شیطان—افسانہ یا شرانگیز حقیقت؟
شیطان—افسانہ یا شرانگیز حقیقت؟
زمانۂقدیم سے مفکرین بدی کی ابتدا کی بابت متجسس رہے ہیں۔ جیمز ہیزٹنگز کی اے ڈکشنری آف دی بائبل بیان کرتی ہے: ”انسان کو اپنی شعوری ابتدا ہی سے ایسی طاقتوں کا سامنا رہا ہے جس پر وہ کبھی قابو نہ پا سکا اور جس کا اثر نقصاندہ یا تباہکُن رہا ہے۔“ اس کتاب میں یہ بھی بیان کِیا گیا ہے: ”نسلِانسانی نے جبلّی طور پر ابتدا ہی سے انکی وجوہات کو جاننے کی کوشش کی ہے اور ان قوتوں اور فطرت کے دیگر اظہارات کو شخصی خیال کِیا ہے۔“
مؤرخین کے مطابق، شیاطینی دیوتاؤں اور شریر روحوں پر یقین کی ابتدا کا تعلق مسوپتامیہ کی ابتدائی تاریخ سے ہو سکتا ہے۔ قدیم بابلی یقین رکھتے تھے کہ عالمِارواح یا ”مُردوں کی دُنیا“ کا سربراہ پُرتشدد دیوتا نیرگل تھا جسے ”جلانے والا“ کہتے تھے۔ وہ شیاطین سے بھی خوفزدہ رہتے تھے جنہیں وہ جادو منتر پڑھنے سے خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مصری اساطیر میں سیت بدی کا دیوتا تھا ”جسکی نمائندگی ایک عجیبوغریب جانور سے ہوتی تھی جسکا بھدا مُنہ، سیدھے چوکور کان اور ایک اکڑی ہوئی دوشاخہ دُم تھی۔“—لاروس انسائیکلوپیڈیا آف مائتھولوجی۔
اگرچہ یونانی اور رومی لوگوں کے دیویدیوتا خیرخواہ اور بدخواہ بھی تھے، توبھی انکا کوئی بھی دیوتا بالکل بدکار نہیں تھا۔ اُن کے مفکرین نے دو مخالف اُصولوں کے وجود کی تعلیم دی۔ ایمپیڈیکلیز کے لئے یہ محبت اور نااتفاقی کے اُصول تھے۔ افلاطون کے مطابق، دُنیا میں دو قسم کی ”قوتیں“ ہیں، جن میں سے ایک اچھائی اور دوسری بُرائی پر اُکساتی ہے۔ اپنی کتاب لی ڈائبل (ابلیس) میں زورش منوا کے بیان کے مطابق، ”کلاسیکل [یونانوروم] مُلحد مذہب میں ابلیس کا کوئی تصور نہیں تھا۔“
ایران میں زرتشتیت نے یہ تعلیم دی کہ عظیم دیوتا آہورا مزدا یا ہرمزد نے انگرا مینیو یا اہرمین کو خلق کِیا جس نے بُرائی کرنے کا انتخاب کِیا اور یوں ایک تباہکُن روحانی ہستی یا تباہکار بن گیا۔
یہودیت میں شیطان کا خدا کے مخالف کے طور پر سادہ بیان ملتا ہے جو گناہ کا مبدا ہے۔ تاہم کئی صدیوں بعد، بُتپرستانہ نظریات نے اس بیان کو بگاڑ دیا۔ انسائیکلوپیڈیا جوڈیکا بیان کرتا ہے: ”آخری صدیوں ق.س.ع. میں . . . ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی تھی۔ اس دوران [یہودی] مذہب نے . . . ثنوی نظام کی کئی خصوصیات اَپنا لیں جس میں بُرائی اور گمراہی کی پُرزور طاقتیں آسمانوزمین پر خدا، نیکی اور سچائی کی قوتوں کی مخالف تھیں۔ بظاہر یہ عقیدہ فارسی مذہب کے اثر کا نتیجہ تھا۔“ دی کنسائز جیواِش انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”تعویزوں کا استعمال اور الہٰی احکام کی پابندی ان شیاطینی قوتوں سے تحفظ فراہم کرتی تھی۔“
برگشتہ مسیحی تعلیم
جس طرح یہودیت نے شیطان اور شیاطین کی بابت غیرصحیفائی نظریات اَپنائے، برگشتہ مسیحیوں نے بھی غیرصحیفائی نظریات کو فروغ دیا۔ دی اینکر بائبل ڈکشنری بیان کرتی ہے: ”قدیم مذہبی نظریات کا ایک انتہاپسند عقیدہ یہ بھی ہے کہ خدا نے شیطان کو معاوضہ دیکر اپنے لوگوں کو آزاد کِیا ہے۔“ ارینیئس (دوسری صدی س.ع.) اس نظریہ کا بانی تھا۔ آریگن (تیسری صدی س.ع.) نے اسے مزید فروغ دیتے ہوئے دعویٰ کِیا کہ ”ابلیس انسانوں پر قانونی حق رکھتا ہے“ اور اسکے خیال میں ”مسیح کی موت . . . ابلیس کو ادا کِیا گیا فدیہ ہے۔“—ایڈولف ہارنیک کی ہسٹری آف ڈوگما۔
دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق، ”تقریباً ایک ہزار سال تک [ابلیس کو ادا کئے گئے فدیے پر مبنی نظریے] نے مذہب کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کِیا“ اور یہ چرچ کے عقیدے کا حصہ رہا۔ آگسٹین (چوتھی اور پانچویں صدی س.ع.) سمیت دیگر آبائےکلیسیا نے شیطان کو فدیہ ادا کئے جانے کی بابت اس نظریے کو اَپنایا۔ آخرکار، ۱۲ویں صدی س.ع. تک کیتھولک علما اینسلم اور ابیلارڈ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسیح کی قربانی شیطان کی بجائے خدا کے سامنے پیش کی گئی تھی۔
قرونِوسطیٰ کے تواہم
اگرچہ کیتھولک چرچ کی بہتیری مجالس نے شیطان کی بابت اس موضوع پر خاموشی اختیار کی، تاہم نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق، ۱۲۱۵ س.ع. میں چوتھی لیٹرن کونسل نے ”ایمان کا سنجیدہ اقرارنامہ“ پیش کِیا۔ اسکا پہلا قانون بیان کرتا تھا: ”خدا نے ابلیس اور دیگر شیاطین کو فطرتی طور پر نیک خلق کِیا تھا تاہم وہ اپنے اعمال کی وجہ سے بدکار بنے۔“ اس میں مزید بیان کِیا گیا کہ یہ نسلِانسانی کو آزمائش میں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس مابعدی نظریے نے قرونِوسطیٰ کے دوران بہتیرے لوگوں کو متاثر کِیا۔ شیطان کو ناقابلِتشخیص بیماری، اچانک موت یا خراب فصلوں جیسے ہر غیرمعمولی واقع کا ذمہدار ٹھہرایا جانے لگا۔ سن ۱۲۳۳ س.ع. میں پوپ گریگری IX نے ابلیس کے مبیّنہ پرستاروں لوسیفرینز کے علاوہ بدعتی اشخاص کے خلاف کئی فرمان جاری کئے۔
ابلیس اور اس کے شیاطین کے لوگوں میں سما جانے کے عقیدے نے بہت جلد مجموعی طور پر ایک وہم—جادوگری اور سفلی علم کا شدید خوف—پیدا کِیا۔ جادوگرنیوں کا خوف ۱۳ویں سے ۱۷ویں صدی تک پورے یورپ سے شمالی امریکا اور یورپی نوآبادیوں تک پھیل گیا۔ پروٹسٹنٹ مصلح کلیسیا مارٹن لوتھر اور جان کیلون بھی ساحرہوں کو پکڑنے کے عمل کی حمایت کرتے تھے۔ یورپ کی دُنیاوی اور رومن کیتھولک کلیسیائی عدالت جادوگرنیوں کے خلاف محض افواہوں یا کینہپرور الزامات پر مبنی مقدمے سنایا کرتی تھیں۔ تشدد ”جُرم“ قبول کروانے کا ایک عام طریقہ تھا۔
قصوروار اشخاص کو سزائےموت کے طور پر آگ میں جلایا جاتا تھا یا انگلینڈ اور سکاٹلینڈ میں ایسے لوگوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا مرنے والوں کی تعداد کی بابت بیان کرتا ہے: ”بعض مؤرخین کے مطابق، سن ۱۴۸۴ سے ۱۷۸۲ تک کرسچین چرچ نے تقریباً ۰۰۰،۰۰،۳ خواتین کو جادوگری کے جُرم میں موت کی سزا دی۔“ اگر قرونِوسطیٰ کے اس المناک واقعہ کا ذمہدار شیطان تھا تو اُسکے آلۂکار کون تھے—سزا پانے والے یا اُنکے انتہاپسند مذہبی ایذارساں؟
موجودہ یقین یا بےیقینی
اٹھارویں صدی کی فلسفیانہ اور ثقافتی تحریک نے منطقی سوچ کو فروغ دیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے: ”اس تحریک کے فلسفیانہ اور مذہبی نظریات نے ابلیس کے وجود کو قرونِوسطیٰ کے اساطیری تصور کے طور پرمسیحی شعور سے خارج کرنے کی کوشش کی۔“ رومن کیتھولک چرچ نے اس کی مخالفت کی اور پہلی ویٹیکن کونسل (۱۸۶۹-۱۸۷۰) میں شیطان ابلیس کی بابت عقیدے کی دوبارہ تصدیق کرتے ہوئے اسے دوسری ویٹیکن کونسل (۱۹۶۲-۱۹۶۵) پر کچھ غیرواضح انداز میں دوبارہ دہرایا۔
جیساکہ نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے، ”چرچ فرشتوں اور شیاطین کی بابت عقیدے کو قبول کرنے کا پابند ہے۔“ تاہم کیتھولک مذہب کی بابت ایک فرانسیسی ڈکشنری تھیو میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ”آجکل بہتیرے مسیحی ابلیس کو دُنیا میں پائی جانے والی بُرائی کا ذمہدار ٹھہرانے سے انکار کرتے ہیں۔“ حالیہ برسوں میں کیتھولک علما باضابطہ کیتھولک عقیدے اور جدید سوچ کے درمیان غیرمستحکم توازن کے پیشِنظر اس معاملے کو محتاط طریقے سے نپٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے، ”مسیحیت میں مذہبی رواداری شیطان کی بابت صحیفائی بیان کو حقیقت کی بجائے محض ایک ’تصوراتی بیان‘—کائنات میں بُرائی کی حقیقت اور وسعت کو بیان کرنے کی ایک اساطیری کوشش—خیال کرنے کی طرف مائل ہے۔“ یہ کتاب پروٹسٹنٹوں کی بابت بیان کرتی ہے: ”پروٹسٹنٹ مذہب میں جدید رواداری ایک شخص کے طور پر ابلیس کے وجود پر یقین رکھنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتی۔“ تاہم کیا سچے مسیحیوں کو شیطان کی بابت بائبل کے نظریے پر محض ”تصوراتی بیان“ کے طور پر غور کرنا چاہئے؟
صحائف کی تعلیم
انسانی فیلسوفی اور مذہبی عقائد نے بدی کی ابتدا کی بابت بائبل سے بہتر وضاحت پیش نہیں کی۔ شیطان کی بابت صحائف کا بیان بدی اور انسانی تکلیف کی ابتدا کے علاوہ یہ سمجھنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے کہ ہر سال تشدد بد سے بدتر کیوں ہوتا جا رہا ہے۔
بعض لوگ پوچھ سکتے ہیں: ’اگر خدا نیک اور شفیق خالق ہے تو وہ شیطان جیسی بدکار روح کو کیسے خلق کر سکتا تھا؟‘ بائبل یہ اصول وضع کرتی ہے کہ یہوواہ خدا کے تمام کام کامل ہیں اور اُسکی تمام ذیشعور مخلوقات کو آزاد مرضی کی صلاحیت کیساتھ خلق کِیا گیا ہے۔ (استثنا ۳۰:۱۹؛ ۳۲:۴؛ یشوع ۲۴:۱۵؛ ۱-سلاطین ۱۸:۲۱) پس شیطان بننے والی روحانی مخلوق بھی کامل خلق کی گئی ہوگی جو دانستہ طور پر سچائی اور راستی کی راہ سے منحرف ہو گئی۔—یوحنا ۸:۴۴؛ یعقوب ۱:۱۴، ۱۵۔
شیطان کی باغیانہ روش کئی طریقوں سے ”صور کے بادشاہ“ جیسی ہے جس کی بابت شاعرانہ انداز میں بیان کِیا گیا ہے کہ وہ ”حسن میں کامل“ اور اپنی ’پیدایش ہی کے روز سے اپنی راہورسم میں کامل تھا جب تک کہ اُس میں ناراستی نہ پائی گئی۔‘ (حزقیایل ۲۸:۱۱-۱۹) شیطان نے یہوواہ کی فضیلت اور خالق ہونے کے حق کو نہیں للکارا تھا۔ وہ ایسا کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اُسے بھی تو خدا نے خلق کِیا تھا؟ تاہم شیطان نے یہوواہ کے حکمرانی کرنے کے طریقے کو چیلنج کِیا تھا۔ باغِعدن میں، شیطان نے اشارہ دیا کہ خدا نے پہلے انسانی جوڑے کو کچھ ایسی چیز سے محروم رکھا ہے جس پر اُن کا حق اور اُن کی خوشحالی کا انحصار ہے۔ (پیدایش ۳:۱-۵) وہ آدم اور حوا کو یہوواہ کی راست حاکمیت کے خلاف بغاوت کرنے پر اُکسانے میں کامیاب ہو گیا اور یوں اُن پر اور اُن کی اولاد پر گناہ اور موت لے آیا۔ (پیدایش ۳:۶-۱۹؛ رومیوں ۵:۱۲) پس بائبل ظاہر کرتی ہے کہ شیطان انسانی تکلیف کی بنیادی جڑ ہے۔
طوفان سے پہلے کسی وقت دوسرے فرشتے بھی ابلیس کی بغاوت میں اُس کے ساتھ مل گئے۔ اُنہوں نے آدمیوں کی بیٹیوں کے ساتھ جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے انسانی جسم اختیار کئے۔ (پیدایش ۶:۱-۴) طوفان کے وقت ان باغی فرشتوں نے روحانی عالم میں لوٹنا چاہا لیکن وہ آسمان پر خدا کے ساتھ اپنا ”خاص مقام“ کھو چکے تھے۔ (یہوداہ ۶) اُنہیں گہری روحانی تاریکی کی حالت میں ڈال دیا گیا تھا۔ (۱-پطرس ۳:۱۹، ۲۰؛ ۲-پطرس ۲:۴) وہ شیاطین بن گئے اور یہوواہ کی حاکمیت کے تحت خدمت کرنے کی بجائے شیطان کے تابع ہو گئے۔ بظاہر انسانی جسم اختیار کرنے کے قابل نہ رہنے کے باوجود، شیاطین انسانوں کی زندگیوں اور ذہنوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں اور بِلاشُبہ وہ بڑی حد تک اُس تشدد کے ذمہدار ہیں جو آج ہمیں نظر آتا ہے۔—متی ۱۲:۴۳-۴۵؛ لوقا ۸:۲۷-۳۳۔
شیطان کی حکمرانی کا خاتمہ قریب ہے
یہ بات واضح ہے کہ شیاطینی قوتیں آجکل دُنیا میں سرگرمِعمل ہیں۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“—۱-یوحنا ۵:۱۹۔
تاہم تکمیلشُدہ بائبل پیشینگوئی ظاہر کرتی ہے کہ ابلیس زمین کے مصائب میں اضافہ کر رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ قید کئے جانے سے پہلے اُس کا ”تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔“ (مکاشفہ ۱۲:۷-۱۲؛ ۲۰:۱-۳) شیطان کی حکمرانی کا خاتمہ ایک راست نئی دُنیا پر منتج ہوگا جہاں آنسو، موت اور دُکھ ’نہ رہیگا۔‘ اس کے بعد خدا کی مرضی ”جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی“ ہوگی۔—مکاشفہ ۲۱:۱-۴؛ متی ۶:۱۰۔
[صفحہ ۴ پر تصویریں]
بابلی پُرتشدد دیوتا نیرگل (بالکل دائیں) پر ایمان رکھتے تھے؛ افلاطون (دائیں) دو مخالف ”روحوں“ کے وجود پر یقین رکھتا تھا
[تصویروں کے حوالہجات]
Cylinder: Musée du Louvre, Paris; Plato: National Archaeological
Museum, Athens, Greece
[صفحہ ۵ پر تصویریں]
ارینیئس، آریگن اور آگسٹین نے تعلیم دی کہ فدیہ ابلیس کو ادا کِیا گیا تھا
[تصویروں کے حوالہجات]
Great Men and Origen: Culver Pictures; Augustine: From the book Famous Women
[صفحہ ۶ پر تصویر]
جادوگرنیوں کا خوف ہزاروں کی موت کا سبب بنا
[تصویر کا حوالہ]
Bildersaal deutscher Geschichte From the book