انکساری—امن کو فروغ دینے والی خوبی
انکساری—امن کو فروغ دینے والی خوبی
اگر ہر انسان انکساری ظاہر کرے تو دُنیا کتنی خوشآئند ہو گی۔ لوگ اتنے متقاضی نہیں ہونگے، خاندان کے افراد اتنے جھگڑالو نہیں ہونگے، اداروں میں مقابلہبازی کم ہوگی، اِسکے علاوہ قوموں میں آویزش بھی نہیں ہوگی۔ کیا آپ ایسی دُنیا میں رہنا پسند کرینگے؟
یہوواہ خدا کے سچے خادم اُس کی موعودہ نئی دُنیا کے لئے تیاری کر رہے ہیں جہاں انکساری کو ہمہگیر کمزوری کی بجائے ایک طاقت اور خوبی خیال کِیا جائیگا۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) درحقیقت، وہ ابھی سے اپنے اندر انکساری کی خوبی پیدا کر رہے ہیں۔ کیوں؟ بالخصوص اسلئے کہ یہوواہ ان سے اسکا تقاضا کرتا ہے۔ اُسکے نبی میکاہ نے لکھا: ”اے انسان اس نے تجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے۔ [یہوواہ] تجھ سے اسکے سوا کیا چاہتا ہے کہ تو انصاف کرے اور رحمدلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟“—میکاہ ۶:۸۔
انکساری کے کئی معنی ہو سکتے ہیں، مثلاً، خودپسندی یا جھوٹی شانوشوکت سے پاک ہونا اور اپنی صلاحیت، کامیابی اور ملکیت پر بیجا گھمنڈ کرنے سے گریز کرنا۔ ایک لغت کے مطابق انکساری کا مطلب ”اپنی حدود میں رہنا“ بھی ہے۔ ایک منکسرالمزاج شخص تہذیب کے
دائرے میں رہتا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ کسی کام کو کرنے کی حدود کیا ہیں اور وہ کیا کرنے کے قابل ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کچھ چیزوں کا مستحق نہیں ہے۔ ہم منکسرالمزاج لوگوں کی طرف واقعی راغب ہو جاتے ہیں۔ انگریزی شاعر جوزف ایڈیسن کے مطابق،”حقیقی انکساری سے زیادہ دلکش کوئی خوبی نہیں۔“انکساری ناکامل انسانوں کی فطری خصلت نہیں۔ ہمیں اِس خوبی کو پیدا کرنے کیلئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ہماری حوصلہافزائی کیلئے خدا کا کلام کئی واقعات بیان کرتا ہے جو انکساری کی مختلف اقسام کی وضاحت کرتے ہیں۔
دو منکسرالمزاج بادشاہ
یہوواہ کے وفادار خادموں میں سے ایک داؤد تھا جسے اسرائیل کے آئندہ بادشاہ کے طور پر اُس وقت مسح کِیا گیا تھا جبکہ وہ ابھی نوجوان تھا۔ اسکے بعد، بادشاہ ساؤل نے اپنے دورِحکومت میں داؤد کو قتل کرنے کی کوشش کر کے اور اُسے بھگوڑا بننے پر مجبور کر کے اُس پر شدید دباؤ ڈالا۔—۱-سموئیل ۱۶:۱، ۱۱-۱۳؛ ۱۹:۹، ۱۰؛ ۲۶:۲، ۳۔
اِن حالات میں بھی داؤد نے اُن حدود کا خیال رکھا کہ اُسے اپنی زندگی بچانے کیلئے کیا کرنا چاہئے۔ ایک موقع پر داؤد نے بیابان میں، یہ کہتے ہوئے ابیشے کو خوابیدہ بادشاہ ساؤل کو نقصان پہنچانے سے منع کر دیا تھا: ”[یہوواہ] نہ کرے کہ مَیں [یہوواہ] کے ممسوح پر ہاتھ چلاؤں!“ (۱-سموئیل ۲۶:۸-۱۱) داؤد جانتا تھا کہ ساؤل کو بادشاہ کے عہدے سے برطرف کرنا اُسکا کام نہیں تھا۔ یوں داؤد نے اس موقع پر اپنی حدود میں رہتے ہوئے انکساری دکھائی۔ اسی طرح، آجکل خدا کے خادم جانتے ہیں کہ ”یہوواہ کے نقطۂنظر سے“ کچھ ایسے کام ہیں جو وہ ہرگز نہیں کر سکتے، خواہ اُنکی زندگی خطرے ہی میں کیوں نہ پڑ جائے۔—اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹؛ ۲۱:۲۵۔
بادشاہ داؤد کے بیٹے سلیمان نے بھی ایک جوان شخص کے طور پر، ایک فرق طریقے سے انکساری کا مظاہرہ کِیا تھا۔ جب سلیمان بادشاہ بنا تو اُس نے محسوس کِیا کہ وہ ایسی بھاری ذمہداریاں اُٹھانے کے قابل نہیں۔ اُس نے دُعا کی: ”[یہوواہ] میرے خدا تُو نے اپنے خادم کو میرے باپ داؔؤد کی جگہ بادشاہ بنایا ہے اور مَیں چھوٹا لڑکا ہی ہوں اور مجھے باہر جانے اور بِھیتر آنے کا شعور نہیں۔“ بِلاشُبہ، سلیمان اپنی نااہلیت اور ناتجربہکاری سے واقف تھا۔ وہ منکسرالمزاج تھا اور اُس نے کوئی جھوٹی شانوشوکت یا خودپسندی کا مظاہرہ نہیں کِیا تھا۔ سلیمان نے یہوواہ سے فہم کیلئے درخواست کی تھی جو پوری کر دی گئی تھی۔—۱-سلاطین ۳:۴-۱۲۔
مسیحا اور اُسکا پیشرو
سلیمان کے زمانہ کے ۱۰۰۰ سال بعد یوحنا بپتسمہ دینے والے نے مسیحا کی راہ تیار کرنے کا کام انجام دیا۔ ممسوح کے پیشرو کے طور پر یوحنا ایک بائبل پیشینگوئی پوری کر رہا تھا۔ وہ اپنے اس شرف پر گھمنڈ کر سکتا تھا۔ مسیحا کا قریبی رشتہدار ہونے کے باعث یوحنا اپنی بڑائی بھی کر سکتا تھا۔ تاہم یوحنا نے دوسروں کو بتایا کہ وہ یسوع کی جوتیوں کا تسمہ کھولنے کے لائق بھی نہیں تھا۔ چنانچہ جب یسوع دریائے یردن میں بپتسمے کیلئے آیا تو یوحنا نے کہا: ”مَیں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تُو میرے پاس آیا ہے؟“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوحنا کوئی گھمنڈی شخص نہیں تھا۔ وہ منکسرالمزاج تھا۔—متی ۳:۱۴؛ ملاکی ۴:۵، ۶؛ لوقا ۱:۱۳-۱۷؛ یوحنا ۱:۲۶، ۲۷۔
یسوع نے بپتسمہ پانے کے بعد خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرنے کے ساتھ اپنی کُلوقتی خدمت کا آغاز کِیا۔ ایک کامل شخص ہونے کے باوجود، یسوع نے کہا: ”مَیں آپ سے کچھ نہیں کر سکتا . . . مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔“ اِسکے علاوہ، یسوع لوگوں سے عزت نہیں چاہتا تھا بلکہ اُس نے اپنے سب کاموں سے یہوواہ کو جلال دیا۔ (یوحنا ۵:۳۰، ۴۱-۴۴) کیا ہی انکساری!
پس، واضح طور پر، یہوواہ کے وفادار خادموں—جیسے کہ داؤد، سلیمان، یوحنا اصطباغی اور کامل شخص یسوع مسیح نے بھی—انکساری سے کام لیا تھا۔ وہ شیخیباز، خودبین اور خودپسند نہیں تھے اور اُنہوں نے جائز حدود سے تجاوز نہیں کِیا تھا۔ اُنکی مثالیں زمانۂجدید کے یہوواہ کے خادموں کیلئے انکساری کا جذبہ پیدا کرنے اور اسے عمل میں لانے کی وجہ فراہم کرتی ہیں۔ تاہم، ایسا کرنے کی اور بھی وجوہات ہیں۔
نوعِانسان کی تاریخ کے اس ہنگامہخیز دور میں انکساری ایسی خوبی ہے جو سچے مسیحیوں کیلئے بیشقیمت ہے۔ یہ ایک شخص کو یہوواہ خدا اور ساتھی انسانوں کیساتھ صلح سے رہنے کے قابل بناتی ہے اور اُسے باطنی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
یہوواہ خدا کیساتھ صلح
یہوواہ سے صلح صرف اُس صورت میں ممکن ہے جب ہم اُن حدود کی پابندی کرتے ہیں جو اُس نے سچی پرستش کیلئے مقرر کی ہیں۔ ہمارے پہلے والدین آدم اور حوّا خدا کی طرف سے عائدکردہ پابندی کی نافرمانی کرنے والے پہلے گستاخ انسان تھے۔ اُنہوں نے اپنے گھر، اپنے مستقبل اور اپنی زندگی کے علاوہ یہوواہ کے ساتھ اپنی نیکنامی بھی کھو دی۔ (پیدایش ۳:۱-۵، ۱۶-۱۹) اُنہیں کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی!
ہمیں آدم اور حوّا کی ناکامی سے سبق سیکھنا چاہئے کیونکہ سچی پرستش ہمارے طرزِزندگی پر پابندی عائد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، بائبل بیان کرتی ہے: ”نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہونگے نہ بُتپرست نہ زناکار نہ عیاش۔ نہ لونڈےباز۔ نہ چور۔ نہ لالچی نہ شرابی۔ نہ گالیاں بکنے والے نہ ظالم۔“ (۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰) یہوواہ دانشمندی سے ہماری بہتری کیلئے یہ حدود مقرر کرتا ہے اور ہم اِنکی پابندی کرنے سے حکمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ (یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸) امثال ۱۱:۲ ہمیں آگاہ کرتی ہے: ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“
اگر ایک مذہبی تنظیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم ان حدود سے تجاوز کرنے کے باوجود بھی خدا کیساتھ صلح قائم رکھ سکتے ہیں تو پھر کیا ہو؟ وہ تنظیم آپکو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسکے برعکس، انکساری خدا کیساتھ قریبی رشتہ قائم کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔
ساتھی انسانوں کیساتھ صلح
انکساری دوسروں کیساتھ پُرامن تعلقات قائم کرنے میں بھی ہماری مدد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، جب والدین اپنی ضروریات میں قناعت کرنے اور روحانی معاملات کو ترجیح دینے سے عمدہ نمونہ قائم کرتے ہیں تو یہ بہت ممکن ہے کہ اُنکے بچے بھی ایسا ہی رُجحان ظاہر کرینگے۔ اس طرح چھوٹے بچوں کو قناعت کرنے میں مشکل پیش نہیں آئیگی، اُس وقت بھی جب اُنہیں ہمیشہ وہ چیز نہ ملے جو وہ چاہتے ہیں۔ اس سے اُنہیں انکساری کیساتھ زندگی گزارنے میں مدد ملے گی اور خاندانی زندگی پُرامن رہے گی۔
نگہبانوں کو خاص طور پر انکساری ظاہر کرنی چاہئے اور اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، مسیحیوں کو ہدایت کی گئی ہے: ”لکھے ہوئے سے تجاوز نہ کرو۔“ (۱-کرنتھیوں ۴:۶) کلیسیائی بزرگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں اپنی ذاتی ترجیحات کو دوسروں پر مسلّط نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس وہ طرزِعمل، لباس، آرائشوزیبائش یا تفریح کے معاملات میں صحیح روش اختیار کرنے کی حوصلہافزائی کرنے کے لئے خدا کے کلام کو بنیاد بناتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۴-۱۷) بزرگوں کو صحائف کی مقررہ حدود کی پابندی کرتے دیکھ کر کلیسیائی ارکان میں اُنکا احترام مزید بڑھتا ہے اور کلیسیا میں ایک پُرتپاک، پُرمحبت اور پُرامن روح فروغ پاتی ہے۔
باطنی اطمینان
انکساری سے کام لینے والے باطنی اطمینان کا تجربہ کرتے ہیں۔ انکساری سے کام لینے والا شخص خواہشات کی آگ میں نہیں جلتا۔ اِسکا یہ مطلب نہیں کہ اُسکے کوئی ذاتی نشانے نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر وہ اپنی خدمت میں اضافی شرف کا متمنی ہو سکتا ہے، لیکن وہ یہوواہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اُسے جو بھی مسیحی استحقاق ملتا ہے اُس کیلئے وہ یہوواہ کو باعثِافتخار خیال کرتا ہے۔ اسے شخصی کامیابی خیال نہیں کِیا جاتا۔ یہ ایک منکسرالمزاج شخص کو یہوواہ کے قریب لاتا ہے ”جو اطمینان کا چشمہ ہے۔“—فلپیوں ۴:۹۔
فرض کریں کہ بعض اوقات ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ دوسرے ہمیں نظرانداز کر رہے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ گستاخانہ طریقے سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی بجائے ہم اپنی انکساری کی وجہ سے نظرانداز کئے جائیں؟ منکسرالمزاج لوگ نقصاندہ خواہشات کی وجہ سے اندر ہی اندر نہیں کڑہتے۔ وہ مطمئن رہتے ہیں جو جذباتی اور جسمانی خوشحالی کیلئے مفید ہے۔
انکساری پیدا کرنا اور اُسے برقرار رکھنا
آدم اور حوّا نے انکساری کا دامن چھوڑ دیا تھا—اُنہوں نے یہ خصلت اپنی اولاد میں بھی منتقل کر دی۔ اپنے پہلے والدین جیسی غلطی کرنے سے بچنے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟ ہم انکساری کی عمدہ خوبی اپنے اندر کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے، کائنات کے خالق یہوواہ کے سامنے ہماری حیثیت کی بابت صحیح سمجھ اس سلسلے میں ہماری مدد کریگی۔ خدائی کامیابیوں کے مقابلہ میں ہم کن ذاتی کامرانیوں کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ یہوواہ نے اپنے ایماندار خادم ایوب سے سوال کِیا: ”تُو کہاں تھا جب مَیں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟ تُو دانشمند ہے تو بتا۔“ (ایوب ۳۸:۴) ایوب کوئی جواب نہ دے سکا۔ کیا ہم بھی اسی طرح علم، صلاحیت اور تجربے میں محدود نہیں ہیں؟ کیا اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنا ہمارے لئے مفید نہیں ہوگا؟
اِسکے علاوہ، بائبل ہمیں بتاتی ہے: ”زمین اور اُسکی معموری [یہوواہ] کی ہے۔ جہان اور اُسکے باشندے بھی۔“ اس میں ”جنگل کے تمام جانور اور ہزاروں پہاڑوں کے چوپائے“ بھی شامل ہیں۔ یہوواہ کہہ سکتا ہے: ”چاندی میری ہے اور سونا میرا ہے۔“ (زبور ۲۴:۱؛ ۵۰:۱۰؛ حجی ۲:۸) یہوواہ کے مقابلے میں ہم کن اثاثوں کی نمائش کر سکتے ہیں؟ دولتمند سے دولتمند شخص بھی معقول طور پر اپنی جائداد پر گھمنڈ نہیں کر سکتا! اِس لئے، روم کے مسیحیوں کو دی جانے والی پولس رسول کی الہامی مشورت پر عمل کرنا دانشمندی کی بات ہوگی: ”مَیں اُس توفیق کی وجہ سے جو مجھ کو ملی ہے تُم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے۔“—رومیوں ۱۲:۳۔
خدا کے خادموں کے طور پر اگر ہم منکسرالمزاج بننے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں روح کے پھلوں—محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم اور پرہیزگاری—کیلئے دُعا کرنی چاہئے۔ (لوقا ۱۱:۱۳؛ گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) کیوں؟ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک خوبی ہمارے لئے منکسرالمزاج بننے کو آسان بنا دیگی۔ مثال کے طور پر، ساتھی انسانوں کیلئے محبت، گھمنڈ اور خودپسندی کے رُجحان کی مخالفت کرنے میں ہماری مدد کریگی۔ تحمل کی خوبی ہمیں کوئی بےحجاب قدم اُٹھانے سے پہلے غور کرنے کی تحریک دیگی۔
ہمیں خبردار رہنا چاہئے! ہمیں واقعی شوخچشمی کے پوشیدہ خطرات سے ہمیشہ باخبر رہنا چاہئے۔ مذکورہبالا دو بادشاہوں نے ہر موقع پر انکساری نہیں دکھائی تھی۔ بادشاہ داؤد نے لاپرواہی اختیار کرتے ہوئے یہوواہ کی مرضی کے خلاف اسرائیل کا شمار کرایا۔ بادشاہ سلیمان تو اس حد تک بےباک ہو گیا تھا کہ وہ جھوٹی پرستش میں پڑ گیا۔—۲-سموئیل ۲۴:۱-۱۰؛ ۱-سلاطین ۱۱:۱-۱۳۔
جبتک یہ بےدین نظاماُلعمل قائم ہے انکساری سے کام لینے کیلئے ہر وقت محتاط رہنا بہت اہم ہے۔ تاہم، اس کیلئے کوشش کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ خدا کی نئی دُنیا میں انسانی معاشرہ صرف منکسرالمزاج لوگوں پر ہی مشتمل ہوگا۔ وہ انکساری کو کمزوری نہیں طاقت خیال کرینگے۔ وہ وقت کتنا شاندار ہو گا جب سب انسانوں اور خاندانوں کو انکساری سے حاصل ہونے والی صلح کی برکات سے نوازا جائیگا!
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
یسوع نے انکساری سے اپنے ہر کام کیلئے یہوواہ کو باعثِافتخار خیال کِیا