مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم کونسی فلم دیکھیں گے؟‏

ہم کونسی فلم دیکھیں گے؟‏

ہم کونسی فلم دیکھیں گے؟‏

آجکل ٹیلی‌ویژن اور سنیما میں دکھائے جانے والی فلموں میں بےحیائی،‏ تشدد اور گالی‌گلوچ کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‏ اِس کے بارے میں لوگ مختلف نظریے رکھتے ہیں۔‏ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ فلموں میں بےحیائی شرمناک بات ہے،‏ لیکن دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ اِس میں کوئی بُرائی نہیں۔‏ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فلموں میں تشدد کا دکھایا جانا غلط ہے،‏ جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسے سین فلموں کا مرچ‌مسالا ہوتے ہیں۔‏ کئی لوگوں کو فلموں میں پائے جانے والی گالیوں سے کوفت ہے،‏ لیکن وہ لوگ بھی ہیں جنکو ایسی زبان بُری نہیں لگتی۔‏ فلموں میں ایک شخص کو جو کچھ بیہودہ لگتا ہے وہی دوسرے کے خیال میں محض جدید زمانے کا انداز ہے۔‏ آپ ان مختلف نظریات کو کیسے خیال کرتے ہیں؟‏ شاید آپ کہیں کہ یہ تو ہر ایک کی اپنی پسند ہوتی ہے کہ وہ ایک فلم کو اچھا قرار دیتا ہے یا بُرا۔‏ لیکن کیا یہ واقعی سچ ہے؟‏

جی‌نہیں۔‏ اُونچے اخلاقی معیار رکھنے والے ہر ایک شخص کو اور خاص طور پر والدین کو فلموں کے معاملے میں احتیاط برتنی چاہئے۔‏ ایک عورت کا کہنا ہے:‏ ”‏جب بھی مَیں سنیما جاتی ہوں تو بعد میں مَیں بہت پچتاتی ہوں۔‏ لوگ ایسی فلمیں بناتے ہیں جو کچرے سے کم نہیں ہوتیں۔‏ یہ کیسے لوگ ہیں؟‏ ایسی فلمیں دیکھنے کے بعد مَیں اپنی ہی نظروں میں گِر جاتی ہوں۔‏“‏

سخت پابندیاں

جب فلمیں بننا شروع ہوئیں تو اُس وقت بھی اِن میں بےحیائی اور جُرائم جیسی چیزیں پائی جاتی تھیں۔‏ آخرکار سن ۱۹۳۰ میں ایک ایسا قانون عائد ہوا جسکے مطابق فلموں میں کئی باتوں کو دکھانے کی اجازت نہیں تھی۔‏

ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اِس نئے قانون کی بِنا پر فلموں میں دکھائی گئی باتوں پر ”‏سخت پابندیاں لگا دی گئیں،‏ یہاں تک کہ بےحیائی،‏ زِناکاری،‏ بداخلاقی اور عصمت‌دری کا ذکر تک منع تھا۔‏ اگر فلم کی کہانی کیلئے ایسی حرکتوں کا ذکر کرنا بہت ضروری ہوتا تو ایسا صرف تب ہی ہو سکتا تھا جب اِن بُری حرکتوں کو کرنے والوں کو فلم میں سخت سزا دی جاتی۔‏“‏

تشدد کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا بیان کرتی ہے:‏ ”‏فلموں میں ہتھیاروں کا نہ تو ذکر ہو سکتا تھا اور نہ ہی اِنکو دکھایا جا سکتا تھا۔‏ جُرم کو ہوتے ہوئے دکھانا،‏ ایک افسر کا مجرم کے ہاتھوں قتل ہونا،‏ کسی کیساتھ ظالمانہ برتاؤ،‏ قتل اور خودکشی جیسی باتوں کو صرف اُس وقت فلم میں شامل کِیا جا سکتا تھا اگر اِنکے بغیر فلم کی کہانی ادھوری رہ جاتی۔‏ لیکن فلم میں مجرم کو ہیرو کا روپ نہیں دیا جا سکتا تھا۔‏“‏ قانون میں یہ بھی لکھا تھا کہ ”‏ایسی کوئی بھی فلم نہیں بنائی جائے گی جسکو دیکھنے کے بعد ایک شخص کے اخلاقی معیاروں پر بُرا اثر پڑے۔‏“‏

ایک نیا نظام

سن ۱۹۵۰ سے ہالی‌وُڈ کے فلم پروڈیوسر اس قانون کو نظرانداز کرنے لگے۔‏ اُنکے خیال میں اس پر عمل کرنا جدید زمانے میں ناممکن تھا۔‏ اِسلئے سن ۱۹۶۸ میں اِن پابندیوں کو ختم کر دیا گیا۔‏ اِس قانون کی بجائے ایک ایسے نظام کو وجود دیا گیا جسکے مطابق ہر فلم پر یہ لکھا ہوتا کہ یہ کس عمر کے لوگوں کیلئے مناسب ہے۔‏ * اِس نئے نظام کے تحت فلموں میں جو مرضی دکھایا جا سکتا تھا بشرطیکہ اُن پر عمر کی پابندی لگا دی جاتی۔‏ ایک شخص جو ۴۰ سال تک امریکہ کی فلم ایسوسی‌ایشن کے صدر رہے ہیں،‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اس نظام کے ذریعے ہم والدین کو آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ ایک فلم کس عمر کے لوگوں کیلئے ہے تاکہ وہ خود فیصلہ کر سکیں کہ آیا یہ فلم اُنکے بچوں کیلئے مناسب ہے یا نہیں۔‏“‏

اِس نئے نظام کی وجہ سے ہالی‌وُڈ کی فلموں میں بےحیائی،‏ تشدد اور گالی‌گلوچ کا ایک ایسا سیلاب ٹوٹ پڑا جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔‏ تاہم اِس نظام کے تحت عوام کو آگاہ کر دیا جاتا ہے کہ فلم میں کیا کچھ دکھایا جائے گا اور یہ کس عمر کے لوگوں کیلئے مناسب ہے۔‏ لیکن کیا آپکو محض اِس نظام کی بِنا پر فلموں کا انتخاب کرنا چاہئے؟‏

بگڑے ہوئے معیار

کئی لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اِس نظام کے معیار بگڑ گئے ہیں۔‏ ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ جو فلمیں نوجوانوں کیلئے مناسب قرار دی گئی ہیں،‏ دس سال پہلے کی نسبت اِن میں اب زیادہ تشدد اور بےحیائی دکھائی جاتی ہے۔‏ تحقیق میں آگے بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏جو فلمیں ایک ہی عمر کے لوگوں کیلئے بنائی جاتی ہیں اُنکے معیاروں میں بھی بہت فرق پایا جاتا ہے۔‏ اِسلئے ایک فلم پر عمر کی پابندی سے ہی یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اِس میں تشدد،‏ بےحیائی اور گالی‌گلوچ شامل ہیں یا نہیں۔‏“‏ *

ایسے والدین جو اپنے بچوں کو اکیلے سنیما جانے دیتے ہیں شاید یہ نہیں جانتے کہ آجکل نوجوانوں کیلئے کس قسم کی فلمیں مناسب قرار دی جا رہی ہیں۔‏ ایک ایسی فلم کی مثال لیجئے جسے امریکہ میں نوجوانوں کیلئے مناسب قرار دیا گیا۔‏ ایک رپورٹ کے مطابق اِس فلم میں ”‏سب سے اہم کردار ایک ۱۷ سالہ لڑکی کا ہے۔‏ وہ شراب کے نشے میں رہتی ہے،‏ منشیات استعمال کرتی ہے،‏ عیاشی کرتی ہے اور ایک ایسے لڑکے کیساتھ بےحیا حرکتیں کرتی ہے جسے وہ جانتی تک نہیں۔‏“‏ فلموں میں ایسی حرکتیں دکھانا عام ہو گیا ہے۔‏ واشنگٹن کے ایک رسالے کے مطابق نوجوانوں کی فلموں میں بیہودہ جنسی حرکتوں کا ذکر کرنا ”‏قابلِ‌قبول“‏ ہو گیا ہے۔‏ لہٰذا عمر کی پابندی لگانے کا نظام ہی ہمیں اس بات میں راہنمائی نہیں کر سکتا کہ آیا ایک فلم ہمارے لئے مناسب ہے یا نہیں۔‏ توپھر ہمیں اس سلسلے میں اچھی راہنمائی کہاں سے مل سکتی ہے؟‏

‏”‏بدی سے نفرت کرو“‏

تفریح کے معاملے میں ہمارا ضمیر ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کے کلام میں مسیحیوں کو ”‏بدی سے نفرت“‏ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔‏ (‏زبور ۹۷:‏۱۰‏)‏ خدا بیہودہ حرکتوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔‏ اسلئے جو شخص بدی سے نفرت کرتا ہے وہ اُن فلمیں کو دیکھنے سے انکار کرے گا جن میں ایسی حرکتیں دکھائی جاتی ہیں۔‏

بچوں کو فلم دیکھنے کی اجازت دیتے وقت والدین کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔‏ فلم پر ایک نظر ڈال کر اپنے بچوں کو اسے دیکھنے کی اجازت دینا نادانی کی بات ہوگی۔‏ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو فلمیں آپکے بچوں کی عمر کیلئے مناسب قرار دی گئی ہیں،‏ ان میں ایسی باتیں دکھائی جائیں جو آپکے معیاروں کے خلاف ہیں۔‏ مسیحیوں کیلئے یہ حیرانگی کا باعث نہیں کیونکہ اِس دُنیا کی سوچ خدا کے معیاروں کے خلاف ہے۔‏ *‏—‏افسیوں ۴:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

اِسکا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک فلم میں بُرائی پائی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں احتیاط برتنا ضروری ہے۔‏ اِسکے بارے میں اکتوبر-‏دسمبر،‏ ۱۹۹۷ کے جاگو!‏ رسالے میں یوں کہا گیا تھا:‏ ”‏ہر فرد کو بڑی احتیاط سے معاملات کو پرکھنا چاہئے اور ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جو اُسے خدا اور انسان کے حضور صاف ضمیر رکھنے کے قابل بنائیں گے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱-‏۳۳‏۔‏

مناسب فلموں کا انتخاب

والدین اپنے بچوں کیلئے مناسب فلموں کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں؟‏ مختلف ممالک میں رہنے والے اِن والدین کے بیان پر غور کیجئے۔‏ شاید آپکو بھی انکی باتوں سے فائدہ پہنچے۔‏ اسکے علاوہ صفحہ ۵ پر بکس ”‏طرح طرح کی تفریح“‏ کو بھی دیکھیں۔‏

ملک سپین میں رہنے والا خوان کہتا ہے:‏ ”‏ہم ہمیشہ اپنے بچوں کیساتھ سنیما جایا کرتے،‏ ہم اُنہیں اکیلے یا دوسرے بچوں کیساتھ نہیں جانے دیتے۔‏ اب وہ نوجوان ہیں لیکن پھربھی ہم اُنہیں ایک فلم دیکھنے کی اجازت تب تک نہیں دیتے جب تک ہم نے اُس فلم کے بارے میں معلومات حاصل نہ کر لی ہوں۔‏ یا پھر ہم اُن لوگوں سے ایک فلم کے بارے میں پوچھتے ہیں جو اُسے دیکھ چکے ہیں اور جنکی رائے پر ہم اعتبار بھی کر سکتے ہیں۔‏ پھر ہم سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا ہمیں یہ فلم دیکھنی چاہئے کہ نہیں۔‏“‏

جنوبی افریقہ میں رہنے والا مارک اپنے بیٹے کیساتھ ایسی فلموں کے بارے میں بات‌چیت کرتا ہے جو سنیما میں دکھائی جاتی ہیں۔‏ مارک کہتا ہے:‏ ”‏مَیں اور میری بیوی اپنے بیٹے سے ایک فلم کے بارے میں اُسکی رائے پوچھتے ہیں۔‏ اِسطرح ہم اُسکے خیالات جان جاتے ہیں اور اُسکی راہنمائی کر سکتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم ایسی فلموں کا انتخاب کر لیتے ہیں جنہیں ہم سب مل کر دیکھ سکتے ہیں۔‏“‏

ملک برازیل میں رہنے والا رجاریو بھی اپنے بچوں کیساتھ مل کر فلموں کا انتخاب کرتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں اُنکے ساتھ فلم کی رپورٹ پڑھتا ہوں۔‏ جب مَیں ویڈیو کی دُکان سے فلم لینے جاتا ہوں تو مَیں اُنکو ساتھ لے کر جاتا ہوں۔‏ مَیں اُنہیں سکھاتا ہوں کہ ایک فلم پر بنی ہوئی تصویروں سے اور اِس پر لکھی ہوئی باتوں سے ہمیں کیسے پتا چل سکتا ہے کہ وہ ہمارے لئے مناسب ہے یا نہیں۔‏“‏

ملک برطانیہ کا میتھیو کہتا ہے:‏ ”‏جب بھی ہمیں ایک فلم کی کہانی دلچسپ لگتی ہے تو ہم اپنے بچوں سمیت اسکے بارے میں بات‌چیت کرتے ہیں۔‏ جب ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم ایک فلم نہیں دیکھیں گے تو ہم اسکی وجہ اپنے بچوں کو ضرور سمجھاتے ہیں۔‏“‏

اِسکے علاوہ کئی والدین نے دیکھا ہے کہ انٹرنیٹ پر فلموں کی رپورٹیں پڑھنا فائدہ‌مند ثابت ہوتا ہے۔‏ ایسی رپورٹوں سے ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ آیا ایک فلم مسیحی معیاروں کے مطابق ہے یا نہیں۔‏

اپنے ضمیر کی آواز پر کان لگائیں

بائبل ایسے لوگوں کے بارے میں بتاتی ہے جنکے ”‏حواس کام کرتے کرتے نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کیلئے تیز ہو گئے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ اِسلئے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو اُونچے معیاروں کی پہچان سکھائیں۔‏ اِسطرح وہ بڑے ہو کر فلموں کے معاملے میں اچھے فیصلے کرنے کے قابل ہوں گے۔‏

اِس سلسلے میں یہوواہ کے گواہوں کے بہتیرے نوجوانوں نے اپنے والدین سے بہترین تربیت پائی ہے۔‏ مثال کے طور پر امریکہ میں رہنے والے بِل اور اُسکی بیوی شیری اپنے دو نوجوان بیٹوں کیساتھ سنیما جانے سے بہت لطف اُٹھاتے ہیں۔‏ بِل کہتا ہے:‏ ”‏فلم دیکھنے کے بعد ہم اکثر اس سلسلے پر بات‌چیت کرتے ہیں کہ فلم میں کیسی سوچ ظاہر ہوئی ہے اور یہ بھی کہ ہم اس سوچ سے متفق ہیں یا نہیں۔‏“‏ بِل اور شیری جانتے ہیں کہ آجکل فلموں کا انتخاب کرنا آسان نہیں ہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏فلم دیکھنے سے پہلے ہم اِسکے بارے میں رپورٹ پڑھ لیتے ہیں۔‏ پھر اگر ہماری توقع کے خلاف اس فلم میں کوئی نامناسب بات ہو بھی تو ہم اُٹھ کر سنیما سے چلے جاتے ہیں۔‏“‏ بِل کا کہنا ہے کہ فلموں کے معاملے میں فیصلہ کرتے وقت بچوں کو شامل کرنا چاہئے تاکہ وہ صحیح اور غلط کی پہچان سیکھ جائیں۔‏ بِل آگے کہتا ہے ”‏اب ہمارے بچے فلموں کا انتخاب کرنے میں اچھے فیصلے کرنے لگے ہیں۔‏“‏

بِل اور شیری کی طرح بہتیرے والدین نے اپنے بچوں کی مدد کی ہے تاکہ وہ فلموں کے معاملے میں اپنے حواس کو کام میں لا سکیں۔‏ یہ سچ ہے کہ بہتیری فلمیں مسیحیوں کیلئے نامناسب ہیں۔‏ لیکن خدا کے معیاروں کے مطابق چلنے سے ہم اچھی فلموں سے لطف اُٹھا سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 دُنیا کے بہتیرے ممالک میں ایک ایسا نظام پایا جاتا ہے۔‏

^ پیراگراف 12 اِسکے علاوہ کبھی‌کبھار ایسی فلمیں جو ایک ملک میں نوجوانوں کیلئے نامناسب سمجھی جاتی ہیں،‏ دوسرے ممالک میں اِنکو مناسب قرار دیا جاتا ہے۔‏

^ پیراگراف 16 مسیحیوں کو اِس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ بچوں اور نوجوانوں کیلئے جو فلمیں بنتی ہیں کبھی‌کبھار ان میں جادومنتر اور شیطان کی پوجا بھی شامل ہوتی ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۲۱‏۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

‏”‏ہم اکٹھے مل کر فیصلہ کرتے ہیں“‏

”‏جب مَیں چھوٹی تھی تو ہم سب مل کر سنیما جایا کرتے تھے۔‏ لیکن اب مجھے اپنے والدین کے بغیر جانے کی اجازت ہے۔‏ کوئی بھی فلم دیکھنے سے پہلے میرے والدین جاننا چاہتے ہیں کہ فلم کا عنوان اور اُس کی کہانی کیا ہے۔‏ اگر وہ اِس فلم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تو وہ اِس کی رپورٹ پڑھتے ہیں،‏ اس کے اشتہاروں پر نظر ڈالتے ہیں یا انٹرنیٹ پر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔‏ پھر اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ فلم میرے لئے نامناسب ہے تو وہ مجھے اِس کی وجہ بتاتے ہیں اور وہ مجھ سے میری رائے بھی پوچھتے ہیں۔‏ اِس طرح ہم اکٹھے مل کر فیصلہ کرتے ہیں۔‏“‏—‏فرانس کی ۱۹ سالہ ایلوئز.‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس/‏تصویر]‏

سمجھا کر بچوں کو قائل کریں

”‏جب والدین اپنے بچوں کو ایک فلم دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے تو اُنہیں اپنے بچوں کیساتھ کسی اَور تفریح میں شامل ہونا چاہئے۔‏ ورنہ بچے شاید چھپ کر وہی کریں جس سے اُنہیں منع کِیا گیا ہے۔‏ جب بچے ایک ایسی فلم دیکھنا چاہتے ہیں جو نامناسب ہے تو بعض والدین پہلے نہ تو اس سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اِسکی اجازت دیتے ہیں۔‏ اِسکی بجائے وہ کچھ دن ٹھہر کر آرام سے اپنے بچوں سے اِس معاملے پر بات‌چیت کرتے ہیں۔‏ وہ اُن سے پوچھتے ہیں کہ ’‏آپ ایسی فلم کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟‏‘‏ اسطرح سے سمجھانے سے عموماً بچے اپنے والدین کی بات مان جاتے ہیں اور اُنکے مشوروں کیلئے شکرگزار بھی ہوتے ہیں۔‏ پھر وہ اپنے والدین کیساتھ مل کر ایک مناسب فلم کا انتخاب کرتے ہیں۔‏“‏—‏مساکی جو جاپان میں سفری نگہبان ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر بکس/‏تصویریں]‏

طرح طرح کی تفریح

▪ ”‏نوجوان لوگ اپنے ہم‌عمروں کیساتھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔‏ والدین اس سلسلے میں اُنکی مدد کر سکتے ہیں۔‏ ہماری کلیسیا میں بہتیرے نوجوان ہیں جنکا چال‌چلن مثالی ہے۔‏ ہم اپنی بیٹی کو ان نوجوانوں کیساتھ دوستی کرنے کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏“‏—‏ایلیسا،‏ اٹلی۔‏

▪ ”‏ہم خاندان کے طور پر تفریح میں شامل ہوتے ہیں۔‏ ہم بچوں کو سیر اور پکنک کیلئے لے جاتے ہیں اور ہر عمر کے بہن‌بھائیوں کیساتھ میل‌جول رکھتے ہیں۔‏ اِسطرح ہمارے بچے صرف اپنے ہم‌عمروں کیساتھ ہی نہیں وقت گزارتے۔‏“‏—‏جان،‏ برطانیہ۔‏

▪ ”‏ہم نے دیکھا ہے کہ دوسرے مسیحیوں کیساتھ میل‌جول رکھنا بہت فائدہ‌مند ہے۔‏ میرے بچے فٹ‌بال کھیلنا پسند کرتے ہیں اسلئے ہم دوسرے بہن‌بھائیوں کیساتھ فٹ‌بال کھیلتے ہیں۔‏“‏—‏خوان،‏ سپین۔‏

▪ ”‏ہم اپنے بچوں میں موسیقی کے ساز بجانے کا شوق بڑھاتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ ہم اکٹھے مل کر بیڈمنٹن اور والی‌بال کھیلتے ہیں اور دوستوں کیساتھ وقت گزارتے ہیں۔‏“‏—‏مارک،‏ برطانیہ۔‏

▪ ”‏ہم اپنے بچوں اور اُنکے دوستوں کیساتھ کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔‏ مہینے میں ایک بار ہم تفریح کیلئے کوئی خاص منصوبہ بناتے ہیں۔‏ اگر والدین جانتے ہیں کہ اُنکے بچے تفریح کے طور پر کیا کچھ کر رہے ہیں تو بچے غلط قسم کی تفریح میں حصہ لینے سے باز رہیں گے۔‏“‏—‏دانیلو،‏ فلپائن۔‏

▪ ”‏ہمیشہ فلمیں دیکھنے کی بجائے ہم اکثر موسیقی کے شو،‏ میلوں اور نمائشوں پر جاتے ہیں۔‏ اِسطرح ہم تفریح کے دوران بات‌چیت بھی کر سکتے ہیں۔‏ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ تفریح کیلئے حد سے زیادہ وقت صرف نہ کریں کیونکہ ہر وقت تفریح میں لگے رہنے سے اِسکا مزہ کم ہو جاتا ہے۔‏“‏—‏جودِت،‏ جنوبی افریقہ۔‏

▪ ”‏مَیں اپنے بچوں کو سمجھاتی ہوں کہ جس بات کی دوسرے بچوں کو اجازت ہوتی ہے وہ ہمیشہ اُنکے لئے مناسب نہیں۔‏ مَیں اپنے شوہر کیساتھ مل کر اپنے بچوں کیلئے مناسب تفریح کا انتظام کرتی ہوں۔‏ ہم یہ نہیں چاہتے کہ بچے کہیں کہ ’‏ہم کبھی سیر کیلئے نہیں جاتے،‏ بس گھر بیٹھے بیٹھے بور ہوتے ہیں۔‏‘‏ اسلئے ہم پارک میں جاتے ہیں اور دوسرے بہن‌بھائیوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔‏“‏—‏ماریا،‏ برازیل۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

James Hall Museum of Transport, Johannesburg, South Africa

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

ایک فلم دیکھنے سے پہلے اُسکے بارے میں رپورٹ پڑھیں

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

اپنے بچوں کو اچھی فلموں کا انتخاب کرنا سکھائیں