مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا مسیحیوں کو نئے سال کی تقریبات میں حصہ لینا چاہئے؟‏

کیا مسیحیوں کو نئے سال کی تقریبات میں حصہ لینا چاہئے؟‏

بائبل کا نقطۂ‌نظر

کیا مسیحیوں کو نئے سال کی تقریبات میں حصہ لینا چاہئے؟‏

‏”‏نئے سال کی شام سے پہلے کی دوپہر بڑی پُرسکون ہوتی ہے،‏“‏ برازیل کا ایک ڈاکٹر فرنانڈو بیان کرتا ہے۔‏ ”‏پھر رات ۱۱ بجے کے قریب مریضوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔‏ کوئی خنجر سے تو کوئی بندوق کی گولی سے گھایل ہے،‏ نوجوان،‏ گاڑیوں کے حادثات سے اور بیویاں،‏ شوہروں کی مارپیٹ سے زخمی ہیں۔‏ ان تمام واقعات میں شراب بنیادی عنصر ہوتی ہے۔‏“‏

مندرجہ‌بالا بیان کو مدِنظر رکھتے ہوئے،‏ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ایک برازیلی جریدے نے سال کے پہلے دن کو عالمگیر پیمانے پر نشے کے باعث اعضاشکنی کا دن قرار دیا۔‏ ایک یورپی خبررساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ ”‏نیا سال عیش‌پرستوں کا تہوار،‏ انسان اور شراب کے مابین دائمی مقابلے کا ایک اَور راؤنڈ ہے۔‏“‏

یہ سچ ہے کہ سبھی لوگ نیا سال شراب‌نوشی اور پُرتشدد کاموں سے نہیں مناتے۔‏ دراصل،‏ بعض کی اس تہوار سے وابستہ یادیں نہایت خوشگوار ہیں۔‏ متذکرہ‌بالا فرنانڈو بیان کرتا ہے کہ ”‏بچپن میں ہمیں نئے سال سے پہلے کی شام کا بڑی شدت سے انتظار رہتا تھا۔‏ ہم نفیس کھانوں،‏ مشروبات اور دلچسپ کھیلوں سے محظوظ ہوتے تھے۔‏ آدھی رات کو پھر ہم گلے لگ کر ایک دوسرے کو چومتے اور ’‏نئے سال‘‏ کی مبارکباد دیتے تھے!‏“‏

آجکل بھی بہتیرے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح حد سے تجاوز کئے بغیر نئے سال کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ مسیحیوں کیلئے اس مقبول تہوار کے ماخذ اور اہمیت کا جائزہ لینا موزوں ہوگا۔‏ کیا نئے سال کی تقریبات بائبل تعلیمات کے خلاف ہیں؟‏

ماضی کے حقائق

نئے سال کی تقریبات نئی نہیں ہیں۔‏ قدیم تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تین ہزار ق.‏س.‏ع.‏ میں بابل میں ایسے جشن منائے جاتے تھے۔‏ سب سے اہم تقریب مارچ کے وسط میں منائی جاتی تھی۔‏ دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق،‏ ”‏اُس وقت مردوک دیوتا آئندہ سال کیلئے اِس مُلک کے مُقدر کا تعیّن کِیا کرتا تھا۔‏“‏ بابلی نئے سال کی تقریب ۱۱ دن کی ہوتی تھی جس میں قربانیاں چڑھانے کے علاوہ جلوس نکالے جاتے اور باروری کی رسمیں ادا کی جاتی تھیں۔‏

کچھ عرصہ تک رومیوں نے بھی اپنے سال کا آغاز مارچ کے مہینے سے کِیا۔‏ لیکن ۴۶ ق.‏س.‏ع.‏ میں شہنشاہ جولیس سیزر نے حکم دیا کہ اسے یکم جنوری سے شروع ہونا چاہئے۔‏ یہ دن مکانی اور زمانی دونوں طرح کے آغاز کے دیوتا،‏ جینس کے لئے پہلے ہی سے مخصوص تھا چنانچہ یہ رومی سال کا پہلا دن بھی قرار پایا۔‏ تاریخ تو بدل دی گئی مگر اس سے وابستہ رسومات برقرار رہیں۔‏ پہلی صدی کے مصنف پلینی کی تصانیف کی بِنا پر،‏ میکلن‌ٹاک اینڈ سٹرانگ کا سائیکلوپیڈیا کہتا ہے کہ یکم جنوری پر لوگ ”‏ہر طرح کی عیاشی اور مُلحدانہ توہم‌پرستی میں پڑ جاتے تھے۔‏“‏

آجکل بھی توہم‌پرستانہ تقریبات نئے سال کے جشن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جنوبی امریکہ کے بعض علاقوں میں،‏ بہتیرے لوگ اپنے دہنے پاؤں پر کھڑے ہوکر نئے سال کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‏ دیگر نرسنگے بجاتے اور آتش‌بازی کرتے ہیں۔‏ ایک چیک رسم کے مطابق،‏ نئے سال کی شام دال کا سوپ پینے کا وقت ہوتا ہے جبکہ سلوویک کی روایت کے مطابق لوگ میزپوش کے نیچے پیسے یا مچھلی کے چانے رکھتے ہیں۔‏ ایسی رسومات جنکا مقصد مصیبت اور بدقسمتی کو دُور کرکے خوشحالی کو یقینی بنانا ہے یہ محض اُسی قدیم اعتقاد کی حمایت کرتی ہیں کہ نئے سال کا آغاز مقدر کے تعیّن کا وقت ہوتا ہے۔‏

بائبل کا نقطۂ‌نظر

بائبل مسیحیوں کو نصیحت کرتی ہے کہ ”‏شایستگی سے چلیں نہ کہ ناچ‌رنگ اور نشہ‌بازی سے۔‏“‏ * (‏رومیوں ۱۳:‏۱۲-‏۱۴؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۳‏)‏ نئے سال کے جشن کی رسومات میں اکثر ایسے کام شامل ہوتے ہیں جنکی بائبل مذمت کرتی ہے اسلئے مسیحی ان میں حصہ نہیں لیتے۔‏ اسکا مطلب یہ نہیں کہ مسیحی رنگ میں بھنگ ڈالنے والے ہیں۔‏ اسکے برعکس،‏ وہ جانتے ہیں کہ بائبل مختلف وجوہات کی بِنا پر بارہا خدائےبرحق کے پرستاروں کو خوش رہنے کی نصیحت کرتی ہے۔‏ (‏استثنا ۲۶:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ زبور ۳۲:‏۱۱؛‏ امثال ۵:‏۱۵-‏۱۹؛‏ واعظ ۳:‏۲۲؛‏ ۱۱:‏۹‏)‏ بائبل یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ کھاناپینا خوشی کے موقع پر خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔‏—‏زبور ۱۰۴:‏۱۵؛‏ واعظ ۹:‏۷ الف۔‏

پس،‏ جیساکہ ہم نے دیکھا نئے سال کی تقریبات کا مصدر بُت‌پرستانہ رسومات ہیں۔‏ جھوٹی پرستش یہوواہ کی نظر میں ناپاک اور مکروہ ہے جسکی وجہ سے مسیحی ایسے ذرائع سے وابستہ ہر کام کو ردّ کرتے ہیں۔‏ (‏استثنا ۱۸:‏۹-‏۱۲؛‏ حزقی‌ایل ۲۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏راستبازی اور بےدینی میں کیا میل‌جول؟‏ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟‏ مسیح کو بلیعال کے ساتھ کیا موافقت؟‏“‏ لہٰذا،‏ معقول وجوہات کی بِنا پر ہی پولس نے مزید کہا:‏ ”‏ناپاک چیز کو نہ چھوؤ۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۴-‏۱۷ الف۔‏

مسیحی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ توہم‌پرستی خوشی اور خوشحالی کی ضمانت نہیں کیونکہ ایسے جشنوں میں حصہ لینا بالخصوص خدا کی ناپسندیدگی کا باعث بنتا ہے۔‏ (‏واعظ ۹:‏۱۱؛‏ یسعیاہ ۶۵:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ مزیدبرآں،‏ بائبل مسیحیوں کو اعتدال‌پسندی اور چال‌چلن میں ضبطِ‌نفس سے کام لینے کی تلقین کرتی ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۲،‏ ۱۱‏)‏ پس،‏ مسیح کی تعلیمات پر چلنے کا دعویٰ کرنے والے شخص کیلئے ایسی تقریبات میں شرکت کرنا غیرموزوں ہوگا جن کا خاصہ عیش‌پرستی ہے۔‏

نئے سال کی تقریبات جاذبِ‌نظر اور جاذبِ‌توجہ تو ہو سکتی ہیں لیکن بائبل ہمیں مشورہ دیتی ہے کہ ”‏ناپاک چیز کو نہ چھوؤ“‏ اور ”‏اپنےآپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک“‏ کرو۔‏ اس مشورت پر عمل کرنے والوں کو یہوواہ یہ دلکش ضمانت دیتا ہے:‏ ”‏مَیں تم کو قبول کر لونگا۔‏ اور تمہارا باپ ہونگا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہوگے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶‏:‏۱۷ب–‏۷:‏۱)‏ واقعی،‏ وہ اپنے وفاداروں سے ابدی خوشحالی اور برکات کا وعدہ کرتا ہے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۱۸،‏ ۲۸؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴،‏ ۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 12 پولس نے جس ”‏ناچ‌رنگ اور نشہ‌بازی“‏ کا ذکر کِیا اُس میں نئے سال کے جشن پر ہونے والے ایسے کام بھی شامل ہو سکتے ہیں جیسے پہلی صدی کے دوران روم میں بڑے مقبول تھے۔‏