کیا آپ رنگوں میں امتیاز کر سکتے ہیں؟
کیا آپ رنگوں میں امتیاز کر سکتے ہیں؟
”صبح کو میری بیوی میرے کپڑوں پر نظر ڈالتی ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ اُن کے رنگ میچنگ ہیں یا نہیں۔ ناشتے پر وہ میرے لئے پھل چنتی ہے کیونکہ مَیں کچے اور پکے پھل میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ کام پر مَیں اِس اُلجھن میں رہتا ہوں کہ کمپیوٹر کی سکرین پر کہاں کلک کروں کیونکہ مَیں بٹنوں کے مختلف رنگوں کو پہچان نہیں سکتا۔ گاڑی چلاتے وقت مجھے سُرخ اور سبز اشارے ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ اس لئے مَیں غور سے دیکھتا ہوں کہ آیا اُوپر والی یا نیچے والی بتی جل رہی ہے۔ مسئلہ تب ہی کھڑا ہوتا ہے جب بتیاں ایک دوسرے کے اُوپر کی بجائے ساتھ ساتھ ہوں۔“
* اس نسل میں ۱۲ مردوں میں سے ایک اور ۲۰۰ عورتوں میں سے ایک اس بیماری کا شکار ہے۔ ہماری آنکھوں کے پچھلے حصے میں ایک ایسا پردہ ہے جس کے ساتھ ہم روشنی کو محسوس کرتے ہیں۔ اسے پردۂبصارت کہا جاتا ہے۔ راڈنی جیسے لوگوں کے پردۂبصارت میں نقص ہے جس کی وجہ سے وہ کئی رنگوں کو پہچان نہیں سکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف کالا اور سفید دیکھ سکتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض رنگ اُن کو اس طرح دکھائی نہیں دیتے جیسا کہ وہ عام لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں۔
راڈنی نامی یہ شخص ایک ایسی موروثی بیماری کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف رنگوں میں امتیاز نہیں کر پاتا۔ یہ مرض خاص طور پر یورپی نسل کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔انسانی پردۂبصارت میں ایسے مخروطی خلیے موجود ہیں جو روشنی کے مختلف رنگوں کو پہچانتے ہیں۔ (انگریزی میں یہ خلیے کونز کہلاتے ہیں۔) ان مخروطی خلیوں کی تین اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک نیلی، ایک سبز اور ایک سُرخ روشنی کو پہچانتی ہے۔ جب روشنی پردۂبصارت پر پڑتی ہے تو مخروطی خلیے اپنے مخصوص رنگ کو پہچان لیتے ہیں اور دماغ کو سگنل دیتے ہیں۔ ان مجموعی سگنلوں کے ذریعے ہمارا دماغ طرح طرح کے رنگوں کو پہچان لیتا ہے۔ * بعض لوگوں کی آنکھوں کے مخروطی خلیے کئی رنگوں کو صحیح طرح سے پہچان نہیں پاتے، یا ان رنگوں کو کوئی اَور رنگ سمجھتے ہیں۔ ایسے زیادہتر مریض پیلے، سبز، نارنجی اور بھورے رنگ میں امتیاز نہیں کر سکتے۔ اس لئے جب روٹی یا پنیر پر پھپھوندی لگ جاتی ہے تو وہ اسے دیکھ نہیں سکتے۔ یا پھر انہیں سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی لڑکی، اور لال بالوں اور ہری آنکھوں والی لڑکی میں فرق نظر نہیں آتا۔ کئی لوگوں کے اُن مخروطی خلیوں میں نقص ہوتا ہے جو سُرخ روشنی کو پہچانتے ہیں۔ ان لوگوں کو ایک لال گلاب کالا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ چند ایسے بھی لوگ ہیں جو نیلا رنگ پہچان نہیں سکتے ہیں۔
بچے اس بیماری سے کیسے نپٹتے ہیں؟
رنگ نہ پہچاننے کی یہ بیماری بچوں کو والدین سے ملتی ہے۔ اس لئے اس میں مبتلا بچے پیدائش ہی سے بعض رنگوں کو پہچان نہیں پاتے۔ لیکن وہ اس بات سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ اور عام طور پر وہ اس مسئلے سے آسانی سے نپٹ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ مختلف رنگوں میں تو امتیاز نہیں کر سکتے لیکن انہیں اِن رنگوں کی چمک میں فرق دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح وہ اکثر ایک رنگ کا نام سیکھ کر اسے اِس کی مخصوص چمک سے پہچان سکتے ہیں۔ یا پھر شاید وہ مختلف چیزوں کو ان کے رنگ کی بجائے ان کی شکل یا سطح کی بناوٹ سے پہچان لیتے ہیں۔ درحقیقت بہت سے بچے جوانی تک اس بات سے ناواقف رہتے ہیں کہ وہ رنگوں کو پہچان نہیں سکتے۔
سکول میں چھوٹے بچوں کو سکھانے کے لئے اکثر رنگبرنگی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں۔ لہٰذا شاید والدین اور اساتذہ ایک بچے کو سُست سمجھتے ہیں جبکہ وہ محض رنگوں کو پہچان نہیں سکتا۔ ایک اُستانی نے ایک پانچ سالہ لڑکے کو سزا دی کیونکہ اُس نے ایک ایسی تصویر بنائی جس میں بادل گلابی، لوگ سبز اور درختوں کے پتے بھورے رنگ کے تھے۔ لیکن اس بچے کو ان چیزوں کے رنگ بالکل اسی طرح نظر آتے تھے۔ اس وجہ سے بعض اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تمام بچوں کا ٹیسٹ کِیا جانا چاہئے تاکہ بچپن ہی میں پتا چلے کہ وہ رنگوں میں امتیاز کر سکتے ہیں یا نہیں۔
اس بیماری کا کوئی علاج تو نہیں لیکن یہ آنکھ کی صحت کے لئے خطرناک نہیں ہے اور بڑھاپے میں اس کی شدت میں اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ * البتہ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ کتنا شاندار وقت ہوگا جب خدا کی بادشاہت زمین پر حکمرانی کرے گی اور یسوع مسیح انسانوں کے تمام عیب اور نقص مٹا دے گا۔ اُس وقت ایسے لوگ بھی یہوواہ خدا کی تخلیق کی خوبصورتی کا پورا لطف اُٹھا سکیں گے جو آجکل رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتے ہیں۔—یسعیاہ ۳۵:۵؛ متی ۱۵:۳۰، ۳۱؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 دراصل یہ مرض ہر نسل میں پایا جاتا ہے۔ البتہ زیادہتر مریض یورپی نسل کے ہوتے ہیں۔
^ پیراگراف 4 اگرچہ بہت سے جانور رنگوں کو پہچان سکتے ہیں لیکن انہیں رنگ ایسے نہیں دکھائی دیتے جیسے انسان کو۔ مثال کے طور پر کتوں کی آنکھوں میں صرف دو قسم کے مخروطی خلیے ہوتے ہیں۔ ایک کے ذریعے وہ نیلا رنگ دیکھ سکتے ہیں اور دوسرے کے ذریعے وہ ایک ایسے رنگ کو دیکھ سکتے ہیں جو سُرخ اور سبز کے درمیان ہے۔ ایسے پرندے بھی ہیں جن کے چار قسم کے مخروطی خلیے ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ بنفشی (الٹرا وائلٹ) روشنی کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو انسان کو نظر نہیں آتی۔
^ پیراگراف 8 کبھیکبھار ایک شخص کسی بیماری کی وجہ سے مختلف رنگ پہچاننے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ اگر آپ کو کئی رنگ پہلے سے فرق نظر آنے لگے ہیں تو ڈاکٹر سے مشورہ لیں۔
[صفحہ ۱۶ پر بکس/ڈائیگرام]
رنگ پہچاننے کی صلاحیت کے ٹیسٹ
یہ جانچنے کے لئے کہ ایک شخص کس حد تک رنگوں میں امتیاز کر سکتا ہے اکثر اسے ایسی تصویریں دکھائی جاتی ہیں جو مختلف رنگ والے نقطوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے عام ٹیسٹ ”اِسیہارا ٹیسٹ“ کہلاتا ہے۔ اس میں ۳۸ مختلف تصویریں استعمال کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ساتھ دی گئی تصویروں میں ایسے لوگ جن کی بینائی درست ہے نمبر 42 اور 74 دیکھتے ہیں۔ جو لوگ سُرخ اور سبز رنگ میں امتیاز نہیں کر سکتے ہیں وہ اُوپر والی تصویر میں کوئی نمبر نہیں دیکھ سکتے اور نیچے والی تصویر میں انہیں نمبر 21 نظر آتا ہے۔ *
اگر ٹیسٹ کے ذریعے رنگ پہچاننے کی صلاحیت میں کوئی کمزوری دریافت کی جاتی ہے تو ڈاکٹر اکثر اَور بھی ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا یہ کمزوری موروثی ہے یا کسی بیماری کی وجہ سے حال ہی میں پیدا ہوئی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 15 یہ تصویریں اس ٹیسٹ کی ایک مثال دینے کے لئے ہی استعمال ہوئی ہیں۔ رنگ پہچاننے کی اپنی صلاحیت کا ٹیسٹ کرانے کے لئے کسی ڈاکٹر یا ماہر سے رابطہ کریں۔
[تصویر کا حوالہ]
Color test plates on page 18: Reproduced with permission from the
(Pseudoisochromatic Plate Ishihara Compatible )PIPIC
Color Vision Test 24 Plate Edition by Dr. Terrace
L. Waggoner/www.colorvisiontesting.com
[صفحہ ۱۷ پر بکس]
زیادہتر مریض مرد کیوں ہیں؟
رنگ میں امتیاز نہ کرنے کی بیماری خلیوں میں موجود کروموسوم میں نقص کی وجہ سے لگ جاتی ہے۔ عورتوں کے خلیوں میں دو ایکس کروموسوم پائے جاتے ہیں جبکہ مرد ایک ایکس کروموسوم اور ایک وائی کروموسوم رکھتے ہیں۔ رنگ نہ پہچاننے کی بیماری بچوں کو والدین سے ایکس کروموسوم ہی کے ذریعے ملتی ہے۔ اگر عورت کے ایک ایکس کروموسوم میں کوئی نقص ہے تو اکثر اُس کا دوسرا ایکس کروموسوم اس کے اثر کو مٹا دیتا ہے اور اس کی بینائی درست رہتی ہے۔ اس کے برعکس مردوں میں اَور کوئی ایکس کروموسوم نہیں ہے جو اس نقص کے اثر کو مٹا سکے۔
[صفحہ ۱۶ پر ڈائیگرام/تصویریں]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
ہم رنگوں کو کیسے پہچانتے ہیں؟
کسی چیز سے آنے والی روشنی قرنیہ اور عدسہ سے گزرتی ہے اور پردۂبصارت پر ایک تصویر بناتی ہے
قرنیہ
عدسہ
پردۂبصارت
آنکھ کی دیوار پر یہ تصویر دراصل اُلٹی نظر آتی ہے لیکن دماغ اسے سیدھا کر دیتا ہے
بصری عصب کے ذریعے بصری خلیوں کے سگنل دماغ تک پہنچتے ہیں
پردۂبصارت دو قسم کے بصری خلیوں، یعنی مخروطی خلیوں (کونز) اور ڈنڈا نما خلیوں (راڈز) پر مشتمل ہے
ڈنڈا نما خلیے (راڈز)
مخروطی خلیے (کونز)
مخروطی خلیے سُرخ، سبز اور نیلی روشنی کو پہچانتے ہیں
سُرخ
سبز
نیلا
[تصویریں]
درست بینائی
رنگ نہ پہچاننے والی بینائی