تشدد مسئلہ ایک، وجوہات کئی
تشدد مسئلہ ایک، وجوہات کئی
تشدد کے پیچھے طرحطرح کی وجوہات ہوتی ہیں۔ اکثر ایک شخص صرف پُرتشدد تفریح کے انتخاب، دوستوں اور ماحول کی وجہ سے ہی تشدد کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ دراصل بہت سی اَور باتیں ہیں جو لوگوں کو تشدد کرنے پر اُکسا سکتی ہیں۔ آئیں، کچھ اَور وجوہات پر غور کریں۔
مایوسی اور پریشانی۔ کچھ لوگ اِس لئے تشدد کرنے پر اُتر آتے ہیں کیونکہ وہ ظلم، تعصب، احساسِتنہائی یا غربت کا شکار ہیں، یا پھر اُنہیں لگتا ہے کہ اُنہیں اپنی زندگی پر کوئی اختیار نہیں۔
ہجوم کا اثر۔ جب لوگ بڑے ہجوم میں جمع ہوتے ہیں مثلاً کوئی کھیل دیکھنے کے لئے تو اکثر وہ ایسے غلط کام کرتے ہیں جو وہ عام طور پر نہیں کرتے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ نفسیات کے بارے میں ایک کتاب (سوشل سائیکالوجی) میں بتایا گیا کہ ”ہجوم میں لوگ اپنے معیار بھول جاتے ہیں اور اِس لئے جب اُنہیں اُکسایا جاتا ہے تو وہ فوراً ہی تشدد کرنے پر اُتر آتے ہیں۔“ ایک ماہرِنفسیات کے مطابق، ہجوم میں لوگ ایک طرح سے کٹھپتلی بن جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ”اُنہیں اُن کے کاموں کے لئے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جائے گا۔“
نفرت اور حسد۔ انسانی تاریخ کا پہلا قتل قائن نامی شخص نے کِیا تھا۔ (پیدایش ۴:۱-۸) قائن اپنے بھائی سے حسد کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر خدا نے قائن کو بتایا کہ اُنہیں اپنے جذبات پر قابو پانا چاہئے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو اُنہیں برکت ملے گی۔ لیکن اِس کے باوجود قائن نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ خدا کے کلام کے یہ الفاظ بالکل سچ ہیں: ”جہاں حسد اور تفرقہ ہوتا ہے وہاں فساد اور ہر طرح کا بُرا کام بھی ہوتا ہے۔“—یعقوب ۳:۱۶۔
شراب اور منشیات: نشہآور اشیا کا استعمال نہ صرف جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے نقصاندہ ہے بلکہ اِس سے دماغ کے اُن حصوں پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے جن کے ذریعے انسان اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔ اِس لئے ایک شخص نشے کی حالت میں تشدد کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے اور اُسے زیادہ آسانی سے تشدد کرنے پر اُکسایا جا سکتا ہے۔
عدالتوں کی ناکامی۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”چُونکہ بُرے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیا جاتا اِس لئے بنیآدم کا دل اُن میں بدی پر بہشدت مائل ہے۔“ (واعظ ۸:۱۱) اگر عدالتی نظام کمزور یا ناکام ہے اور لوگوں کو انصاف نہیں ملتا تو تشدد کو ہوا ملتی ہے۔
جھوٹے مذاہب۔ فرقہوارانہ تشدد اور دہشتگردی کو اکثر مذہب سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن مذہب کے نام پر تشدد صرف انتہاپسند یا شدتپسند لوگ ہی نہیں کرتے۔ دونوں عالمی جنگوں میں عام شہریوں نے بھی اپنے مذہبی پیشواؤں کی دُعاؤں کے ساتھ ایک دوسرے کا خون بہایا۔ خدا کو ایسی حرکتوں سے نفرت ہے۔—ططس ۱:۱۶؛ مکاشفہ ۱۷:۵، ۶؛ ۱۸:۲۴۔
جیسے ہم نے دیکھا ہے، دُنیا میں بہت سے طریقوں سے تشدد کو فروغ دیا جاتا ہے اور اکثر اِسے اچھا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ کیا ایک شخص ایسے ماحول میں بھی امنپسند بن سکتا ہے؟ جی۔ آئیں، دیکھیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔
[صفحہ ۶ پر بکس]
تشدد کی جڑ
حالانکہ تشدد کو طرحطرح کی باتوں سے فروغ ملتا ہے لیکن اِس کی جڑ ہمارے دل میں پائی جاتی ہے۔ یسوع مسیح انسان کی فطرت کو بڑی گہرائی سے جانتے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”آدمی کے دل سے بُرے خیال نکلتے ہیں۔ حرامکاریاں۔ چوریاں۔ خونریزیاں۔ زناکاریاں۔ لالچ۔ بدیاں۔ مکر۔ شہوتپرستی۔ بدنظری۔ بدگوئی۔ شیخی۔ بےوقوفی۔“ (مرقس ۷:۲۱، ۲۲) اگر ہم باربار بُری باتوں کو دیکھتے ہیں، اِنہیں سنتے ہیں یا اِن کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم اپنے دل میں بُری خواہشوں کو پالتے ہیں۔—یعقوب ۱:۱۴، ۱۵۔
لیکن اگر ہم اپنے ذہن میں اچھی باتیں بھرتے ہیں (مثلاً وہ جن کا صفحہ ۸ پر ذکر ہوا ہے) تو ہم اپنے دل میں بُری خواہشوں کو ”مُردہ“ کر دیتے ہیں اور اچھی خواہشوں کو پالتے ہیں۔ (کلسیوں ۳:۵؛ فلپیوں ۴:۸) پھر خدا ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم ”اپنی باطنی انسانیت میں بہت ہی زورآور“ ہو جائیں۔ یوں ہم تشدد کرنے کی خواہش پر قابو پا سکیں گے۔—افسیوں ۳:۱۶۔
[صفحہ ۷ پر بکس]
ماہرین کی اُلجھن
کچھ ملکوں میں قتل کی شرح دوسرے ملکوں کی نسبت ۶۰ گُنا زیادہ کیوں ہے؟ انسانی تاریخ کے ورق جنگوں اور تشدد کے واقعات سے بھرے کیوں ہیں؟ ایسے سوالوں نے ماہرین کو اُلجھن میں ڈال رکھا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت اور ناانصافی تشدد کو بھڑکاتی ہیں۔ کچھ اعدادوشمار کے مطابق تشدد کی وجہ سے ہونے والی اموات میں سے ۹۰ فیصد دُنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتی ہیں اور شہروں کے غریب علاقوں میں جرائم کی شرح عموماً زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن کیا اِس کا مطلب ہے کہ غریب لوگ زیادہ تشددپسند ہیں؟ یا پھر کیا غریبوں کو اِس لئے زیادہ تشدد سہنا پڑتا ہے کیونکہ غریب علاقوں میں اکثر کوئی مؤثر پولیس فورس نہیں ہوتی؟ اگر وجہ یہ ہے تو حیرت کی بات ہے کہ بھارت کا شہر کلکتہ دُنیا کے اُن شہروں میں شامل ہے جہاں قتل کی شرح سب سے کم ہے حالانکہ کلکتہ میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارتے ہیں۔
دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے علاقوں میں لوگ زیادہ تشددپسند ہیں جہاں اسلحہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ یقیناً اسلحہ پُرتشدد لوگوں کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کئی علاقوں میں پُرتشدد لوگوں کی تعداد دوسرے علاقوں سے زیادہ کیوں ہے؟ اِس سوال نے بھی ماہرین کو اُلجھن میں ڈال رکھا ہے۔