرف“ ہونے سے کیا مُراد ہے؟ بیشتر صورتوں میں دہنا ہاتھ مقبولیت یا پسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے اس لئے دل کا دائیں طرف ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس شخص کا دل اُسے نیکی کرنے پر مائل کرتا ہے۔ اگر دل کسی شخص کو غلط کام کرنے کی تحریک دیتا ہے تو یہ ایسے ہے گویا اُس کا دل اُس کی بائیں طرف ہے۔
۱۰:۱۵—کس طرح ”احمق کی محنت اُسے تھکاتی“ ہے؟ اگر ایک شخص کوئی کام کرنے سے پہلے اس کی بابت صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہتا ہے تو اُس کی سخت محنت کا خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلتا۔ اُسے اس سے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ ایسی فضول جدوجہد اُسے تھکا دیتی ہے۔
۱۱:۷، ۸—”نُور شیرین ہے اور آفتاب کو دیکھنا آنکھوں کو اچھا لگتا ہے“ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟ روشنی اور سورج ایسی چیزیں ہیں جن سے زندہ اشخاص ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ یہاں بادشاہ سلیمان بیان کر رہا ہے کہ زندگی ایک بیشقیمت نعمت ہے۔ اس سے پہلے کہ تاریکی یا بڑھاپے کے وہ دن آئیں جب ہماری ساری قوت اور جوشوولولہ ختم ہو جائے ہمیں اپنی زندگی سے خوب لطف اُٹھانا چاہئے۔
۱۱:۱۰—”لڑکپن اور جوانی“ دونوں باطل کیوں ہیں؟ لڑکپن اور جوانی کے دن بخارات کی مانند بڑی تیزی سے گزر جاتے ہیں اس لئے اگر ان سے مناسب طور پر فائدہ نہ اُٹھایا جائے تو یہ باطل ہی ہیں۔
ہمارے لئے سبق:
۷:۶۔ نامناسب وقت پر ہنسی اتنی ہی تکلیفدہ اور فضول معلوم ہوتی ہے جیسے ہانڈی کے نیچے کانٹوں کا چٹکنا۔ اس لئے ہمیں اس سلسلے میں احتیاط برتنی چاہئے۔
۷:۲۱، ۲۲۔ ہمیں دوسروں کی باتوں کی وجہ سے حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔
۸:۲، ۳؛ ۱۰:۴۔ جب کوئی سپروائزر یا مالک ہمارے کام کی اصلاح کرتا یا اُس پر تنقید کرتا ہے تو خاموش رہنا ہی عقلمندی ہے۔ اس کے برعکس، ’جلدبازی میں اُس کے حضور سے چلے جانا‘ یعنی بغیر سوچےسمجھے نوکری چھوڑ دینا عقلمندی نہیں۔
۸:۸؛ ۹:۵-۱۰، ۱۲۔ ہماری زندگی اُسی طرح جلدی سے ختم ہو سکتی ہے جیسے پرندے صیاد کے پھندے میں یا مچھلیاں جال میں پھنس جاتی ہیں۔ علاوہازیں، نہ تو کوئی شخص زندگی کی قوت کو ختم ہونے سے روک سکتا ہے اور نہ ہی انسانوں پر آنے والی موت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ پس ہمیں بیکار میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم زندگی کو قیمتی خیال کرتے ہوئے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ ایسا کرنے کے لئے ہمیں یہوواہ خدا کی پاک خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔
۸:۱۶، ۱۷ (کیتھولک ترجمہ)۔ ہم رات دن سوچبچار کرنے کے بعد بھی اس معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے کہ خدا نے جوکچھ کِیا ہے اور جوکچھ وہ بنیآدم کے ساتھ واقع ہونے کی اجازت دے رہا ہے اس کی کیا وجہ ہے۔ اگر ہم صرف اُن غلط کاموں پر ہی سوچتے رہیں جو ہو چکے ہیں تو اس سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہماری زندگی خوشیوں سے محروم ہو جائے گی۔
۹:۱۶-۱۸۔ جب لوگوں کی اکثریت حکمت کی تحقیر کر رہی ہو تو ہمیں اُس وقت بھی اس کی قدر کرنی چاہئے۔ دانشمند شخص کی دھیمے لہجے میں کہی گئی باتوں کی احمق کے شور سے زیادہ اہمیت ہے۔
۱۰:۱۔ ہمیں اپنے کاموں اور باتچیت کے بارے میں محتاط رہنا چاہئے۔ کیونکہ ذرا سی حماقت جیسےکہ غصے میں آ جانا، شراب پینا، کوئی بُری حرکت کر بیٹھنا کسی باعزت شخص کی نیکنامی کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔
۱۰:۵-۱۱۔ اگر کوئی نااہل شخص کسی اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے تو اُس پر حسد یا رشک نہیں کرنا چاہئے۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کو سرانجام دینے میں نااہلی کے بُرے نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس کی بجائے، ’کامیاب نکلنے کے لئے حکمت استعمال کرنا‘ مفید ثابت ہوتا ہے۔ پس یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم منادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں خوب مہارت پیدا کریں!
۱۱:۱، ۲۔ ہمیں پورے دل سے سخاوت پر مائل ہونا چاہئے۔ اس کے بدلے میں ہمارے لئے بھی سخاوت دکھائی جائے گی۔—لوقا ۶:۳۸۔
۱۱:۳-۶۔ اگرچہ زندگی میں کوئی بھی کام یقین کے ساتھ نہیں کِیا جا سکتا توبھی ہمیں فیصلے کرتے وقت بےیقینی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
۱۱:۹؛ ۱۲:۱-۷۔ نوجوان یہوواہ خدا کے حضور جوابدہ ہیں۔ اس لئے اُنہیں بڑھاپا آنے سے پہلے پہلے اپنے وقت اور توانائی کو دانشمندی کے ساتھ یہوواہ کی خدمت میں استعمال کرنا چاہئے۔
”دانشمند کی باتیں“ ہماری راہنمائی کے لئے ہیں
(واعظ ۱۲:۹-۱۴)
واعظ جن ’دلآویز باتوں‘ کی تلاش میں رہا اور جو اُس نے لکھیں ہمیں اُنہیں کیسا خیال کرنا چاہئے؟ انسانی حکمت پر مبنی ’بہت کتابوں‘ کے برعکس، ”دانشمند کی باتیں پینوں کی مانند ہیں اور اُن کھونٹھیوں کی مانند جو صاحبانِمجلس نے لگائی ہوں اور جو ایک ہی چرواہے کی طرف سے ملی ہوں۔“ (واعظ ۱۲:۱۰-۱۲) ”ایک ہی چرواہے“ یعنی یہوواہ خدا کی معرفت دی جانے والی حکمت کی باتیں ہماری زندگی کو استحکام بخشتی ہیں۔
واعظ کی کتاب میں پائی جانے والی حکمت کا استعمال ہمیں ایک بامقصد اور خوشحال زندگی بسر کرنے میں مدد دے گا۔ علاوہازیں، ہمیں یقیندہانی کرائی گئی ہے: ”اُن ہی کا بھلا ہوگا جو خداترس ہیں۔“ پس آئیے اپنے اس عزم پر قائم رہیں، ”خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان۔“—واعظ ۸:۱۲؛ ۱۲:۱۳۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
وقت آنے پر خدا زمین کی خوبصورتی کو بحال کرے گا
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
خدا کی بخششوں میں کھاناپینا اور اپنے ہاتھوں کی سخت محنت سے فائدہ اُٹھانا شامل ہے