دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
قُطبی ریچھ خطرے میں
جرمنی کا ناناشوایش نوئی پریسی ورلڈ وائلڈلائف فنڈ (ڈبلیوڈبلیوایف) پر ایک تحقیقی رپورٹ میں بیان کرتا ہے، ”ماحولیاتی درجۂحرارت میں اضافے کی وجہ سے قُطبی ریچھ کا وجود سنگین خطرے میں ہے۔“ ڈبلیوڈبلیوایف کے مطابق، قُطب شمالی سمندر کی برف یعنی قُطبی ریچھ کے شکار کرنے کی بنیادی جگہ اب موسمِگرم کی وجہ سے سکڑتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قُطب شمالی میں ”گزشتہ ۱۰۰ سالوں کے دوران ہوا کے درجۂحرارت میں ۵ ڈگری [سیلسیس] [۹ ڈگری فارنہیٹ] کا اضافہ ہوا ہے۔“ اسکے علاوہ، ”گزشتہ ۲۰ سالوں کے دوران برف میں ۶ فیصد کمی واقع ہوئی ہے“ اور ”سن ۲۰۵۰ کے موسمِگرما تک سمندری برف میں ۶۰ فیصد کمی کا امکان ہے۔“ سمندری برف کی کمی اور برف جمع نہ ہونے کے طویل عرصے قُطبی ریچھ کے شکار کرنے اور اپنے جسم میں درکار چربی جمع کرنے کے عمل کو محدود کرتے ہیں۔ حاملہ مادہ اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق، بعض علاقوں میں ”برف جمع نہ ہونے کے طویل عرصے کے دوران تمام بچوں کا نصف حصہ بھی زندہ نہیں بچتا۔“ ریچھوں کو درپیش دیگر مسائل ”شکار کرنے، زہریلے کیمیائی مادّوں اور تیل سے پیدا ہونے والی آلودگی“ سے تعلق رکھتے ہیں۔
یوکلپٹس موبائل فونز کیلئے خلل پیدا کرتے ہیں
آسٹریلیا کا اخبار سڈنی مورننگ ہیرلڈ بیان کرتا ہے، ”یورپ اور ریاستہائےمتحدہ کی نسبت [نیو ساؤتھ ویلز کی ریاست] کے بہتیرے علاقوں میں موبائل فون ٹاورز کی کارکردگی اکثر خراب رہتی ہے۔ یہ مسئلہ ریاست کے جنوب میں دریائےمرے کے کناروں پر زیادہ ہے۔ ہموار ہونے کے باوجود، اس علاقے میں ”عموماً باتچیت منقطع ہو جاتی یا شروع ہی نہیں ہوتی۔“ رپورٹ کے مطابق اسکی وجہ، ”دریائےمرے کے کناروں پر اُگنے والے گھنے سُرخ یوکلپٹس ہیں۔“ ذرائعمواصلات کے کمپنی ڈائریکٹر روجر بامبر کی رائے میں، ”یوکلپٹس کے پتوں کی شکل، لمبائی اور رطوبت میں کچھ ایسی بات ہے جو اُنہیں دوسرے درختوں کی نسبت موبائل فون کی زیادہ برقی لہریں جذب کرنے کے قابل بناتی ہیں،“ ہیرلڈ بیان کرتا ہے۔
انتقالِخون پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے
یو.ایس. فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا رسالہ ایفڈیاے کنزیومر بیان کرتا ہے، ”جن لوگوں کو خون بالخصوص پلازمہ سے بنی ادویات دی جاتی ہیں وہ انتقالِخون کے باعث پھیپھڑے خراب ہونے کے سنگین خطرے کا سامنا کر سکتے ہیں۔“ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا جائے اور اسکا صحیح علاج نہ کِیا جائے تو یہ موت کا باعث بن سکتی ہے۔“ یہ مرض اُس وقت ہو سکتا ہے جب خون کا عطیہ دینے والے شخص کے سفید خلیوں کے اینٹیباڈیز خون لینے والے شخص کے سفید خلیوں کی مزاحمت کرتے ہیں اور پھیپھڑوں کے سیال کو داخل ہونے کی اجازت دینے والے نسیج میں تبدیلی لاتے ہیں۔ خون کے عطیے کے ذریعے ایسا ردِعمل پیدا کرنے والے بہتیرے اشخاص دو سے زیادہ بچوں کی مائیں یا عطیہ دینے والے وہ لوگ ہیں جو کئی بار خون کا عطیہ لے چکے ہیں۔“ علامات میں ”بخار، سانس پھولنے اور بلڈپریشر کا کم ہونا شامل ہے۔ ایکسرے اکثر ظاہر کرتے ہیں کہ [انتقالِخون] قبول کرنے والوں کے پھیپھڑے بالکل سفید ہوتے ہیں۔“
زہر سے متاثرہ مکھیاں
فرانس کے نیوزمیگزین میریئین نے سوال کِیا، ”کیا ہم اب سے دس سال بعد فرانسیسی شہد کھا سکیں گے؟“ ہر موسمِبہار میں ہزاروں مکھیاں زہر کی وجہ سے مر جاتی ہیں جسکی وجہ سے شہد کی قومی پیداوار ۱۹۸۹ میں ۰۰۰،۴۵ ٹن سے گِر کر ۲۰۰۰ میں ۰۰۰،۱۶ ٹن ہو گئی ہے۔ شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک شخص نے ایک ہفتے میں اپنے ۴۵۰ چھتے—۲۲ ملین مکھیاں کھو دیں! شہد بنانے والے بہتیرے اشخاص کیڑےمار ادویات جیسےکہ زرعی کیمیائی مادّوں بالخصوص غیرقانونی طور پر درآمد کی جانی والی سستی اور زیادہ خطرناک مصنوعات کو اسکا ذمہدار ٹھہراتے ہیں۔ بعض کسان کیمیائی ادویات کو زیادہ مؤثر بنانے کیلئے اِن میں انجن کا استعمالشُدہ تیل یا بلیچ شامل کرتے ہیں! میریئین کے بیان کے مطابق، اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا ”تو فرانسیسی شہد کے ناپید ہو جانے کا خطرہ ہے۔“
بچوں میں موت کی بابت لاعلمی
”آپکے خیال میں کیا موت کے بعد ایک شخص کو دوبارہ زندہ کِیا جا سکتا ہے؟“ جاپان ویمنز یونیورسٹی کے پروفیسر ہیروشی ناکامورا نے یہ سوال چھٹی جماعت کے ۳۷۲ طالبعلموں سے کِیا۔ ٹوکیو کے اخبار سانکی شمبن کی رپورٹ کے مطابق، ایک تہائی کا جواب ہاں میں تھا جبکہ ایک تہائی کے جواب میں غیریقینی پائی جاتی تھی۔ اخبار بیان کرتا ہے، ”ممکن ہے کہ اس نظریے کو کمپیوٹر گیمز کے ذریعے فروغ ملا ہے جہاں اگر ہیرو مر بھی جاتا ہے تو محض ایک بٹن کو دبانے سے ہیرو ایک بار پھر زندہ ہو جاتا ہے اور کھیل شروع ہو جاتا ہے۔“ پروفیسر کے مطابق، سروے نے ظاہر کِیا کہ ”چھٹی جماعت کے بہتیرے طالبعلم موت کی بابت صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔“ وہ تجویز پیش کرتا ہے کہ والدین کو بچوں کو پالتو جانوروں کی موت کی تکلیف برداشت کرنے اور ایسے رشتہداروں سے ملاقات کرنے کی اجازت دینے سے موت کی بابت سکھانا چاہئے جو بسترِمرگ پر ہیں۔
یورپ کو پولیو سے آزاد قرار دیا جاتا ہے
یورپ کے ۸۷۰ ملین لوگوں کیلئے اس علاقے کو پولیو سے آزاد قرار دینے والی جون ۲۰۰۲ کی رپورٹ ”نئی ہزاری میں
عوامی صحت کی اہمترین یادگار تھی،“ عالمی ادارۂصحت بیان کرتا ہے۔ ۵۱ ریاستوں پر مشتمل یورپی علاقہ ”تین سال سے زائد عرصہ تک ملکی سطح پر پولیو سے آزاد رہا ہے۔“ یہ کامیابی حفاظتی ٹیکے لگانے کی قومی مہمات میں تعاون کے ذریعے پولیو کا خاتمہ کرنے کے ایک ۱۴ سالہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔ شمال وسطی اور جنوبی امریکہ اور مغربی بحرالکاہل میں اس بیماری پر پہلے ہی قابو پا لیا گیا ہے۔ اعصابی نظام پر حملہ کرنے والے جرثومے سے پیدا ہونے والا مرض پولیو نہایت متعدی ہے اور مکمل فالج بلکہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس وقت اس سے بچاؤ تو ممکن ہے لیکن اسکا علاج ممکن نہیں۔پانی کی شدید کمی
”اگر فوری اقدام نہ اُٹھائے گئے تو ۲۰۳۲ تک دُنیا کی نصف سے زیادہ آبادی پانی کی کمی سے متاثر ہوگی جسکے نتیجے میں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں،“ بیایمجی (سابقہ برٹش میڈیکل جرنل) بیان کرتا ہے۔ ریاستہائےمتحدہ کی ایک رپورٹ نے دریافت کِیا کہ اگرچہ صاف پانی حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد ”۱۹۹۰ میں ۱.۴ بلین سے بڑھ کر ۲۰۰۰ میں ۹.۴ بلین پر پہنچ گئی توبھی ترقیپذیر ممالک میں ۱.۱ بلین لوگوں کو ابھی تک پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں ہے۔ اس وقت کُل ۴.۲ بلین لوگوں کو صفائیستھرائی کی مناسب سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔“ اس کے نتیجے میں ”چار بلین لوگ اسہال کا شکار ہوتے ہیں، ہر سال ۲.۲ ملین اموات واقع ہوتی ہیں،“ جبکہ سکریٹوسومیاسس، تراقوما اور آنتوں کے جراثیم سے پیدا ہونے والی تکلیف کو نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا۔
متبادل جِلد
جِلد جسم کا سب سے بڑا عضو ہونے کے علاوہ بیماری پھیلانے والے جراثیم، پانی کی کمی اور ہایپوتھرمیا جیسے امراض کے خلاف اوّلین دفاع بھی ہے۔ لہٰذا، جلن کے اثرات والے یا ذیابیطس کے ایسے مریض جن کے زخم کھلے ہوتے ہیں زیادہ نقصان کا سامنا کرتے ہیں۔ مردہ انسانوں کی جِلد عام طور پر متبادل جِلد کے طور پر استعمال ہوتی ہے لیکن اسکی دستیابی کم ہے۔ دیگر مسائل یہ ہیں کہ جِلد کی منتقلی بیماری پھیلا سکتی ہے اور بعضاوقات جسم اسے قبول نہیں کرتا۔ میکسیکو شہر کا دی نیوز رپورٹ دیتا ہے کہ سؤاروں کی چھوٹی آنتوں کے حصوں کو کامیابی سے ایسے مریضوں پر پیوند کِیا جاتا ہے جنکے زخم جلد ٹھیک نہیں ہوتے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ سؤار کی آنت کا استعمال ہونے والا حصہ جسے چھوٹی آنت کی میوکس جھلی کی نچلی تہہ کہتے ہیں انسانی جِلد سے بہت مشابہت رکھتا ہے اور کافی مقدار میں دستیاب ہوتا ہے۔ متبادل جِلد پر تجربے کرنے والا پیوندکاری کا سرجن ہورہا اولیویرس بیان کرتا ہے: ”مَیں نے جن مریضوں کا علاج کِیا ہے ان کے جسم پر کوئی نشان نہیں رہتا اور زخم کچھ ہی ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ مریض اپنی تکلیف اور جلن سے فوری آرام حاصل کرتے ہیں۔“
چار ماہ تک لہروں کے رحموکرم پر
تاہیٹی کے اخبار لی نویلز ڈے تاہیٹی کی رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ۵۶ سالہ ماہیگیر، تواسیا رائیوا کو جنوبی بحرالکاہل میں چار مہینوں تک لہروں کے رحموکرم پر رہنے کے بعد زندہ بچا لیا گیا۔ وہ مارچ ۱۵، ۲۰۰۲ کو تاہیٹی سے ”اپنی ۲۵ فٹ چھوٹی سی ہری کشتی میں جسکا نام ٹیہاپٹی تھا روانہ ہوا، تاہم تاہیٹی کے ساحل سے دُور اُسکی کشتی کی موٹر خراب ہو گئی۔“ پانی کے بہاؤ کیساتھ تقریباً ۷۵۰ میل دُور جانے کے بعد جولائی ۱۰ کو کوک جزائر میں سے ایک جزیرے آئیٹوٹاکی کے قریب اُسکی جان بچائی گئی اور اُسکا وزن ۴۵ پاؤنڈ کم ہو چکا تھا۔ ایک تجربہکار اور خوشتدبیر ماہیگیر ہونے کی وجہ سے رائیوا ”کچی یا سوکھی ہوئی مچھلیاں کھانے اور ایک بالٹی اور برف کے ڈبے میں بارش کا پانی جمع کرنے سے اپنی جان بچانے کے قابل ہوا۔“