مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قدرتی گیس—‏توانائی کا اہم ذریعہ

قدرتی گیس—‏توانائی کا اہم ذریعہ

قدرتی گیس‏—‏توانائی کا اہم ذریعہ

دُنیابھر میں جو توانائی استعمال کی جاتی ہے،‏ اِس کا ۲۰ فیصد حصہ قدرتی گیس سے حاصل کِیا جاتا ہے۔‏ قدرتی گیس کیسے حاصل کی جاتی ہے؟‏ اِسے استعمال کے قابل کیسے بنایا جاتا ہے؟‏ یہ زمین میں کتنی مقدار میں موجود ہے؟‏

سائنس‌دانوں کا کہنا ہے کہ قدرتی گیس مُدتوں پہلے آبی جانداروں کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوئی۔‏ اُن کا خیال ہے کہ اِن آبی جانداروں کے جسم وقت کے ساتھ‌ساتھ سمندر کی تہہ میں دب گئے۔‏ اور پھر یہ زمین کی تہہ میں موجود دباؤ،‏ حرارت اور چھوٹےچھوٹے کیڑےمکوڑوں کے ذریعے گیس،‏ کوئلے اور تیل میں تبدیل ہو گئے۔‏ آہستہ‌آہستہ قدرتی گیس زمین کی تہہ میں موجود شگافوں اور سوراخ‌دار چٹانوں میں جمع ہونے لگی۔‏ چونکہ اِن کے اُوپر ایسی چٹانیں تھیں جن سے گیس باہر نہیں نکل سکتی تھی اِس لئے وہاں قدرتی گیس کے بڑےبڑے ذخیرے بن گئے۔‏ آج ایسے ذخیروں میں کھربوں مکعب میٹر گیس موجود ہے۔‏ لیکن اِن ذخیروں کی تلاش کیسے کی جاتی ہے؟‏

قدرتی گیس کی تلاش

قدرتی گیس خشکی میں پائی جاتی ہے اور سمندر کی تہہ میں بھی۔‏ خشکی میں گیس کی کھوج لگانے کے لئے سیٹلائٹ کے ذریعے ایسے علاقوں کا پتہ لگایا جاتا ہے جہاں قدرتی گیس موجود ہونے کا امکان ہے۔‏ پھر سائنس‌دان زمین کی تہہ میں ایسی چٹانیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے نیچے گیس کے ذخیرے ہو سکتے ہیں۔‏ اِس کے لئے وہ آواز کی لہروں کا استعمال کرتے ہیں۔‏ وہ کچھ مشینوں کے ذریعے زمین میں تھرتھراہٹ پیدا کرتے ہیں یا پھر چھوٹےچھوٹے دھماکے کرتے ہیں۔‏ اِس طرح سے پیدا ہونے والی آواز کی لہریں جب کسی چٹان سے ٹکراتی ہیں تو وہ واپس زمین کی سطح کی طرف لوٹ آتی ہیں۔‏ سائنس‌دان کچھ آلات کے ذریعے اِن لہروں کی پیمائش کرتے ہیں اور کمپیوٹر کی مدد سے زمین کی تہہ میں موجود چٹانوں کے نقشے بناتے ہیں۔‏ یوں وہ ایسی جگہوں کو دریافت کرتے ہیں جہاں قدرتی گیس کے ذخیرے موجود ہیں۔‏

سمندر کی تہہ کے نیچے سے قدرتی گیس کے ذخیرے دریافت کرنے کے لئے سائنس‌دان ایک بندوق‌نما آلہ استعمال کرتے ہیں۔‏ وہ اِس آلے کے ذریعے سمندر کی تہہ میں آواز کی لہریں پیدا کرتے ہیں۔‏ یہ لہریں سمندر کی تہہ کے اندر جاتی ہیں۔‏ اور جب یہ لہریں چٹانوں سے ٹکراتی ہیں تو واپس سمندر کی تہہ کی طرف لوٹ آتی ہیں۔‏ سمندر کی تہہ میں مائیکروفون لگائے جاتے ہیں جن سے اِن لہروں کی پیمائش کی جاتی ہے۔‏ پھر کمپیوٹر کی مدد سے سمندر کی تہہ کے نیچے موجود چٹانوں کے نقشے بنائے جاتے ہیں۔‏

اگر ایک جگہ قدرتی گیس کم مقدار میں موجود ہو تو اِسے نکالنے سے منافع حاصل نہیں ہوتا۔‏ اِس لئے سائنس‌دان قدرتی گیس نکالنے سے پہلے یہ دریافت کرتے ہیں کہ ایک ذخیرے میں گیس کتنی مقدار میں موجود ہے۔‏ وہ ڈرل سے اُس جگہ سوراخ کرتے ہیں اور گیس کے دباؤ کی پیمائش کرتے ہیں۔‏ اِس کے بعد وہ گیس کی ایک خاص مقدار نکالتے ہیں اور دوبارہ سے دباؤ کی پیمائش کرتے ہیں۔‏ اگر دونوں دفعہ کی پیمائش میں زیادہ فرق ہو تو گیس کا ذخیرہ چھوٹا ہوتا ہے اور اگر پیمائش میں کم فرق ہو تو ذخیرہ بڑا ہوتا ہے۔‏

قدرتی گیس استعمال کے قابل کیسے بنائی جاتی ہے؟‏

جب قدرتی گیس کو زمین سے نکال لیا جاتا ہے تو اِسے ریفائنری میں پہنچایا جاتا ہے۔‏ وہاں اِس میں سے کاربن ڈائی‌آکسائیڈ،‏ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور سلفر ڈائی‌آکسائیڈ جیسی گیسیں نکالی جاتی ہیں کیونکہ یہ گیسیں آگ نہیں پکڑتیں۔‏ اِس کے علاوہ آبی بخارات کو بھی نکالا جاتا ہے کیونکہ اِس سے پائپوں میں زنگ لگ سکتا ہے۔‏ پھر قدرتی گیس کو بہت ہی کم درجۂ‌حرارت پر ٹھنڈا کِیا جاتا ہے۔‏ یوں نائٹروجن،‏ ہیلیئم،‏ بیوٹین،‏ ایتھین اور پروپین نامی گیسیں اِس سے الگ ہو جاتی ہیں۔‏ آخرکار میتھین نامی گیس بچ جاتی ہے جو بےرنگ اور بےبو ہوتی ہے۔‏ چونکہ میتھین قدرتی طور پر پائی جاتی ہے اِس لئے اِسے قدرتی گیس بھی کہا جاتا ہے۔‏ پاکستان میں اِسے سوئی گیس بھی کہا جاتا ہے۔‏

اِس کے بعد قدرتی گیس میں سلفر سے بنے مرکبات کی تھوڑی سی مقدار شامل کی جاتی ہے جو بودار ہے۔‏ اِس طرح جب قدرتی گیس گھروں میں استعمال کی جاتی ہے تو گیس لیک ہونے کی صورت میں فوراً پتہ چل جاتا ہے اور کسی بڑے حادثے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔‏ قدرتی گیس کے استعمال سے فضا اِتنی آلودہ نہیں ہوتی جتنی کہ کوئلے اور تیل کے استعمال سے ہوتی ہے۔‏

قدرتی گیس کو ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچانے کے لئے اِسے مائع حالت میں تبدیل کِیا جاتا ہے۔‏ اِس کے لئے اِسے بہت ہی زیادہ ٹھنڈا کِیا جاتا ہے۔‏ اِسی طریقے سے بیوٹین اور پروپین کو بھی مائع حالت میں تبدیل کِیا جاتا ہے اور اِسے ایل‌پی‌جی کا نام دیا جاتا ہے۔‏ ایل‌پی‌جی کو اکثر سلنڈروں میں ڈال کر بیچا جاتا ہے اور اِسے کھانا پکانے کے لئے یا بسیں،‏ گاڑیاں وغیرہ چلانے کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ بیوٹین اور پروپین کو پلاسٹک،‏ مصنوعی دھاگے وغیرہ بنانے میں بھی استعمال کِیا جاتا ہے۔‏

قدرتی گیس زمین میں کتنی مقدار میں موجود ہے؟‏

جس طرح زمین میں تیل اور کوئلے کے ذخیرے محدود ہیں اِسی طرح قدرتی گیس کے ذخیرے بھی محدود ہیں۔‏ ایک اندازے کے مطابق قدرتی گیس کے ۴۵ فیصد ذخیرے ابھی تک دریافت نہیں ہوئے ہیں۔‏ اگر یہ اندازہ صحیح ہے تو اگلے ۶۰ سال کے لئے قدرتی گیس موجود ہے۔‏ لیکن بہت سے ممالک میں توانائی کا استعمال بڑھ رہا ہے،‏ لہٰذا قدرتی گیس کے ذخیرے ۶۰ سال سے پہلے بھی ختم ہو سکتے ہیں۔‏

دُنیابھر میں لوگ توانائی کا بےتحاشا استعمال کرتے ہیں۔‏ وہ یہ نہیں سوچتے کہ کوئلہ،‏ تیل اور گیس کے ذخیرے ایک دن ختم ہو جائیں گے۔‏ یہ سچ ہے کہ اِس کے بعد انسان جوہری توانائی،‏ شمسی توانائی اور ہوائی توانائی کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔‏ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اِن ذرائع سے پیدا ہونے والی توانائی دُنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کافی ہوگی؟‏ اور اِس کا ماحول پر کیا اثر پڑے گا؟‏ اِن سوالوں کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر ڈائیگرام/‏تصویر]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

جب قدرتی گیس کو زمین سے نکالا جاتا ہے تو اِسے ریفائنری میں پہنچایا جاتا ہے۔‏ وہاں اِسے صاف کِیا جاتا ہے تاکہ اِسے گھروں میں استعمال کِیا جا سکے۔‏

‏[‏ڈائیگرام]‏

گیس کا کنواں

ریفائنری

گیس کی کمپنی

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

قدرتی گیس کی دریافت کے لئے مشینوں کے ذریعے آواز کی لہریں پیدا کی جاتی ہیں اور پھر اِن کی پیمائش کی جاتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

کمپیوٹر کی مدد سے زمین کی تہہ میں موجود چٹانوں کے نقشے بنائے جاتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Top: © Lloyd Sutton/Alamy; bottom: © Chris Pearsall/Alamy