بچپن کا دور
بچپن کا دور
”جب تک بچے سکول نہیں جاتے، وہ گھر کے ماحول میں پلتےبڑھتے ہیں۔ اِس ماحول میں بچوں میں اچھی عادتیں پیدا کرنا قدراً آسان ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ سکول جانے لگتے ہیں تو اُن کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کی بولچال اور رویہ اُن سے فرق ہوتا ہے۔“ —اٹلی میں رہنے والے والٹر۔
جوںجوں بچے بڑے ہوتے ہیں، اُنہیں نئےنئے ماحول کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ دوستوں، ہمجماعتوں اور عزیزوں کے ساتھ وقت گزارنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ والٹر کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے جب بچوں پر والدین کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اثر ڈالنے لگتے ہیں۔ لہٰذا اِس سے پہلے کہ بچے سکول جانے لگیں، اُن کو سکھائیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ خوشاخلاقی سے پیش آئیں اور بڑوں کا کہنا مانیں۔ اُن کو صحیح اور غلط میں فرق کرنا بھی سکھائیں۔
بچے ایسی باتیں خودبخود نہیں سیکھتے۔ اُنہیں ایسی باتیں سکھانے میں وقت لگتا ہے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ’ہر طرح کے تحمل اور تعلیم کے ساتھ سمجھا اور نصیحت کر۔‘ (۲-تیمتھیس ۴:۲) خدا نے اپنے حکموں کے سلسلے میں بنیاسرائیل سے کہا: ”تُو اِن کو اپنی اولاد کے ذہننشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت اِن کا ذکر کِیا کرنا۔“ (استثنا ۶:۶، ۷) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کرتے رہنا چاہئے۔
والدین کو بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بہت سی باتیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ آئیں، اِن میں سے کچھ پر بات کرتے ہیں۔
دھیان سے سنیں
خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ جس طرح ”بولنے کا ایک وقت ہے“ اِسی طرح سننے کا بھی ایک وقت ہے۔ (واعظ ۳:۷) آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے بچے بڑوں کی بات دھیان سے سنیں؟ آپ کو اِس سلسلے میں اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔ خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں اپنے بچوں کی بات اور دوسرے لوگوں کی بات کو دھیان سے سنتا ہوں؟“
بچوں کو بات سمجھانا بڑے صبر کا کام ہوتا ہے کیونکہ اُن کا دھیان جلد اِدھراُدھر لگ جاتا ہے۔ بچوں کی فطرت الگالگ ہوتی ہے۔ اِس لئے اپنے بچے کو بات سمجھانے کے مختلف طریقے آزمائیں اور دیکھیں کہ اُس کے لئے کونسا طریقہ مؤثر ہوگا۔ اِس سلسلے میں برطانیہ میں رہنے والے ڈیوڈ کہتے ہیں: ”مَیں اپنی بیٹی کو کوئی بات سمجھانے کے بعد اُس سے کہتا ہوں کہ مجھے اپنے لفظوں میں بتاؤ کہ مَیں نے آپ سے کیا کہا ہے۔ یوں وہ میری بات زیادہ دھیان سے سنتی ہے۔“
یسوع مسیح کے شاگرد بالغ تھے لیکن پھر بھی یسوع مسیح نے اُن سے ایک موقعے پر کہا: ”خبردار رہو کہ تُم کس طرح سنتے ہو۔“ (لوقا ۸:۱۸) اگر بالغوں کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ دوسروں کی بات دھیان سے سنیں تو بچوں کے لئے یہ اَور بھی اہم ہے کہ وہ ایسا کرنا سیکھیں۔
ایک دوسرے کو معاف کریں
خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔“ (کلسیوں ۳:۱۳) آپ اپنے بچوں میں درگزر کرنے کی عادت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
اِس سلسلے میں بھی آپ کو اپنے بچوں کے لئے اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔ جب آپ دوسروں کو معاف کے لئے تیار رہیں گے تو بچے آپ سے سیکھیں گے۔ مارینا روس میں رہتی ہیں اور دو بچوں کی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”جب کوئی میرا یا میرے شوہر کا دل دُکھاتا ہے تو ہم اپنے بچوں کے لئے اچھی مثال قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اُس شخص کی بات کا بُرا نہیں مناتے، اُس کا لحاظ کرتے ہیں اور اُسے معاف کر دیتے ہیں۔“ مارینا مزید کہتی ہیں: ”اگر غلطی میری ہے تو مَیں اپنے بچوں سے معافی مانگتی ہوں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطیوں کی معافی مانگنا سیکھیں۔“
اختلافات کو دُور کرنے کا فن اور درگزر کرنے کی عادت بڑے قیمتی اثاثے ہوتے ہیں۔ اِس لئے اپنے بچوں کو سکھائیں کہ وہ دوسروں کا لحاظ کریں اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے اُن کی معافی مانگیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو ساری عمر اُن کے کام آئیں گی۔
شکرگزاری کا جذبہ پیدا کریں
خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ’اخیر زمانے میں آدمی خود غرض ہوں گے۔‘ (۲-تیمتھیس ۳:۱، ۲) اور واقعی آجکل بہت سے لوگ صرف اپنے ہی بارے میں سوچتے ہیں۔ اِس لئے یہ بہت اہم ہے کہ جب بچے چھوٹے ہوں تو والدین اُن میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا کریں۔ یسوع مسیح کے شاگرد پولس رسول نے لکھا: ”تُم شکرگذار رہو۔“—کلسیوں ۳:۱۵۔
چھوٹے بچے بھی دوسروں کا خیال رکھنا اور اُن کے ساتھ خوشاخلاقی سے پیش آنا سیکھ سکتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو یہ باتیں کیسے سکھا سکتے ہیں؟ ڈاکٹر کائل پروایٹ نے والدین نامی رسالے میں یہ کہا: ”اگر آپ اپنے بچوں میں شکرگزاری کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو خود اِس کی مثال قائم کریں۔“ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”جب بھی کوئی آپ کی مدد کرتا ہے یا پھر آپ کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو بچوں سے اِس بات کا ذکر کریں کہ آپ اُس شخص کے کس قدر شکرگزار ہیں۔ . . . ایسا کرنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔“ —انگریزی میں دستیاب۔
برطانیہ میں رہنے والے رچرڈ کہتے ہیں: ”مَیں اور میری بیوی اپنے بچوں کو دکھاتے ہیں کہ دوسروں کا شکریہ کیسے ادا کِیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی ہمیں کھانے پر بلاتا ہے تو ہم کارڈ لکھ کر اُس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ بچے یا تو اِس کارڈ پر دستخط کرتے ہیں یا پھر کوئی تصویر بنا دیتے ہیں۔“ بچوں میں خوشاخلاقی کی خوبی اور شکرگزاری کا جذبہ پیدا کرنا بہت اہم ہے۔ اِس طرح وہ آئندہ زندگی میں دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے قابل ہوں گے۔
اصلاح کریں
خواہ بچے کی عمر کچھ بھی ہو، اُس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف گھر میں بلکہ سکول اور معاشرے میں بھی بڑوں کا کہنا مانے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اُس کو سزا ملے گی۔ لہٰذا جوںجوں بچے بڑے ہوتے ہیں، اُن کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں، اِس کا یا تو اچھا یا پھر بُرا انجام ہوگا۔ خدا کے کلام میں یہ اصول پایا جاتا ہے کہ ”آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔“ (گلتیوں ۶:۷) آپ اپنے بچوں پر اِس اصول کی اہمیت کیسے واضح کر سکتے ہیں؟
خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”لڑکے کی تربیت سے کوتاہی نہ کر؛ کیونکہ اگر تُو اُسے چھڑی سے مارے بھی، تو وہ نہ مرے گا۔“ (امثال ۲۳:۱۳، نیو اُردو بائبل ورشن) اپنے بچے کو سزا دینے سے نہ ہچکچائیں۔ اگر آپ نے اپنے بچے سے کہا ہے کہ ”فلاں کام مت کرنا ورنہ آپ کو سزا ملے گی“ تو حکم توڑنے پر اُسے سزا دیں۔ ملک ارجنٹائن میں رہنے والی نورما کہتی ہیں: ”جو کچھ آپ نے بچے سے کہا ہے، اِس پر قائم رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنی بات کے پکے نہیں ہوں گے تو ممکن ہے کہ بچے اپنی مرضی چلانے کی کوشش کریں۔“
والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو پہلے سے بتا دیں کہ کہنا نہ ماننے کی کیا سزا ہوگی۔ یوں کم امکان ہوگا کہ بچے اپنے ماںباپ کے ساتھ سزا کے بارے میں بحث کریں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے اصلاح قبول کریں تو اُنہیں بتائیں
کہ گھر کے اصول کیا ہیں اور اِن کو توڑنے کی سزا کیا ہے۔ اُن پر یہ بھی واضح کر دیں کہ اصول توڑنے پر اُن کو سزا ضرور ملے گی۔غصے کی حالت میں اپنے بچے کی اصلاح نہ کریں کیونکہ اِس کا کم ہی فائدہ ہوگا۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”ہر طرح کی تلخمزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی . . . تُم سے دُور کی جائیں۔“ (افسیوں ۴:۳۱) والدین کو بچوں کی اصلاح کرنے کی غرض سے نہ تو اُن پر ظلم ڈھانا چاہئے اور نہ ہی اُن کی بےعزتی کرکے اُن کا دل دُکھانا چاہئے۔
یہ بہت اہم ہے کہ والدین اُس وقت بھی اپنے جذبات پر قابو رکھیں جب اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں نیو زیلینڈ میں رہنے والے پیٹر کہتے ہیں: ”ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن بچوں کو احساس ہونا چاہئے کہ اُنہیں اِس لئے سزا ملی ہے کیونکہ اُنہوں نے غلطی کی ہے، اِس لئے نہیں کیونکہ امی ابو کو غصہ پر قابو نہیں ہے۔“
پیٹر اور اُن کی بیوی اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ وہ اُن کی بھلائی کے لئے اُن کی اصلاح کر رہے ہیں۔ پیٹر کہتے ہیں: ”کبھیکبھار ہمارے بچے بہت بدتمیزی کر جاتے ہیں۔ لیکن اِس صورت میں بھی ہم اُن کی اصلاح کرتے وقت باربار یہ نہیں کہتے کہ اُنہوں نے کتنی بُری حرکت کی ہے بلکہ اُن کو یہ بتاتے ہیں کہ اُنہیں خود میں کونسی خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔“
سمجھداری سے کام لیں
بچوں کی اصلاح کرتے وقت سمجھداری سے کام لینا بہت اہم ہے۔ خدا نے اپنے خادموں سے کہا: ”مَیں تجھے . . . مناسب تنبیہ کروں گا۔“ (یرمیاہ ۴۶:۲۸) واقعی خدا نے والدین کے لئے اچھی مثال قائم کی ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو غلطی کے مطابق ہی سزا دیں۔ اِس طرح اصلاح زیادہ مؤثر ثابت ہوگی۔
اپنے بچوں کی اِس طرح سے اصلاح کریں کہ بچے کو بےعزتی محسوس نہ ہو۔ اٹلی میں رہنے والے سینتی کہتے ہیں: ”مَیں اپنے بچوں کی اصلاح کرتے وقت اُنہیں طعنے نہیں دیتا۔ مَیں پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ بچے نے کس وجہ سے غلطی کی ہے اور پھر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہ کرے۔ مَیں دوسروں کے سامنے بچوں کی اصلاح نہیں کرتا یہاں تک کہ اُن کے بہنبھائیوں کے سامنے بھی نہیں۔ مَیں اپنے بچوں کی خامیوں کو نہ تو گھر میں اور نہ ہی گھر سے باہر اُچھالتا ہوں۔“
رچرڈ جن کا پہلے ذکر ہو چُکا ہے، وہ بھی جانتے ہیں کہ بچوں کی اصلاح کرتے وقت سمجھداری سے کام لینا بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”جب بچہ غلطی کرتا ہے تو اُسے سزا دیں اور بات وہیں ختم کر دیں۔ اُس کی غلطی کا باربار ذکر نہ کریں۔“
بچوں کی تربیت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں والدین کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن اِس کے بدلے میں اُنہیں بہت سی خوشیاں بھی ملتی ہیں۔ روس میں رہنے والی یلےنا کہتی ہیں کہ ”مَیں چاہتی ہوں کہ اپنے بیٹے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں۔ اِس لئے مَیں نے ایسی ملازمت کا انتخاب کِیا ہے جس کی وجہ سے مجھے پورا دن گھر سے باہر نہیں رہنا پڑتا۔ حالانکہ میری آمدنی کم ہے اور مجھے گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن جب مَیں دیکھتی ہوں کہ میرا بیٹا کتنا خوش ہے اور ہم دونوں ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں تو مجھے اپنی قربانی کا انعام مل جاتا ہے۔“
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
چھوٹے بچے بھی دوسروں کا خیال رکھنا سیکھ سکتے ہیں۔
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
اپنے بچوں کی اِس طرح سے اصلاح کریں کہ اُنہیں بےعزتی محسوس نہ ہو۔