کیا ہمیشہ کی زندگی ممکن ہے؟
کیا ہمیشہ کی زندگی ممکن ہے؟
یہ سن ۱۵۱۳ کی بات ہے۔ مارچ کی ۱۳ تاریخ کو ایک ہسپانوی سیاح، جس کا نام دے لیون تھا ملک پورٹوریکو سے ایک سمندری جہاز میں روانہ ہوا۔ وہ بمینی کے جزیرے کی تلاش میں تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اس جزیرے پر چشمہِحیات واقع تھا۔ لیکن دے لیون کو وہ چشمہ نہیں ملا۔ اِس کی بجائے اُس نے اس جزیرے کو دریافت کِیا جسے آج فلوریڈا کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ہمارے زمانے میں لوگ اکثر ۷۰ یہ ۸۰ سال کی عمر تک ہی زندہ رہتے ہیں۔ اگرچہ خدا کے کلام میں ہمیں ایسے اشخاص کی بابت بتایا جاتا ہے جو کئی صدیوں تک زندہ رہے۔ (پیدایش ۵:۳-۳۲) لیکن گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز کا دعویٰ ہے کہ ایک عورت جس کی عمر ۱۲۲ سال اور ۱۶۴ دن تھی، وہ ہی تاریخ کی سب سے بوڑھی انسان تھی۔ تاہم ایک سائنسی رسالے میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”نئی تحقیقات ہمیں ایک ایسے معاشرے کی جھلک دکھاتی ہیں جس میں بڑھاپے اور موت کا سایہ لوگوں پر چھایا نہیں رہے گا۔“ اکیسویں صدی کے کئی سائنسدان ”ابدی زندگی“ کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”سن ۲۰۹۹ تک انسانی عمر کی کوئی حد نہیں رہے گی“ اور یہ بھی کہ ”انسانی جسم ہمیشہ تک نئی خلیاں پیدا کرنے کے قابل ہوگا۔“
انگریزی کتاب ہمیشہ کی زندگی کا خواب بیان کرتی ہے: ”جسم کی زیادہتر خلیاں تقریباً سات سال کے اندر اندر ختم ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی خلیاں لے لیتی ہیں۔ . . . اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر سات سال بعد ہم نیا جسم پاتے ہیں۔“ لیکن یہ سلسلہ ہمیشہ تک جاری نہیں رہتا کیونکہ ایک مقررہ وقت پر جسم نئی خلیاں پیدا کرنا بند کر دیتا ہے۔ کتاب کا مصنف آگے بیان کرتا ہے کہ ”اگر ایسا نہ ہوتا تو جسم ایک لمبے عرصے کے لئے یا شاید ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو بحال کر سکتا۔“
ذرا غور کریں کہ ہمارا دماغ سیکھنے کی کتنی گنجائش رکھتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے دوران دماغ کا محض چھوٹا سا حصہ استعمال کرتے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق ہمارا دماغ ”سیکھنے کی اتنی گنجائش رکھتا ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی کے دوران اِسے استعمال نہیں کر پاتے۔“ ایک اَور کتاب دماغ کیسے کام کرتا ہے، کہتی ہے: ”انسانی دماغ سیکھنے کی لامحدود گنجائش رکھتا ہے۔“
سائنسدان انسان کے مرنے کی کوئی ٹھوس وجہ دریافت نہیں کر سکے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہمارا دماغ اتنی زیادہ باتیں سیکھنے کی گنجائش کیوں رکھتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمیں ہمیشہ تک علم حاصل کرتے رہنے کے لئے خلق کِیا گیا ہے؟ ہم ہمیشہ تک زندہ رہنے کے بارے میں کیوں سوچ سکتے ہیں؟
خدا کا کلام کہتا ہے: ”[خدا] نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کِیا ہے اس لئے کہ انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔“ (واعظ ۳:۱۱) اِن الفاظ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے من میں ہمیشہ کی زندگی کی آرزو خدا نے پیدا کی ہے۔ چاہے ہم کروڑوں سال تک جیتے بھی رہیں تو بھی ہم یہوواہ خدا اور اُس کی شاندار تخلیق کے بارے میں نئی باتیں سیکھتے رہیں گے۔
یسوع مسیح کے الفاظ سے بھی ہم یقین کر سکتیں ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی واقعی ممکن ہے۔ یسوع نے کہا تھا: ”یہ ہمیشہ کی زندگی ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) کیا آپ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہیں؟
[صفحہ ۳ پر تصویر]
دے لیون جو چشمۂحیات کی تلاش میں تھا
[تصویر کا حوالہ]
Harper’s Encyclopædia :Ponce de León
of United States History