اپنی ”نجات کی اُمید“ کو تابندہ رکھیں!
اپنی ”نجات کی اُمید“ کو تابندہ رکھیں!
”نجات کی اُمید کا خود پہن کر ہوشیار رہیں۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۸۔
۱. ”نجات کی اُمید“ برداشت کرنے میں کیسے مدد کرتی ہے؟
نجات کی اُمید نہایت سنگین حالات میں بھی کسی شخص کو ثابتقدم رہنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ بحری جہاز کی تباہی سے بچنے والے کسی شخص کو اگر یہ معلوم ہو کہ مدد بہم پہنچانے کا بندوبست کِیا جا رہا ہے تو وہ لکڑی کے ایک تختے پر تیرتے ہوئے بھی کافی دیر تک اس صورتحال کو برداشت کر سکتا ہے۔ اسی طرح ہزاروں سال سے ’یہوواہ کی نجات‘ کی اُمید نے ایماندار مردوزن کو مشکل اوقات میں سنبھالے رکھا ہے اور یہ اُمید کبھی مایوسی کا باعث نہیں بنی۔ (خروج ۱۴:۱۳؛ زبور ۳:۸؛ رومیوں ۵:۵؛ ۹:۳۳) پولس رسول نے ”نجات کی اُمید“ کو ایک مسیحی کے روحانی زرہبکتر کے ”خود“ سے تشبِیہ دی۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۸؛ افسیوں ۶:۱۷) جیہاں، خدا کی نجات پر اعتماد ہماری عقل کی حفاظت کرنے کے علاوہ مصیبت، مخالفت اور آزمائش کے وقت اپنے حواس قائم رکھنے کیلئے ہماری مدد کریگا۔
۲. ”نجات کی اُمید“ کن طریقوں سے سچی پرستش کی بنیاد ہے؟
۲ دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے کہ پہلی صدی کے مسیحی جس ”بُتپرستانہ“ معاشرے میں رہتے تھے اُس میں ”مستقبل کی بابت اُمید کا کوئی تصور نہیں تھا۔“ (افسیوں ۲:۱۲؛ ) تاہم، ”نجات کی اُمید“ سچی پرستش کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ کیسے؟ اوّل، یہوواہ کے خادموں کی نجات اسکے اپنے نام سے وابستہ ہے۔ زبورنویس آسف نے دُعا کی: ”اَے ہمارے نجات دینے والے خدا! اپنے نام کے جلال کی خاطر ہماری مدد کر۔ اپنے نام کی خاطر ہمکو چھڑا۔“ ( ۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۳زبور ۷۹:۹؛ حزقیایل ۲۰:۹) مزیدبرآں، یہوواہ کی موعودہ برکات پر اعتماد اسکے ساتھ اچھا رشتہ رکھنے کیلئے نہایت اہم ہے۔ پولس نے اسے یوں بیان کِیا: ”بغیر ایمان کے اُس کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اسلئےکہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۶) علاوہازیں، پولس نے واضح کِیا کہ تائب اشخاص کی نجات ہی یسوع کے زمین پر آنے کی بنیادی وجہ تھی۔ اس نے بیان کِیا: ”یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوؔع گنہگاروں کو نجات دینے کے لئے دُنیا میں آیا۔“ (۱-تیمتھیس ۱:۱۵) نیز پطرس رسول نے نجات کا حوالہ ’ہمارے ایمان کے مقصد [یا انجام]‘ کے طور پر دیا۔ (۱-پطرس ۱:۹) پس، نجات کی اُمید رکھنا واقعی مناسب ہے۔ لیکن نجات درحقیقت کیا ہے؟ نیز اسے حاصل کرنے کا تقاضا کیا ہے؟
نجات کیا ہے؟
۳. یہوواہ کے قدیم خادموں نے کس قسم کی نجات کا تجربہ کِیا؟
۳ عبرانی صحائف میں، لفظ ”نجات“ عموماً ظلم، تشدد یا غیرطبعی موت سے چھٹکارے یا ۲-سموئیل ۲۲:۲-۴) داؤد جانتا تھا کہ جب یہوواہ کے وفادار خادم اُسے مدد کیلئے پکارتے ہیں تو وہ اُنکی پکار سنتا ہے۔—زبور ۳۱:۲۲، ۲۳؛ ۱۴۵:۱۹۔
مخلصی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، یہوواہ کو ”چھڑانے والا“ کہتے ہوئے داؤد نے بیان کِیا: ”خدا میری چٹان ہے۔ . . . میری پناہ ہے۔ میرے نجات دینے والے! تُو ہی مجھے ظلم سے بچاتا ہے۔ مَیں [یہوواہ] کو جو ستایش کے لائق ہے پکارونگا۔ یوں مَیں اپنے دشمنوں سے بچایا جاؤنگا۔“ (۴. مسیحی دَور سے قبل یہوواہ کے خادم آئندہ زندگی کی بابت کیسی اُمید رکھتے تھے؟
۴ مسیحی دَور سے قبل بھی یہوواہ کے خادم آئندہ زندگی کی اُمید رکھتے تھے۔ (ایوب ۱۴:۱۳-۱۵؛ یسعیاہ ۲۵:۸؛ دانیایل ۱۲:۱۳) درحقیقت، عبرانی صحائف میں چھٹکارے کی بابت پائے جانے والے بیشتر وعدے ہمیشہ کی زندگی کا باعث بننے والی عظیم نجات کا نبوّتی عکس تھے۔ (یسعیاہ ۴۹:۶، ۸؛ اعمال ۱۳:۴۷؛ ۲-کرنتھیوں ۶:۲) یسوع کے زمانے میں، بیشتر یہودی ہمیشہ کی زندگی کی اُمید تو رکھتے تھے مگر انہوں نے اپنی اُمید کے بَر آنے میں یسوع کے کلیدی کردار کو تسلیم نہ کِیا۔ یسوع نے اپنے وقت کے مذہبی پیشواؤں سے کہا: ”تم کتابِمقدس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔“—یوحنا ۵:۳۹۔
۵. نجات کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟
۵ خدا نے یسوع کی معرفت نجات کے مکمل مفہوم کو واضح کِیا۔ اس میں گناہ کی حکمرانی، جھوٹے مذہب کی غلامی، شیطان کے قبضے میں پڑی ہوئی دُنیا، انسان حتیٰکہ موت کے ڈر سے رہائی شامل ہے۔ (یوحنا ۱۷:۱۶؛ رومیوں ۸:۲؛ کلسیوں ۱:۱۳؛ مکاشفہ ۱۸:۲، ۴) علاوہازیں، خدا کی نجات حقیقی مفہوم میں اُسکے وفادار خادموں کیلئے نہ صرف ظلمواستبداد سے مخلصی بلکہ ابدی زندگی سے محظوظ ہونے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ (یوحنا ۶:۴۰؛ ۱۷:۳) یسوع نے سکھایا کہ ”چھوٹے گلّے“ کیلئے نجات کا مطلب بادشاہتی حکمرانی میں مسیح کیساتھ شریک ہونے کی خاطر آسمانی زندگی کیلئے قیامت پانا ہے۔ (لوقا ۱۲:۳۲) باقی نسلِانسانی کیلئے، نجات کا مطلب کامل زندگی اور خدا کیساتھ رشتے کی بحالی ہے جس سے آدم اور حوا نے گناہ کرنے سے پہلے باغِعدن میں لطف اُٹھایا تھا۔ (اعمال ۳:۲۱؛ افسیوں ۱:۱۰) فردوسی حالتوں کے تحت ہمیشہ کی زندگی نسلِانسانی کیلئے خدا کا ابتدائی مقصد تھا۔ (پیدایش ۱:۲۸؛ مرقس ۱۰:۳۰) تاہم، ایسی حالتوں کی بحالی کیسے ممکن ہے؟
فدیہ—نجات کی بنیاد
۶، ۷. ہماری نجات میں یسوع کا کیا کردار ہے؟
۶ ابدی نجات صرف مسیح کے فدیے کی قربانی کی بدولت ہی ممکن ہے۔ کیوں؟ بائبل وضاحت کرتی ہے کہ جب آدم نے گناہ کِیا تو اس نے خود کو اور اپنی تمام آئندہ اولاد کو جس میں ہم بھی شامل ہیں، گناہ کے آگے ’بیچ‘ ڈالا جس کی وجہ سے فدیے کی ضرورت پڑی کیونکہ اسکے بغیر نوعِانسان کوئی جائز اُمید رکھنے کے مجاز نہیں تھے۔ (رومیوں ۵:۱۴، ۱۵؛ ۷:۱۴) موسوی شریعت کے تحت جانوروں کی قربانیاں اس بات کا عکس تھیں کہ خدا تمام نوعِانسان کیلئے فدیہ مہیا کریگا۔ (عبرانیوں ۱۰:۱-۱۰؛ ۱-یوحنا ۲:۲) یسوع کی قربانی اس نبوّتی عکس کی تکمیل تھی۔ یہوواہ کے فرشتے نے یسوع کی پیدائش سے پہلے اعلان کِیا: ”وہی اپنے لوگوں کو انکے گناہوں سے نجات دیگا۔“—متی ۱:۲۱؛ عبرانیوں ۲:۱۰۔
۷ یسوع معجزانہ طور پر کنواری مریم سے پیدا ہؤا تھا اسلئے خدا کے بیٹے کے طور پر اس نے آدم سے آنے والی موت ورثے میں نہیں پائی تھی۔ لہٰذا، اس حقیقت اور اُسکی اپنی کامل وفاداری سے اُسکی زندگی ایسی قدروقیمت کی حامل بن گئی جسے نوعِانسان کو گناہ اور موت سے چھڑانے کیلئے ادا کِیا جا سکتا تھا۔ (یوحنا ۸:۳۶؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۲) دیگر انسانوں کے برعکس، یسوع گناہ کے باعث موت کا سزاوار نہیں تھا۔ وہ زمین پر اسی لئے آیا تھا کہ ”اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔“ (متی ۲۰:۲۸) تمام انسانوں کیلئے فدیہ ادا کرنے کے بعد اب قیامتیافتہ اور تختنشین یسوع، خدا کے تمام تقاضوں پر پورا اُترنے والوں کو نجات دے سکتا ہے۔—مکاشفہ ۱۲:۱۰۔
نجات پانے کیلئے تقاضا کیا ہے؟
۸، ۹. (ا)یسوع نے نجات کی بابت ایک جوان حاکم کے سوال کا جواب کیسے دیا؟ (ب) یسوع نے اس موقع کو اپنے شاگردوں کو تعلیم دینے کے لئے کیسے استعمال کِیا؟
۸ ایک مرتبہ کسی دولتمند جوان اسرائیلی حاکم نے یسوع سے پوچھا: ”مَیں مرقس ۱۰:۱۷) اُسکے سوال نے غالباً یہودیوں کے اس عام نظریے کی عکاسی کی ہوگی کہ خدا ایسی نیکیاں کرنے کا تقاضا کرتا ہے جن سے خدائی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کی رسمی عقیدت کا محرک خودغرضی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، ایسی نیکیاں نجات کی یقینی اُمید فراہم نہ کر سکیں کیونکہ کوئی بھی ناکامل انسان حقیقت میں خدا کے معیاروں پر پورا نہیں اُتر سکتا۔
کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟“ (۹ اس سوال کے جواب میں، یسوع نے اُس شخص کو محض یہ یاد دِلایا کہ اُسے خدا کے حکموں کو ماننا چاہئے۔ اس جوان حاکم نے یسوع کو یقین دِلایا کہ اس نے لڑکپن سے ان پر عمل کِیا ہے۔ اس کے جواب نے یسوع کے دل میں اس کیلئے محبت پیدا کر دی۔ یسوع نے اس سے کہا: ”ایک بات کی تجھ میں کمی ہے۔ جا جو کچھ تیرا ہے بیچ کر غریبوں کو دے۔ تجھے آسمان پر خزانہ ملیگا اور آکر میرے پیچھے ہولے۔“ تاہم، وہ جوان شخص غمگین ہو کر چلا گیا ”کیونکہ بڑا مالدار تھا۔“ اس کے بعد یسوع نے اپنے شاگردوں کو سمجھایا کہ اس دُنیا کی چیزوں سے بہت زیادہ لگاؤ نجات حاصل کرنے کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کوئی بھی شخص اپنے بلبوتے پر نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ تاہم، یسوع نے انہیں یقیندہانی کرائی: ”یہ آدمیوں سے تو نہیں ہو سکتا لیکن خدا سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔“ (مرقس ۱۰:۱۸-۲۷؛ لوقا ۱۸:۱۸-۲۳) نجات کیسے ممکن ہے؟
۱۰. نجات حاصل کرنے کیلئے ہمیں کن شرائط پر پورا اُترنا ہوگا؟
۱۰ نجات خدا کی ایک بخشش ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو جاتی۔ (رومیوں ۶:۲۳) اس بخشش کو حاصل کرنے کے لئے ہر شخص کو چند بنیادی شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ یسوع نے کہا: ”خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ یوحنا رسول نے بھی کچھ اسی طرح بیان کِیا: ”جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھے گا بلکہ اُس پر خدا کا غضب رہتا ہے۔“ (یوحنا ۳:۱۶، ۳۶) واقعی، خدا ابدی نجات کے اُمیدواروں سے ایمان اور فرمانبرداری کا تقاضا کرتا ہے۔ لہٰذا، سب کو یسوع کے فدیے پر ایمان لاکر اُس کے نقشِقدم پر چلنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔
۱۱. ایک ناکامل شخص یہوواہ کی مقبولیت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
۱۱ ناکامل ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر فرمانبرداری کا فطری میلان نہیں ہے اس لئے ہم مکمل طور پر فرمانبرداری نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہوواہ نے ہمارے گناہوں کے کفارہ کے لئے فدیہ فراہم کِیا۔ چنانچہ، ہمیں خدا کی راہوں پر چلنے کی مسلسل کوشش کرنی چاہئے۔ اُس جوان حاکم کے لئے یسوع کی ہدایت کے مطابق ہمیں بھی خدا کے حکموں پر عمل کرنا چاہئے۔ یہ نہ صرف خدا کی مقبولیت بلکہ عظیم خوشی کا باعث بھی بنتا ہے کیونکہ ”اُسکے حکم سخت نہیں“ بلکہ ”تازگیبخش“ ہیں۔ (۱-یوحنا ۵:۳؛ امثال ۳:۱، ۸) پھربھی، نجات کی اُمید کو تھامے رہنا آسان نہیں ہے۔
”اِیمان کے واسطے . . . جانفشانی کرو“
۱۲. نجات کی اُمید بداخلاقی کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں کیسے ایک مسیحی کو تقویت بخشتی ہے؟
۱۲ شاگرد یعقوب ابتدائی مسیحیوں کو ”اُس نجات کی بابت“ لکھنا چاہتا تھا ”جس میں [وہ] سب شریک“ تھے۔ تاہم، ہر سُو پھیلی ہوئی بداخلاقی نے اُسے اپنے بھائیوں کو ”اِیمان کے واسطے . . . جانفشانی“ کرنے کی نصیحت دینے کی طرف مائل کِیا۔ جیہاں، نجات حاصل کرنے کیلئے محض سازگار حالات میں ہی حقیقی مسیحی ایمان اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کرنا کافی نہیں ہے۔ یہوواہ کیلئے ہماری عقیدت اتنی مضبوط ہونی چاہئے کہ اس سے آزمائشوں اور بداخلاقی کی مزاحمت کرنے کیلئے ہماری مدد ہو سکے۔ جیہاں، عیاشی اور کجروی، اختیار کیلئے احترام کا فقدان، تفرقے اور شکوک پہلی صدی کی کلیسیا کی حالت بگاڑ رہے تھے۔ ایسے رُجحانات کے خلاف لڑنے کیلئے یہوداہ نے ساتھی مسیحیوں کو اپنا مقصد ذہن میں رکھنے کی تاکید کی: ”تم اَے پیارو! اپنے پاکترین اِیمان میں اپنی ترقی کرکے اور رُوحاُلقدس میں دُعا کرکے۔ اپنے آپ کو خدا کی محبت میں قائم رکھو اور ہمیشہ کی زندگی کے لئے ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کی رحمت کے منتظر رہو۔“ (یہوداہ ۳، ۴، ۸، ۱۹-۲۱) نجات حاصل کرنے کی اُمید انہیں اخلاقی طور پر پاکصاف رہنے کی لڑائی میں مضبوط کر سکتی تھی۔
۱۳. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم نے خدا کے غیرمستحق فضل کو بیفائدہ نہیں رہنے دیا؟
۱۳ یہوواہ خدا جن لوگوں کو نجات بخشے گا ان سے وہ مثالی اخلاقیات کی ۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰) تاہم، خدا کے اخلاقی معیاروں کی پابندی کرنے کا مطلب دوسروں کی عیبجوئی کرنا نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ساتھی انسانوں کے ابدی مستقبل کا تعیّن کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ حق صرف خدا کو حاصل ہے جیساکہ پولس نے اتھینے کے یونانیوں کو بتایا کہ ”اُس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دُنیا کی عدالت اُس آدمی“—یسوع مسیح—”کی معرفت کریگا جسے اُس نے مقرر کِیا ہے۔“ (اعمال ۱۷:۳۱؛ یوحنا ۵:۲۲) اگر ہم یسوع کے فدیے پر ایمان کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں تو ہمیں آنے والے عدالتی دن سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (عبرانیوں ۱۰:۳۸، ۳۹) اہم بات یہ ہے کہ ہم غلط سوچ اور چالچلن کی آزمائش میں پڑنے سے کبھی بھی ”خدا کا فضل [فدیے کے ذریعے اسکے ساتھ ہمارا ملاپ] . . . بیفائدہ نہ رہنے“ دیں۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۱) علاوہازیں، نجات حاصل کرنے میں دوسروں کی مدد کرنے سے، ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے خدائی رحم کے مقصد کو بیفائدہ نہیں رہنے دیا ہے۔ ہم انکی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
توقع کرتا ہے۔ (نجات کی اُمید کا پرچار
۱۴، ۱۵. یسوع نے نجات کی خوشخبری پھیلانے کا کام کن کو سونپا تھا؟
۱۴ پولس نے یوایل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“ اس کے بعد اس نے مزید بیان کِیا: ”مگر جس پر وہ ایمان نہیں لائے اُس سے کیونکر دُعا کریں؟ اور جسکا ذکر انہوں نے سنا نہیں اُس پر ایمان کیونکر لائیں؟ اور بغیر منادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟“ چند آیات کے بعد، پولس نے نشاندہی کی کہ ایمان خودبخود نہیں بلکہ ”سننے سے پیدا ہوتا ہے اور سننا مسیح کے کلام سے۔“—رومیوں ۱۰:۱۳، ۱۴، ۱۷؛ یوایل ۲:۳۲۔
۱۵ ”مسیح [کا] کلام“ قوموں تک کون لیکر جائے گا؟ یسوع نے یہ کام اپنے شاگردوں کو سونپا جو اس ”کلام“ کی پہلے ہی سے تعلیم پا چکے تھے۔ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰؛ یوحنا ۱۷:۲۰) جب ہم بادشاہتی منادی اور شاگرد بنانے کے کام میں شرکت کرتے ہیں تو ہم وہی کام کر رہے ہوتے ہیں جس کی بابت پولس رسول نے، اس مرتبہ یسعیاہ کا حوالہ دیتے ہوئے، تحریر کِیا: ”کیا ہی خوشنما ہیں اُنکے قدم جو اچھی چیزوں کی خوشخبری دیتے ہیں۔“ اگر بیشتر لوگ ہماری خوشخبری کو قبول نہ بھی کریں توبھی یہوواہ کے حضور ہمارے قدم ”خوشنما“ ہونگے۔—رومیوں ۱۰:۱۵؛ یسعیاہ ۵۲:۷۔
۱۶، ۱۷. ہمارا منادی کا کام کونسا دہرا مقصد انجام دیتا ہے؟
۱۶ اس تفویض کو پورا کرنا دو اہم مقاصد انجام دیتا ہے۔ اوّل، خوشخبری کی منادی خدا کے نام کی بڑائی اور نجات کے خواہشمند لوگوں کو صحیح راہ پر ڈالنے کیلئے ضروری ہے۔ پولس نے تفویض کے اس پہلو کو سمجھ لیا تھا۔ اس نے بیان کِیا: ”کیونکہ [یہوواہ] نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ مَیں نے تجھ کو غیرقوموں کے لئے نُور مقرر کِیا تاکہ تُو زمین کی انتہا تک نجات کا باعث ہو۔“ لہٰذا، ایک شاگرد کے طور پر، نجات کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہم سب کی انفرادی ذمہداری ہے۔—اعمال ۱۳:۴۷؛ یسعیاہ ۴۹:۶۔
۱۷ دوم، خوشخبری کی منادی خدا کی راست عدالت کیلئے بنیاد ڈالتی ہے۔ یسوع نے اس عدالت کے متعلق کہا: ”جب ابنِآدم اپنے جلال میں آئیگا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئینگے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھیگا۔ اور سب قومیں اُس کے سامنے جمع کی جائینگی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کریگا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے۔“ اگرچہ عدالت اور جُدا کرنے کا کام اس وقت ہوگا ”جب ابنِآدم اپنے جلال میں آئیگا“ توبھی منادی کا کام آجکل مسیح کے روحانی بھائیوں کو پہچاننے اور یوں اپنی ابدی نجات کیلئے انکی حمایت میں کام کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔—متی ۲۵:۳۱-۴۶۔
”پوری اُمید“ برقرار رکھیں
۱۸. ہم اپنی ”نجات کی اُمید“ کو کیسے تابندہ رکھ سکتے ہیں؟
۱۸ منادی کے کام میں ہماری بھرپور شرکت بھی اپنی اُمید کو تابندہ رکھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ پولس نے لکھا: ”ہم اِس بات کے آرزومند ہیں کہ تم میں سے ہر شخص پوری اُمید کے واسطے آخر تک اِسی طرح کوشش ظاہر کرتا رہے۔“ (عبرانیوں ۶:۱۱) دُعا ہے کہ ہم سب اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ”نجات کی اُمید کا خود“ پہن لیں کہ ”خدا نے ہمیں غضب کیلئے نہیں بلکہ اِسلئے مقرر کِیا کہ ہم اپنے خداوند یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے نجات حاصل کریں۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۸، ۹) ہمیں پطرس کی اس نصیحت پر بھی دل لگانا چاہئے: ”اپنی عقل کی کمر باندھ کر اور ہوشیار ہو کر اُس فضل کی کامل اُمید رکھو جو یسوؔع مسیح کے ظہور کے وقت تم پر ہونے والا ہے۔“ (۱-پطرس ۱:۱۳) اس نصیحت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کی ”نجات کی اُمید“ ضرور بَر آئیگی!
۱۹. ہم اگلے مضمون میں کس بات پر غور کرینگے؟
۱۹ اس دوران، اس نظام کیلئے باقیماندہ وقت کی بابت ہمارا کیا خیال ہے؟ ہم اپنی اور دوسروں کی نجات کیلئے اس وقت کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ ہم اگلے مضمون میں ان سوالات پر غور کرینگے۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• ہمیں اپنی ”نجات کی اُمید“ کیوں تابندہ رکھنی چاہئے؟
• نجات میں کیا کچھ شامل ہے؟
• ہمیں نجات کی بخشش حاصل کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
• خدا کے مقصد کی مطابقت میں ہماری منادی سے کیا انجام پاتا ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
نجات کا مطلب محض تباہی سے بچ نکلنا نہیں ہے