علم کی پیاس کو بڑھائیں
علم کی پیاس کو بڑھائیں
”لڑکے کی اُس راہ میں تربیت کر جس پر اُسے جانا ہے وہ بوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑیگا۔“—امثال ۲۲:۶۔
کیا آپ نے رونق والے گھر میں کبھی ایک بچے کو سلانے کی کوشش کی ہے؟ چاہے بچہ کتنا ہی تھکا کیوں نہ ہو وہ ہرگز نہ سوئیگا بلکہ رونق میں شامل ہونے کی کوشش کریگا۔ اسلئے مصنف جان ہولٹ کہتے ہیں کہ ”بچے اپنے گِردونواح کو سمجھنے اور طرح طرح کی لیاقتیں پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس خواہش کو پورا کرنا ان کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا کھانا اور سونا۔“
یہ بات چھوٹے بچوں کے سلسلے میں تو سچ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بچوں میں سیکھنے کا شوق کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ ایسا کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جنہیں والدین، اساتذہ اور بچے عمل میں لا سکتے ہیں۔ لیکن بچوں کو سکھانے کا سب سے اہم نسخہ انکے ساتھ محبت سے پیش آنا ہے۔
محبت سیکھنے کی صلاحیت کو فروغ دیتی ہے
بچے والدین کی محبت کے پیاسے ہوتے ہیں۔ جب بچے محبت میں پرورش پاتے ہیں تو وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں وہ بےتکلّفی سے باتچیت کرینگے، سوال پوچھیں گے اور شوق سے علم بھی حاصل کرینگے۔ جو والدین اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں وہ باقاعدگی سے انکے ساتھ باتچیت کرتے اور انکی تعلیم میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ انگریزی کی ایک کتاب بعنوان سیکھنے کے شوقین میں لکھا ہے کہ ”بچوں میں سیکھنے کے شوق کو بڑھانے میں سب سے اہم کردار والدین ہی کا ہوتا ہے۔“ جب والدین اساتذہ کیساتھ تعاون کرتے ہیں تو وہ اس شوق کو اَور بھی زیادہ بڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”بچوں میں سیکھنے کی خواہش کو برقرار رکھنے میں اس سے زیادہ اہم بات کوئی نہیں ہو سکتی کہ والدین اور اساتذہ بچوں کی مدد کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں۔“
والدین اپنے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت کو بھی بڑھا سکتے ہیں۔ انگریزی کی ایک کتاب دماغ کے اندر بتاتی ہے کہ جب ۴۳ خاندانوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ”ایسے بچے جنکے ماںباپ پہلے تین سال میں انکے ساتھ بہت باتچیت کرتے تھے اُن بچوں کی نسبت کہیں زیادہ ذہین تھے جنکے والدین اُنکے ساتھ کم ہی باتچیت کرتے تھے۔ . . . دراصل ایسے والدین جو بچوں کیساتھ خوب باتچیت کرتے ہیں اُنکو زیادہ داد بھی دیتے ہیں، انکے سوالات کا جواب دیتے ہیں، انہیں حکم دینے کی بجائے اُنکی راہنمائی کرتے ہیں اور بچوں کو طرح طرح کے نئے الفاظ بھی سکھاتے ہیں۔“ کیا آپ باقاعدگی سے اپنے بچوں کیساتھ باتچیت کرتے ہیں؟
محبت صابر اور مہربان ہے
بچے قابلیت اور لیاقتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں۔ لیکن والدین کو اس وجہ سے ایک بچے سے دوسرے بچے کی نسبت زیادہ پیار نہیں کرنا چاہئے۔ افسوس کی بات ہے کہ آجکل ایک شخص کی قدر اُسکی قابلیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اسلئے کتاب سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیت (انگریزی) بیان کرتی ہے کہ ”زیادہتر بچے اپنی اہمیت کا اندازہ اپنی کامیابیوں ہی سے کرتے ہیں۔“ ایسے بچے نہ صرف ”ناکام ہونے کے خوف میں رہتے ہیں“ بلکہ وہ سخت پریشانی اور دباؤ کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ بھارت میں پچھلے ۲۵ سال کے دوران خودکشی کرنے والے نوجوانوں کی تعداد تین گُنا بڑھ گئی ہے۔ اسکی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ اچھے نمبر حاصل کرنے کے دباؤ میں ہوتے ہیں اور اُنکا خاندان اُنکی پریشانی کو نہیں سمجھتا۔
جب والدین اپنے بچوں کو ”بیوقوف“ قرار دیتے ہیں تو بچوں کو جذباتی طور پر بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس قسم کا سلوک بچوں میں سیکھنے کی خواہش بجھا دیتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کو سکھاتے وقت محبت اور مہربانی سے پیش آنا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴) سیکھتے وقت بچوں کے سر پر یہ خوف نہیں سوار ہونا چاہئے کہ اگر وہ ایک بات کو جلد نہ سمجھ پائیں تو انکی پٹائی ہوگی یا اُنکا مذاق اُڑایا جائیگا۔ اگر بچوں کو سیکھنے اور پڑھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے تو والدین کو پیار سے انکی مدد کرنی چاہئے۔ ایسا کرنے میں والدین کو صبر اور تحمل سے کام لینا پڑیگا جو اکثر آسان نہیں ہوتا۔ لیکن اسکا اجر بھی بہت ہوتا ہے۔ بچوں کیساتھ ایسا رویہ اِختیار کرنے کیلئے والدین کو سب سے پہلے اپنی روحانیت پر زور دینا ہوگا۔
خدا کے معیاروں کو اپنائیں
روحانیت پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اِس سے مُراد خدا کے کلام میں پائے جانے والے معیاروں کو اپنانا ہے۔ ایسا کرنے کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کو اہم تو سمجھیں گے لیکن اسے زندگی میں پہلا درجہ نہیں دینگے۔ علمِحساب ہی کی مثال لیجئے۔ اس علم کو سیکھنے کے فائدے ضرور ہیں لیکن اسکو حاصل کرکے ہم نیک انسان نہیں بن جائینگے۔
ہمیں تعلیم حاصل کرنے پر کتنا وقت صرف کرنا چاہئے؟ اس سلسلے میں ہم خدا کے کلام میں یہ نصیحت پاتے ہیں: ”بہت کتابیں بنانے کی انتہا نہیں ہے اور بہت پڑھنا جسم کو تھکاتا ہے۔“ (واعظ ۱۲:۱۲) یہ بات سچ ہے کہ بچوں کو بنیادی تعلیم حاصل کرنی چاہئے لیکن انہیں اس پر اتنا وقت نہیں لگانا چاہئے کہ وہ کسی اَور مشغلے پر توجہ ہی نہ دے سکیں۔ بچوں کو خاص طور پر روحانی باتوں کیلئے بھی وقت نکالنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے انکی شخصیت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
خدا کے کلام میں ہمیں فروتن ہونے کو بھی کہا گیا ہے۔ (میکاہ ۶:۸) ایک فروتن شخص دوسروں سے افضل ہونے کی کوشش میں نہیں لگا رہتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر شخص کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اس مقابلہبازی میں شریک نہیں ہوتا جو اکثر کالجوں وغیرہ میں اُن لوگوں کے درمیان ہوتی ہے جو ہر لحاظ میں اوّل درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بھارتی رسالے میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ایسی کشمکش میں پڑ جاتے ہیں وہ اکثر ”افسردگی اور پریشانی کا شکار بن جاتے ہیں۔“ (انڈیا ٹوڈے) چاہے ہم جوان ہوں یا عمررسیدہ، ہمیں اس الہامی ہدایت پر عمل کرنا چاہئے: ”ہم بیجا فخر کرکے نہ ایک دوسرے کو چڑائیں نہ ایک دوسرے سے جلیں۔“ جیہاں، دوسروں کیساتھ مقابلہبازی کرنے کی بجائے ہمیں اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے: ”پس ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔“—گلتیوں ۵:۲۶؛ ۶:۴۔
والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے وقت اس نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ اُنکو پہلے تو اپنے بچوں کو ترقی کرنے کیلئے اقدام طے کرنے اور اپنے کام کو آزمانے کی حوصلہافزائی کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر آپکے بیٹے نے اِملا کِیا ہو تو آپ اُسے اس اِملے کا مقابلہ کسی ایسے اِملے سے کرنے کو کہہ سکتے ہیں جو اس نے کچھ عرصہ پہلے کِیا ہو۔ پھر آپ اُسے یا تو داد دے سکتے ہیں یا بہتری لانے کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔ اسطرح آپ اپنے بچے کو ترقی کرنے کیلئے اقدام اُٹھانا، اپنے کام کو آز مانا اور اس میں بہتری لانا سکھا سکتے ہیں۔ لیکن آپ اسکا دوسروں سے مقابلہ نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔
آجکل کئی ذہین نوجوان سکول میں اچھے نمبر حاصل نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ اس خوف میں ہیں کہ انکے ہمجماعت انہیں اس سبب سے ستائینگے۔ انکا کہنا ہے کہ ”ایک ’پڑھاکو‘ کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔“ ایسی صورتحال میں خدا کے کلام کے معیاروں کو اپنانے کا کیا فائدہ ہوگا؟ کلسیوں ۳:۲۳ میں لکھا ہے کہ ”جو کام کرو جی سے کرو یہ جان کر کہ [یہوواہ] کیلئے کرتے ہو نہ کہ آدمیوں کیلئے۔“ جب ہم محنت کرتے ہیں تو خدا اس سے بہت خوش ہوتا ہے اور اس سے زیادہ اہم بات بھلا کونسی ہو سکتی ہے؟ یہ جان کر ہم اپنے ہمجماعتوں کی باتوں میں نہیں آئینگے۔
بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کریں
پڑھنا اور لکھنا دو ایسے ہنر ہیں جو ہر اچھی تعلیم کی بنیاد ہیں۔ والدین جو اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی کہانیاں پڑھ کر سناتے ہیں اُن میں پڑھنے کا شوق پیدا کرتے ہیں۔ ڈافنی نامی ایک عورت کے والدین اُسے بچپن ہی سے روزانہ کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتی ہے کہ ”میرے والدین نے مجھے پڑھنے کا شوق دلایا۔ لہٰذا مَیں سکول جانے سے پہلے ہی پڑھ سکتی تھی۔ میرے والدین نے مجھے اپنے سوالات کے جواب خود تلاش کرنا بھی سکھایا۔ مَیں انکی بہت شکرگزار ہوں کیونکہ جو باتیں اُنہوں نے مجھے سکھائی ہیں وہ آج تک میرے لئے قیمتی رہی ہیں۔“ آج ڈافنی پیشے کے طور پر کتابوں، رسالوں وغیرہ کو پڑھ کر اُن میں پائی جانے والی غلطیوں کو درست کرتی ہے۔
لیکن مصنف جان ہولٹ تاکید کرتے ہیں کہ بچوں کو پڑھ کر سنانا بذاتِخود ”ایک قسم کا طلسمی شربت نہیں ہے۔“ وہ کہتے ہیں کہ ”بچے کہانیاں سننے کے کتنے ہی شوقین کیوں نہ ہوں . . . اگر والدین شوق سے نہیں بلکہ ایک فرض کو انجام دینے کیلئے بچوں کو پڑھ کر سناتے ہیں تو یہ بچوں کو بالکل اچھا نہیں لگے گا۔ . . . ایسی صورتحال میں بچوں کو پڑھ کر سنانے میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔“ اسلئے ہولٹ کہتے ہیں کہ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی کتابیں پڑھ کر سنائیں جن میں وہ خود بھی دلچسپی لیتے ہوں۔ بچے عموماً ایک کہانی کو باربار سننا پسند کرتے ہیں۔ اگر والدین کو بھی یہ کہانی اچھی لگتی ہو تو وہ اسے شوق سے باربار پڑھ کر سنائینگے۔ ایک ایسی کتاب جسے پوری دُنیا میں والدین اپنے بچوں کو شوق سے پڑھ کر سناتے ہیں، بائبل کہانیوں کی میری کتاب ہے (یہوواہ کے گواہوں کی شائع کردہ)۔ یہ رنگبرنگی تصویروں والی کتاب خاصکر بچوں کیلئے لکھی گئی ہے۔ اس میں بچوں کو اپنی سوچنےسمجھنے کی صلاحیت کو استعمال کرنے کے علاوہ خدا کے اصولوں کے بارے میں بھی سکھایا جاتا ہے۔
پہلی صدی میں رہنے والے ننھے تیمتھیس کی ماں اور نانی اُسکی تعلیم میں بہت دلچسپی لیتی تھیں۔ اُنہوں نے تیمتھیس کو خاص طور پر خدا کے کلام کے بارے میں سکھایا۔ (۲-تیمتھیس ۱:۵؛ ۳:۱۵) اس تعلیم کی بِنا پر تیمتھیس جوان ہو کر طرح طرح کی ذمہداریاں نبھانے کیلئے تیار تھا۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس پر بھروسا کِیا جا سکتا تھا۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جو عام تعلیم حاصل کرنے سے انسان میں پیدا نہیں ہوتیں۔ (فلپیوں ۲:۱۹، ۲۰؛ ۱-تیمتھیس ۴:۱۲-۱۵) آجکل یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں بہت سے ایسے نوجوان ہیں جو تیمتھیس کے نقشِقدم پر چل رہے ہیں۔ یہ ان والدین کی محنت کا پھل ہے جنہوں نے خدا کے معیاروں کو اپنا کر پیار سے اپنے بچوں کی پرورش کی۔
شوق سے سکھائیں
کتاب سیکھنے کے شوقین کے مطابق ایک اُستاد جو اپنے طالبعلموں میں سیکھنے کا شوق پیدا کرنا چاہتا ہے ”اُسے سکھانے کا شوق ہونا چاہئے۔ ایسا اُستاد اپنے وجود ہی سے ظاہر کرتا ہے کہ اسے اپنے مضمون سے لگن ہے۔ لہٰذا وہ دلوجان سے پڑھاتا ہے۔ بچے اس بات کو محسوس کرکے خود بھی اس مضمون کو شوق سے پڑھنے لگتے ہیں۔“
دراصل تمام والدین اور اُستاد جوشوجذبے سے نہیں پڑھاتے۔ لہٰذا دل لگا کر پڑھائی کرنا ہر طالبعلم کی اپنی ذمہداری ہوتی ہے۔ اسلئے طلبہ کو چاہئے کہ وہ خود میں پڑھنے کا شوق پیدا کریں۔ اس سلسلے میں کتاب سیکھنے کے شوقین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”کوئی ایسا شخص تو نہیں ہے جو زندگیبھر ہمارے بچوں کو مطالعہ اور محنت کرنے، سوچنے اور ہنر حاصل کرنے میں مدد دیتا رہیگا۔“
لیکن سیکھنے کا شوق سکول میں نہیں بلکہ گھر ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ والدین، آپ گھر میں بچوں کو کونسے معیار سکھا رہے ہیں؟ کیا آپ خود بھی سیکھنے کے شوقین ہیں؟ کیا آپکے گھر میں سیکھنے اور خاص طور پر خدا کے کلام کے بارے میں سیکھنے کے شوق کو افسیوں ۶:۴) یہ یاد رکھیں کہ آپکی مثال اور سکھائی ہوئی باتیں آپکے بچوں پر اُس وقت بھی اثر کرتی رہینگی جب وہ خود اپنے گھر بسا لینگے۔—بکس ”اپنے خاندان کو سیکھنے کا شوق دلائیں“ کو بھی دیکھیں۔
فروغ دیا جاتا ہے؟ (سیکھنے کے مختلف انداز
ہر شخص کا سیکھنے کا انداز فرق ہوتا ہے۔ شاید جس طریقے سے ایک شخص سیکھتا ہو وہ طریقہ دوسرے شخص کو بہت مشکل لگے۔ اسلئے پروفیسر لیوائن اپنی کتاب ہر ایک کی ضرورت کے مطابق (انگریزی) میں لکھتے ہیں کہ ”اگر ہم تمام بچوں کیساتھ ایک جیسا سلوک کرینگے تو یہ ناانصافی کرنے کے برابر ہوگا۔ بچے مختلف انداز سے سیکھتے ہیں۔ بچوں کا یہ حق بنتا ہے کہ اُنہیں اُنکی ضروریات کے مطابق سکھایا جائے۔“
مثال کے طور پر ایک شخص ایک بات کو تب سمجھ کر یاد کر سکتا ہے جب وہ اُسے تصویر یا نقشے کی شکل میں دیکھتا ہے۔ لیکن ایک اَور شخص کو تب ہی ایک بات سمجھ میں آتی ہے جب وہ اُسے یا تو پڑھتا ہے یا پھر اُسے زبانی سنتا ہے۔ پروفیسر لیوائن اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ”معلومات کو ذہن میں محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اسے کسی اَور روپ میں تبدیل کر لیں۔ اسکا مطلب ہے کہ اگر معلومات تصویر کی شکل میں ہو تو اسے لفظوں کے طور پر یاد کِیا جائے۔ اور اگر وہ لکھی ہوئی ہو تو اسے نقشے یا تصویر کی شکل میں ذہننشین کر لیا جائے۔“ اس طریقے کو اپنانے سے ہم نہ صرف خوشی سے مطالعہ کرینگے بلکہ ہم اِسے یاد بھی رکھینگے۔
آپ سیکھنے کے مختلف طریقوں کو آزما کر جان جائینگے کہ آپ کیلئے کونسا طریقہ مناسب ہے۔ ہنس نامی ایک شخص نے جارج کو باقاعدگی سے خدا کے کلام کے بارے میں سکھانا شروع کر دیا۔ جارج ایک عمررسیدہ شخص ہیں جو زیادہ پڑھےلکھے بھی نہیں ہیں۔ اُنہیں سیکھی ہوئی باتوں کو سمجھنے اور یاد رکھنے میں بڑی دقت محسوس ہوتی تھی۔ اسلئے جو باتیں ہنس اُنہیں سکھاتا وہ انکے اہم نکات کی ایک کاپی پر تصویریں بنا لیتا۔ اسکا جارج پر کیا اثر ہوا؟ ہنس کہتا ہے کہ ”جب سے مَیں نے جارج کو اس طریقے سے سکھانا شروع کر دیا ہے وہ ہر بات کو اتنی جلدی اور اچھی طرح سے سمجھ کر یاد کر لیتے ہیں کہ وہ خود بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ جارج کتنے ذہین ہیں۔ اسکے علاوہ اُنکا خود میں اعتماد بھی بڑھ گیا ہے اور وہ نئی باتیں سیکھنے کیلئے بےتاب ہیں۔“
کیا نئی باتیں سیکھنے کی عمر ہوتی ہے؟
ذہن کے بارے میں ایک کتاب میں یوں لکھا ہے: ”جتنا ہی ہم اپنے ذہن کو استعمال کرینگے اُنتا ہی وہ نئی باتیں سیکھ سکیگا۔ ذہن ایک ایسی مشین کی طرح ہے جسے اگر استعمال نہ کِیا جائے تو وہ خراب ہو جاتی ہے۔ ہمارا ذہن نئی باتیں سیکھنے کا پیاسا ہے۔“ اس کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”جسطرح ورزش کرنے والے لوگوں کا جسم ۷۰ تا ۸۰ سال کی عمر میں بھی توانا رہتا ہے اسی طرح ذہن کو استعمال کرنے سے اسکی توانائی بڑھاپے میں بھی برقرار رہتی ہے۔ کافی عرصے سے خیال کِیا جاتا تھا کہ بڑھتی ہوئی عمر کیساتھ ساتھ ہمارا ذہن اپنی سیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ ذہن صرف اُسی وقت سیکھنے کے قابل نہیں رہتا جب اُسے استعمال نہ کِیا جائے۔ اسکے علاوہ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ گزرتی عمر کیساتھ ساتھ ذہن کی بےتحاشا خلیاں روزبروز ختم ہونے لگتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے۔“ (انسائڈ دی برین) اگر ایک شخص کی ذہنی قوت میں کمی نمودار ہونے لگتی ہے تو اسکی وجہ عام طور پر کوئی بیماری، جیسے دل کی بیماری وغیرہ ہو سکتی ہے۔
یہ درست ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر میں ذہن اتنا چست نہیں رہتا جتنا وہ جوانی میں ہوتا ہے لیکن اسکا ہم پر کم ہی اثر پڑتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص باقاعدگی سے ورزش کرنے کیساتھ ساتھ نئی باتیں سیکھنے کی بھی کوشش کرتا رہے تو بڑھاپے میں بھی اُسکے ذہن کی چستی برقرار رہیگی۔ انگریزی کی کتاب بڑھاپے میں نئی باتیں سیکھنا—ایک نیا تجربہ کے مطابق: ”ہم جتنا وقت سیکھنے میں لگاتے ہیں اتنا ہی ہماری سیکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خاص طور پر ایسے اشخاص کے بارے میں سچ ہے جو زندگی بھر نئی نئی چیزیں سیکھتے رہتے ہیں۔“
اس بات کا ثبوت ملک آسٹریلیا میں ہونے والے ایک جائزے میں ملتا ہے۔ وہاں تقریباً ۲۰ سال تک ایسے اشخاص کا جائزہ لیا گیا جنکی عمر ۶۰ سے لے کر ۹۸ سال تک تھی۔ جائزے میں حصہ لینے والے بہتیرے لوگوں کی ذہنی قوت میں ہر سال ایک فیصد کمی نمایاں ہوتی تھی۔ لیکن جائزے کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ”کئی لوگوں کی، یہاں تک کہ ۹۰ سال سے زیادہ عمر رکھنے والے اشخاص کی ذہنی قوت میں کوئی کمی نہیں ظاہر ہوئی۔ یہ اکثر ایسے لوگ تھے جنہوں نے باقاعدگی سے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش کی تھی مثلاً اُنہوں نے ایک نئی زبان سیکھی تھی یا کسی موسیقی کے آلے کو بجانا سیکھا تھا۔“
جارج جنکا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے نے خدا کے کلام کا مطالعہ اُس وقت شروع کِیا تھا جب اُنکی عمر ۷۰ سال سے زیادہ تھی۔ اسی طرح ورجینیا نامی ایک عورت نے جنکی عمر اب ۸۰ سال سے زیادہ ہے انہوں نے بھی بڑھاپے ہی میں خدا کے کلام کے بارے میں سیکھنا شروع کر دیا۔ ورجینیا کے شوہر رابرٹ نے بھی اس بات میں اُنکا ساتھ دیا۔ حال ہی میں رابرٹ کا انتقال ہو گیا۔ ورجینیا اپنے شوہر کے بارے میں کہتی ہیں کہ ”رابرٹ تقریباً اندھے ہو چکے تھے لیکن وہ پاک صحائف کے کچھ حوالے زبانی یاد کرکے مختصر سی تقریریں پیش کِیا کرتے تھے۔ مَیں خود کبھی پڑھنے کی زیادہ شوقین نہیں تھی لیکن اب مجھے پڑھنے کا جنون سا ہو گیا ہے۔ آج ہی مَیں نے جاگو! کا ایک پورا شمارہ صفحہ اوّل سے لے کر آخری صفحے تک پڑھا ہے۔“
جارج، رابرٹ اور ورجینیا تین ایسے اشخاص ہیں جنہوں نے اپنی ذہنی قوت کو استعمال کرنے سے اسے برقرار رکھا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہمارا ذہن محض ۷۰ تا ۸۰ سال تک علم حاصل کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گنجائش رکھتا ہے۔ عمر بھر سیکھتے رہنے کے باوجود ہم اپنے ذہن میں کم ہی علم بھرتے ہیں۔ یہ علم پانی کے ایک چھوٹے سے مٹکے کے برابر ہے جسے ہم ایک بڑی سی ٹینکی یعنی ہمارے ذہن میں انڈیلتے ہیں۔ اس سے ٹینکی بھلا کیسے بھر جائیگی؟ ہمارا ذہن سیکھنے کی اتنی گنجائش کیوں رکھتا ہے؟ اس بات کا جواب آپکو اگلے مضمون میں ملیگا۔
[صفحہ ۵ پر بکس/تصویر]
انٹرنیٹ اور ٹیلیویژن کے خطرات
کتاب ہر ایک کی ضرورت کے مطابق (انگریزی) میں لکھا ہے کہ ”انٹرنیٹ کو استعمال کرنے میں نہ صرف فائدے بلکہ خطرے بھی ہوتے ہیں۔“ کتاب آگے یوں بیان کرتی ہے کہ ”کئی طالبعلم انٹرنیٹ کے ذریعے بےتحاشا معلومات حاصل کرتے ہیں، لیکن وہ اسے جذب کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اکثر وہ اپنی سوچنےسمجھنے کی صلاحیت کو استعمال میں لانے کی بجائے انٹرنیٹ پر پائی جانے والی معلومات کو استعمال کرتے ہیں۔“
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ ٹیلیویژن دیکھنے کی عادت بچوں کیلئے نقصاندہ ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کو اخلاقی قوت پیدا کرنے اور سبق حل کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ اُنہیں کسی بات پر توجہ دینا مشکل لگتا ہے اور وہ اپنی تصور کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ کتاب پڑھنے کے شوقین میں لکھا ہے کہ ”جسطرح سگریٹ کی ڈبّی پر تمباکونوشی سے خبردار کِیا جاتا ہے اسی طرح ٹیلیویژن پر بھی لکھا ہونا چاہئے: ’خبردار! زیادہ ٹیوی دیکھنا صحت کیلئے مُضر ہے۔‘“
ایک اَور کتاب میں لکھا ہے کہ بچوں کیلئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ”ان سے باتچیت کی جائے، انہیں پڑھ کر سنایا جائے اور انکے ساتھ محبت اور پیار سے پیش آیا جائے۔“
[صفحہ ۷ پر بکس/تصویریں]
اپنے خاندان کو سیکھنے کا شوق دلائیں
آپ علم حاصل کرنے کے سلسلے میں اپنے خاندان کی اسطرح مدد کر سکتے ہیں:
▪ بچوں کو پیار سے سمجھائیں کہ آپ اُن سے کیا توقع کرتے ہیں۔
▪ خود محنت کریں اور بچوں کو بھی محنت کرنے کی عادت ڈالیں۔
▪ ورزش کرنے کی اہمیت کو جانیں۔
▪ بچوں کو نہ صرف سکول کا کام کرنے بلکہ تفریحاً کتابیں پڑھنے کا بھی شوق دلائیں۔ اُنہیں نہ صرف مشغلوں میں بلکہ گھریلو کامکاج میں بھی مصروف رہنے کی عادت دلائیں۔
▪ مشکلات کیساتھ اکیلے نپٹنے کی بجائے انہیں خاندان کے طور پر حل کریں۔
▪ بچوں کو سمجھائیں کہ آپ اُن سے کس قسم کے چالچلن کی توقع کرتے ہیں اور اپنے معیاروں پر قائم رہیں۔
▪ باقاعدگی سے اپنے بچوں کے اساتذہ کیساتھ رابطہ رکھیں۔
▪ خاندان کی روحانیت پر زور دیں۔
[تصویر]
والدین، کیا آپ اپنے بچوں کو پڑھنے کا شوق دلاتے ہیں؟
[تصویر کا حوالہ]
یہ معلومات کتاب سیکھنے کے شوقین (انگریزی) سے لی گئی ہے۔
[صفحہ ۸، ۹ پر بکس/تصویریں]
آسانی سے سیکھنے کے کچھ طریقے
دلچسپی لیں اگر آپ ایک موضوع میں دلچسپی لیتے ہیں تو آپ اس کے بارے میں شوق سے سیکھینگے۔ کتاب بچوں کو سیکھنے کا شوق دلائیں (انگریزی) کے مطابق ”جب بچوں کو سیکھنے کا شوق ہوتا ہے تو اُنہیں سیکھی ہوئی بات یاد رہتی ہے۔ اِسطرح اُنہیں زیادہ فائدہ بھی ہوتا ہے۔ وہ فوراً ہمت ہارنے کی بجائے مشکل سے مشکل کام کرنے میں بھی کامیاب رہینگے۔“
عمل میں لائیں ایک اُستاد لکھتا ہے کہ ”جب طالبعلم جان جاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اُن باتوں کو کیسے عمل میں لا سکتے ہیں جو وہ کلاس میں سیکھتے ہیں تب ہی وہ ان باتوں کو سمجھ پائینگے۔ یہ علم اُس بجلی کی لہر کی مانند ہوتا ہے جس سے سمجھ کا بلب روشن ہو جاتا ہے۔“
سمجھیں جب لوگ ایک بات کو پوری طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہیں اور اپنی یادداشت کو تیز کرتے ہیں۔ سبق کو زبانی یاد کرنا، سیکھنے کا ایک طریقہ تو ہے لیکن اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم سبق کو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ امثال ۴:۷، ۸ میں لکھا ہے کہ ”اپنے تمام حاصلات سے فہم حاصل کر۔ اُسکی تعظیم کر۔ وہ تجھے سرفراز کریگی۔“
دھیان دیں انگریزی کی کتاب اپنے بچوں میں دھیان سے کام کرنے کی صلاحیت بڑھائیں وضاحت کرتی ہے کہ ”سیکھنے کا بہترین طریقہ پڑھائی کرتے وقت پورے دھیان سے کام کرنا ہی ہے۔ . . . یہ صلاحیت اتنی اہم ہے کہ اسے ذہانت کی بنیاد کہا گیا ہے۔“ اگر آپ توجہ سے کام کرنے کی اپنی صلاحیت کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو آپ جو وقت مطالعہ کرنے کیلئے صرف کرتے ہیں اسے آہستہ آہستہ بڑھاتے رہیں۔
بیان کریں ایک عالم کہتے ہیں کہ ”اچھے نمبر لے کر پاس ہونے والے طالبعلم وہ ہیں جو سیکھی ہوئی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں۔“ (اے مائنڈ ایٹ اے ٹائم) جب آپ سیکھی ہوئی بات کو اپنے الفاظ میں دُہراتے ہیں تو آپ اسے آسانی سے یاد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح لفظبہلفظ نوٹس بنانے کی بجائے سنی ہوئی بات کو اپنے الفاظ میں درج کریں۔
تعلق سمجھیں مصنف پیٹر رسل نے اپنی کتاب میں کہا کہ یادوں کی بنیاد یادیں ہی ہوتی ہیں۔ جب آپ ایک نئی چیز سیکھتے ہیں تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسکا اُن چیزوں کے ساتھ کیا تعلق ہے جو آپ پہلے سے جانتے ہیں۔ اسطرح آپ کی یادداشت بہتر بن جائیگی۔
تصور کریں ایک نئی بات کو سیکھتے ہی اسے تصور کرنے کی کوشش کریں۔ ایسی ذہنی تصویریں آسانی سے یاد رہتی ہیں۔ ماہرِیادداشت ہر بات کو ذہنی تصویروں ہی میں یاد کرتے ہیں۔
دُہرائیں جو کچھ ہم سیکھتے ہیں اسکا ۸۰ فیصد ہم ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر بھول جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ سیکھی ہوئی باتوں کو ۰۰ا فیصد یاد رکھنا چاہتے ہیں تو انکو مطالعہ کے فوراً بعد اپنے ذہن میں دُہرائیں۔ پھر انہیں ایک دن، ایک ہفتہ، ایک مہینے اور آخرکار ۶ مہینوں بعد دوبارہ دُہرائیں۔
[صفحہ ۸ پر تصویر]
بچوں کو سکھانے میں والدین اور اساتذہ کو ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرنا چاہئے
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
ہر عمر کے لوگ نئی باتیں سیکھ سکتے ہیں