ذیابیطس کے علاج میں درپیش مشکلات
ذیابیطس کے علاج میں درپیش مشکلات
”ہر قسم کی ذیابیطس خطرناک ہے۔“—این ڈالی، امریکن ڈائبٹیز ایسوسیایشن۔
”آپ کے خون کے ٹیسٹ بتا رہے ہیں کہ آپکو فوری علاج کی ضرورت ہے۔“ ڈاکٹر کی یہ بات سُن کر دبورہ کو جھٹکا لگا۔ وہ بتاتی ہے: ”اُس رات مجھے نیند نہ آئی۔ مَیں سوچتی رہی کہ ڈاکٹر کو ضرور کوئی غلطفہمی ہوئی ہوگی۔ مَیں بیمار نہیں ہو سکتی!“
بہتیرے لوگوں کی طرح دبورہ بھی یہی سوچ رہی تھی کہ وہ بالکل تندرست ہے لہٰذا اُس نے مختلف علامات پر زیادہ دھیان نہ دیا۔ اُس نے سوچا کہ الرجی کی گولیاں کھانے سے اُسے زیادہ پیاس لگتی ہے اور زیادہ پانی پینے سے اُسے زیادہ پیشاب آتا ہے۔ جہانتک تھکاوٹ کا تعلق ہے تو وہ شاید ملازمت اور گھر کے کامکاج کی وجہ سے ہے۔
جب دبورہ کے خون کے ٹیسٹ کئے گئے تو پتہ چلا کہ اُسے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ لیکن دبورہ کیلئے اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ کہتی ہے: ”مَیں نے اس بیماری کے بارے میں گھر میں کسی سے بات نہ کی۔ رات کو جب سب سو جاتے تو مَیں اسکے بارے میں سوچ سوچ کر رویا کرتی تھی۔“ دبورہ کی طرح دوسرے لوگوں کو بھی جب شوگر کی بیماری کا پتہ چلتا ہے تو اُنہیں
پہلے یقین ہی نہیں آتا۔ وہ شاید بہت اُداس ہو جائیں یا اُنہیں اپنے آپ پر بہت غصہ آئے۔ اسکے بارے میں کیرن نامی ایک عورت نے کہا: ”میرے لئے اس بات کا یقین کرنا ہی بہت مشکل تھا کہ مجھے یہ بیماری ہے۔ مجھے اس سے گہرا صدمہ پہنچا۔“اس بُری خبر کو سُن کر ایسا محسوس کرنا عام بات ہے۔ لیکن ذیابیطس کے مریض دوسروں کی مدد سے اپنی بیماری سے نپٹنا سیکھ سکتے ہیں۔ کیرن نے مزید کہا: ”ایک نرس نے میری بہت مدد کی۔ اُس نے مجھے مشورہ دیا کہ آنسو بہانے سے من ہلکا ہو جاتا ہے۔ نرس کی ان باتوں نے مجھے سنبھلنے میں مدد دی۔“
یہ بیماری اتنی خطرناک کیوں ہے؟
ذیابیطس کو جسم کے انجن کی بیماری کہا جاتا ہے۔ جب جسم گلوکوز (شکر) کو صحیح طرح سے استعمال نہیں کرتا تو اُس پر بُرا اثر پڑتا ہے جس سے جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے کہا: ”اصل میں لوگ ذیابیطس سے نہیں بلکہ اس سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں سے مرتے ہیں۔ ہم ان بیماریوں کو روکنے کی بہت کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب لوگ ان بیماریوں کے شکار ہو جاتے ہیں توپھر اُنکا مناسب علاج ہمارے بس سے باہر ہوتا ہے۔“ *
کیا شوگر کے مریض عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی سے لطف اُٹھا سکتے ہیں؟ جیہاں، اگر وہ اس بیماری کے خطرے کو پہچانیں اور اپنا علاج جلد شروع کرائیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ *
اچھی خوراک اور باقاعدہ ورزش
اگرچہ قسم اوّل کی ذیابیطس کو روکا نہیں جا سکتا توبھی سائنسدان اس بیماری کے جنیاتی اسباب پر تحقیق کرنے کیساتھ ساتھ اس بیماری *
کے جسم کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے طریقے بھی تلاش کر رہے ہیں۔ (صفحہ ۸ پر بکس ”جسم میں گلوکوز کا کردار“ دیکھیں۔) ایک کتاب کے مطابق ”قسم دوم کی ذیابیطس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگ جنکو خاندانی طور پر یہ بیماری لگنے کا خطرہ ہے اگر وہ اچھی خوراک کھائیں، باقاعدہ ورزش کریں، صحتمند رہیں اور اپنا وزن بڑھنے نہ دیں تو وہ شاید اس بیماری سے بچ جائیں۔“امریکن میڈیکل ایسوسیایشن نے بہت سی عورتوں کی صحت کا جائزہ لیتے ہوئے ورزش کی اہمیت کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی۔ اس میں بتایا گیا کہ ”تھوڑے وقت کیلئے بھی ورزش کرنے سے [جسم کے خلیے] ۲۴ گھنٹوں تک انسولین کی مدد کیساتھ زیادہ گلوکوز لیتے رہتے ہیں۔“ اس رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کِیا گیا کہ ”پیدل چلنے اور کچھ نہ کچھ کام کرتے رہنے سے قسم دوم کی ذیابیطس ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔“ تحقیق کرنے والوں نے مشورہ دیا کہ اگر ہر روز نہیں تو ہفتے میں جتنے دن ہو سکے کم از کم ۳۰ منٹ کیلئے ورزش ضرور کرنی چاہئے۔ اس ورزش میں پیدل چلنا بھی شامل ہے۔ امریکن ذیابیطس ایسوسیایشن کا کہنا ہے کہ ”پیدل چلنا سب سے سستی اور عمدہ ورزش ہے۔“
شوگر کے مریضوں کو ورزش صرف ڈاکٹر کے مشورہ سے کرنی چاہئے۔ کیوں؟ اسلئےکہ شوگر کی بیماری سے جسم میں خون صحیح طرح گردش کرنے کے قابل نہیں ہوتا جسکی وجہ سے خون کی نالیوں اور نسوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر مریض کے پاؤں پر چھوٹی سی خراش آ جائے اور اُسے اسکے بارے میں کچھ پتہ نہ چلے تو بعضاوقات یہ ایک زخم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہ اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ اگر اسکا علاج نہ کِیا جائے تو جسم کے اُس حصے کو کاٹنا بھی پڑ سکتا ہے۔ *
باقاعدہ ورزش کرنے سے شوگر کی بیماری پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ امریکن ڈائبٹیز ایسوسیایشن کی کتاب آگے بیان کرتی ہے کہ ”تحقیق کرنے والے جتنا زیادہ ورزش کے بارے میں مطالعہ کر رہے ہیں اُتنا ہی اُنہیں ورزش کے فوائد کا پتہ چل رہا ہے۔“
انسولین سے علاج
اکثر شوگر کے مریضوں کو صحیح خوراک اور باقاعدہ ورزش کیساتھ ساتھ روزانہ خون میں گلوکوز کی مقدار کو ٹیسٹ کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں دن میں کئی بار انسولین کے ٹیکے بھی لگانے پڑتے ہیں۔ اچھی خوراک کھانے اور ورزش کرنے سے کبھیکبھار قسم دوم کے مریضوں کی حالت اتنی بہتر ہو جاتی ہے کہ اُنہیں انسولین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ * کیرن جسکا پہلے ذکر کِیا گیا تھا اُسے قسم اوّل کی ذیابیطس ہے۔ اُس نے جب انسولین لینے کیساتھ ساتھ ورزش کرنا شروع کی تو اُسے ۲۰ فیصد کم انسولین لینی پڑی۔
اگر مریض کو انسولین کی ضرورت پڑتی ہے تو اُسے ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ شوگر کے مریضوں کی دیکھبھال کرنے والی ایک نرس میریاین نے کہا: ”جب آپکو انسولین استعمال کرنی پڑتی ہے تو ہرگز یہ نہ سوچیں کہ یہ آپکی کسی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ چاہے آپکو قسم اوّل یا قسم دوم کی ذیابیطس ہے اگر آپ خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھینگے تو آپ اس سے پیدا ہونے والی دوسری بیماریوں پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔“ حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق ”اپنے خون میں شکر کی مقدار پر قابو رکھنے والے قسم اوّل کے مریض بہت کم آنکھوں، گردوں اور نسوں کی بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں۔“ ایسے لوگوں کیلئے آنکھوں کی بیماری کا خطرہ ۷۶ فیصد کم ہوتا ہے! اسی طرح قسم دوم کے مریض جو اپنے خون میں شکر کی مقدار پر قابو رکھتے ہیں ایسے ہی فائدے حاصل کرتے ہیں۔
آجکل انسولین کے ٹیکوں کی سوئیوں کو اتنا باریک بنا دیا گیا ہے کہ انکو استعمال کرتے ہوئے بہت کم درد محسوس ہوتا ہے۔ میریاین نے کہا: ”اِس ٹیکے کو پہلی دفعہ لگواتے وقت مریض کو تکلیف ہوتی ہے لیکن جب وہ اسکا عادی ہو جاتا ہے تو اُسے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔“ انسولین دینے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے ٹیکے ہوتے ہیں جو تیزی سے درد کے بغیر جسم کے اندر انسولین پہنچاتے ہیں۔ یا مریض کے بازو میں ایک خاص قسم کی پلاسٹک کی سوئی لگائی جاتی ہے جو دو یا تین دن کیلئے وہاں رہنے دی جاتی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے انسولین پمپ کافی مقبول ہو گیا ہے۔ یہ پمپ ایک باریک سوئی کے ذریعے مریض کی ضرورت کے مطابق خودبخود اُسکے جسم میں انسولین ڈالتا رہتا ہے۔
اپنی بیماری کی بابت سیکھتے رہیں
شوگر کے ہر مریض کا علاج مختلف طریقے سے ہوتا ہے۔ علاج کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت ہر ایک مریض کو
بہتیری باتیں اپنے ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ میریاین نے کہا: ”بےشک ڈاکٹر اور نرسیں آپکی دیکھبھال کر رہے ہیں لیکن آپ ہی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپکا علاج کس طریقے سے ہونا چاہئے۔“ ایک رسالے کے مطابق ”آپکو سیکھنا پڑیگا کہ آپ اپنا علاج خود کیسے کر سکتے ہیں ورنہ آپکا علاج ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکتا۔“شوگر کے مریض اپنی بیماری کے بارے میں جتنی زیادہ معلومات حاصل کرینگے اُتنا ہی بہتر وہ اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں گے۔ ایسا کرنے سے وہ عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کر سکیں گے۔ اس بیماری کے بارے میں سیکھنے میں آپکو صبر سے کام لینا چاہئے۔ ایک کتاب نے یوں کہا: ”اگر آپ ذیابیطس کے بارے میں ایک ہی بار تمام معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرینگے تو آپ اُلجھن میں پڑ جائینگے اور آپ ان معلومات کو استعمال نہیں کر سکیں گے۔ اسکے علاوہ آپکو یہ اہم معلومات صرف کتابوں اور رسالوں میں نہیں ملیں گی۔ آپکو اپنے تجربے سے یہ سیکھنے اور اس بات کو دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ معمول کے کاموں میں تبدیلی کا آپکے خون میں گلوکوز کی مقدار پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔“
مثال کے طور پر، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مختلف پریشانیوں کا آپکے جسم پر کیا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ ان پریشانیوں سے خون میں شکر کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔ کین نے کہا: ”مَیں اس بیماری میں پچھلے ۵۰ سال سے مبتلا ہوں۔ مجھے اپنے جسم میں شکر کے کم یا زیادہ ہونے کا اپنے آپ پتہ چل جاتا ہے!“ ایسا کرنے سے کین کو بہت فائدہ ہوا ہے کیونکہ وہ ابھی ۷۰ سال کی عمر میں بھی نوکری کر رہا ہے!
خاندانی معاونت کی اہمیت
ذیابیطس کے مریضوں کو خاندان کی طرف سے معاونت کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کتاب کے مطابق بچوں اور نوجوانوں میں شوگر کی بیماری پر قابو پانے میں ”خاندان کا ایک دوسرے کیساتھ ملجل کر اس بیماری کا سامنا کرنا بہت ضروری ہے۔“
مریض کی مدد کرنے کے لئے خاندان کے تمام افراد کو شوگر کی بیماری کے بارے میں سیکھنا چاہئے۔ وہ اُس مریض کیساتھ ڈاکٹر کے پاس جا سکتے ہیں۔ اگر اُنکو شوگر کی بیماری کے بارے میں علم ہوگا تو وہ مریض کا حوصلہ بڑھا سکیں گے۔ ایسا کرنے سے وہ بیماری کے خطرے کو پہچان سکتے اور مریض کی اچھی طرح دیکھبھال کر سکتے ہیں۔ ٹیڈ کی بیوی بابرا کو چار سال کی عمر سے قسم اوّل کی ذیابیطس ہے۔ ٹیڈ نے کہا: ”جب بابرا کے خون میں شکر کم ہو جاتی ہے تو مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ کیونکہ وہ باتیں کرتی کرتی چپ ہو جاتی ہے اور اُسے پسینہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ کسی وجہ کے بغیر غصے میں آ جاتی ہے۔ اسکے علاوہ اُس پر سُستی طاری ہو جاتی ہے۔“
اسی طرح جب کین کی بیوی کیتھرین دیکھتی ہے کہ کین کا رنگ پھیکا پڑ رہا ہے، اُسے بہت پسینہ آ رہا ہے اور اُسکا موڈ بدل رہا ہے تو وہ کین سے حساب کا آسان سا سوال پوچھتی ہے۔ جب کین اسکا جواب نہیں دے پاتا تو کیتھرین کو پتہ چل جاتا ہے کہ کین کی حالت بگڑ رہی ہے اور اُسے مدد کی ضرورت ہے۔ کین اور بابرا اس بات کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُنکے بیاہتا ساتھی اُنکی بیماری سے اچھی طرح واقف ہیں اور اُنکی صحیح وقت پر مدد کر سکتے ہیں۔ *
خاندان کے افراد کو شوگر کے مریضوں کیساتھ پیار، نرمی اور صبر سے پیش آنا چاہئے۔ اسطرح ایک مریض کو زندگی کے مشکل وقت کا سامنا کرنے میں مدد ملتی ہے اور مریض کی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ کیرن کے شوہر نے اُسے بتایا کہ وہ اُسے بہت پیار کرتا ہے۔ کیرن بتاتی ہے: ”میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ ’ہم سب کو زندہ رہنے کیلئے خوراک اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح تمہیں بھی خوراک اور پانی کیساتھ ساتھ تھوڑی سی انسولین کی بھی ضرورت ہے۔‘ ان الفاظ سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔“
خاندان کے افراد اور عزیزوں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خون میں شکر کے کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے مریض کا موڈ بدل سکتا ہے۔ ایک عورت کہتی ہے: ”شکر کی کمی کی وجہ سے مَیں اُداس ہو جاتی اور چپچاپ رہنے لگتی ہوں۔ مَیں جلدی سے دوسروں کی باتوں کا بُرا مان جاتی ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ مَیں بچوں کی طرح حرکتیں کر رہی ہوں۔ لیکن مجھے یہ جان کر تسلی ہوتی ہے کہ دوسروں کو میری بیماری کے اثرات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ پھر بھی مَیں اپنے موڈ پر قابو پانے کی بہت کوشش کرتی ہوں۔“
جب مریض کو اپنے خاندان یا دوستوں کی طرف سے معاونت ملتی ہے تو شوگر کی بیماری پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ بائبل کے اُصول بھی مریض کی مدد کر سکتے ہیں۔ آئیے ہم دیکھیں یہ کیسے ممکن ہے؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 8 شوگر کی وجہ سے دل کی بیماری، فالج، گردوں کی بیماری، خون کی نالیوں کا سکڑنا اور اعصابی نظام کی مختلف بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ جب خون پیروں تک نہیں پہنچتا تو پیروں پر زخم ہو سکتے ہیں اور اگر انکا جلدی علاج نہ کِیا جائے تو پیروں کو کاٹنا بھی پڑ سکتا ہے۔ بالغوں میں اندھےپن کی سب سے بڑی وجہ شوگر کی بیماری ہے۔
^ پیراگراف 9 جاگو! آپ کو کسی قسم کا علاج کرنے یا نہ کرنے کی تاکید نہیں کرتا۔ اگر آپکو یہ بیماری ہے تو آپ اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں کیونکہ وہی آپکو اس بیماری کی روکتھام اور علاج کے بارے میں مشورہ دے سکتا ہے۔
^ پیراگراف 11 کولھے کے مقابلے میں پیٹ پر چربی کا بڑھنا زیادہ خطرناک ہے۔
^ پیراگراف 13 سگریٹ پینے والوں کی صحت کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ سگریٹ پینے سے دل اور خون کے نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ ایک کتاب کے مطابق جن مریضوں کو اپنے ہاتھ پیر کٹوانے پڑتے ہیں اُن میں سے ۹۵ فیصد سگریٹ پینے والے ہوتے ہیں۔
^ پیراگراف 16 قسم دوم کے مریضوں کو دوائیاں کھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ کچھ دوائیاں لبلبے کو اَور زیادہ انسولین پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں یا خون میں شکر کی مقدار کو تیزی سے بڑھنے نہیں دیتیں یا پھر بدن کو انسولین ترک کرنے سے روکتی ہیں۔ (قسم اوّل کے علاج کیلئے گولیاں استعمال نہیں کی جاتیں۔) آجکل، انسولین کی گولیاں نہیں لی جا سکتیں کیونکہ یہ خون میں پہنچنے سے پہلے ہی ہضم ہو جاتی ہیں۔ چاہے آپکا علاج انسولین سے ہو یا دوائیوں سے اس کیساتھ ساتھ ورزش کرنا اور اچھی خوراک کھانا لازمی ہے۔
^ پیراگراف 26 ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ شوگر کے مریض دوسروں کو اپنی بیماری کے بارے میں بتانے کیلئے ہمیشہ اپنے ساتھ ایک کارڈ رکھیں جس سے اُنکی ذیابیطس کے ایک مریض کے طور پر شناخت ہو سکے۔ اسطرح ایمرجنسی پڑنے پر دوسروں کو پتہ چل سکتا ہے کہ آپ شوگر کے مریض ہیں۔ ایسا کرنے سے مشکل وقت میں آپکی جان بچ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، خون میں شکر کی کمی کے باعث مریض کی حالت کو دیکھ کر لوگوں کو غلطفہمی ہو سکتی ہے کہ اُسے کوئی دوسری بیماری ہے یا وہ شخص شرابی ہے۔
[صفحہ ۶ پر بکس/تصویریں]
کیا ذیابیطس نوجوانوں کو بھی ہو سکتی ہے؟
نیو یارک کے ایک میڈیکل سکول کے ڈاکٹر آرتھر روبنسٹائن کا کہنا ہے کہ شوگر کی بیماری ”نوجوانوں کو بھی لگ رہی ہے۔“ یہ بیماری اب عام طور پر کمعمر لوگوں میں بھی بڑھ رہی ہے۔ اس بیماری کے ماہر ڈاکٹر روبن گولینڈ نے قسم دوم کی ذیابیطس کے بارے میں کہا: ”دس سال پہلے ہم میڈیکل طالبعلموں کو سکھاتے تھے کہ یہ مرض ۴۰ سال سے کمعمر لوگوں میں نہیں پایا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ مرض دس سال سے بھی کمعمر بچوں کو لگ رہا ہے۔“
شوگر کی بیماری نوجوانوں میں کیوں بڑھ رہی ہے؟ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بیماری ماںباپ سے لگ سکتی ہے۔ اسکے علاوہ یہ اِردگِرد کے ماحول میں تبدیلی یا جسم کے وزن کے بڑھنے سے بھی لگ سکتی ہے۔ پچھلے ۲۰ سال سے موٹے بچوں میں دُگنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟ ایک امریکی ڈاکٹر نے کہا: ”پچھلے ۲۰ سال کے دوران لوگوں کے کھانے پینے اور ورزش کرنے کی عادتوں میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ مثال کے طور پر آجکل پہلے سے زیادہ لوگ ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں اور صبح کو ناشتہ بھی نہیں کرتے۔ وہ زیادہتر میٹھی اور چکنی چیزیں کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ سکول میں بچوں سے ورزش کم کرائی جاتی ہے اور پہلے کی طرح آجکل سکولوں میں بچوں کو کھیلنےکودنے کا وقت بھی نہیں دیا جاتا۔“
شوگر کی بیماری کا علاج عمربھر جاری رہتا ہے۔ اسلئے ایک نوجوان مریض کا مشورہ اپنانا اچھی بات ہوگی جس نے کہا: ”صحت کو خراب کرنے والی خوراک سے پرہیز کریں اور اپنے جسم کی دیکھبھال کریں۔“
[صفحہ ۸ اور ۹ پر بکس/تصویریں]
جسم میں گلوکوز کا کردار
گلوکوز (شکر) جسم کے کروڑوں خلیوں کو طاقت بخشتا ہے۔ خلیوں کے اندر داخل ہونے کیلئے اسے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لبلبہ انسولین پیدا کرتا ہے۔ قسم اوّل کی ذیابیطس میں لبلبہ انسولین پیدا ہی نہیں کرتا۔ قسم دوم کی ذیابیطس میں جسم بہت تھوڑی انسولین پیدا کرتا ہے اور خلیے انسولین کو اندر داخل نہیں ہونے دیتے۔ * دونوں اقسام کی ذیابیطس کا نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔ خلیوں کو خوراک نہیں ملتی اور خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
جس شخص کو قسم اوّل کی ذیابیطس ہوتی ہے اُسکے جسم کا بیماری سے بچانے والا نظام لبلبے میں انسولین پیدا کرنے والے خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔ اس طرح جسم اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ یہ بیماری کسی وائرس، زہریلے کیمیکل یا مختلف دوائیوں کی وجہ سے شروع ہو سکتی ہے یا ماںباپ سے بھی لگ سکتی ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی خاندان میں کئی افراد کو قسم اوّل کی ذیابیطس ہو جاتی ہے۔ یہ قسم زیادہتر گورے رنگ کے لوگوں میں دیکھی گئی ہے۔
قسم دوم کی ذیابیطس اکثر ماںباپ سے لگتی ہے اور یہ بیماری گورے رنگ کے لوگوں کی نسبت دوسرے رنگوں کے لوگوں میں زیادہ * قسم اوّل کی ذیابیطس کے مقابلے میں قسم دوم کی ذیابیطس عام طور پر ۴۰ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
پائی جاتی ہے۔ قسم دوم کی ذیابیطس دوسرے ممالک کی نسبت آسٹریلیا کے اَبریجنی اور امریکہ کے اصل باشندوں (ریڈ انڈین) کو زیادہ ہوتی ہے۔ اِن میں سے سب سے زیادہ امریکہ کے اصل باشندے ہی اِس قسم کی ذیابیطس کا شکار ہوتے ہیں۔ سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا بچے اپنے ماںباپ سے موٹاپا ورثے میں پاتے ہیں۔ کئی لوگوں کے جسم وراثتی طور پر انسولین کو ترک کرنے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔ سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ایسے لوگ بہت موٹے بھی ہوں تو اِس سے اِنکے جسم کیلئے یہ خطرہ کیسے بڑھ جاتا ہے۔[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 44 تقریباً ۹۰ فیصد مریضوں کو قسم دوم کی ذیابیطس ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس بیماری کے مریضوں کو انسولین کی بالکل ضرورت نہیں اور اسے صرف بالغوں کی بیماری ہی کہا جاتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ قسم دوم کے ۴۰ فیصد مریضوں کو انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ بہت سے نوجوانوں اور بچوں کو بھی یہ بیماری ہو رہی ہے۔
^ پیراگراف 46 ڈاکٹروں کے مطابق ایک شخص اُس وقت موٹا کہلاتا ہے جب اُس کا وزن اپنے مقررہ وزن سے ۲۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
[تصویر]
گلوکوز کا مالیکیول
[تصویر کا حوالہ]
Courtesy: Paciifc Northwest National Laboratory
[صفحہ ۹ پر بکس]
جسم میں لبلبے کا کردار
لبلبہ کیلے جتنا بڑا ہوتا ہے اور یہ پیٹ کے بالکل پچھلی طرف ہوتا ہے۔ لبلبے میں بیٹا خلیے انسولین نامی ایک ہارمون پیدا کرتے ہیں۔ ذیابیطس کے بارے میں ایک کتاب کہتی ہے: ”ایک تندرست لبلبہ خون میں گلوکوز کی مقدار کو برقرار رکھنے کا اہم کام انجام دیتا ہے۔ پورے دن کے دوران خون میں گلوکوز کی مقدار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ لبلبہ اس گلوکوز کو ٹھیک مقدار میں رکھنے میں مدد کرتا ہے۔“
جب بیٹا خلیے کم انسولین پیدا کرتے ہیں تو خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اسکے برعکس، جب بدن میں انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو خون میں گلوکوز کی مقدار بہت کم ہو جاتی ہے۔ جگر اضافی گلوکوز کو گلائیکوجن میں تبدیل کرکے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ پھر جب جسم کو ضرورت پڑتی ہے تو جگر محفوظ کی ہوئی گلائیکوجن کو دوبارہ گلوکوز میں تبدیل کر دیتا ہے۔
[صفحہ ۹ پر بکس/تصویریں]
جسم میں شکر کا کردار
اکثر لوگ اس غلطفہمی کا شکار ہیں کہ بہت زیادہ میٹھی چیزیں کھانے سے شوگر کی بیماری ہوتی ہے۔ لیکن چاہے کوئی کم یا زیادہ میٹھی چیزیں کھائے اگر اُسکے خاندان میں نسلدرنسل ذیابیطس چلی آ رہی ہے اور وہ موٹا بھی ہے تو اُسکے اس بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ پھر بھی زیادہ میٹھی چیزیں کھانا صحت کیلئے اچھا نہیں ہوتا کیونکہ یہ انسان کو موٹا کرتی ہے اور ان میں غذائیت بھی کم ہوتی ہے۔
لوگوں کی ایک اَور غلطفہمی یہ ہے کہ شوگر کے مریض ہمیشہ میٹھی چیزیں کھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اُنکی یہ چاہت عام لوگوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جب ذیابیطس قابو میں نہیں ہوتی تو مریض کو بہت زیادہ بھوک لگتی ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی میٹھی چیز ہی کھانا چاہتا ہے۔ شوگر کے مریض میٹھی چیزیں کھا سکتے ہیں لیکن اُنہیں اِس سلسلے میں کچھ پرہیز کرنا چاہئے۔
جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر جانوروں کو پھلوں اور سبزیوں میں پائی جانے والی خاص شکر (فرُکٹوز) زیادہ مقدار میں دی جائے تو اُن کے جسم میں انسولین اثر نہیں کرتا۔ چاہے ایسے جانوروں کا وزن کم ہو یا زیادہ اُن کو ذیابیطس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
[صفحہ ۸ اور ۹ پر ڈائیگرام/تصویریں]
ذیابیطس کیسے ہوتی ہے؟
لبلبہ
↓ ↓ ↓
تندرست انسان قسم اوّل کی ذیابیطس قسم دوم کی ذیابیطس
کھانا کھانے سے مدافعتی نظام لبلبہ اس بیماری میں
خون میں گلوکوز میں انسولین پیدا لبلبہ بہت کم انسولین
بڑھ جاتا ہے کرنے والے خلیوں پیدا کرتا ہے۔
جسکے بعد لبلبہ پر حملہآور ہوتا
صحیح مقدار میں ہے جسکی وجہ
انسولین پیدا کرنے سے انسولین پیدا
لگتا ہے۔ نہیں ہوتی۔
↓ ↓ ↓
پٹھوں اور انسولین کے بغیر جب ریسیپٹرز
دوسرے خلیوں گلوکوز خلیوں انسولین کو خلیے
پر ریسیپٹرز کے اندر داخل پر جڑنے نہیں دیتے
ہوتے ہیں۔ جب نہیں ہو سکتا۔ تو خلیے کے دروازے
انسولین انکے ساتھ نہیں کھلتے جس
جڑ جاتا ہےتو خلیے کی وجہ سے خلیے
کا دروازہ (پورٹل)کھل گلوکوز جذب نہیں کرتے۔
جاتا ہے اور گلوکوز
اندر داخل ہو جاتا ہے۔
↓ ↓ ↓
پٹھوں کے خلیے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھتی رہتی ہے
گلو کوزکو استعمال جسکی وجہ سے جسم کو اور خون
کرکے جسم کوطاقت کی نالیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
دیتے ہیں۔ اس طرح
خون میں گلوکوز
کی مقدار درست رہتی ہے۔
[ڈائیگرام]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
خلیہ
ریسیپٹرز
دروازہ (پورٹل)
انسولین
نیوکلئیس
گلوکوز
[ڈائیگرام]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
خون کی نالی
خون کے سُرخ خلیے
گلوکوز
[تصویر کا حوالہ]
The Complete Encyclopedia :Man
J. G. Heck/of Illustration
[صفحہ ۷ پر تصویر]
شوگر کے مریضوں کیلئے صحیح خوراک بہت ضروری ہے
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
شوگر کے مریض عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کر سکتے ہیں