والدین کی زبانی
والدین کی زبانی
نوجوانی کے دور میں بچوں میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اور اکثر وہ اِس وجہ سے ذہنی کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی زندگی کا یہ مرحلہ والدین کے لئے بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ آپ اِس مشکل مرحلے میں اپنے بچے کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ آئیں، دیکھیں کہ اِس سلسلے میں کچھ والدین کیا کہتے ہیں۔
تبدیلیاں
”جب میرا بیٹا چھوٹا تھا تو وہ بِلاچُوںچرا کئے میری بات سنتا تھا۔ لیکن جب وہ نوجوان ہو گیا تو مجھے لگا کہ اُسے میری باتوں پر اعتبار ہی نہیں رہا۔ مَیں جو کچھ کہتا، میرا بیٹا اُس پر اعتراض اُٹھاتا۔ یہاں تک کہ اُسے میری نصیحت کرنے کے انداز پر بھی اعتراض تھا۔“ —کینیڈا میں رہنے والے فرینک۔
”اب میرا بیٹا مجھ سے زیادہ باتیں نہیں کرتا لیکن جب وہ چھوٹا تھا تو وہ بولتے تھکتا نہیں تھا اور مجھے سب کچھ بتا دیتا تھا۔ اب مجھے اُس سے پوچھنا پڑتا ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔ پہلے تو وہ بات کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے مگر آخر میں مجھے جواب دے ہی دیتا ہے۔“ —آسٹریلیا میں رہنے والی فرانسس۔
”یہ بہت اہم ہے کہ والدین صبر سے کام لیں۔ کبھیکبھار جی کرتا ہے کہ بچوں پر برس پڑیں۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ جب مَیں غصے کو ٹھنڈا کرکے، آرام سے بچوں سے بات کرتی ہوں تو اِس کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔“ —امریکہ میں رہنے والی فیلیسیا۔
بات کرنے کا انداز
”جب مَیں اپنی بیٹی سے بات کرتی ہوں تو کبھیکبھی وہ مجھ سے بحث کرنے لگتی ہے اور کبھیکبھی مجھ سے کہتی ہے کہ آپ تو ہر وقت مجھے ٹوکتی رہتی ہیں۔ پھر مجھے اُسے یقین دلانا پڑتا ہے کہ مَیں اُس سے پیار کرتی ہوں۔ مَیں اُس سے کہتی ہوں کہ مَیں آپ کی دُشمن نہیں، دوست ہوں اور آپ کی بھلائی چاہتی ہوں۔“ —امریکہ میں رہنے والی لیسا۔
”جب میرے بچے چھوٹے تھے تو وہ مجھے ہر بات بِلاجھجھک بتا دیتے تھے۔ اِس طرح مجھے بڑی آسانی سے پتہ چل جاتا تھا کہ اُن کے دل میں کیا ہے۔ لیکن اب وہ اُسی صورت میں مجھے اپنے دل کی بات بتاتے ہیں جب مَیں اُنہیں سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں اور اُن کے جذبات اور احساسات کا احترام کرتی ہوں۔“ —کوریا میں رہنے والی نینہی۔
”نوجوانوں سے یہ کہنا کافی نہیں ہوتا کہ فلاں کام مت کرو۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اُن کو یہ بھی بتائیں کہ ایک کا م غلط کیوں ہے اور اِس سے باز رہنے سے اُنہیں کونسے فائدے ہوں گے۔ والدین کو اُن سے ایسے انداز میں بات کرنی چاہئے جو اُن کے دل کو چُھو لے۔ اِس سلسلے میں یہ بہت اہم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی باتوں کو دھیان سے سنیں اور تب بھی ایسا کریں جب اُنہیں بچے کی کوئی بات بُری لگتی ہے۔“ —برازیل میں رہنے والی ڈالیلا۔
”مَیں دوسروں کے سامنے اپنی بیٹی کی اصلاح نہیں کرتی بلکہ میری کوشش ہوتی ہے کہ مَیں اُسے الگ لے جا کر ایسا کروں۔“ —نائیجیریا میں رہنے والی ایڈنا۔
”اکثر جب مَیں اپنے بیٹے کے ساتھ بات کرتی ہوں تو مَیں ساتھساتھ گھر کے کامکاج بھی کرنے لگتی ہوں اور میرا دھیان بٹ جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے اب وہ میرے ساتھ زیادہ باتیں نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے اُس کی باتیں دھیان سے سننی ہوں گی ورنہ وہ مجھ سے دُور ہوتا جائے گا۔“ —میکسیکو میں رہنے والی مریم۔
آزادی کی خواہش
”جب میرے بچے نوجوان ہوئے تو وہ زیادہ آزادی چاہتے تھے لیکن مَیں اِس حق میں نہیں تھا۔ اِس وجہ سے اکثر ہماری آپس میں بحث ہوتی تھی۔ پھر مَیں نے اُن کو بتایا کہ مَیں کس وجہ سے اُن کو آزادی دینے سے ڈرتا ہوں۔ اور اُنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ زیادہ آزادی کیوں چاہتے ہیں۔ آخرکار ہم میں یہ طے پایا کہ مَیں اُنہیں زیادہ آزادی دوں گا بشرطیکہ وہ اُن حدود کو پار نہ کریں جو مَیں نے اُن کے لئے قائم کی ہیں۔“—گھانا میں رہنے والے ایڈون۔
”میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ وہ موٹر سائیکل خریدنا چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی مَیں اُس پر برس پڑی اور اُسے بتانے لگی کہ موٹر سائیکل چلانا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ مَیں نے اُسے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اِس وجہ سے اُس کو غصہ آ گیا اور اُس نے موٹر سائیکل خریدنے کی ٹھان لی۔ پھر جب میرا غصہ اُتر گیا تو مَیں نے دوبارہ سے اُس سے بات کی۔ لیکن اِس بار مَیں نے بڑے آرام سے اُس سے بات کی۔ مَیں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ موٹر سائیکل کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کرے، مثلاً موٹر سائیکل چلانے میں کیا خطرے ہو سکتے ہیں، اِس کا کتنا خرچہ ہوگا، اِس کا لائسنس حاصل کرنے اور انشورنس کرانے کے لئے کیا شرائط ہوں گی وغیرہ۔ مَیں نے اُس سے یہ بھی کہا کہ وہ کلیسیا کے تجربہکار مسیحیوں سے مشورہ لے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جب میرا بیٹا اپنی کسی خواہش کا ذکر کرتا ہے تو ڈانٹنےڈپٹنے کی بجائے اچھا ہے کہ مَیں اُس کی بات دھیان سے سنوں۔ اِس طرح میری نصیحت اُس پر اثر کرے گی۔“ —کوریا میں رہنے والی ہیین۔
”ہم نے اپنے بچوں پر کچھ پابندیاں عائد کیں۔ لیکن جوںجوں وہ بڑے ہوتے گئے، ہم اُنہیں زیادہ آزادی دینے لگے۔ جب ہمارے بچے اِس آزادی کا ناجائز فائدہ نہیں اُٹھاتے تھے تو ہم اُنہیں کچھ اَور باتوں کی بھی اجازت دے دیتے۔ ہم اپنے بچوں کو دبا کر نہیں رکھنا چاہتے تھے اِس لئے ہم اُن کو مزید آزادی حاصل کرنے کا موقع دیتے تھے۔ اُن کو پتہ تھا کہ اگر وہ ہمارا بھروسا جیتیں گے تو اُن کی آزادیاں بڑھ جائیں گی لیکن اگر وہ ہمارے بھروسے کو ٹھیس پہنچائیں گے تو اُنہیں سزا ملے گی۔“ —فرانس میں رہنے والی ڈوروتھی۔
”مَیں کبھی اپنے معیاروں کو نہیں بھولتی تھی لیکن جب میرے بچے میرا کہنا مانتے تھے تو مَیں اُن کی خواہشوں کو خاطر میں لاتی تھی۔ مثال کے طور پر مَیں نے بچوں کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا تھا جس پر وہ گھر آ جائیں۔ لیکن کبھیکبھار مَیں اُن کو دیر تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت دے دیتی تھی۔ اگر وہ میری اجازت کے بغیر دیر تک گھر سے باہر رہتے تو مَیں پہلی دفعہ اُنہیں سزا نہیں دیتی تھی لیکن اگر وہ دوبارہ یہی غلطی کرتے تو پھر مَیں اُنہیں سزا ضرور دیتی تھی۔“ —کوریا میں رہنے والی اِیلخین۔
”عموماً ملازمت کی جگہ پر کچھ اصول ہوتے ہیں اور جس حد تک ایک ملازم اِن اصولوں پر عمل کرتا ہے اُسی حد تک مینیجر اُس کی درخواستوں کو خاطر میں لاتا ہے۔ اِسی طرح ہمارے گھر میں بھی کچھ اصول ہیں۔ میرا بیٹا جانتا ہے کہ جس حد تک وہ اِن اصولوں پر عمل کرے گا اُسی حد تک اُسے زیادہ آزادی ملے گی۔ لیکن ایک ملازم یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ اپنی ذمہداری کو پورا نہیں کرے گا تو اُسے اِس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ اِسی طرح میرا بیٹا بھی جانتا ہے کہ اگر وہ اُن حدود میں نہیں رہے گا جو ہم نے اُس کے لئے مقرر کی ہیں تو وہ اپنی آزادیوں کو کھو دے گا۔“ —میکسیکو میں رہنے والے رامون۔
[صفحہ ۲۲ پر عبارت]
”لڑکے کی اُس راہ میں تربیت کر جس پر اُسے جانا ہے۔ وہ بوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑے گا۔“—امثال ۲۲:۶۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر کی عبارت]
کچھ تجربات
زندگی کا خوشگوار مرحلہ
جوزف: میری دو بیٹیاں نوجوانی کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ وہ اِس بات کی قدر کرتی ہیں کہ مَیں مختلف معاملوں میں اُنہیں رائے پیش کرنے کا موقع دیتا ہوں اور اُن کی بات کو غور سے سنتا ہوں۔ اگر مجھ سے غلطی ہو جاتی ہے تو مَیں اُسے تسلیم کرتا ہوں اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ احترام سے بات کرتا ہوں۔ اِس وجہ سے وہ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتیں۔ مَیں پاک صحیفوں میں پائی جانے والی رہنمائی کے مطابق اپنی بیٹیوں کی تربیت کر رہا ہوں اور ہمارے لئے اُن کی زندگی کا یہ مرحلہ بڑا خوشگوار گزر رہا ہے۔
لیسا: جب میری بڑی بیٹی نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اُسے میری اَور بھی زیادہ ضرورت پڑی۔ مَیں گھنٹوں بیٹھ کر اُس کی باتیں سنتی اور اُس سے ایسی باتیں کرتی جس سے اُس کا اعتماد بڑھے۔ ہماری بیٹیوں کو پتہ ہے کہ وہ جو بھی دل میں ہے، ہم سے کہہ سکتی ہیں؛ ہم اُن کے احساسات کی قدر کریں گے۔ مَیں کوشش کرتی ہوں کہ خدا کے کلام میں پائی جانے والی اِس نصیحت پر عمل کروں کہ ’ہر شخص سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا ہو۔‘—یعقوب ۱:۱۹۔
وکٹوریا: میری امی میری سب سے اچھی دوست ہیں۔ وہ ہر ایک کا خیال رکھتی ہیں اور سب کے ساتھ بڑے پیار سے پیش آتی ہیں۔ وہ دل سے ایسا کرتی ہیں۔ میری امی جیسا اِس دُنیا میں کوئی نہیں!
اولیویا: میرے ابو جی دوسروں کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ اُن کا دل بہت بڑا ہے۔ ہم امیر نہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ ہم سے خوب ہنسیمذاق کرتے ہیں لیکن اگر کوئی معاملہ سنجیدہ ہو تو وہ بڑی سنجیدگی سے بات کرتے ہیں۔ میرے ابو جی سب سے اچھے ہیں۔ مجھے اُن پر بڑا فخر ہے۔
بور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
سنی: اگر میری بیٹیوں کو کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو ہم سب مل کر اِس پر باتچیت کرتے ہیں۔ اور پھر خدا کے کلام میں دئے گئے اصولوں کے مطابق مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ میری اور میری بیوی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہماری بیٹیاں ایسے دوست بنائیں جو اُن پر اچھا اثر ڈالیں۔ ہمارے دوست ہماری بیٹیوں کے دوست ہیں اور ہماری بیٹیوں کے دوست ہمارے دوست ہیں۔
اِینز: ہم بہت سے کام مل کر کرتے ہیں۔ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں اور لوگوں کو خدا کے کلام کی تعلیم دیتے ہیں اور خود بھی اِس پر غور کرتے ہیں۔ ہم رضاکارانہ طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم عبادتگاہیں تعمیر کرنے میں حصہ لیتے ہیں اور آفت کا شکار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہم تفریح کرنے کے لئے بھی وقت نکالتے ہیں۔ ہم تو اِتنے مصروف ہیں کہ بور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
کلسی: میرے ابو جی سب کی بات دھیان سے سنتے ہیں اور کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سب کی رائے لیتے ہیں۔ امی جان ہمیشہ میری باتوں کو سننے کے لئے تیار ہوتی ہیں، چاہے مجھے اُن سے مشورہ لینا ہو یا ہلکیپھلکی باتچیت کرنے کو دل کر رہا ہو۔
سمینتھا: مجھے امی جان کے لہجے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔ وہ میری بات بڑے دھیان سے سنتی ہیں اور میرے احساسات کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ اُن سے اچھی سہیلی تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی!
[تصویریں]
جوزف اور لیسا اور اُن کی بیٹیاں: وکٹوریا، اولیویا اور اِیزابیلا
سنی اور اِینز اور اُن کی بیٹیاں: کلسی اور سمینتھا
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
والدین اپنے بچوں کو بعض معاملوں میں آزادی دیتے ہیں لیکن اِس کے ساتھساتھ وہ اُن کے لئے حدود بھی قائم کرتے ہیں۔