مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ یہ پوچھتے ہیں کہ ’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏

کیا آپ یہ پوچھتے ہیں کہ ’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏

کیا آپ یہ پوچھتے ہیں کہ ’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏

‏”‏وہ مجھ سے دُور ہو گئے .‏ .‏ .‏ اور اُنہوں نے یہ نہ کہا کہ [‏یہوواہ]‏ کہاں ہے“‏—‏یرمیاہ ۲:‏۵،‏ ۶‏۔‏

۱.‏ جب لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ”‏خدا کہاں ہے؟‏،‏“‏ تو اُنکے ذہن میں کیا ہوتا ہے؟‏

‏’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏ بہتیرے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں۔‏ اُن میں سے بہتیرے محض خالق کی بابت یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کہاں رہتا ہے؟‏ دیگر کسی بڑی آفت کے بعد یہ سوال پوچھتے ہیں یا پھر خود کسی مشکل کا شکار ہونے پر یہ سمجھ نہیں پاتے کہ خدا نے اسے کیوں نہیں روکا تو اُنکے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔‏ بعض تو یہ سوال پوچھتے ہی نہیں کیونکہ وہ خدا کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔‏—‏زبور ۱۰:‏۴‏۔‏

۲.‏ خدا کی تلاش میں کون کامیاب ہوتے ہیں؟‏

۲ بہتیرے لوگ خدا کے وجود کی کثیر شہادتوں کو مانتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۹:‏۱؛‏ ۱۰۴:‏۲۴‏)‏ ان میں سے بعض کوئی بھی مذہب رکھنے سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔‏ لیکن تمام ممالک میں سچائی کی شدید محبت نے لاکھوں لوگوں کو برحق خدا کی تلاش کرنے کی تحریک دی ہے۔‏ اُنکی کوشش رائیگاں نہیں گئی کیونکہ وہ ”‏ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔‏“‏—‏اعمال ۱۷:‏۲۶-‏۲۸‏۔‏

۳.‏ (‏ا)‏ خدا کی قیام‌گاہ کہاں ہے؟‏ (‏ب)‏ صحیفائی سوال،‏ ’‏یہوواہ کہاں ہے‘‏ کا مفہوم کیا ہے؟‏

۳ جب کوئی شخص واقعی یہوواہ کو پا لیتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ”‏خدا روح ہے“‏ جسے انسانی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۴‏)‏ یسوع نے خدائےبرحق کو اپنا ”‏آسمانی باپ“‏ کہا تھا۔‏ اسکا کیا مطلب ہے؟‏ اسکا مطلب ہے کہ جیسے طبیعی آسمان زمین سے بلند ہے اُسی طرح روحانی مفہوم میں آسمانی باپ کی قیام‌گاہ بلندوبالا ہے۔‏ (‏متی ۱۲:‏۵۰؛‏ یسعیاہ ۶۳:‏۱۵‏)‏ تاہم ہماری جسمانی آنکھوں سے اوجھل ہونے کے باوجود خدا ہمارے لئے یہ ممکن بناتا ہے کہ ہم اُسے جانیں اور اُسکے مقصد کی بابت سیکھیں۔‏ (‏خروج ۳۳:‏۲۰؛‏ ۳۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ وہ زندگی کے مقصد کے متلاشی خلوصدل لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔‏ ہماری زندگی سے متعلقہ معاملات کی بابت وہ ہمیں اس بات کا تعیّن کرنے کی ٹھوس بنیاد مہیا کرتا ہے کہ اُسکا مرتبہ کیا ہے یعنی وہ ان معاملات کو کیسا خیال کرتا ہے اور آیا ہماری خواہشات اُسکے مقاصد سے ہم‌آہنگ ہیں یا نہیں۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم ان باتوں پر غور کریں اور انکے جواب حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔‏ یرمیاہ نبی کی معرفت یہوواہ نے قدیم اسرائیل کو ملامت کی کیونکہ وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔‏ وہ خدا کا نام تو جانتے تھے مگر اُنہوں نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ ’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏ (‏یرمیاہ ۲:‏۶‏)‏ یہوواہ کا مقصد اُنکی اوّلین فکر نہیں تھا۔‏ وہ اُسکی راہنمائی کے طالب نہیں تھے۔‏ چھوٹے بڑے فیصلے کرتے وقت کیا آپ یہ پوچھتے ہیں کہ ’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏

خدا کے طالب

۴.‏ ہم یہوواہ کے طالب ہونے میں داؤد کے نمونے کی پیروی کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۴ یسی کے بیٹے داؤد نے جوانی میں ہی یہوواہ پر مضبوط ایمان پیدا کر لیا تھا۔‏ وہ یہوواہ کو ”‏زندہ خدا“‏ کے طور پر جانتا تھا۔‏ داؤد نے یہوواہ کے تحفظ کا ذاتی تجربہ کِیا تھا۔‏ ایمان اور ’‏یہوواہ کے نام‘‏ کیلئے محبت سے تحریک پا کر داؤد نے دیوہیکل اور مسلح فلسطینی جولیت کو ہلاک کر ڈالا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۲۶،‏ ۳۴-‏۵۱‏)‏ تاہم،‏ داؤد کی کامیابی نے اُسے خوداعتماد نہیں بنایا تھا۔‏ اُس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہوواہ اب اُسکے ہر کام میں برکت دیگا۔‏ آئندہ سالوں میں داؤد نے بارہا مختلف فیصلے کرنے کے لئے یہوواہ کی راہنمائی طلب کی۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۳:‏۲؛‏ ۳۰:‏۸؛‏ ۲-‏سموئیل ۲:‏۱؛‏ ۵:‏۱۹‏)‏ وہ مسلسل یہ دُعا کرتا رہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ اپنی راہیں مجھے دکھا۔‏ اپنے راستے مجھے بتا دے۔‏ مجھے اپنی سچائی پر چلا اور تعلیم دے۔‏ کیونکہ تُو میرا نجات دینے والا خدا ہے۔‏ مَیں دن‌بھر تیرا ہی منتظر رہتا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۲۵:‏۴،‏ ۵‏)‏ یہ کتنا عمدہ نمونہ ہے جسکی ہمیں پیروی کرنی چاہئے!‏

۵،‏ ۶.‏ یہوسفط اپنی زندگی کے مختلف مواقع پر یہوواہ کا طالب کیسے ہوا تھا؟‏

۵ داؤد کے شاہی خاندان کی پانچویں پُشت کے بادشاہ یہوسفط کے زمانے میں تین بادشاہوں کی متحد افواج یہوداہ پر چڑھ آئیں۔‏ اس ہنگامی صورتحال کے پیشِ‌نظر،‏ یہوسفط ”‏دل سے [‏یہوواہ]‏ کا طالب ہوا۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۲۰:‏۱-‏۳‏)‏ یہوسفط کوئی پہلی مرتبہ یہوواہ کا طالب نہیں ہوا تھا۔‏ بادشاہ نے اسرائیل کی شمالی برگشتہ سلطنت میں بعل کی عام پرستش کو رد کرکے یہوواہ کی راہوں پر چلنے کا فیصلہ کِیا تھا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۷:‏۳،‏ ۴‏)‏ لہٰذا،‏ بحرانی صورتحال کی حقیقت کے پیشِ‌نظر یہوسفط ’‏یہوواہ کا طالب‘‏ کیسے ہوا؟‏

۶ اِس نازک موقع پر یہوسفط نے یروشلیم میں عوامی دُعا کرنے سے ظاہر کِیا کہ اُس نے یہوواہ کی مطلق قوت کو یاد رکھا ہے۔‏ اُس نے غیرقوموں کو نکال کر ایک خاص مُلک اسرائیلیوں کو دینے میں یہوواہ کے مقصد کی بابت سوچ‌بچار کرتے ہوئے بادشاہ نے تسلیم کِیا کہ اُسے یہوواہ کی مدد درکار ہے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۲۰:‏۶-‏۱۲‏)‏ کیا یہوواہ نے اُس موقع پر اُسکی مدد کی؟‏ جی‌ہاں،‏ واقعی۔‏ یہوواہ نے ایک لاوی،‏ یحزی‌ایل کی معرفت خاص ہدایات فراہم کیں اور اُس نے اگلے ہی دن اپنے لوگوں کو فتح بخشی۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۲۰:‏۱۴-‏۲۸‏)‏ آپ کیسے یہ یقین کر سکتے ہیں کہ یہوواہ آپکو بھی بوقتِ‌ضرورت ہدایات فراہم کریگا؟‏

۷.‏ خدا کن کی دُعائیں سنتا ہے؟‏

۷ یہوواہ طرفدار نہیں ہے۔‏ وہ ہر قوم کے لوگوں کو دُعا کے ذریعے اُس کے طالب ہونے کی دعوت دیتا ہے۔‏ (‏زبور ۶۵:‏۲؛‏ اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ وہ دُعا کرنے والوں کے دل کی بات بھی جانتا ہے۔‏ وہ یقین دلاتا ہے کہ وہ راستبازوں کی دُعائیں سنتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۵:‏۲۹‏)‏ وہ اُن لوگوں کو بھی اپنے حضور آنے کا موقع دیتا ہے جو پہلے اُس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے مگر اب عاجزی کے ساتھ اُس کی ہدایت کے طالب ہوتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱‏)‏ وہ اُن لوگوں کی دُعائیں بھی سنتا ہے جو اُس کے قانون کی پابندی کرنے میں کوتاہی برتنے کے بعد عاجزی کے ساتھ توبہ کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۳۲:‏۵،‏ ۶؛‏ اعمال ۳:‏۱۹‏)‏ لیکن جب کوئی شخص دل سے یہوواہ کی اطاعت نہیں کرتا تو اُس کی دُعائیں کرنا بیکار ہوتا ہے۔‏ (‏مرقس ۷:‏۶،‏ ۷‏)‏ بعض مثالوں پر غور کریں۔‏

اُنہوں نے مانگا مگر نہ پایا

۸.‏ بادشاہ ساؤل کی دُعائیں کس وجہ سے یہوواہ کے حضور نامقبول تھیں؟‏

۸ جب سموئیل نبی نے بادشاہ ساؤل کو یہ بتایا کہ اُسکی نافرمانی کی وجہ سے خدا نے اُسے رد کر دیا ہے تو ساؤل نے یہوواہ کو سجدہ کِیا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ لیکن یہ محض دکھاوا تھا۔‏ ساؤل خدا کی فرمانبرداری کرنے کی بجائے لوگوں سے اپنی عزت چاہتا تھا۔‏ بعدازاں،‏ فلستیوں اور اسرائیلیوں کے مابین جنگ میں ساؤل نے رسمی طور پر یہوواہ کی مرضی دریافت کی۔‏ تاہم،‏ جب اُسے کوئی جواب نہ ملا تو اُس نے ایک جادوگرنی سے رابطہ کِیا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہوواہ کو ایسا کام پسند نہیں ہے۔‏ (‏استثنا ۱۸:‏۱۰-‏۱۲؛‏ ۱-‏سموئیل ۲۸:‏۶،‏ ۷‏)‏ اس معاملے کی تلخیص کے طور پر ۱-‏تواریخ ۱۰:‏۱۴ ساؤل کی بابت یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏اُس نے [‏یہوواہ]‏ سے دریافت نہ کِیا۔‏“‏ کیوں؟‏ اِس وجہ سے کہ ساؤل کی دُعائیں ایمان پر مبنی نہیں تھیں۔‏ لہٰذا،‏ یہ دُعا نہ کرنے کے برابر تھا۔‏

۹.‏ یہوواہ سے صدقیاہ کی درخواست میں کیا خرابی تھی؟‏

۹ اسی طرح،‏ جب یہوداہ کی سلطنت کا خاتمہ آیا تو بہت سی دُعائیں کی گئیں اور یہوواہ کے نبیوں سے رابطہ کِیا گیا۔‏ تاہم،‏ لوگ یہوواہ کی پرستش کرنے کے دعوے کے باوجود بُت‌پرستی میں پڑے ہوئے تھے۔‏ (‏صفنیاہ ۱:‏۴-‏۶‏)‏ وہ صرف رسمی طور پر خدا کے طالب ہوئے تھے اُنہوں نے اپنے دلوں کو اُسکی مرضی کے تابع نہ کِیا۔‏ صدقیاہ بادشاہ نے یرمیاہ سے درخواست کی کہ وہ اُسکی بابت یہوواہ کی مرضی دریافت کرے۔‏ یہوواہ نے بادشاہ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اُسے کیا کرنا چاہئے۔‏ لیکن ایمان کی کمی اور انسان کے خوف کی وجہ سے بادشاہ نے یہوواہ کی بات نہ مانی اور یہوواہ نے بھی بادشاہ کی مرضی کے مطابق مزید کوئی جواب نہ دیا۔‏—‏یرمیاہ ۲۱:‏۱-‏۱۲؛‏ ۳۸:‏۱۴-‏۱۹‏۔‏

۱۰.‏ یوحنان کا یہوواہ کی ہدایت معلوم کرنے کا طریقہ کیوں غلط تھا اور ہم اُسکی غلطی سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۰ یروشلیم کی بربادی اور بابلی فوج کیساتھ اسیر یہودیوں کی روانگی کے بعد یوحنان نے یہوداہ میں باقی بچ جانے والے تھوڑے سے یہودیوں کو مصر لیجانے کا منصوبہ بنایا۔‏ اُنہوں نے ساری تیاری کرنے کے بعد یرمیاہ سے درخواست کی کہ وہ اُن کی خاطر دُعا کرکے یہوواہ کی ہدایت معلوم کرے۔‏  تاہم،‏ جب اُنہیں اپنی مرضی کا جواب نہ ملا تو اُنہوں نے اپنی مرضی کے مطابق عمل کِیا۔‏ (‏یرمیاہ ۴۱:‏۱۶–‏۴۳:‏۷‏)‏ کیا آپ ان واقعات سے کوئی مفید سبق حاصل کرتے ہیں تاکہ جب آپ یہوواہ کو ڈھونڈیں تو وہ آپ کو  مِل  جائے؟‏

‏”‏تجربہ سے معلوم کرتے رہو“‏

۱۱.‏ ہمیں افسیوں ۵:‏۱۰ کا اطلاق کیوں کرنا چاہئے؟‏

۱۱ سچی پرستش میں اپنی مخصوصیت کی علامت کے طور پر پانی میں بپتسمہ لینا،‏ کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونا اور میدانی خدمت میں حصہ لینا ہی شامل نہیں ہے۔‏ اس میں ہمارا تمام طرزِزندگی شامل ہے۔‏ ہمیں ہر روز مبہم اور نمایاں دباؤ کا سامنا ہوتا ہے جو ہمیں خدائی عقیدت کی راہ سے ہٹا سکتا ہے۔‏ ہم ایسے دباؤ کے لئے کیسا جوابی‌عمل دکھائیں گے؟‏ افسس کے ایماندار مسیحیوں کے نام خط میں پولس رسول نے اُنہیں تاکید کی:‏ ”‏تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۰‏)‏ ایسا کرنے کی حکمت صحائف میں بیان‌کردہ بہتیرے واقعات سے ظاہر ہوتی ہے۔‏

۱۲.‏ جب داؤد نے عہد کا صندوق یروشلیم میں منتقل کرنا چاہا تو یہوواہ ناراض کیوں تھا؟‏

۱۲ عہد کے صندوق کو واپس اسرائیل میں لانے اور قریت‌یعریم میں کئی سال رکھے جانے کے بعد بادشاہ داؤد نے اُسے یروشلیم میں لانا چاہا۔‏ اُس نے لوگوں کے سرداروں سے مشورہ کِیا اور کہا کہ ’‏اگر تمکو اچھا لگے اور یہوواہ ہمارے خدا کی مرضی ہو‘‏ تو صندوق کو منتقل کر دیا جائے۔‏ لیکن اُس نے اس معاملے میں یہوواہ کی پوری مرضی جاننے کو نظرانداز کر دیا۔‏ اگر اُس نے ایسا کِیا ہوتا تو صندوق کو بیل‌گاڑی پر کبھی بھی نہ رکھا جاتا۔‏ بلکہ خدا کی واضح ہدایات کے مطابق قہاتی لاوی اِسے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر لاتے۔‏ اگرچہ داؤد اکثر یہوواہ کا طالب ہوا مگر اس موقع پر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو گیا۔‏ اسکا انجام نہایت تباہ‌کُن تھا۔‏ داؤد نے بعدازاں تسلیم کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ ہمارا خدا ہم پر ٹوٹ پڑا کیونکہ ہم آئین کے مطابق اُس کے طالب نہیں ہوئے تھے۔‏“‏—‏۱-‏تواریخ ۱۳:‏۱-‏۳؛‏ ۱۵:‏۱۱-‏۱۳؛‏ گنتی ۴:‏۴-‏۶،‏ ۱۵؛‏ ۷:‏۱-‏۹‏۔‏

۱۳.‏ صندوق کی کامیاب منتقلی کے موقع پر گائے جانے والے گیت میں کونسی یاددہانی شامل تھی؟‏

۱۳ بالآخر جب عوبید ادوم کے گھر سے لاوی یہ صندوق اُٹھا کر یروشلیم لائے تو داؤد کا منظوم گیت گایا گیا تھا۔‏ اس میں یہ دلی یاددہانی بھی تھی:‏ ”‏تم [‏یہوواہ]‏ اور اُسکی قوت کے طالب ہو تم سدا اُسکے دیدار کے طالب رہو۔‏ تم اُسکے عجیب کاموں کو جو اُس نے کئے۔‏ اور اُسکے معجزوں اور مُنہ کے آئین کو یاد رکھو۔‏“‏—‏۱-‏تواریخ ۱۶:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۱۴.‏ ہم سلیمان کے اچھے نمونے اور زندگی میں اُس کی غلطیوں سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟‏

۱۴ اپنی موت سے پہلے داؤد نے اپنے بیٹے سلیمان کو نصیحت کی:‏ ”‏اگر تُو [‏یہوواہ کو]‏ ڈھونڈے تو وہ تجھکو مل جائیگا۔‏“‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۸:‏۹‏)‏ سلیمان نے تخت‌نشین ہونے کے بعد جبعون میں خیمۂ‌اجتماع میں حاضر ہو کر یہوواہ کے حضور قربانیاں گذرانیں۔‏ اس موقع پر یہوواہ نے سلیمان سے پوچھا:‏ ”‏مانگ مَیں تجھے کیا دوں؟‏“‏ سلیمان کی درخواست کے جواب میں یہوواہ نے اُسے اسرائیل کا انصاف کرنے کیلئے بکثرت حکمت اور علم کے علاوہ دولت‌وعزت بھی بخشی۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱:‏۳-‏۱۲‏)‏ سلیمان نے اپنے باپ داؤد کو یہوواہ کی طرف سے دئے گئے نقشے کے مطابق عظیم‌الشان ہیکل تعمیر کی۔‏ لیکن اپنے ازدواجی معاملات میں سلیمان یہوواہ کا طالب ہونے میں ناکام ہو گیا۔‏ سلیمان نے اُن عورتوں سے شادی کی جو یہوواہ کی پرستار نہیں تھیں۔‏ سلیمان کے آخری سالوں میں اِن عورتوں نے اُس کا دل یہوواہ سے پھیر دیا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۱:‏۱-‏۱۰‏)‏ اس سے قطع‌نظر کہ ہم کتنے معزز،‏ دانشمند یا عالم ہیں،‏ ”‏تجربہ سے معلوم کرتے“‏ رہنا نہایت ضروری ہے کہ ”‏خداوند کو کیا پسند ہے“‏!‏

۱۵.‏ جب زارح کوشی نے یہوداہ پر حملہ کِیا تو آسا یہوواہ سے بچاؤ کیلئے کیوں اعتماد کیساتھ دُعا کر سکتا تھا؟‏

۱۵ سلیمان کے پڑپوتے،‏ آسا کی سلطنت کا ریکارڈ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔‏ آسا کے بادشاہ بننے کے گیارہ سال بعد زارح کوشی دس لاکھ کی فوج لیکر یہوداہ پر چڑھ آیا۔‏ کیا یہوواہ یہوداہ کو بچائیگا؟‏ یہوواہ نے ۵۰۰ سال سے زائد عرصہ پہلے واضح کر دیا تھا کہ اگر اُسکے لوگ اُسکے حکم مانیں گے تو وہ کیا توقع کر سکتے ہیں لیکن اگر نہیں مانیں گے توپھر وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏استثنا ۲۸:‏۱،‏ ۷،‏ ۱۵،‏ ۲۵‏)‏ اپنی حکومت کے آغاز میں آسا نے یہوداہ سے جھوٹی پرستش میں استعمال ہونے والی قربانگاہوں اور یسیرتوں کو ختم کِیا تھا۔‏ اُس نے لوگوں کو تاکید کی کہ ”‏خدا کے طالب ہوں۔‏“‏ آسا نے مصیبت میں پڑنے سے پہلے ایسا کِیا تھا۔‏ لہٰذا،‏ یہوواہ پر ایمان کیساتھ آسا اپنی اور اپنی قوم کی مدد کیلئے اُس سے دُعا کر سکتا تھا جسکے نتیجے میں اُنہیں بڑی فتح حاصل ہوئی تھی۔‏—‏۲-‏تواریخ ۱۴:‏۲-‏۱۲‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ اگرچہ آسا کو فتح حاصل ہوئی توبھی یہوواہ نے اُسے کیا یاد دلایا؟‏ (‏ب)‏ جب آسا نے غیردانشمندی کا ثبوت دیا تو اُسے کونسی مدد دی گئی مگر اُس کا ردِعمل کیسا تھا؟‏ (‏پ)‏ ہم آسا کے طرزِعمل پر غور کرنے سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟‏

۱۶ تاہم،‏ جب آسا بادشاہ فتح حاصل کرنے کے بعد واپس لوٹا تو یہوواہ نے عزریاہ کو اُس سے ملنے اور یہ کہنے کیلئے بھیجا:‏ ”‏اَے آؔسا اور سارے یہوؔداہ اور بنیمینؔ میری سنو۔‏ [‏یہوواہ]‏ تمہارے ساتھ ہے جب تک تم اُسکے ساتھ ہو اور اگر تم اُسکے طالب ہو تو وہ تم کو ملیگا پر اگر تم اُسے ترک کرو تو وہ تم کو ترک کریگا۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۵:‏۲‏)‏ لہٰذا آسا نے نئے جوش‌وجذبے کیساتھ سچی پرستش کو فروغ دیا۔‏ لیکن ۲۴ سال بعد،‏ جب پھر جنگ کی صورت کا سامنا ہوا تو آسا یہوواہ کا طالب نہ ہوا۔‏ اُس نے خدا کے کلام کی مشورت پر عمل نہ کِیا اور نہ ہی یہ یاد رکھا کہ یہوواہ نے یہوداہ پر کوشی فوج کے حملے کے وقت کیا کِیا تھا۔‏ اُس نے  ارام کیساتھ گٹھ‌جوڑ کرنے سے بڑی حماقت کا ثبوت دیا۔‏—‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۱-‏۶‏۔‏

۱۷ لہٰذا،‏ یہوواہ نے آسا کو ملامت کرنے کیلئے حنانی غیب‌بین کو بھیجا۔‏ اس معاملے کی بابت یہوواہ کا نقطۂ‌نظر واضح ہو جانے پر آسا فائدہ اُٹھا سکتا تھا۔‏ اِسکی بجائے،‏ اُس نے غضبناک ہوکر حنانی کو قیدخانہ میں ڈال دیا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۷-‏۱۰‏)‏ کتنے افسوس کی بات!‏ ہماری بابت کیا ہے؟‏ کیا ہم خدا کے طالب ہوتے ہیں لیکن اُسکی مشورت قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں؟‏ جب کوئی فکرمند اور شفیق بزرگ ہمیں دُنیا میں اُلجھتے دیکھکر بائبل سے مشورت دیتا ہے تو کیا ہم یہ بات جاننے میں مشفقانہ مدد کیلئے قدردانی ظاہر کرتے ہیں کہ ”‏خداوند کو کیا پسند ہے“‏؟‏

یہ پوچھنا مت بھولیں کہ یہوواہ کہاں ہے

۱۸.‏ ہم ایوب سے الیہو کی کہی ہوئی بات سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏

۱۸ یہوواہ کی خدمت میں عمدہ ریکارڈ قائم کرنے والا شخص بھی مصیبت کے وقت غلطی کر سکتا ہے۔‏ جب ایوب ایک نفرت‌انگیز بیماری میں مبتلا ہوا،‏ اپنے بچوں اور اثاثوں کو کھو بیٹھا اور اپنے دوستوں کی طرف سے ناحق الزام‌تراشی کا نشانہ بنا تو اُسکی سوچ اپنی ذات پر ہی مُرتکز ہو گئی۔‏ الیہو نے اُسے یاد دلایا:‏ ’‏کوئی نہیں کہتا کہ خدا میرا خالق کہاں ہے؟‏‘‏ (‏ایوب ۳۵:‏۱۰‏)‏ ایوب کو اپنی سوچ یہوواہ پر مُرتکز کرنے اور یہ دیکھنے کی ضرورت تھی کہ وہ اس صورتحال کو کیسا خیال کرتا ہے۔‏ ایوب نے فروتنی سے اس یاددہانی کو قبول کِیا اور اُسکی مثال ایسا ہی کرنے میں ہماری مدد بھی کر سکتی ہے۔‏

۱۹.‏ اسرائیلی لوگ اکثر کیا کرنے میں ناکام ہو گئے؟‏

۱۹ اسرائیلی لوگ اپنی قوم کیساتھ یہوواہ کے برتاؤ سے واقف تھے۔‏ لیکن اکثر اپنی زندگی کے خاص معاملات نپٹاتے وقت سب کچھ بھول جاتے تھے۔‏ (‏یرمیاہ ۲:‏۵،‏ ۶،‏ ۸‏)‏ اپنی زندگی کے فیصلوں میں اُنہوں نے یہ پوچھنے کی بجائے کہ ”‏یہوواہ کہاں ہے؟‏“‏ اپنی عیش‌وعشرت کو زیادہ ترجیح دی۔‏—‏یسعیاہ ۵:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

یہ پوچھتے رہیں کہ ”‏یہوواہ کہاں ہے؟‏“‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کی ہدایت حاصل کرنے کے سلسلے میں آجکل کس نے الیشع جیسے جذبے کا مظاہرہ کِیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اُنکے ایمان کی مثال کی نقل کیسے کر سکتے ہیں اور اس سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏

۲۰ جب ایلیاہ کی عوامی خدمتگزاری ختم ہوئی تو اُس کا خادم الیشع اُس کی چادر لیکر دریائےیردن پر گیا اور پانی پر مار کر کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ ایلیاؔہ کا خدا کہاں ہے؟‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۲:‏۱۴‏)‏ یہوواہ نے یہ ظاہر کرنے سے جواب دیا کہ اُس کی روح الیشع کے ساتھ ہے۔‏ ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۲۱ جدید زمانے میں بھی کچھ ایسا ہی واقع ہوا۔‏ جب منادی کے کام میں پیشوائی کرنے والے بعض ممسوح مسیحی گزر گئے تو جنہیں نگرانی سونپی گئی اُنہوں نے صحائف کی جانچ کی اور راہنمائی کیلئے یہوواہ سے دُعا کی۔‏ وہ یہ پوچھنے میں ناکام نہیں ہوئے تھے کہ ”‏یہوواہ کہاں ہے؟‏“‏ نتیجتاً،‏ یہوواہ نے مسلسل اپنے لوگوں کی پیشوائی کی اور اُنہیں ترقی بخشی ہے۔‏ کیا ہم اُنکے ایمان کی نقل کرتے ہیں؟‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۷‏)‏ اگر ایسا ہے تو ہم یہوواہ کی تنظیم کی قربت میں رہینگے،‏ اُسکی ہدایت پر عمل کرینگے اور یسوع مسیح کی زیرِہدایت انجام پانے والے کام میں بھرپور شرکت کرینگے۔‏—‏زکریاہ ۸:‏۲۳‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• ہمیں کس نظریے سے یہ پوچھنا چاہئے کہ ’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏

‏• ہم آجکل اس سوال کا جواب کیسے حاصل کر سکتے ہیں کہ ’‏یہوواہ کہاں ہے؟‏‘‏

‏• الہٰی راہنمائی کیلئے بعض دُعاؤں کا جواب کیوں نہیں ملتا؟‏

‏• بائبل کی کونسی مثالیں یہ بات ”‏تجربے سے معلوم کرتے“‏ رہنے کی ضرورت کو اُجاگر کرتی ہیں کہ ”‏یہوواہ کو کیا پسند ہے؟‏“‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

بادشاہ یہوسفط یہوواہ کا طالب کیسے ہوا تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

ساؤل نے جادوگرنی سے رابطہ کیوں کِیا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویریں]‏

‏’‏یہوواہ کو ڈھونڈنے‘‏ کیلئے دُعا،‏ مطالعہ اور غوروخوض کریں