ہمیشہ کی زندگی آپکی پہنچ میں ہے!
ہمیشہ کی زندگی آپکی پہنچ میں ہے!
”مَیں موت سے تو نہیں ڈرتی لیکن جب مَیں سوچتی ہوں کہ مجھے اِن پھولوں سے بچھڑنا پڑے گا تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔“ یہ بات جاپان کی ایک عمررسیدہ عورت نے کہی تھی۔ اُنہوں نے ایسے اِس لئے کہا کیونکہ اُن کا باغ بہت ہی خوبصورت تھا۔ بہتیرے لوگ کہتے ہیں کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے۔ ایسے لوگ اکثر خلق کی ہوئی چیزوں کی خوبصورتی کی قدر کرتے ہیں اور اِن سے لطفاندوز ہونے کے لئے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کیا انسان ہمیشہ تک زندہ رہ سکتا ہے؟ کئی لوگ اس خیال کو ترک کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ اُنہیں ہمیشہ زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
بوریت یا بیزاری؟
کئی لوگ کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ حاصل کرنے کے بعد لوگوں کا ہر دِن ایک جیسا ہوتا ہے۔ ٹیلیویژن دیکھنے کے علاوہ اُن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کے خیال میں ہمیشہ کی زندگی بوریت اور بیزاری کے علاوہ کچھ نہیں لائے گی۔ کیا آپ بھی یہی خیال رکھتے ہیں؟ ایک ماہرِفلکیات سے پوچھا گیا کہ آیا اُن کے خیال میں ہمیشہ کی زندگی ایک نعمت یا ایک لعنت ثابت ہوگی۔ اُنہوں نے جواب دیا: ”ہمیشہ کی زندگی اُن لوگوں کے لئے ایک نعمت ہوگی جن کا ذہن نئی چیزیں سیکھنے کو ترستا ہے۔ وہ یہ جان کر تسلی پائیں گے کہ وہ ہمیشہ تک علم حاصل کر سکیں گے۔ لیکن ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے سب کچھ سیکھ لیا ہے، اُن کے لئے ہمیشہ کی زندگی ایک لعنت ہوگی کیونکہ اُن کے لئے وقت گزارنا بہت ہی مشکل ہوگا۔“
اگر ’آپ کا ذہن نئی چیزیں سیکھنے کو ترستا ہے‘ تو زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے سے آپ اپنے پسندیدہ مشغلوں کے لئے لامحدود وقت صرف کر سکیں گے۔ تب آپ موسیقی، فنِتعمیر اور باغبانی جیسے فنون میں ماہر بن سکیں گے۔
انسان میں پیار کرنے کی قابلیت ہے۔ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ہم سے پیار کرتے ہیں تو ہم ایک پھول کی مانند کھل جاتے ہیں۔ اور دوسروں کے ساتھ پیار سے پیش آنا ہمارے لئے بھی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ ایسا پیار کبھی مُرجھاتا نہیں۔ ہمیشہ تک زندہ رہنے سے ہم خاص طور پر خدا کے لئے اپنی محبت کو بڑھا سکیں گے۔ پولس رسول نے کہا: ”جو خدا سے محبت رکھتا ہے اُس کو خدا پہچانتا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۸:۳) یہ ہمارے لئے کتنا بڑا شرف ہے کہ ہم نہ صرف کائنات کے خالق کو جان سکتے ہیں بلکہ وہ بھی ہمیں پہچانتا ہے۔ ہم اپنے خالق کے بارے میں ہمیشہ تک سیکھتے رہیں گے۔ جیہاں، ہم ہمیشہ کی زندگی سے کبھی بیزار نہیں ہوں گے!
زندگی محض چند دنوں کی مہمان؟
کئی لوگ کہتے ہیں کہ زندگی چند دنوں کی مہمان ہے اس لئے یہ اِس قدر قیمتی ہے۔ اُن کی نظر میں زندگی خالص سونے کی طرح ہے جو کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اگر سونا بڑی تعداد میں دستیاب ہوتا تو اُس کی قیمت بہت کم ہو جاتی۔ لیکن تب بھی سونے کی خوبصورتی میں تو کوئی کمی نہیں آتی۔ اسی طرح، اگر زندگی لامحدود ہو تو تب بھی ہم اس سے لطفاندوز ہوں گے۔
ایک اَور مثال لیجئے۔ فرض کریں کہ ایک آبدوز یعنی سبمیرین کو
پانی کی سطح پر آنے میں دقت ہو رہی ہے۔ اس میں پھنسے ہوئے ملاحوں کا دَم ہوا کی کمی کی وجہ سے گھٹنے لگتا ہے۔ اس لمحے میں اُن کی نظروں میں ہوا بہت ہی قیمتی ہے۔ جب ملاحوں کو بچا کر سطح پر لایا جاتا ہے تو کیا وہ شکایت کرنے لگتے ہیں کہ اب اُن کے پاس سانس لینے کے لئے بہت زیادہ ہوا موجود ہے؟ بالکل نہیں۔اِن ملاحوں کی طرح ہمیں بھی موت سے بچایا جا سکتا ہے۔ پولس رسول نے لکھا تھا: ”گُناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۳) یسوع کی قربانی کے تحت خدا ناکامل اِنسانوں کو موت سے رِہا کرکے اُن کو ہمیشہ کی زندگی سے نوازے گا۔ ہمیں خدا کی اِس شاندار نعمت کے لئے شکرگزار ہونا چاہئے۔
آپ کے عزیزوں کا کیا ہوگا؟
شاید آپ نے خدا کے کلام میں سے علم حاصل کِیا ہے اور فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے بارے میں سیکھا ہے۔ (لوقا ۲۳:۴۳؛ یوحنا ۳:۱۶؛ ۱۷:۳) اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے خاندان والے اور دوست بھی آپ کے ساتھ اِس فردوس سے لطف اٹھائیں۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) اس لئے آپ پوچھتے ہیں کہ ’میرے عزیزوں کا کیا ہوگا؟ اُن کے بغیر تو ہمیشہ کی زندگی میرے لئے بےمعنی ہوگی۔‘
اگر آپ کے عزیز فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں تو مایوس نہ ہوں۔ آپ خدا کے کلام سے علم حاصل کرتے رہیں اور جو کچھ آپ سیکھتے ہیں اُس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ پولس رسول کے اِن الفاظ پر غور کریں: ”اَے عورت! تجھے کیا خبر ہے کہ شاید تُو اپنے شوہر کو بچا لے؟ اور اَے مرد! تجھ کو کیا خبر ہے کہ شاید تُو اپنی بیوی کو بچا لے؟“ (۱-کرنتھیوں ۷:۱۶) لوگوں کی سوچ بدل بھی سکتی ہے۔ مثلاً ایک شخص جو سچے مسیحیوں کی خلافورزی کرتا تھا، اب وہ کلیسیا میں ایک بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”مَیں اپنے خاندان کا بہت احسانمند ہوں کیونکہ وہ میری مخالفت کے باوجود خدا کے معیاروں پر قائم رہا۔“
خدا آپ کی اور آپ کے عزیزوں کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے۔ ”[یہوواہ] کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ آپ اور آپ کے عزیز ہمیشہ کی زندگی پائیں۔ خدا کی محبت ناکامل انسانوں کی محبت سے ہر لحاظ سے زیادہ ہے اِس لئے آپ کو چاہئے کہ آپ خدا کے ساتھ ایک گہری دوستی قائم کریں۔ (یسعیاہ ۴۹:۱۵) اِس طرح آپ اپنے عزیزوں کو بھی خدا کے دوست بننے میں مدد دے سکیں گے۔ اگر وہ ہمیشہ کی زندگی کی اُمید نہیں رکھتے تو شاید وہ آپ کو خدا کے کلام پر عمل کرتے ہوئے دیکھ کر اپنا رویہ بدل دیں۔
آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ آپ کے اُن عزیزوں کے لئے کیا اُمید ہے جو فوت ہو چکے ہیں۔ خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ایسے لوگ پھر سے جیاُٹھیں گے۔ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا تھا: ”وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔“ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹) وہ لوگ جو مرنے سے پہلے خدا کی مرضی سے ناواقف تھے، وہ بھی پھر سے جیاُٹھائے جائیں گے۔ خدا کے کلام کے مطابق ”راستبازوں اور ناراستوں“ دونوں کو جیاُٹھایا جائے گا۔ (اعمال ۲۴:۱۵) وہ وقت ہمارے لئے کتنی خوشیاں لائے گا۔
ہمیشہ کی زندگی
اگر آپ آج کی تکلیفوں سے بھری ہوئی دُنیا میں بھی خوشی حاصل کر سکتے ہیں تو زمینی فردوس میں آپ ضرور ہمیشہ کی زندگی سے لطف اُٹھائیں گے۔ ایک یہوواہ کی گواہ نے ایک عورت کو ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے بارے میں بتایا۔ اُس عورت نے کہا: ”مَیں ہمیشہ کے لئے نہیں جینا چاہتی، میرے لئے تو زندگی کے ۷۰ یا ۸۰ سال ہی کافی ہیں۔“ ایک مسیحی بزرگ بھی وہاں موجود تھے۔ اُنہوں نے عورت سے پوچھا: ”کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ مر جائیں تو آپ کے بچوں پر کیا بیتے گی؟“ جب عورت نے سوچا کہ اُس کے بچوں کو اُس کی موت پر کتنا صدمہ پہنچے گا تو
اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ کہتی ہے: ”مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میری سوچ کتنی خودغرض تھی۔ اب مَیں سمجھ گئی ہوں کہ ہمیشہ کی زندگی کی اُمید میں دوسروں کے لئے جینا بھی شامل ہے۔“کئی لوگ شاید یہ سوچتے ہیں کہ چاہے وہ زندہ ہوں یا مُردہ اِس بات کی کسی کو پرواہ نہیں۔ لیکن ہمارا خالق ہماری پرواہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اِس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے۔“ (حزقیایل ۳۳:۱۱) اگر خدا اُن کی پرواہ بھی کرتا ہے جو شریر ہیں تو وہ اُن کی کتنی پرواہ کرتا ہوگا جو اُس سے محبت کرتے ہیں۔
اسرائیل کا بادشاہ داؤد، یہوواہ خدا کی محبت پر پورا بھروسا رکھتا تھا۔ اُس نے کہا: ”جب میرا باپ اور میری ماں مجھے چھوڑ دیں تو [یہوواہ] مجھے سنبھال لے گا۔“ (زبور ۲۷:۱۰) داؤد جانتا تھا کہ اُس کے والدین اُس سے پیار کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر اُس کے سب سے قریبی رشتہدار اُسے چھوڑ دیں تب بھی یہوواہ اُسے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ یہوواہ خدا ہم سے محبت کرتا ہے اور ہماری پرواہ بھی کرتا ہے۔ اِس لئے وہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے اور اپنے ساتھ دوستی کرنے کا موقع دیتا ہے۔ (یعقوب ۲:۲۳) کیا ہمیں خدا کی اِن نعمتوں کے لئے شکرگزار نہیں ہونا چاہئے؟
[صفحہ ۷ پر تصویر]
اگر ہم خدا اور دوسروں سے محبت کریں گے تو ہم ہمیشہ کی زندگی سے لطفاندوز ہونگے