آپ خود کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
آپ خود کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
وہ ایک مغرور شخص تھا۔ اعلیٰ حکومتی مرتبے پر فائز ہونے کی وجہ سے حاصل ہونے والی خوشامد اور تعریف پر وہ پھولا نہیں سماتا تھا۔ لیکن ایک اَور سرکاری اہلکار نے اُسے ایسی عزت دینے سے انکار کر دیا جس سے وہ نہایت برہم ہوا۔ یہ متکبر اہلکار جس شخص سے برہم ہوا تھا اُس سے انتقام لینے کی غرض سے اُس نے تمام سلطنت میں اُسکی قوم کے لوگوں کو ہلاک کرنے کی سازش تیار کی۔ خودپسندی کا کیا ہی غلط احساس!
یہ سازشی، شاہِفارس اخسویرس کے دربار کا ایک اعلیٰ عہدیدار، ہامان تھا۔ تاہم اس کی دشمنی کا نشانہ؟ ایک یہودی جسکا نام مردکی تھا۔ اگرچہ ہامان کا پوری قوم کو تباہ کر دینے کا ردِعمل انتہاپسندانہ تھا توبھی، یہ تکبّر کے خطرے اور سنگین نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔ اُسکا متکبرانہ رویہ نہ صرف دوسروں کیلئے بحرانی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بنا بلکہ خود اُسکی اپنی سرِعام تذلیل اور بالآخر موت کا بھی باعث بنا۔—آستر ۳:۱-۹؛ ۵:۸-۱۴؛ ۶:۴-۱۰؛ ۷:۱-۱۰۔
سچے پرستار بھی تکبّر سے مستثنیٰ نہیں ہیں
یہوواہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم ’اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلیں۔‘ (میکاہ ۶:۸) بائبل میں ایسے اشخاص کے مختلف واقعات درج ہیں جو اپنی بابت انکسارانہ نظریہ اپنانے سے قاصر رہے۔ یہ ان کیلئے مسائل اور غم پر منتج ہوا۔ ان میں سے بعض مثالوں پر غور کرنا غیرمتوازن سوچ کی حماقت اور خطرے کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
خدا کے نبی یوناہ کی سوچ اس قدر غیرمتوازن ہو گئی تھی کہ جب اسے نینوہ کے شریر لوگوں کے خلاف یہوواہ کے عدالتی فیصلے کی بابت آگاہی دینے کی الہٰی تفویض حاصل ہوئی تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ (یوناہ ۱:۱-۳) بعدازاں، جب اس کی منادی کی کارگزاری نینوہ کے باشندوں کے توبہ کرنے کا سبب بنی تو یوناہ آزردہ ہو گیا۔ وہ نبی کے طور پر اپنی ساکھ کی بابت اس قدر فکرمند تھا کہ اسے نینوہ کے ہزاروں باشندوں کی زندگیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ (یوناہ ۴:۱-۳) اگر ہم شوخچشمی سے خود کو زیادہ اہم خیال کرتے ہیں تو شاید ہم اپنے اِردگِرد کے لوگوں اور واقعات کے سلسلے میں منصفانہ اور درست نقطۂنظر برقرار رکھنا مشکل پائیں۔
ذرا عزیاہ پر بھی غور کریں جو کسی وقت یہوداہ کا ایک نیک بادشاہ تھا۔ جب اُسکی سوچ غیرمتوازن ہوئی تو اس نے مخصوص کہانتی فرائض پر ہٹدھرمی سے قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ اپنی شوخچشمی اور بےباکی کی وجہ سے اسے بیماری اور الہٰی مقبولیت سے محرومی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔—۲-تواریخ ۲۶:۳، ۱۶-۲۱۔
غیرمتوازن سوچ نے یسوع کے رسولوں کو بھی تقریباً پھنسا لیا تھا۔ وہ ذاتی وقار اور اقتدار کی بابت بہت زیادہ فکرمند تھے۔ جب کڑی آزمائش کا وقت آیا تو وہ یسوع کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ (متی ۱۸:۱؛ ۲۰:۲۰-۲۸؛ ۲۶:۵۶؛ مرقس ۹:۳۳، ۳۴؛ لوقا ۲۲:۲۴) انکساری کی کمی اور انکے خودپسندانہ خیالات یہوواہ کے مقصد اور اس کی مرضی کے سلسلے میں اپنے کردار کو کسی حد تک نظرانداز کرنے کا سبب بنے۔
خودپسندی کے مُضر اثرات
اپنی بابت ایک غیرمتوازن نظریہ غم اور دوسروں کیساتھ ہمارے رشتے کو نقصان پہنچانے کا مؤجب بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، شاید ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے ایک جوڑے کو ایک دوسرے سے سرگوشی کرتے اور ہنستے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم خودپسند ہیں تو ہم اُنکی سرگوشیوں کی وجہ سے نامناسب طور پر یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ ہمارا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ ہمارا ذہن ہمیں شاید انکے اس طرزِعمل کیلئے کسی اَور ممکنہ وضاحت کی بابت سوچنے ہی نہ دے۔ بہرحال، وہ اَور کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ ہم پریشان ہو
سکتے ہیں اور اس جوڑے سے پھر کبھی بات نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح سے اپنی بابت ہمارا غیرمتوازن نظریہ غلطفہمیوں کا باعث بن سکتا ہے اور دوستوں، خاندانی افراد اور دیگر کیساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔خود کو بہت زیادہ اہم خیال کرنے والے لوگ شیخیباز بن جاتے ہیں اور اپنی لیاقتوں، کاموں یا املاک کی بابت ڈینگیں مارتے پھرتے ہیں۔ یا وہ ہمیشہ اپنے بارے میں کوئی نہ کوئی بات کرنے سے گفتگو پر حاوی ہو سکتے ہیں۔ ایسی باتچیت حقیقی محبت کی کمی کو ظاہر کر سکتی ہے اور سخت ناراضگی کا باعث بن سکتی ہے۔ اِس وجہ سے، ایسے خودبین اشخاص اکثروبیشتر خود کو دوسروں سے الگتھلگ کر لیتے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۳:۴۔
یہوواہ کے گواہوں کے طور پر، ہمیں بھی اپنی عوامی خدمتگزاری میں ٹھٹھابازی اور استرداد کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی مخالفت حقیقی طور پر، ہماری ذات کے خلاف نہیں، بلکہ ہمارے پیغام کے ماخذ، یہوواہ خدا کے خلاف ہے۔ تاہم، ذاتی اہمیت کی بابت ہمارا غلط نظریہ سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ کافی سال پہلے، ایک بھائی صاحبِخانہ کی سختکلامی کو اپنی ذات پر حملہ سمجھ کر بدکلامی پر اُتر آیا۔ (افسیوں ۴:۲۹) اس کے بعد، اس بھائی نے گھربہگھر کی منادی میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ جیہاں، منادی کے دوران تکبّر ہمیں غصے میں آنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ آئیے ایسا کبھی نہ ہونے دیں۔ اس کی بجائے، ہمیں مسیحی خدمتگزاری میں شرکت کرنے کے شرف کی مناسب قدردانی کو برقرار رکھنے میں فروتنی سے یہوواہ کی مدد کے طلبگار ہونا چاہئے۔—۲-کرنتھیوں ۴:۱، ۷؛ ۱۰:۴، ۵۔
خودپسندانہ رحجان ہمیں ضروری مشورت قبول کرنے سے بھی روک سکتا ہے۔ وسطی امریکہ کے ایک مُلک میں چند سال پہلے، ایک جواںسال لڑکے نے مسیحی کلیسیا کے تھیوکریٹک سکول میں تقریر پیش کی۔ جب سکول اوورسیئر نے سخت مشورت دی تو طالبعلم ناراض ہؤا اور اپنی بائبل فرش پر پھینک کر پھر کبھی واپس نہ آنے کے ارادے سے کنگڈم ہال سے باہر چلا گیا۔ لیکن چند دن بعد، اس نے اپنے تکبّر پر غلبہ پا لیا، سکول اوورسیئر سے مفاہمت کی اور فروتنی سے اسکا مشورہ قبول کِیا۔ وقت کیساتھ ساتھ یہ نوجوان مسیحی پختگی حاصل کرتا گیا۔
شوخچشم ہونا اور اپنے آپکو بہت اہم خیال کرنا خدا کیساتھ ہمارے رشتے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ امثال ۱۶:۵ خبردار کرتی ہے: ”ہر ایک سے جسکے دل میں غرور ہے [یہوواہ] کو نفرت ہے۔“
اپنی بابت متوازن نظریہ
واضح طور پر، ہمیں خود کو زیادہ اہم خیال نہیں کرنا چاہئے۔ بیشک، اس سے یہ مُراد نہیں کہ ہمیں اپنے قولوفعل کی بابت سنجیدہ نہیں ہونا چاہئے۔ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ نگہبانوں، خدمتگزار خادموں—درحقیقت کلیسیا کے تمام افراد—کو سنجیدہ ہونا چاہئے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۴، ۸، ۱۱؛ ططس ۲:۲) پس مسیحی کس طرح اپنی بابت ایک فروتن، متوازن اور سنجیدہ نظریہ پیدا کر سکتے ہیں؟
بائبل ایسے افراد کی بابت بہت ساری حوصلہافزا مثالیں فراہم کرتی ہے جنہوں نے اپنی بابت ایک متوازن نظریہ برقرار رکھا۔ یسوع مسیح کی فروتنی اس سلسلے میں نمایاں مثال ہے۔ اپنے باپ کی مرضی پوری کرنے اور نوعِانسان کو نجات دینے کیلئے، خدا کے بیٹے نے پُرجلال آسمانی رُتبہ چھوڑ دیا اور زمین پر ایک ادنیٰ انسان بن گیا۔ توہین، بدسلوکی اور شرمناک موت کے باوجود، اس نے ضبطِنفس اور وقار برقرار رکھا۔ (متی ۲۰:۲۸؛ فلپیوں ۲:۵-۸؛ ۱-پطرس ۲:۲۳، ۲۴) یسوع ایسا کرنے کے لائق کیسے ہؤا تھا؟ وہ یہوواہ پر مکمل بھروسے کے ساتھ اُس کی مرضی بجا لانے کے لئے پُرعزم تھا۔ یسوع نے خدا کے کلام کا مستعدی سے مطالعہ کِیا، پُرجوش دُعائیں کیں اور خدمتگزاری میں جانفشانی سے کام کِیا۔ (متی ۴:۱-۱۰؛ ۲۶:۳۶-۴۴؛ لوقا ۸:۱؛ یوحنا ۴:۳۴؛ ۸:۲۸؛ عبرانیوں ۵:۷) یسوع کے نمونے کی پیروی کرنے سے اپنی بابت متوازن نظریہ برقرار رکھنے میں ہماری مدد ہو سکتی ہے۔—۱-پطرس ۲:۲۱۔
بادشاہ ساؤل کے بیٹے یونتن کے عمدہ نمونے پر بھی ذرا غور کریں۔ اپنے باپ کی نافرمانی کی وجہ سے، یونتن بادشاہ کے طور پر ساؤل کا جانشین بننے کا موقع حاصل کرنے سے محروم ہو گیا۔ (۱-سموئیل ۱۵:۱۰-۲۹) کیا یونتن اپنے اس نقصان سے جھنجھلا گیا تھا؟ کیا وہ اس کی جگہ حکمرانی کرنے والے نوجوان آدمی، داؤد سے حسد کرنے لگا تھا؟ اگرچہ یونتن داؤد سے کافی بڑا اور غالباً اس سے زیادہ تجربہکار تھا توبھی اس نے انکساری اور فروتنی سے یہوواہ کے بندوبست کو تسلیم کِیا اور وفاداری سے داؤد کی حمایت کی۔ (۱-سموئیل ۲۳:۱۶-۱۸) خدا کی مرضی کی بابت واضح نقطۂنظر رکھنے اور رضامندی سے اس کی اطاعت کرنے سے ہماری مدد ہوگی کہ ’اپنے آپ کو جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ نہ سمجھیں۔‘—رومیوں ۱۲:۳۔
یسوع نے انکساری اور فروتنی ظاہر کرنے کی قدروقیمت کی بابت تعلیم دی۔ اُس نے اس بات سے اِسکی وضاحت کی کہ جب اس کے شاگرد کسی شادی کی ضیافت پر ہوں تو اُنہیں ”صدر جگہ“ نہیں لینی چاہئے کیونکہ شاید کوئی اَور ممتاز شخص آئے اور اُسے ادنیٰ جگہ پر بیٹھنے کی شرمندگی اُٹھانی پڑے۔ سبق کو بالکل واضح کرتے ہوئے، یسوع نے اضافہ کِیا: ”کیونکہ جو اپنے آپ کو بڑا بنائیگا وہ چھوٹا کِیا جائیگا اور جو کوئی اپنے آپ کو چھوٹا بنائیگا وہ بڑا کِیا جائیگا۔“ (لوقا ۱۴:۷-۱۱) یسوع کی مشورت پر دھیان دینے اور ’فروتنی کا لباس‘ پہننے سے ہم دانشمندی کا ثبوت دینگے۔—کلسیوں ۳:۱۲؛ ۱-کرنتھیوں ۱:۳۱۔
متوازن نظریے کی برکات
انکسارانہ اور فروتن رُجحان یہوواہ کے خادموں کو انکی خدمتگزاری میں حقیقی خوشی حاصل کرنے کے لائق بنائیگا۔ جب بزرگ فروتنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”گلّہ پر . . . ترس“ کھاتے ہیں تو وہ زیادہ قابلِرسائی بن جاتے ہیں۔ (اعمال ۲۰:۲۸، ۲۹) اِس طرح سے کلیسیا میں تمام لوگ ان کیساتھ باتچیت کرنے اور ان سے مدد حاصل کرنے سے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ یوں کلیسیا محبت، گرمجوشی اور بھروسے کی روح سے معمور ہو جاتی ہے۔
خود کو زیادہ اہم خیال نہ کرنا اچھے دوست بنانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ انکساری اور فروتنی ہمیں مقابلہبازی کی روح پیدا کرنے اور کاموں اور مادی چیزوں کے معاملے میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے سے باز رکھے گی۔ یہ خدائی خوبیاں بامروّت بننے کیلئے ہماری اَور زیادہ مدد کریں گی اور یوں ہم ضرورتمندوں کو تسلی دینے اور انکی مدد کرنے کیلئے بہتر حالت میں ہونگے۔ (فلپیوں ۲:۳، ۴) جب لوگ محبت اور مہربانی سے اثرپذیر ہوتے ہیں تو وہ عموماً مثبت جوابیعمل دکھاتے ہیں۔ نیز کیا ایسا بےغرضانہ رشتہ مضبوط دوستی کی بنیاد نہیں بن جاتا؟ شوخچشمی سے خود کو زیادہ اہم نہ سمجھنے کی کیا ہی شاندار برکت!—رومیوں ۱۲:۱۰۔
جب ہم کسی کو ناراض کر دیتے ہیں تو اپنی بابت متوازن نظریہ ہمارے لئے اپنی غلطی کو تسلیم کرنا آسان بنا دیتا ہے۔ (متی ۵:۲۳، ۲۴) یہ مفاہمت اور باہمی احترام کی گنجائش پیدا کرتے ہوئے بہتر تعلقات پر منتج ہوتا ہے۔ اگر نگرانی کے مرتبے پر فائز اشخاص، جیسے کہ مسیحی نگہبان، فروتن اور منکسرالمزاج ہیں تو انکے پاس دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا موقع ہے۔ (امثال ۳:۲۷؛ متی ۱۱:۲۹) ایک فروتن شخص اپنے خلاف گناہ کرنے والوں کو معاف کرنا بھی آسان پائیگا۔ (متی ۶:۱۲-۱۵) وہ معمولی معمولی باتوں پر اشتعال میں آنے کی بجائے معاملات کو سلجھانے کیلئے یہوواہ پر بھروسہ کریگا جو کسی بھی دوسرے طریقے سے حل نہیں کئے جا سکتے۔—زبور ۳۷:۵؛ امثال ۳:۵، ۶۔
یہوواہ کی خوشنودی اور مقبولیت سے استفادہ کرنا اپنی بابت انکسارانہ اور فروتن نظریہ رکھنے سے حاصل ہونے والی سب سے بڑی برکت ہے۔ ”خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۵) دُعا ہے کہ ہم خود کو کبھی بھی حد سے زیادہ بہتر خیال کرنے کی سوچ کے پھندے میں نہ پڑنے دیں۔ اس کی بجائے، ہمیں تمام معاملات میں یہوواہ کے انتظام میں فروتنی سے اپنے مقام کو پہچاننا چاہئے۔ ’خدا کے حضور فروتنی سے چلنے‘ کے تقاضے پر پورا اُترنے والے تمام لوگوں کو عظیم برکات حاصل ہوتی ہیں۔
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
یونتن نے فروتنی سے داؤد کی حمایت کی