مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کارتھیج—‏روم کو ڈگمگا دینے والا شہر

کارتھیج—‏روم کو ڈگمگا دینے والا شہر

کارتھیج‏—‏روم کو ڈگمگا دینے والا شہر

فرانس سے جاگو!‏ کا رائٹر

افریقہ کے شمالی ساحل پر،‏ جمہوریہ تیونس کے داراُلحکومت تیونس کے مضافات میں ایک قدیم شہر کارتھیج کے کھنڈرات واقع ہیں۔‏ سیاحوں کے پاس اُسے یکسر نظرانداز کر دینے کا جواز ہے کیونکہ وہاں کوئی قابلِ‌توجہ چیز نہیں ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ یہ علاقہ زمانۂ‌قدیم کے عظیم شہروں میں سے ایک ایسے شہر کے کھنڈرات کیلئے مشہور ہے جو بڑی حد تک عالمی طاقت روم کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا تھا۔‏ رومی مؤرخ لیوی کے مطابق،‏ ”‏دُنیا کے اِن دو بڑے شہروں کے مابین کشمکش نے بادشاہوں اور عوام کو دنگ کر دیا،‏“‏ کیونکہ یہ دُنیا پر حکمرانی کرنے کا مسئلہ تھا۔‏

شہر کی بنیاد

دوسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں فینیکی موجودہ لبنان کے شمال اور جنوب میں پھیلے ہوئے بحیرۂروم کی تنگ ساحلی پٹی کیساتھ ساتھ آباد تھے۔‏ وہ اچھے ملاح تھے لہٰذا اُنہوں نے سونے،‏ چاندی،‏ خام لوہے،‏ قلعی اور سیسے کی تلاش میں مغرب کا رُخ کِیا۔‏ اسکے عوض وہ لکڑی (‏جیسےکہ لبنان کے مشہور صنوبر)‏ ارغوانی کپڑا،‏ خوشبوعات،‏ شراب،‏ مصالحے اور دیگر مصنوعات کی تجارت کرتے تھے۔‏ *

فنیکیوں نے مغرب کی جانب بڑھتے ہوئے افریقہ کے ساحلوں،‏ سسلی،‏ سارڈینیا اور جنوبی سپین شاید بائبل کے ترسیس میں نوآبادیاں قائم کیں۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۰:‏۲۲؛‏ حزقی‌ایل ۲۷:‏۲،‏ ۱۲‏)‏ ایک روایت کے مطابق،‏ کارتھیج کی اپنے رقیب روم سے تقریباً ۶۰ برس قبل ۸۱۴ ق.‏س.‏ع.‏ میں بنیاد ڈالی گئی تھی۔‏ شمالی افریقہ کی باقیات کے ایک ماہر سرج لان‌سل کے مطابق،‏ ”‏نویں صدی ق.‏م.‏ کے تقریباً آخر میں کارتھیج معرضِ‌وجود میں آنے کے بعد کئی سو سال تک مغربی بحیرۂروم کے کنارے آباد ممالک کی سیاست اور ثقافت پر قابض رہا۔‏“‏

ایک سلطنت کا آغاز

مؤرخ فرانکوئس ڈیکریٹ کے مطابق کارتھیج کے ایک عالمی طاقت میں تبدیل ہونے کے وقت یہ ”‏سمندر میں پھینکے گئے ایک مہیب لنگر“‏ کی شکل کا جزیرہ تھا۔‏ کارتھیج نے اپنے فینیکی اسلاف کی قائم‌کردہ بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے—‏بالخصوص دھاتوں کی برآمدات کے فروغ کی بدولت—‏تجارتی کمپنیاں تشکیل دیں اور اپنے طاقتور بحری بیڑوں اور غلاموں کے ذریعے علاقے پر قابض ہوتا گیا۔‏

اپنی کامرانیوں سے کبھی بھی مطمئن نہ ہوتے ہوئے کارتھیج کے باشندے متواتر نئےنئے تجارتی مراکز کی تلاش میں لگے رہے۔‏ ایک روایت کے مطابق تقریباً ۴۸۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ جہازراں ہیم‌لکو قلعی سے مالامال برطانیہ کے کارنول کے ساحل پر لنگرانداز ہوا۔‏ کوئی ۳۰ سال بعد کارتھیج کے ایک ممتاز خاندان کا رکن ہینو نوآبادیاں قائم کرنے کیلئے ۰۰۰،‏۳۰ مردوں اور عورتوں سے بھرے ہوئے ۶۰ بحری جہاز لیکر مہم پر نکلا۔‏ ہینو شاید آبنائے جبل‌اُلطارق سے گزر کر افریقی ساحل کیساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے خلیج گنی اور کیمرون کے ساحلوں تک پہنچ گیا تھا۔‏

کارتھیج کاروبار میں ایسی فہم‌وفراست اور دلچسپی کی بدولت،‏ قدیم دُنیا کا ایک امیرترین شہر بن گیا۔‏ کتاب کارتھیج بیان کرتی ہے کہ ”‏تیسری صدی [‏ق.‏س.‏ع.‏]‏ کے اوائل میں ہی اس کی فنی مہارت،‏ بحری بیڑے اور تجارت نے .‏ .‏ .‏ شہر کو انتہائی بلند مقام پر لا کھڑا کِیا۔‏“‏ یونانی مؤرخ ایپئین نے کارتھیج کے باشندوں کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏وہ طاقت کے اعتبار سے یونانیوں اور دولت کے اعتبار سے فارسیوں کے ہم‌پلہ تھے۔‏“‏

بعل کے زیرِاثر

فینیکی،‏ مغربی بحیرۂروم کے گردونواح میں تتربتر ہونے کے باوجود،‏ اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے متحد تھے۔‏ کارتھیج کے باشندوں نے اپنے فینیکی اسلاف سے کنعانی مذہب ورثے میں پایا تھا۔‏ کئی صدیوں تک کارتھیج ہر سال صور میں ملکرت کے مندر میں قربانی چڑھانے کے لئے اپنی نمائندہ جماعت بھیجا کرتا تھا۔‏ کارتھیج میں بعل‌ہمون کا جوڑا،‏ جن کے نام کا مطلب ہے ”‏آگ کا دیوتا“‏ اور تانت جس کی شناخت عستارات کے حوالے سے ہوتی ہے بڑے دیوتاؤں میں شامل تھے۔‏

کارتھیج کے مذہب کا سب سے مکروہ کام بچوں کی قربانی تھی۔‏ دیودورس سیکیولس بیان کرتا ہے کہ ۳۱۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ شہر پر ایک حملے کے دوران کارتھیج کے باشندوں نے بعل‌ہمون کو خوش کرنے کے لئے شاہی نسل کے ۲۰۰ بچے قربان کر دئے تھے۔‏ دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن بیان کرتا ہے:‏ ”‏معصوم بچے کو نیابتی کے طور پر قربان کرنا اعلیٰ قسم کی قربانی ہوا کرتی تھی جسے خاندان اور قبیلے دونوں کیلئے یقینی خوشحالی کا ضامن خیال کِیا جاتا تھا۔‏“‏

ماہرینِ‌اثریّات نے ۱۹۲۱ میں جوکچھ دریافت کِیا اُسے بعدازاں بائبل میں ۲-‏سلاطین ۲۳:‏۱۰ اور یرمیاہ ۷:‏۳۱ میں استعمال ہونے والے اظہار کے حوالے سے ”‏توفت“‏ کہا جانے لگا۔‏ کھدائی سے نقشین لوحوں کے نیچے دفن کئے گئے بیشمار ایسے مرتبان نکلے جن میں جانوروں (‏قربانی کے طور پر استعمال ہونے والے متبادل)‏،‏ چھوٹے بچوں کی ہڈیاں ملی ہیں۔‏ ایک اندازے کے مطابق،‏ توفت کے مقام پر تقریباً ۰۰۰،‏۲۰ بچوں کی باقیات موجود ہیں جنہیں محض ۲۰۰ سال کے عرصہ کے دوران قربان کِیا گیا تھا۔‏ آجکل بعض ترمیم‌پسند یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ توفت محض تدفین کا ایک مقام تھا جہاں مُردہ حالت میں پیدا ہونے والے یا بہت چھوٹے بچوں کو دفن کِیا جاتا تھا جن کی قبرستان میں تدفین ممکن نہیں ہوتی تھی۔‏ تاہم،‏ مسبوق‌الذکر لان‌سل کے مطابق ”‏کارتھیج کے باشندوں میں انسانی قربانی پیش کرنے کی حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کِیا جا سکتا۔‏“‏

بالادستی کیلئے جنگ

چھٹی صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں صور کے زوال کیساتھ ہی کارتھیج نے مغربی فنیکیوں کی قیادت سنبھال لی۔‏ مگر کارتھیج کو حاصل ہونے والی اس شہرت کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‏ پیونی اور یونانی تاجر،‏ شروع ہی سے سمندروں پر قابض ہونے کیلئے تیار بیٹھے تھے اور تقریباً ۵۵۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں لڑائی چھڑ گئی۔‏ سن ۵۳۵ ق.‏س.‏ع.‏ میں کارتھیج کے باشندوں نے اپنے ایٹروریائی حلیف کی مدد سے یونانیوں کو کارسیکا کے جزیرے سے بےدخل کر دیا اور سارڈینیا پر قابض ہو گئے۔‏ * نتیجتاً،‏ جنگی حربوں کے حوالے سے ایک ممتاز حیثیت رکھنے والے جزیرے سسلی پر قبضہ کرنے کیلئے کارتھیج اور یونان کے مابین سخت لڑائی شروع ہو گئی۔‏

اسی دوران،‏ روم بھی بڑی طاقت بننے کی تیاریاں کرنا شروع ہو گیا تھا۔‏ کارتھیج اور روم کے درمیان ہونے والے معاہدوں نے کارتھیج کو قطعی تجارتی اختیار کی ضمانت دی اور سسلی کو صرف رومیوں تک محدود کر دیا۔‏ مگر جب روم نے اٹلی کے جزیرے کو فتح کر لیا تو اٹلی کے قریب واقع کارتھیج کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو خطرہ خیال کِیا جانے لگا۔‏ دوسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ کے مؤرخ پولی‌بی‌ئس نے تبصرہ کِیا:‏ ”‏رومیوں نے دیکھا .‏ .‏ .‏ کہ کارتھیج کے لوگوں نے نہ صرف افریقہ * بلکہ سپین کے بڑے حصے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ہے اور وہ سارڈینی اور ٹائرینن سمندروں کے تمام جزائر پر بھی قابض ہو گئے ہیں۔‏ لہٰذا اگر کارتھیج کے باشندے سسلی پر قبضہ کر لیتے ہیں تو وہ نہایت تکلیف‌دہ اور خطرناک پڑوسی ثابت ہونگے کیونکہ وہ ہر طرف سے اٹلی کو گھیر لیں گے اور سارے ملک کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔‏“‏ تجارتی مفادات حاصل کرنے کے جوش میں رومی سینٹ کے بعض افراد سسلی میں مداخلت کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔‏

پیونی جنگیں

سن ۲۶۴ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ سسلی کے بحران نے رومیوں کو مداخلت کرنے کا جواز فراہم کر دیا۔‏ معاہدے کی خلاف‌ورزی کرتے ہوئے،‏ روم نے پہلی پیونی جنگ کا آغاز کرنے کے لئے بحری دستے روانہ کر دئے۔‏ زمانۂ‌قدیم کی بعض عظیم بحری جنگوں میں سے یہ لڑائی ۲۰ سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔‏ بالآخر ۲۴۱ ق.‏س.‏ع.‏ میں کارتھیج کے باشندوں کو شکست ہونے پر سسلی سے مجبوراً نکلنا پڑا تھا۔‏ روم نے کارسیکا اور سارڈینیا کو بھی اُن کے قبضے سے چھڑا لیا۔‏

اِن نقصانات کی تلافی کیلئے کارتھیج کے جرنیل ہیم‌لکار بارکا نے سپین میں سلطنت قائم کرتے ہوئے کارتھیج کے وقار کو بحال کرنے کیلئے پیشقدمی کی۔‏ سپین کے جنوب‌مشرقی ساحل پر ایک ”‏نیا کارتھیج“‏—‏کارٹاجینا—‏قائم کِیا گیا اور چند ہی سالوں میں سپین کی کانوں میں موجود دولت نے کارتھیج کے خزانوں کو بھر دیا۔‏ لامحالہ یہ توسیع روم کیساتھ آویزش پر منتج ہوئی اور ۲۱۸ ق.‏س.‏ع.‏ میں ایک بار پھر جنگ شروع ہو گئی۔‏

کارتھیج کے لشکر کے سردار ہیم‌لکار کا بیٹا ہنی‌بال تھا جسکے نام کا مطلب ہے،‏ ”‏بعل کا منظورِنظر۔‏“‏ مئی ۲۱۸ ق.‏س.‏ع.‏ میں کارتھیج کو خیرباد کہتے ہوئے اُس نے اپنے افریقی اور ہسپانوی باشندوں اور تقریباً ۴۰ ہاتھیوں پر مشتمل لشکر کے ساتھ کوہِ‌ایلپس کو عبور کرکے سپین اور گال کے طویل سفر کا آغاز کِیا۔‏ غفلت کی وجہ سے رومیوں کو کئی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اگست ۲،‏ ۲۱۶ ق.‏س.‏ع.‏ میں کینی کے مقام پر ہنی‌بال کی فوج نے صرف ۰۰۰،‏۶ آدمیوں کے نقصان پر تقریباً ۰۰۰،‏۷۰ دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور اپنی سے دُگنی ”‏رومی فوج کو انتہائی عبرتناک شکست دی۔‏“‏

روم پر فتح یقینی ہوتی جا رہی تھی!‏ تاہم،‏ ہمت نہ ہارتے ہوئے،‏ رومیوں نے اگلے ۱۳ برس کے لئے ہنی‌بال کے لشکروں کو مسلسل جھڑپوں سے تھکا دیا تھا۔‏ جب روم نے اپنی فوج کو افریقہ روانہ کِیا تو اتحادی کارتھیج کی مدد سے دست‌بردار ہو گئے لہٰذا اُسے سپین اور سسلی میں شکست ہو گئی۔‏ پس کارتھیج اپنے دفاع کے لئے ہنی‌بال کو دوبارہ بلانے پر مجبور ہو گیا۔‏ اگلے ہی سال ۲۰۲ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ رومی جرنیل سی‌پیو افریکانس نے کارتھیج کے جنوب‌مغرب میں زِیما کے مقام پر ہنی‌بال کی فوج کو شکست دی۔‏ پیونی شہر اپنے مسلح بحری بیڑے سے دست‌بردار ہونے پر مجبور ہو گیا،‏ اُسے فوجی خودمختاری دینے سے انکار کر دیا گیا اور ۵۰ سال تک اُسے بھاری تاوانِ‌جنگ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔‏ جہاں تک ہنی‌بال کا تعلق ہے تو وہ وہاں سے بھاگ گیا اور بعدازاں،‏ ۱۸۳ ق.‏س.‏ع.‏ میں خودکشی کر لی۔‏

‏”‏کارتھیج کو ختم ہو جانا چاہئے!‏“‏

امن کا دَور کارتھیج کیلئے اسقدر خوشحالی کا باعث ہوا کہ اُس نے محض دس سال میں اپنا تاوانِ‌جنگ ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کِیا۔‏ کارتھیج کے سنگدل دشمنوں نے ایسی صلاحیت نیز سیاسی اصلاحات کو انتہائی خطرناک خیال کِیا۔‏ ایک معمر رومی مدبّر کیٹو،‏ تقریباً دو سال تک،‏ یعنی اپنی وفات تک سینٹ کے سامنے اپنی ہر تقریر کے اختتام پر یہ نعرہ لگاتا:‏ ‏”‏ڈیلانڈا اسٹ کارتھیجو!‏“‏ جس کا مطلب ہے،‏ ”‏کارتھیج کو ختم ہو جانا چاہئے!‏“‏

بالآخر،‏ ۱۵۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں معاہدہ‌شکنی نے رومیوں کو ایک عذر فراہم کر دیا جس کی اُنہیں پہلے ہی تلاش تھی۔‏ ایک بار پھر جنگ شروع ہو گئی جسے ”‏اے وار آف ایکسٹرمی‌نیشن“‏ (‏جنگِ‌استیصال)‏ کا نام دیا گیا۔‏ تین سال تک رومیوں نے شہر سے ۳۰ کلومیٹر کی دُوری پر تعمیرکردہ فصیل کا محاصرہ کئے رکھا جس کا کچھ حصہ ۴۰ فٹ اُونچا تھا۔‏ انجام‌کار،‏ ۱۴۶ ق.‏س.‏ع.‏ میں دیوار میں رخنہ پڑ گیا۔‏ رومی لشکر گولابارود کے ساتھ تنگ گلیوں میں پیش‌قدمی کرتے ہوئے دست‌بدست قتلِ‌عام کرنے لگے۔‏ قدیم ریکارڈ کی تصدیق میں،‏ ماہرِاثریّات کو بکھرے ہوئے پتھروں کے نیچے سے انسانی ہڈیاں ملی ہیں۔‏

چھ خوفناک دنوں کے بعد،‏ بارس—‏پہاڑی پر واقع فصیل‌دار شہر—‏میں مقید تقریباً ۰۰۰،‏۵۰ بھوکےپیاسے شہریوں نے ہتھیار ڈال دئے۔‏ سزا اور غلامی سے انکار کرنے والے دیگر لوگوں نے اپنے آپ کو اکمون کے مندر میں بند کرکے اسے آگ لگا دی۔‏ شہر کے باقی حصے کو رومیوں نے نذرِآتش کر دیا اور یوں کارتھیج کو رسمی طور پر قابلِ‌نفرت اور ہر طرح کی آبادی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔‏

لہٰذا ۱۲۰ برس کے اندراندر روم نے کارتھیج کی شاہانہ تدابیر کو ملیامیٹ کر دیا۔‏ مؤرخ آرنلڈ ٹوئن‌بی نے بیان کِیا:‏ ”‏ہنی‌بال کی جنگ کا اصل مقصد یہ تھا کہ آیا آنے والی ہیلیانی عالمی طاقت کارتھیج کی سلطنت ہوگی یا رومی سلطنت۔‏“‏ انسائیکلوپیڈیا یونیورسالس تبصرہ کرتا ہے،‏ ”‏اگر ہنی‌بال کو فتح حاصل ہو جاتی تو اس نے بِلاشُبہ سکندرِاعظم جیسی عالمی طاقت کی داغ‌بیل ڈال دی ہوتی۔‏“‏ انجام‌کار،‏ پیونی جنگوں نے رومی استعماریت کی بنیاد ڈالی جوکہ بعدازاں ایک عالمی طاقت بن گیا۔‏

‏”‏افریقی روم“‏

کارتھیج کو بظاہر ناقابلِ‌تنسیخ خاتمے کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اس کے باوجود،‏ محض ایک صدی بعد ہی یولیس قیصر نے وہاں ایک نوآبادی قائم کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُسکی تعظیم‌وتکریم کے پیشِ‌نظر اس کا نام کولونیا یولیا کارتھیجو رکھا گیا۔‏ رومی انجینیئروں نے ٹیلے پر واقع اس شہر کو ہموار بنانے اور ماضی کے تمام نشانات مٹانے کیلئے تقریباً چار ملین کیوبک فٹ مٹی ڈالی۔‏ اس کے مندروں کی جگہ پُرشکوہ عوامی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔‏ مرورِزمانہ کیساتھ ساتھ،‏ کارتھیج کا شمار رومی سلطنت کے ’‏انتہائی امیرترین شہروں‘‏ اور مغرب میں روم کے بعد دوسرے بڑے شہر کے طور پر ہونے لگا۔‏ اس کے ۰۰۰،‏۰۰،‏۳ باشندوں کی تفریحی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس میں ایک تھیئٹر،‏ ایمفی‌تھیئٹر،‏ بڑے بڑے گرم حمام،‏ ۱۳۲ کلومیٹر کی ایک نہر اور ۰۰۰،‏۶۰ ناظرین کیلئے ایک سرکس تعمیر کی گئی۔‏

تقریباً دوسری صدی کے وسط میں یہاں مسیحیت نے پہنچ کر بڑی تیزی سے ترقی کی۔‏ معروف عالمِ‌دین اور مؤید،‏ ٹرٹولین تقریباً ۱۵۵ ق.‏س.‏ع.‏ میں کارتھیج میں پیدا ہوا۔‏ اُس کی تحریروں کی بدولت،‏ لاطینی مغربی چرچ کی سرکاری زبان بن گئی۔‏ تیسری صدی میں کارتھیج کے بشپ سائپرین کو جس نے ساتویں درجے کا مراتب‌وار رہبانہ نظام رائج کِیا تھا،‏ ۲۵۸ س.‏ع.‏ میں شہر کے اندر شہید کر دیا گیا۔‏ شمالی افریقہ کا ایک اَور آگسٹین (‏۳۵۴-‏۴۳۰ س.‏ع.‏)‏ جسے قدیم مسیحیت کا عظیم مفکر کہا جاتا ہے اُس نے بڑی عمدگی کے ساتھ چرچ کی تعلیمات کو یونانی فلسفے میں ضم کر دیا۔‏ شمالی افریقہ کے چرچ کا اثرورسوخ اتنا زیادہ تھا کہ ایک پادری نے بیان کِیا:‏ ”‏اَے افریقہ تُو ہی نے ہمارے ایمان کو لگن یا گرمجوشی سے روشناس کرایا ہے۔‏ تیرے ہر فیصلے کی روم تائید کرتا ہے اور دُنیا کے مذہبی پیشوا اُس پر عمل کرتے ہیں۔‏“‏

اس سب کے باوجود،‏ کارتھیج کے دن گنے جا چکے تھے۔‏ ایک بار پھر اُسکا مقدر روم سے وابستہ ہو گیا تھا۔‏ جب رومی سلطنت زوال‌پذیر ہوئی تو کارتھیج بھی ختم ہو گیا۔‏ سن ۴۳۹ س.‏ع.‏ میں،‏ ونڈالز نے اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اسے ملیامیٹ کر دیا۔‏ ایک صدی بعد جب بزنطینی شہر پر قابض ہو گئے تو اسکی تباہی کچھ عرصہ کیلئے ملتوی ہو گئی۔‏ تاہم یہ شمالی افریقہ کی جانب سے آنے والے عربوں کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔‏ سن ۶۹۸ س.‏ع.‏ میں شہر پر قبضہ کر لیا گیا اور بعدازاں اسکے پتھروں سے تیونس کے شہر کو تعمیر کِیا گیا۔‏ آنے والی صدیوں کے دوران جو سنگِ‌مرمر اور گرینائٹ کبھی رومی شہروں کی زینت ہوا کرتا تھا اُس پر قبضہ کرکے اُسے برآمد کِیا جانے لگا اور اسے اٹلی میں گوائنا اور پیسا کے کیتھیڈرلز اور شاید انگلینڈ میں کین‌ٹربری کی تعمیر میں استعمال کِیا گیا۔‏ عہدِپارینہ کا ایک امیرترین اور انتہائی طاقتور شہر ہونے کے باوجود جس نے دُنیا پر حکومت کی،‏ کارتھیج انجام‌کار ایک گم‌نام راکھ کا ڈھیر بن گیا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 نام فینیکی یونانی لفظ فونیکس سے مشتق ہے جسکا مطلب ”‏ارغوانی“‏ اور ”‏کھجور کا درخت ہے۔‏“‏ اسی سے لاطینی لفظ پوئنس نکلا جس سے ہمیں صفت ”‏پیونی“‏ بمعنی ”‏کارتھیجی“‏ حاصل ہوئی ہے۔‏

^ پیراگراف 16 کئی صدیوں پر محیط ایٹریا اور کارتھیج کے لوگوں کے مابین اس قریبی رشتے نے ارسطو کو یہ کہنے کی تحریک دی کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ قومیں تو دو ہیں مگر انکا ملک ایک ہی ہے۔‏ ایٹریا کے لوگوں کی بابت مزید معلومات کیلئے نومبر ۸،‏ ۱۹۹۷ کے اویک!‏ کے صفحہ ۲۴-‏۲۷ کو پڑھیں۔‏

^ پیراگراف 17 ‏”‏کارتھیج کے باشندوں نے کارتھیج کے گردونواح کے علاقے کو افریقہ کا نام دیا تھا۔‏ بعدازاں برّاعظم کے تمام دریافت‌شُدہ علاقے کو یہی نام دے دیا گیا۔‏ جب رومیوں نے اس علاقے کو رومی صوبہ بنا لیا تو اُنہوں نے اسکا نام تبدیل نہیں کِیا تھا۔‏“‏—‏ڈکشینری ڈی آئی اینٹیکیوٹی—‏میتھالوجی،‏ لٹریچر،‏ سولائزیشن۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

روم

بحیرۂ‌روم

کارتھیج (‏کھنڈرات)‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

رومی گرم حماموں کے باقیات

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

فینیکی بحری جہازوں کے ذریعے لبنانی صنوبر کی ترسیل

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Musée du Louvre, Paris

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

شیشے کے لاکٹ خوش‌بختی کے نشانوں کے طور پر پہنے جاتے تھے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Musée du Louvre, Paris

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

رومیوں کے ہاتھوں ۱۴۶ ق.‏س.‏ع.‏ میں تباہ ہونے والے کارتھیجی شہر کے کھنڈرات

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Musée du Louvre, Paris

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

ہنی‌بال کا شمار عظیم فوجیوں میں ہوتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

کارتھیجی بُری روحوں سے بچنے کیلئے قبروں میں تدفینی ماسک رکھ دیا کرتے تھے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

بچوں کی قربانی کنعانی پرستش کا حصہ تھی جو کارتھیجیوں کو ورثے میں ملی تھی۔‏ یہ قربان کئے جانے والے بچے کی قبر کا نشان ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Alinari/Art Resource, NY