چڑیاگھروں پر ایک نظر
چڑیاگھروں پر ایک نظر
تین ہزار سال پہلے ایک چینی شہنشاہ نے ایک باغ لگایا اور اُسے باغِذہانت کا نام دیا۔ یہ باغ ۶۰۷ ہیکٹر (۱۵۰۰ ایکڑ) پر پھیلا ہوا تھا اور اِس میں بہت سارے جانور رکھے گئے تھے۔ اُس زمانے کے لوگ اِس باغ کو دیکھ کر بڑے حیران ہوئے ہوں گے۔
آجکل لاکھوں لوگوں کو چڑیاگھر میں جا کر جانور دیکھنے کا شوق ہے۔ ایک کتاب میں بتایا گیا: ”اِس دُنیا میں دنبدن جنگل کم ہوتے جا رہے ہیں اور زیادہ لوگ شہروں میں رہنے لگے ہیں اِس لئے آجکل لوگوں کو جانور دیکھنے کا موقع چڑیاگھروں ہی میں ملتا ہے۔“—اکیسویں صدی میں چڑیاگھر، انگریزی میں دستیاب۔
چڑیاگھروں کی دلکشی
چڑیاگھروں میں لوگ خوبصورت اور دلکش جانوروں کو ایسے ماحول میں دیکھ سکتے ہیں جو اُن کے قدرتی ماحول جیسا لگتا ہے۔ کہیں رنگبرنگی تتلیاں جنگل میں اُڑتی نظر آتی ہیں تو کہیں پینگوئن برف کی مصنوعی چٹانوں سے چھلانگیں مارتے دِکھائی دیتے ہیں۔
کچھ چڑیاگھروں میں گھنے گھنے جنگل بنائے گئے ہیں جن میں آپ اُن جانوروں اور پرندوں کو دیکھ سکتے ہیں جو ایسے ماحول میں رہتے ہیں۔ یا پھر ایک اندھیرے کمرے میں جا کر آپ اُن جانوروں کو دیکھ سکتے ہیں جو رات کو جاگتے ہیں۔ کئی چڑیاگھروں میں شکاری پرندے پرواز کرتے نظر آتے ہیں یا پھر ڈولفن اٹکھیلیاں
کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ آجکل خطرناک جانوروں کو پنجروں کی بجائے بڑے بڑے احاطوں میں رکھا جاتا ہے جن کے گِرد پانی سے بھری کھائیاں بنائی گئی ہیں۔ یوں لوگ بغیر کسی خطرے کے اِنہیں کافی قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔چڑیاگھروں کا کردار—اچھا یا بُرا؟
جانوروں کے حقوق کے کچھ حامی اِس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ چڑیاگھروں میں جانوروں کو اُن کے اصل ماحول سے دُور کرکے مصنوعی ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاں جانوروں کا طرزِعمل فطری نہیں رہتا ہے۔
اِن اعتراضات کے جواب میں چڑیاگھروں کے منتظمین کہتے ہیں کہ وہ جانوروں کو ناپید ہونے سے بچاتے ہیں اور لوگوں کو جانوروں کے بارے میں اہم تعلیم دیتے ہیں۔ سپین کے شہر میڈریڈ کے ایک چڑیاگھر کے ایک کارکن کا کہنا ہے: ”ہم چاہتے ہیں کہ لوگ جانوروں کی قدر کریں۔ ہم اُن میں یہ خواہش پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جانوروں کے قدرتی ماحول کی حفاظت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، ورنہ کئی جانوروں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔“ بعض جائزوں کے مطابق چڑیاگھروں میں جا کر لوگوں میں واقعی یہ احساس بڑھتا ہے کہ ناپید ہونے والے جانوروں کو بچانا کتنا ضروری ہے۔
جانوروں کی کچھ قسموں نے انسانوں کے دل میں خاص جگہ بنا لی ہے۔ اِس کی ایک مثال دیوقامت پانڈا ہے۔ میڈریڈ کے ایک دوسرے چڑیاگھر کی ڈائریکٹر کہتی ہے: ”ہمارے چڑیاگھر میں دو پانڈا ہیں اور سب لوگ
اِنہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اکثر لوگ پانڈا کو اُن تمام کوششوں سے منسلک کرتے ہیں جو ناپید ہونے والے جانوروں کو بچانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے پانڈا کے بچے ہوں گے حالانکہ یہ جانور ساتھی کا انتخاب کرنے کے معاملے میں بڑے نخریلے ہوتے ہیں۔“آجکل چڑیاگھروں کی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی ہے اور جانوروں کی اچھی دیکھبھال کی جاتی ہے۔ اِس لئے چڑیاگھروں میں بہت سے جانوروں کی نسل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی لوگوں کا اعتراض ہے کہ چڑیاگھروں کو ایسے جانوروں کی تجارت میں شامل نہیں ہونا چاہئے جو ناپید ہونے کے خطرے میں ہیں۔ البتہ چڑیاگھروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ چڑیاگھروں میں بڑی کامیابی سے اِن جانوروں کی نسلیں بڑھائی جاتی ہیں اور کبھیکبھار تو اِنہیں دوبارہ سے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
جانوروں کے ناپید ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اُن کا قدرتی ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ اِس لئے کئی ملکوں میں ایسے ادارے قائم کئے گئے ہیں جو اپنے ملک میں خطرے سے دوچار جانوروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے چڑیاگھر اُن اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اُنہیں پیسے بھی دیتے ہیں۔ *
قدرت میں خالق کی جھلک
بہت سے بچوں کو فطری طور پر جانوروں سے لگاؤ ہوتا ہے۔ اِس لئے والدین چھٹی والے دن بچوں کو چڑیاگھر لے جا سکتے ہیں۔ یوں وہ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر خدا کی تخلیق کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں اور اُنہیں خالق کے بارے میں سکھا سکتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے انسان کو جانوروں میں بڑی دلچسپی رہی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں میں بھی یہ دلچسپی پیدا کرنی چاہئے کیونکہ قدرت کو دیکھ کر ہم اپنے خالق کی صفتوں کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ کیوں نہ چڑیاگھر کی سیر کو جائیں اور اُن شاندار مخلوقات کے بارے میں سیکھیں جو اِس خوبصورت زمین پر ہمارے ساتھ آباد ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 12 ایشیا میں شیروں، مڈاگاسکر میں لیمور اور افریقہ میں بندروں کو بچانے کے سلسلے میں چڑیاگھروں کی کوششیں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔
[صفحہ ۲۸ پر بکس]
ناپیدی کا خطرہ ٹل گیا
چڑیاگھروں کی کوششوں سے جانوروں کی کمازکم بارہ قسموں کو ناپید ہونے سے بچایا گیا ہے۔ اِن کی دو مثالیں یہ ہیں:
● یورپی جنگلی بھینسے ۱۹۲۵ء میں جنگلوں سے بالکل ختم ہو گئے۔ لیکن چڑیاگھروں میں موجود جنگلی بھینسوں سے اُن کی نسل بڑھائی گئی اور آجکل بیلاروس، پولینڈ اور روس کے کئی حصوں میں پھر سے اُن کے غول موجود ہیں۔
● اوریکس، عرب کے صحرا میں رہنے والا غزال ہے۔ سن ۱۹۷۲ء میں شکاریوں نے آخری جنگلی اوریکس کو مار ڈالا۔ لیکن چڑیاگھروں میں کچھ اوریکس باقی تھے جن کی وجہ سے اُن کی نسل بچا لی گئی۔ اور اب وہ صحرائےعرب کے کئی علاقوں میں پھر سے آباد ہیں۔
ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار چند ہی جانوروں کی نسل چڑیاگھروں میں بڑھائی جا سکتی ہے۔ اور جانوروں کو دوبارہ سے جنگل میں چھوڑنے کی کئی کوششیں ناکام رہی ہیں۔
[صفحہ ۲۷ پر تصویریں]
تتلی، بنگالی شیر، سمندری شیر، گنجا عقاب، دیوقامت پانڈا
[صفحہ ۲۸ پر تصویروں کے حوالہجات]
Tiger: Loro Parque, Puerto de la Cruz, Tenerife; seal: Faunia, Madrid; eagle and panda: Zoo Aquarium de Madrid
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
عربی اوریکس
[تصویر کا حوالہ]
Hai-Bar, Yotvata, Israel