”دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے“
”دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے“
”اَے بھائیو! مَیں یہ کہتا ہوں کہ وقت تنگ ہے۔“ —۱-کرنتھیوں ۷:۲۹۔
۱، ۲. آپ نے اپنی زندگی میں کونسی تبدیلیاں دیکھی ہیں؟
آپ نے اپنی زندگی میں دُنیا میں کون کونسی تبدیلیاں دیکھی ہیں؟ کیا آپ ان میں سے چند ایک کی بابت بتا سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر میدانِطب میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ آجکل اوسطاً ۷۰ سال تک زندہ رہتے ہیں جبکہ ۲۰ ویں صدی کے شروع میں لوگوں کی عمر عام طور پر ۵۰ سال تھی۔ آجکل ہم ریڈیو، ٹیلیویژن، موبائلفون اور فیکسمشین کے موزوں استعمال سے استفادہ کرتے ہیں۔ تعلیم، ذرائعِآمدورفت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں بھی ترقی ہوئی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگی بہتر ہو گئی ہے۔
۲ سچ ہے کہ تمام تبدیلیاں مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ مثلاً جُرم، بداخلاقی، منشیات کے استعمال، طلاق، دہشتگردی اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ بھی پولس رسول کے اِن الفاظ سے متفق ہوں گے جو اُس نے صدیوں پہلے لکھے تھے: ”دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۳۱۔
۳. جب پولس نے لکھا کہ ”دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے“ تو اُس کا کیا مطلب تھا؟
۳ جب پولس نے یہ بات کہی تو وہ دُنیا کا موازنہ ایک سٹیج سے کر رہا تھا۔ جہاں سیاسی، مذہبی اور مشہور لوگ اداکاروں کی طرح آتے اور اپنا کردار ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ زمانۂقدیم میں ایک ہی شاہی خاندان کئی صدیوں تک حکمرانی کرتا تھا
جس کی وجہ سے تبدیلیاں قدرے کم ہوتی تھیں۔ لیکن آجکل کسی اہم سیاستدان کے قتل سے دُنیا کا نقشہ ایک پَل میں بدل جاتا ہے! ہم آجکل اِس ہنگامہخیز دَور میں کل کی بابت نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔۴. (ا) مسیحیوں کو عالمی واقعات کی بابت کونسا متوازن نظریہ رکھنا چاہئے؟ (ب) ہم کون سے دو مدلل شواہد پر غور کریں گے؟
۴ اگر یہ دُنیا ایک سٹیج ہے اور دُنیا کے راہنما اداکاروں کا کردار ادا کر رہے ہیں تو مسیحی صرف تماشائی ہیں کیونکہ وہ ’دُنیا کا حصہ نہیں۔‘ * (یوحنا ۱۷:۱۶) وہ اس ڈرامے اور اس کے اداکاروں میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے بلکہ بےچینی سے ایسے نشانات کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ * سچے مسیحی جانتے ہیں کہ یہ بُرا دَور جلد ہی ختم ہونے والا ہے اور اس کے بعد یہوواہ ایک راست نئی دُنیا لائے گا جس کا مدتوں سے انتظار ہے۔ آئیے ہم دو ایسے شواہد پر غور کریں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اس دُنیا کے آخری زمانے میں رہ رہے ہیں اور نئی دُنیا بالکل نزدیک ہے (۱) بائبل میں بیانکردہ تاریخ اور (۲) دُنیا کے بگڑتے حالات۔—متی ۲۴:۲۱؛ ۲-پطرس ۳:۱۳۔
بالآخر ایک راز افشا ہوتا ہے!
۵. ”غیرقوموں کی میعاد“ کیا ہے اور ہم اِس میں دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟
۵ تاریخ دراصل وقت اور واقعات کے مابین تعلق کے مطالعے کا نام ہے۔ یسوع نے ایک دَور کا ذکر کِیا جب دُنیا کے لیڈر خدا کی بادشاہت کی مداخلت کے بغیر نمایاں کردار ادا کریں گے۔ یسوع نے اُس وقت کو ”غیرقوموں کی میعاد“ کہا تھا۔ (لوقا ۲۱:۲۴) یسوع ”غیرقوموں کی میعاد“ کے اختتام پر خدا کی آسمانی بادشاہت کے جائز حاکم کے طور پر ظاہر ہوگا۔ شروع میں یسوع ”اپنے دشمنوں“ کے درمیان حکمرانی کرے گا۔ (زبور ۱۱۰:۲) پھر دانیایل ۲:۴۴ کے مطابق یہ بادشاہت تمام انسانی حکومتوں کو ”ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی“ اور وہ ہمیشہ تک قائم رہے گی۔
۶. ”غیرقوموں کی میعاد“ کب شروع ہوئی، کتنے عرصے تک رہی اور کب ختم ہوئی تھی؟
۶ ”غیرقوموں کی میعاد“ کب ختم ہو گی اور خدا کی بادشاہت کب حکمرانی شروع کرے گی؟ اس سوال کا جواب جسے ”آخری وقت تک بندوسربمہر“ رہنا تھا بائبل تاریخ پر مشتمل ہے۔ (دانیایل ۱۲:۹) جیسے ہی وہ ”آخری وقت“ قریب آیا یہوواہ نے بائبل طالبعلموں کے ایک چھوٹے گروہ پر اس راز کو آشکارا کِیا۔ خدا کی روح کی مدد سے اُنہوں نے پہچان لیا کہ ”غیرقوموں کی میعاد“ ۶۰۷ ق.س.ع. میں یروشلیم کی تباہی کے ساتھ شروع ہوئی اور اس کو ۵۲۰،۲ سال تک جاری رہنا تھا۔ اس سے اُنہوں نے جان لیا کہ ”غیرقوموں کی میعاد“ کا اختتام سن ۱۹۱۴ میں ہونا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھ گئے کہ آخری زمانہ ۱۹۱۴ سے شروع ہونا تھا۔ ایک بائبل طالبعلم ہوتے ہوئے کیا آپ صحیفوں سے سمجھا سکتے ہیں کہ ہم ۱۹۱۴ کے سال تک کیسے پہنچتے ہیں؟ *
۷. بائبل کے کونسے حوالہجات یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں کہ دانیایل کی کتاب میں متذکرہ سات دَور کب شروع ہوئے، کتنے عرصے تک رہے اور کب ختم ہوئے تھے؟
۷ بائبل میں دانیایل کی کتاب ہمیں اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ”غیرقوموں کی میعاد“ ۶۰۷ ق.س.ع. میں شروع ہوئی۔ اسی سال میں یہوواہ نے بابل کے بادشاہ نبوکدنضر کو یروشلیم کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کِیا۔ اُس بادشاہ کو بتایا گیا تھا کہ غیرقومیں خدا کی مداخلت کے بغیر سات دَور تک حکمرانی کریں گی۔ (حزقیایل ۲۱:۲۶، ۲۷؛ دانیایل ۴:۱۶، ۲۳-۲۵) یہ سات دَور کتنے طویل تھے؟ مکاشفہ ۱۱:۲، ۳ اور ۱۲:۶، ۱۴ کے مطابق ساڑھے تین دَور ۲۶۰،۱ دن کے برابر ہیں۔ اس لئے سات دَور ساڑھے تین دَور کے دُگنے یعنی ۵۲۰،۲ دن کے برابر ہیں۔ کیا بات یہیں ختم ہو جاتی ہے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ یہوواہ نے حزقیایل نبی سے کہا: ”مَیں نے تیرے لئے ایک ایک سال کے بدلے ایک ایک دن مقرر کِیا ہے۔“ (حزقیایل ۴:۶) اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سات دَور درحقیقت ۵۲۰،۲ سال کے برابر ہیں۔ اگر ”غیرقوموں کی میعاد“ ۶۰۷ ق.س.ع. میں شروع ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ۵۲۰،۲ سال کے بعد یعنی ۱۹۱۴ میں ختم ہوئی تھی۔
”آخری وقت“ کا ثبوت
۸. ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ۱۹۱۴ سے لیکر دُنیا کے حالات بگڑ گئے ہیں؟
۸ سن ۱۹۱۴ سے لیکر دُنیا کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ بائبل تاریخ کی یہ وضاحت درست ہے۔ یسوع نے کہا تھا کہ ”دُنیا کے آخر“ میں جنگوں، قحطوں اور وباؤں میں اضافہ ہوگا۔ (متی ۲۴:۳-۸؛ مکاشفہ ۶:۲-۸) چنانچہ ۱۹۱۴ سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پولس رسول نے اِس وقت کے بارے میں کہا کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ بدل جائے گا۔ یہ بھی بالکل سچ ثابت ہوا ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
۹. مشاہدین ۱۹۱۴ سے لے کر دُنیا کے حالات کی بابت کیا کہتے ہیں؟
۹ کیا ”دُنیا کی شکل“ ۱۹۱۴ سے لے کر واقعی بدل گئی ہے؟ ایک پروفیسر نے اپنی کتاب دی جینریشن آف ۱۹۱۴ میں لکھا: ”جن لوگوں نے پہلی عالمی جنگ دیکھی اُنہیں ایسا لگا جیسے اُس وقت ایک دَور ختم ہو گیا اور اگست ۱۹۱۴ کے ساتھ ایک نیا دَور شروع ہو گیا ہے۔“ اس کے علاوہ ذہنی امراض کے ایک ڈاکٹر نے یوں لکھا: ”ہم ایک ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جب تبدیلیاں بڑی تیزی سے واقع ہو رہی ہیں۔ نتیجتاً بہت سے لوگ اس حد تک ذہنی دباؤ اور پریشانیوں کا شکار ہو رہے ہیں جوکہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔“ کیا آپ کا بھی یہی تجربہ رہا ہے؟
۱۰. بائبل کے مطابق ۱۹۱۴ سے دُنیا کے حالات کیوں بگڑ رہے ہیں؟
۱۰ دُنیا کی بگڑتی ہوئی حالت کا ذمہدار کون ہے؟ مکاشفہ ۱۲:۷-۹ اس کے بارے میں یوں بیان کرتی ہے: ”آسمان پر لڑائی ہوئی۔ میکاؔئیل [یسوع مسیح] اور اُس کے فرشتے اژدہا [شیطان اِبلیس] سے لڑنے کو نکلے اور اژدہا اور اُس کے فرشتے اُن سے لڑے۔ لیکن غالب نہ آئے اور اِس کے بعد آسمان پر اُن کے لئے جگہ نہ رہی۔ اور وہ بڑا اژدہا . . . [جو] سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے زمین پر گِرا دیا گیا۔“ شیطان ہی دُنیا کے حالات کو بگاڑ رہا ہے۔ اُسے ۱۹۱۴ سے زمین پر گِرا دیا گیا ہے اور اِس کی بابت بائبل کہتی ہے کہ ”اَے خشکی اور تری تم پر افسوس! کیونکہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔ اِسلئےکہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔“—مکاشفہ ۱۲:۱۰، ۱۲۔
اختتام کیسے ہوگا
۱۱. (ا) شیطان ”سارے جہان کو گمراہ“ کرنے کے لئے کونسے طریقے استعمال کرتا ہے؟ (ب) پولس رسول نے شیطان کی کونسی خاص چال کی طرف توجہ دلائی؟
۱۱ شیطان جانتا ہے کہ اُس کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ اِس لئے اُس نے ۱۹۱۴ سے ”سارے جہان کو گمراہ“ کرنے کی اپنی کوششوں کو تیزتر کر دیا ہے۔ یہ ماہر دھوکےباز یعنی شیطان پردے کے پیچھے رہ کر کام کرتا ہے جبکہ سٹیج پر راہنماؤں کو کلیدی کردار ادا کرنے دیتا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۳؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹) شیطان لوگوں کو اس غلطفہمی کا شکار بنانا چاہتا ہے کہ دُنیا پر اُس کا راج انسانوں کے لئے حقیقی امن لا سکتا ہے۔ کافی حد تک شیطان اس میں کامیاب رہا ہے کیونکہ زیادہتر لوگ دُنیا کے بُرے حالات کو دیکھنے کے باوجود پُراُمید ہیں کہ امن کا دَور آنے والا ہے۔ پولس رسول نے پیشینگوئی کی کہ اِس دُنیا کے خاتمے سے ذرا پہلے شیطان ایک خاص قسم کی چال چلے گا۔ اُس نے لکھا: ”جس وقت لوگ کہتے ہوں گے کہ سلامتی اور امن ہے اُس وقت اُن پر اِس طرح ناگہاں ہلاکت آئے گی جسطرح حاملہ کو درد لگتے ہیں۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۳؛ مکاشفہ ۱۶:۱۳۔
۱۲. ہمارے زمانے میں امن لانے کے لئے کونسی کوششیں کی گئی ہیں؟
۱۲ حالیہ برسوں میں سیاستدانوں نے مختلف انسانی منصوبوں کی وضاحت کرنے کے لئے اکثر ”سلامتی اور امن“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مثال کے طور پر، اِن راہنماؤں نے سن ۱۹۸۶ کو ”بینالاقوامی امن کا سال“ قرار دیا جبکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ کیا دُنیا کے حکمرانوں کی ایسی کاوشیں ۱-تھسلنیکیوں ۵:۳ کی پیشینگوئی کی تکمیل نہیں کرتیں یا پھر کیا پولس اس پیشینگوئی میں کسی خاص واقعہ یا ڈرامائی تبدیلی کا ذکر کر رہا تھا جو پوری دُنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گی؟
۱۳. جب پولس نے ”سلامتی اور امن“ کی پیشینگوئی کی تو اُس نے اس کے بعد ہونے والی تباہی کا موازنہ کس سے کِیا اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۳ بائبل کی پیشینگوئیاں عام طور پر اُسی وقت اچھی طرح سمجھ میں آتی ہیں جب یہ پوری ہو رہی ہوتی ہیں یا پوری ہو چکی ہوتی ہیں، اِس لئے ہمیں اِس پیشینگوئی کی پوری طرح سمجھ حاصل کرنے کے لئے انتظار کرنا ہے۔ تاہم دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پولس نے کہا کہ ”سلامتی اور امن“ کے اعلان کے بعد ہونے والی تباہی ایک حاملہ عورت کے دردِحمل کی طرح ہوگی۔ ایک حاملہ عورت نو مہینوں کے دوران اپنے رحم میں پرورش پانے والے بچے کی دل کی دھڑکن سننے اور بچے کی حرکات محسوس کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حمل کا دَور کٹھن ہوتا جاتا ہے۔ ایک دن اچانک دردِحمل شروع ہو جاتا ہے اور کچھ گھنٹوں کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح ہم یہ تو نہیں جانتے کہ ”سلامتی اور امن“ کی پیشینگوئی کس طرح پوری ہوگی لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ واقعہ اچانک اور دردناک ہوگا لیکن اس کا انجام خوشگوار ہوگا کیونکہ بُرے لوگ ہلاک کر دئے جائیں گے اور نئی دُنیا کا آغاز ہوگا۔
۱۴. مستقبل میں واقعات کس ترتیب سے وقوعپذیر ہوں گے اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
۱۴ وفادار مسیحی آنے والی تباہی کے محض تماشائی ہوں گے، اِس کے باوجود یہ واقعہ اُن کے لئے بھی خوفناک ہوگا۔ سب سے پہلے، دُنیا کے بادشاہ (شیطانی نظام کا سیاسی عنصر) بڑے بابل (شیطانی نظام کے مذہبی عنصر) کے حمایتیوں پر حملہ کریں گے اور اُنہیں تباہ کر دیں گے۔ (مکاشفہ ۱۷:۱، ۱۵-۱۸) حیرانگی کی بات یہ ہوگی کہ شیطان کی بادشاہت کا ایک حصہ دوسرے پر حملہآور ہوگا اور شیطان اُسے روک نہیں پائے گا۔ (متی ۱۲:۲۵، ۲۶) یہوواہ زمین کے بادشاہوں کے دلوں میں یہ خیال ڈالے گا کہ ”وہ اُسی کی رای پر چلیں“ یعنی دُنیا پر سے جھوٹے مذہب کا نامونشان مٹا دیں۔ اس کے بعد یسوع مسیح اپنی آسمانی فوجوں کے ساتھ شیطانی نظام کے باقی عناصر یعنی سیاسی اور تجارتی نظام پر حملہ کرکے فتح حاصل کرے گا۔ پھر شیطان پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی دُنیا کے سٹیج پر پردہ گِر جائے گا اور یہ طویل ڈرامہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔—مکاشفہ ۱۶:۱۴-۱۶؛ ۱۹:۱۱-۲۱؛ ۲۰:۱-۳۔
۱۵، ۱۶. یہ جانتے ہوئے کہ ”وقت تنگ ہے“ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۵ یہ سب کب واقعہ ہوگا؟ ہم اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت نہیں جانتے۔ (متی ۲۴:۳۶) لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ”وقت تنگ ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۹) چنانچہ ہمیں اپنا وقت دانشمندی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر کیسے؟ پولس رسول ہمیں ’وقت کو غنیمت جاننے‘ کی نصیحت کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں غیرضروری کاموں سے وقت نکال کر اسے ضروری کاموں میں صرف کرنا چاہئے۔ اِس کی وجہ؟ ”کیونکہ دن بُرے ہیں۔“ پس ’یہوواہ کی مرضی‘ کو سمجھتے ہوئے باقی قیمتی وقت کو ہمیں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔—افسیوں ۵:۱۵-۱۷؛ ۱-پطرس ۴:۱-۴۔
۱۶ یہ جانتے ہوئے کہ دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے ہمیں ذاتی طور پر کیا کرنا چاہئے؟ پطرس رسول نے ہمیں نصیحت کی: ”جب یہ سب چیزیں اِس طرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔“ (۲-پطرس ۳:۱۱) یہ مشورہ ہمارے لئے کسقدر اہم ہے! اس لئے ہمیں (۱) اپنے چالچلن کو پاک رکھنا اور (۲) پُرجوش کاموں سے یہوواہ کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہئے۔
۱۷. وفادار مسیحیوں کو شیطان کے کن پھندوں سے خبردار رہنا چاہئے؟
۱۷ اگر ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہم اس دُنیا کی چیزوں پر دل نہیں لگائیں گے۔ اس دُنیا کی کشش اور خودغرضی کی طرف کھنچ جانا ہمارے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ ہم اس دُنیا میں رہتے تو ہیں لیکن ہم اپنے آپ کو اس کی چیزوں میں اُلجھانا نہیں چاہتے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۱) ہمیں اس دُنیا کی غلط سوچ اپنانے سے خبردار رہنا چاہئے۔ یہ دُنیا اپنے مسئلوں کا حل نہیں ڈھونڈ پائے گی۔ یہ ہمیشہ تک قائم نہیں رہ پائے گی۔ ہم یقین کے ساتھ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اِسلئےکہ خدا کا الہامی کلام ایسا کہتا ہے: ”دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابدتک قائم رہے گا۔“—۱-یوحنا ۲:۱۷۔
بہتری آنا ابھی باقی ہے!
۱۸، ۱۹. آپ نئی دُنیا میں کون سی تبدیلیاں دیکھنے کے متمنی ہیں اور یہ انتظار کیسے خوشآئند ثابت ہوگا؟
۱۸ یہوواہ خدا بہت جلد شیطان اور اُسکے حمایتیوں کو ختم کر دیگا اور اس منظر کیساتھ ہی پردہ گِرا دیا جائیگا۔ اُسکے بعد خدا کے وفادار لوگ زمین پر ایسی تبدیلیاں لائینگے جو ہمیشہ قائم رہینگی۔ زمین پر پھر کبھی جنگ نہ ہوگی کیونکہ خدا ”زمین کی انتہا تک جنگ موقوف کراتا ہے۔“ (زبور ۴۶:۹) خوراک کی کمی کی بجائے ”زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہوگی۔“ (زبور ۷۲:۱۶) قیدخانے، تھانے، جنسی بیماریاں، منشیاتفروش، طلاق دینے والی عدالتیں، دیوالیہ ہو جانے کے اسباب اور دہشتگردی کا نامونشان مٹ جائیگا۔—زبور ۳۷:۲۹؛ یسعیاہ ۳۳:۲۴؛ مکاشفہ ۲۱:۳-۵۔
۱۹ قبریں خالی ہو جائینگی، لاکھوں مُردے زندہ ہو جائینگے۔ وہ کتنی خوشی کا وقت ہوگا جب موت کی وجہ سے بچھڑے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو گلے لگائینگے! اُس وقت ہر کوئی یہوواہ کی عبادت کریگا۔ (مکاشفہ ۵:۱۳) جب دُنیا کے سٹیج پر سے دوبارہ پردہ اُٹھیگا تو زمین فردوس بن چکی ہوگی۔ اس منظر کو دیکھ کر آپ کیسا محسوس کرینگے؟ بِلاشُبہ، اُس وقت آپ یہ کہنے کی تحریک پائینگے کہ ’مجھے آخرکار صبر کا پھل مل ہی گیا ہے!‘
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 ایک دوسرے حوالہ میں پولس رسول نے ممسوح مسیحیوں کے بارے میں لکھا کہ وہ ’دُنیا، فرشتوں اور آدمیوں کے لئے تماشا ٹھہرتے ہیں۔‘—۱-کرنتھیوں ۴:۹۔
^ پیراگراف 4 مثال کے طور پر، ”شاہِشمال“ جس کا ذکر دانیایل ۱۱:۴۰، ۴۴، ۴۵ میں کِیا گیا ہے، اس کی شناخت کے بارے میں دانیایل کی نبوّت پر دھیان دیں! کتاب کے صفحہ ۲۸۰، ۲۸۱ کا مطالعہ کریں۔
^ پیراگراف 6 بائبل بیان کرتی ہے کہ یروشلیم ۵۳۷ ق.س.ع. میں اسیر یہودیوں کی واپسی تک ۷۰ سال تک ویران پڑا رہا۔ (یرمیاہ ۲۵:۱۱، ۱۲؛ دانیایل ۹:۱-۳) ”غیرقوموں کی میعاد“ کی تفصیلات کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب ریزننگ فرام دی سکرپچرز کے صفحہ ۹۵-۹۷ کا مطالعہ کریں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہمارے زمانے میں پولس رسول کے الفاظ کہ ”دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے“ کس طرح سچ ثابت ہوئے ہیں؟
• بائبل میں بیانکردہ تاریخ سے یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ”غیرقوموں کی میعاد“ کب ختم ہوئی تھی؟
• دُنیا کے حالات کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ۱۹۱۴ سے ”آخری وقت“ میں رہ رہے ہیں؟
• یہ جانتے ہوئے کہ ”وقت تنگ ہے“ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
بالآخر ایک راز افشا ہو جاتا ہے!