مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏اَے خداوند!‏ ہمیں دُعا کرنا سکھا‘‏

‏’‏اَے خداوند!‏ ہمیں دُعا کرنا سکھا‘‏

‏’‏اَے خداوند!‏ ہمیں دُعا کرنا سکھا‘‏

‏’‏اُسکے شاگردوں میں سے ایک نے اُس سے کہا:‏ اَے خداوند!‏ ہمیں دُعا کرنا سکھا۔‏‘‏—‏لوقا ۱۱:‏۱‏۔‏

۱.‏ یسوع کے ایک شاگرد نے یہ درخواست کیوں کی کہ ہمیں دُعا کرنا سکھا؟‏

یہ ۳۲ س.‏ع.‏ کا واقعہ ہے کہ یسوع کے ایک شاگرد نے اُسے دُعا مانگتے دیکھا۔‏ یسوع دل میں دُعا کر رہا تھا اِسلئے شاگرد اُسکے الفاظ کو نہیں سُن سکتا تھا۔‏ جب یسوع دُعا کر چکا تو اِس شاگرد نے کہا:‏ ’‏اَے خداوند!‏ ہمیں دُعا کرنا سکھا۔‏‘‏ (‏لوقا ۱۱:‏۱‏)‏ اُس نے یہ درخواست کیوں کی؟‏ دُعا یہودی طرزِزندگی اور پرستش کا اہم جزو تھی۔‏ عبرانی صحائف میں اور خاص طور پر زبور میں کئی دُعائیں درج ہیں۔‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شاگرد دُعا کے استعمال سے اچھی طرح واقف تھا۔‏ بِلاشُبہ،‏ وہ شاگرد یہودی مذہبی راہنماؤں کی رسمی دُعاؤں سے بھی واقف تھا۔‏ لیکن جب اُس نے یسوع کو دُعا مانگتے دیکھا تو غالباً اُسے احساس ہوا کہ یسوع کا طریقہ ربیوں کے دُعا کرنے کے ریاکار طریقے سے بالکل فرق تھا۔‏—‏متی ۶:‏۵-‏۸‏۔‏

۲.‏ (‏ا)‏ ہمیں کیسے معلوم ہے کہ یسوع یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُسکے شاگرد نمونے کی دُعا کو زبانی یاد کرکے لفظ‌بہ‌لفظ دہرائیں؟‏ (‏ب)‏ ہم دُعا کرنے کے صحیح طریقے کو جاننے میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں؟‏

۲ اِس واقعہ سے تقریباً ۱۸ مہینے پہلے جب یسوع اپنا پہاڑی وعظ پیش کر رہا تھا تو اُس نے اپنے شاگردوں کو دُعا کا ایک نمونہ دیا تھا۔‏ (‏متی ۶:‏۹-‏۱۳‏)‏ غالباً یہ شاگرد اُس وقت وہاں موجود نہیں تھا۔‏ اِسلئے یسوع نے اُس کی خاطر نمونے کی دُعا کے اہم نکات کو دہرایا۔‏ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یسوع نے نمونے کی دُعا کو لفظ بہ لفظ نہیں دُہرایا تھا۔‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے شاگرد اِس دُعا کو زبانی یاد کرکے دہراتے رہیں۔‏ (‏لوقا ۱۱:‏۱-‏۴‏)‏ اُس شاگرد کی طرح ہم بھی دُعا کرنے کے صحیح طریقے کو سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری دُعائیں ہمیں یہوواہ خدا کے اَور بھی نزدیک لیجائیں۔‏ پس آئیے یسوع کی دُعا پر غور کریں جسے متی رسول نے درج کِیا تھا۔‏ یہ دُعا سات درخواستوں پر مشتمل ہے۔‏ اِن میں سے تین خدا کے مقاصد سے اور چار ہماری مادی اور روحانی ضروریات سے متعلق ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم پہلی تین درخواستوں پر غور کرینگے۔‏

ایک شفیق باپ

۳،‏ ۴.‏ یہوواہ خدا کو ”‏اَے ہمارے باپ“‏ کہہ کر پکارنے سے ہم کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏

۳ شروع ہی سے یسوع نے سکھایا کہ ہماری دُعاؤں سے ظاہر ہونا چاہئے کہ ہم یہوواہ سے محبت کرتے اور اُسکا احترام کرتے ہیں۔‏ پہاڑی وعظ کے دوران یسوع کے شاگرد اُسکے قریب ہی بیٹھے اُسکی باتیں سُن رہے تھے۔‏ یسوع نے اُن سے کہا کہ دُعا مانگتے وقت وہ یہوواہ کو یہ کہہ کر مخاطب کریں:‏ ”‏اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۹‏)‏ لفظ ”‏باپ“‏ کے بارے میں ایک عالم کا کہنا ہے کہ خواہ یسوع عبرانی یا ارامی زبان میں بات کر رہا تھا جو لفظ اُس نے ”‏باپ“‏ کیلئے استعمال کِیا وہ دراصل ”‏ابا“‏ تھا۔‏ یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے ’‏ایک چھوٹا بچہ اپنے باپ کو مخاطب کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔‏‘‏ یہوواہ خدا کو ”‏اَے ہمارے باپ“‏ کہہ کر پکارنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اُس سے محبت کرتے اور اُس پر پورا بھروسا رکھتے ہیں۔‏

۴ یہوواہ کو ’‏ہمارا باپ‘‏ کہہ کر مخاطب کرنے سے ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ایک بہت بڑے خاندان کا حصہ ہیں جسکا ہر فرد یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ یہوواہ زندگی کا سرچشمہ ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۶۴:‏۸؛‏ اعمال ۱۷:‏۲۴،‏ ۲۸‏)‏ ممسوح مسیحی خدا کے لےپالک ہونے کی بِنا پر ”‏خدا کے بیٹے“‏ کہلاتے ہیں لہٰذا وہ اُسے ”‏ابا یعنی اَے باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۸:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ اِس کے علاوہ لاکھوں لوگ اِن ممسوح مسیحیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔‏ اُنہوں نے بھی اپنی زندگیاں یہوواہ کے لئے مخصوص کر دی ہیں اور اس مخصوصیت کی علامت میں پانی کا بپتسمہ لیا ہے۔‏ یہ ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ یسوع کے نام سے یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتی اور اُسے ’‏ہمارا باپ‘‏ کہہ کر پکار سکتی ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ ۱۴:‏۶‏)‏ ہم باقاعدگی سے دُعا میں اپنے آسمانی باپ کی ستائش کرتے،‏ اُس کی تمام برکتوں کے لئے اُس کا شکر ادا کرتے اور اپنی ساری فکریں اُس پر ڈال دیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اُس کو ہماری فکر ہے۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۶،‏ ۷‏۔‏

یہوواہ کے نام کیلئے محبت

۵.‏ یسوع کی نمونے کی دُعا کس درخواست سے شروع ہوتی ہے اور یہ بالکل موزوں کیوں ہے؟‏

۵ یسوع کی دُعا سب سے اہم درخواست سے شروع ہوتی ہے۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏تیرا نام پاک مانا جائے۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہماری بنیادی فکر یہوواہ کے نام کی تقدیس کرنا ہے کیونکہ ہم اُس سے محبت رکھتے اور اُن سب سے نفرت کرتے ہیں جو خدا کے نام پر رسوائی لاتے ہیں۔‏ جب شیطان نے بغاوت کی اور پہلے انسانی جوڑے کو یہوواہ کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تو وہ دراصل خدا پر یہ الزام لگا رہا تھا کہ اُسکا حکمرانی کرنے کا طریقہ غلط ہے۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶‏)‏ اسکے علاوہ صدیوں کے دوران،‏ ایسے لوگوں کی وجہ سے بھی یہوواہ کے نام کی رسوائی ہوئی ہے جو اُسکی مرضی بجا لانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنے کاموں اور تعلیمات سے اُسکا انکار کرتے ہیں۔‏

۶.‏ اگر ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ یہوواہ کا نام پاک مانا جائے تو ہم کیا کرنے سے گریز کرینگے؟‏

۶ یہوواہ کے نام کی تقدیس کیلئے دُعا کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم پورے دل سے اُسکی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ کائنات میں اُسکی ذی‌شعور مخلوق خوشی اور محبت سے اُسکی راست حاکمیت کی تابعداری کرے۔‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۹:‏۱۰-‏۱۳؛‏ زبور ۸:‏۱؛‏ ۱۴۸:‏۱۳‏)‏ یہوواہ کے نام کیلئے محبت ہمیں ہر وہ کام کرنے سے باز رکھیگی جو یہوواہ کے مُقدس نام پر رسوائی لا سکتا ہے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳۶:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ رومیوں ۲:‏۲۱-‏۲۴‏)‏ چونکہ کائنات اور اُسکے باشندوں کی سلامتی کا انحصار یہوواہ کے نام کی تقدیس اور اُسکی حاکمیت کی سربلندی کرنے پر ہے اِسلئے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ”‏تیرا نام پاک مانا جائے“‏ تو ہم اِس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ یہوواہ کا مقصد ضرور پورا ہوگا جس سے اُسکے نام کی بڑائی بھی ہوگی۔‏—‏حزقی‌ایل ۳۸:‏۲۳‏۔‏

ہم کس بادشاہت کیلئے دُعا کرتے ہیں

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ آسمانی بادشاہت کیا ہے جس کیلئے یسوع نے دُعا کرنا سکھایا؟‏ (‏ب)‏ دانی‌ایل اور مکاشفہ کی کتابوں میں ہم اِس بادشاہت کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

۷ نمونے کی دُعا میں دوسری درخواست یہ ہے:‏ ”‏تیری بادشاہی آئے۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۰‏)‏ اِسکا پہلی درخواست سے گہرا تعلق ہے۔‏ یہوواہ خدا مسیحائی بادشاہت کے ذریعے اپنے نام کو پاک ٹھہرائیگا جوکہ ایک آسمانی حکومت ہے اور اسکا مقررہ بادشاہ،‏ اُسکا بیٹا یسوع مسیح ہے۔‏ (‏زبور ۲:‏۱-‏۹‏)‏ دانی‌ایل نبی کی پیشینگوئی میں مسیحائی بادشاہت کو ایک ”‏پتھر“‏ کہا گیا ہے جسے ایک ”‏پہاڑ“‏ سے کاٹا جاتا ہے۔‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۳۴،‏ ۳۵،‏ ۴۴،‏ ۴۵‏)‏ پہاڑ یہوواہ کی عالمگیر حاکمیت کی نمائندگی کرتا ہے اِسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بادشاہتی پتھر یہوواہ کی عالمگیر حکمرانی کا ایک نیا اظہار ہے۔‏ پیشینگوئی کے مطابق یہ پتھر خود ’‏ایک بڑا پہاڑ بن جاتا ہے اور تمام زمین پر پھیل جاتا ہے،‏‘‏ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین پر مسیحائی بادشاہت الہٰی حاکمیت کی نمائندگی کریگی۔‏

۸ اس بادشاہت میں یسوع کے علاوہ ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ اشخاص بھی ہیں جنہیں بادشاہ اور کاہن ہونے کیلئے ’‏آدمیوں میں سے خرید لیا گیا ہے۔‏‘‏ (‏مکاشفہ ۵:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۱۴:‏۱-‏۴؛‏ ۲۰:‏۶‏)‏ دانی‌ایل اِنکا ذکر ”‏حق‌تعالیٰ کے مُقدس لوگوں“‏ کے طور پر کرتا ہے جنکو اپنے سربراہ یسوع کیساتھ ”‏تمام آسمان کے نیچے سب ملکوں کی سلطنت اور مملکت اور سلطنت کی حشمت .‏ .‏ .‏ بخشی جائیگی۔‏ اُسکی سلطنت ابدی سلطنت ہے اور تمام مملکتیں اُسکی خدمت‌گذار اور فرمانبردار ہونگی۔‏“‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴،‏ ۱۸،‏ ۲۷‏)‏ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو اِسی آسمانی بادشاہت کیلئے دُعا کرنا سکھایا تھا۔‏

بادشاہت کے آنے کیلئے ابھی بھی کیوں دُعا کریں؟‏

۹.‏ ہمیں ابھی بھی خدا کی بادشاہت کے ’‏آنے‘‏ کیلئے کیوں دُعا کرنی چاہئے؟‏

۹ نمونے کی دُعا میں یسوع نے ہمیں خدا کی بادشاہت کے آنے کیلئے درخواست کرنی سکھائی تھی۔‏ بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل ظاہر کرتی ہے کہ یسوع کی بادشاہت ۱۹۱۴ میں آسمان پر قائم ہو گئی تھی۔‏ * چنانچہ کیا ہمیں آج بھی خدا کی بادشاہت کے ’‏آنے‘‏ کیلئے دُعا کرنی چاہئے؟‏ یقیناً۔‏ یاد کیجئے کہ دانی‌ایل کی پیشینگوئی میں مورت سے مُراد تمام انسانی حکومتیں ہیں اور پتھر سے مُراد مسیحائی بادشاہت ہے۔‏ اِس پیشینگوئی کے مطابق پتھر مورت سے ٹکرا کر اسکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیگا۔‏ یہ واقعہ مستقبل میں وقوع‌پذیر ہوگا۔‏ دانی‌ایل نبی یسوع کی بادشاہت کے بارے میں کہتا ہے:‏ ”‏اُسکی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالہ نہ کی جائیگی بلکہ وہ اِن تمام مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی ابدتک قائم رہیگی۔‏“‏—‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏۔‏

۱۰.‏ ہم خدا کی بادشاہت کے آنے کے منتظر کیوں ہیں؟‏

۱۰ ہم اُس وقت کا بےچینی سے انتظار کر رہے ہیں جب خدا کی بادشاہت شیطان کے بُرے نظام کو ختم کریگی کیونکہ اس سے یہوواہ کے پاک نام کی تقدیس ہوگی اور الہٰی حکمرانی کے تمام مخالفین ختم کر دئے جائینگے۔‏ ہم دل سے دُعا کرتے ہیں کہ ”‏تیری بادشاہی آئے“‏ اور یوحنا رسول کیساتھ ملکر یہ کہتے ہیں:‏ ”‏آمین۔‏ اَے خداوند یسوؔع آ۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲۲:‏۲۰‏)‏ ہماری دُعا ہے کہ یسوع آئے اور یہوواہ خدا کے نام کی تقدیس اور اُسکی حاکمیت کی سربلندی کرے اور یوں زبورنویس کے ان الفاظ کی تکمیل ہو:‏ ”‏تاکہ وہ جان لیں کہ تُو ہی جسکا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔‏“‏—‏زبور ۸۳:‏۱۸‏۔‏

‏’‏تیری مرضی پوری ہو‘‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ ”‏تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو“‏ کی درخواست کرنے سے ہم کیا مانگ رہے ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خدا کی مرضی پوری کرنے کے سلسلے میں ہماری دُعا سے اَور کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

۱۱ اسکے بعد یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ دُعا کرنا سکھایا:‏ ”‏تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۰‏)‏ خدا کی مرضی سے ہی کائنات وجود میں آئی تھی۔‏ طاقتور آسمانی مخلوق خدا کی حمد میں کہتے ہیں:‏ ”‏اَے ہمارے خداوند اور خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ یہوواہ خدا نے تمام چیزوں کیلئے ایک مقصد ٹھہرا رکھا ہے ”‏خواہ وہ آسمان کی ہوں خواہ زمین کی۔‏“‏ (‏افسیوں ۱:‏۸-‏۱۰‏)‏ جب ہم دُعا مانگتے ہیں کہ خدا کی مرضی پوری ہو تو ہم دراصل خدا سے یہ درخواست کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنا مقصد پورا کرے۔‏ اِسکے علاوہ،‏ ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس وقت کا کتنی شدت سے انتظار کر رہے ہیں جب پوری کائنات میں خدا کی مرضی پوری ہوگی۔‏

۱۲ یہ دُعا کرنے سے ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی خدا کی مرضی کے مطابق گزارنے کیلئے تیار ہیں۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُسکا کام پورا کروں۔‏“‏ (‏یوحنا ۴:‏۳۴‏)‏ یسوع کی طرح،‏ مخصوص‌شُدہ مسیحیوں کے طور پر ہم بھی خوشی سے خدا کی مرضی پوری کرنا چاہتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا اور اُسکے بیٹے یسوع کیلئے ہماری محبت ہمیں اپنی زندگی ”‏آدمیوں کی خواہشوں کے مطابق“‏ نہیں ”‏بلکہ خدا کی مرضی“‏ کے مطابق گزارنے کی تحریک دیتی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ ہماری کوشش ہے کہ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہو۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۵‏)‏ بائبل کی پڑھائی اور مطالعہ کیلئے وقت نکالنے سے ہم ’‏[‏یہوواہ]‏ کی مرضی کو سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہے۔‏‘‏ اِس مرضی میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم ”‏بادشاہی کی اِس خوشخبری“‏ کی منادی میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لیں۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱۵-‏۱۷؛‏ متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

آسمان میں یہوواہ کی مرضی

۱۳.‏ شیطان کی بغاوت سے بہت عرصہ پہلے خدا کی مرضی کیسے پوری ہو رہی تھی؟‏

۱۳ یہوواہ خدا کے ایک روحانی بیٹے کے بغاوت کرنے اور شیطان بن جانے سے بہت عرصہ پہلے آسمان میں یہوواہ کی مرضی پوری ہو رہی تھی۔‏ امثال کی کتاب خدا کے پہلوٹھے بیٹے یسوع کو تجسمِ‌حکمت سے تشبِیہ دیتی ہے۔‏ اس میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا کا اکلوتا بیٹا مدتوں سے ’‏اُسکے حضور شادمان رہتا تھا‘‏ اور اُسکی مرضی پوری کرنے سے خوش تھا۔‏ خدا کے ”‏ماہر کاریگر“‏ کے طور پر اُس نے اپنے باپ کیساتھ ملکر تمام چیزیں بنائیں خواہ وہ ”‏آسمان کی ہوں یا زمین کی دیکھی ہوں یا اندیکھی۔‏“‏ (‏امثال ۸:‏۲۲-‏۳۱؛‏ کلسیوں ۱:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ اسکے علاوہ یہوواہ نے یسوع کو اپنے کلام یا نمائندے کے طور پر بھی استعمال کِیا۔‏—‏یوحنا ۱:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۴.‏ زبور ۱۰۳ کے مطابق آسمان میں فرشتے کیسے خدا کی مرضی بجا لاتے ہیں؟‏

۱۴ زبورنویس بیان کرتا ہے کہ یہوواہ تمام مخلوقات کا حاکمِ‌اعلیٰ ہے اور فرشتگان بھی اُسکا حکم مانتے اور اُسکی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے اپنا تخت آسمان پر قائم کِیا ہے اور اُسکی سلطنت سب پر مسلّط ہے۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏ کے فرشتو!‏ اُسکو مبارک کہو۔‏ تُم جو زور میں بڑھکر ہو اور اُسکے کلام کی آواز سُن کر اُس پر عمل کرتے ہو۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏ کے لشکرو!‏ سب اُسکو مبارک کہو۔‏ تُم جو اُسکے خادم ہو اور اُسکی مرضی بجا لاتے ہو۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏ کی مخلوقات!‏ سب اُسکو مبارک کہو۔‏ تُم جو اُسکے تسلط [‏یا اُسکی حاکمیت]‏ کے سب مقاموں میں ہو۔‏“‏—‏زبور ۱۰۳:‏۱۹-‏۲۲‏۔‏

۱۵.‏ یسوع کے بادشاہتی اختیار حاصل کرنے اور آسمان میں خدا کی مرضی پوری ہونے کے مابین کیا تعلق ہے؟‏

۱۵ جیساکہ ہم ایوب کی کتاب سے دیکھ سکتے ہیں،‏ بغاوت کرنے کے بعد بھی شیطان آسمان پر آیا جایا کرتا تھا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۶-‏۱۲؛‏ ۲:‏۱-‏۷‏)‏ لیکن مکاشفہ کی کتاب میں پیشینگوئی کی گئی تھی کہ وہ وقت آئیگا جب شیطان اور اُسکے شیاطین آسمان سے نکال دئے جائینگے۔‏ یہ پیشینگوئی اُس وقت پوری ہوئی جب یسوع کو ۱۹۱۴ میں بادشاہت کرنے کا اختیار سونپا گیا۔‏ اِسکے بعد سے آسمان پر اِن باغی فرشتوں کیلئے کوئی جگہ نہ رہی۔‏ اب وہ زمین کی حد تک محدود ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۱۲‏)‏ اب آسمان میں کوئی خدا کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا بلکہ صرف ”‏برّہ“‏ یعنی یسوع مسیح اور یہوواہ خدا کی تمجید کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۹-‏۱۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ واقعی یہوواہ کی مرضی آسمان میں پوری ہو رہی ہے۔‏

زمین کیلئے یہوواہ کی مرضی

۱۶.‏ نمونے کی دُعا دُنیائےمسیحیت کے اِس دعوے کو کیسے غلط ثابت کرتی ہے کہ تمام اچھے انسان آسمان پر جائینگے؟‏

۱۶ دُنیائےمسیحیت کے چرچ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تمام اچھے لوگ آسمان پر جائینگے اور یوں زمین کیلئے خدا کے مقصد کو بےمعنی قرار دیتے ہیں۔‏ لیکن یسوع نے ہمیں دُعا کرنا سکھائی کہ ”‏تیری بادشاہی آئے۔‏ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۰‏)‏ آجکل جب زمین پر تشدد،‏ ناانصافی،‏ بیماری اور موت کا راج ہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کی مرضی پوری ہو رہی ہے؟‏ ہرگز نہیں!‏ اِسلئے ہمیں خلوصدلی سے دُعا کرنی چاہئے کہ خدا کی مرضی زمین پر بھی پوری ہو۔‏ جب ایسا ہوگا تو وہ وعدہ بھی پورا ہوگا جسے پطرس رسول نے یوں درج کِیا:‏ ”‏اُسکے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان [‏یسوع کی بادشاہی]‏ اور نئی زمین [‏راست انسانی معاشرہ]‏ کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہیگی۔‏“‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۷.‏ زمین کیلئے خدا کا مقصد کیا ہے؟‏

۱۷ یہوواہ نے اِس زمین کو ایک مقصد کیلئے بنایا تھا۔‏ اُس نے اپنے نبی یسعیاہ کو یہ تحریر کرنے کا الہام بخشا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ جس نے آسمان پیدا کئے وہی خدا ہے۔‏ اُسی نے زمین بنائی اور تیار کی۔‏ اُسی نے اُسے قائم کِیا۔‏ اُس نے اُسے عبث پیدا نہیں کِیا بلکہ اُسکو آبادی کیلئے آراستہ کِیا۔‏ وہ یوں فرماتا ہے کہ مَیں [‏یہوواہ]‏ ہوں اور میرے سوا اَور کوئی نہیں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۵:‏۱۸‏)‏ خدا نے پہلے انسانی جوڑے کو باغِ‌عدن میں رکھا اور اُن سے کہا:‏ ”‏پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷،‏ ۲۸؛‏ ۲:‏۱۵‏)‏ اِس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کا یہ مقصد ہے کہ زمین پر ایسے کامل اور راستباز انسان ہمیشہ کیلئے بسے رہیں جو خوشی سے خدا کی حاکمیت کو قبول کرتے ہیں۔‏ یہ لوگ یسوع کے موعودہ فردوس میں رہینگے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۱۱،‏ ۲۹؛‏ لوقا ۲۳:‏۴۳‏۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ اِس سے پہلے کہ خدا کی مرضی زمین پر پوری ہو کیا کچھ واقع ہونا لازمی ہے؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم یسوع کے نمونے کی دُعا کے کن پہلوؤں پر غور کرینگے؟‏

۱۸ جبتک خدا کی حاکمیت کی خلاف‌ورزی کرنے والے لوگ زمین پر موجود ہیں اُس وقت تک اُسکی مرضی پوری نہیں ہو سکتی۔‏ خدا یسوع کی قیادت میں طاقتور آسمانی لشکروں کے ذریعے ’‏زمین کے تباہ کرنے والوں کو تباہ کریگا۔‏‘‏ شیطان کا سارا بُرا نظام ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائیگا۔‏ اِس میں جھوٹا مذہب،‏ بدعنوان سیاست،‏ لالچی اور بددیانت تجارتی اور تباہ‌کُن فوجی نظام شامل ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۸؛‏ ۱۸:‏۲۱؛‏ ۱۹:‏۱،‏ ۲،‏ ۱۱-‏۱۸‏)‏ اُس وقت یہوواہ کی حاکمیت کی سربلندی اور اُسکے نام کی تقدیس ہوگی جس کیلئے ہم دُعا کرتے ہیں کہ ”‏اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔‏ تیری بادشاہی آئے۔‏ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ دراصل ہم اِن تمام باتوں کے پورے ہونے کی درخواست کر رہے ہوتے ہیں۔‏—‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۹ تاہم،‏ نمونے کی دُعا میں یسوع نے ہمیں ذاتی معاملات کے لئے درخواست کرنا بھی سکھایا تھا۔‏ دُعا کے اِس پہلو پر ہم اگلے مضمون میں غور کرینگے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب دانی‌ایل کی نبوّت پر دھیان دیں!‏ کے چھٹے باب کا مطالعہ کریں۔‏

اہم نکات کو دُہرائیں

‏• یہوواہ خدا کو ”‏ہمارا باپ“‏ کہہ کر پکارنا کیوں مناسب ہے؟‏

‏• یہ درخواست کہ ”‏یہوواہ کا نام پاک مانا جائے“‏ باقی درخواستوں سے زیادہ اہمیت کی حامل کیوں ہے؟‏

‏• ہم خدا کی بادشاہت کے آنے کے لئے کیوں دُعا کرتے ہیں؟‏

‏• جب ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ خدا کی مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو تو اِسکا کیا مطلب ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

یسوع کا دُعا کرنے کا طریقہ فریسیوں کی رسمی دُعاؤں سے بالکل فرق تھا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

مسیحی خدا کی بادشاہت کے آنے،‏ اُسکے نام کے پاک مانے جانے اور اُسکی مرضی پوری ہونے کیلئے دُعا کرتے ہیں