دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
برساتی جنگلات
ایک عام رائے تھی کہ انڈیا میں کیرالا کی جنوبی ریاست ہی برساتی جنگلات کا علاقہ ہے۔ تاہم نئی دہلی کا رسالہ ڈاؤن ٹو ارتھ بیان کرتا ہے کہ حال ہی میں ماہرِماحولیات سومیادیپ دتا نے آسام کی شمالمشرقی ریاستوں اور ارناچل پردیش کے درمیان ایک ۵۰۰ مربع کلومیٹر پر محیط برساتی جنگل دریافت کِیا ہے۔ اس جنگل میں کئی طرح کی حیوانی زندگی پائی جاتی ہے—”جس میں ۳۲ اقسام کے ممالیات اور ۲۶۰ اقسام کے پرندوں کے علاوہ ہاتھی، شیر، بوقلمون چیتا، چینی پینگولن، بھالو، سامبر، ہولاک لنگور، تیتر، ابوقرن اور جنگلی مرغابیاں بھی شامل ہیں۔“ تاہم، ڈاؤن ٹو ارتھ کے مطابق جنگلاتی مصنوعات کی بینالاقوامی مانگ کئی برساتی جنگلات کیلئے خطرہ ہے۔ طبیعی علوم کے بعض ماہرین اس اندیشے کا اظہارکرتے ہیں کہ حد سے زیادہ کٹائی کے ذریعے ایسی مصنوعات کے ذخائر کم ہو جانے کی صورت میں برساتی جنگلات کو محفوظ نہیں رکھا جا سکے گا بلکہ یہ زرعی استعمال میں آ جائیں گے۔
شیر کی دھاڑ
شیر کی دھاڑ نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں کو بھی کیوں خوفزدہ کر دیتی ہے؟ شمالی کیرولینا، یو.ایس.اے. میں فونا کمیونیکیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے ”دریافت کِیا ہے کہ شیر انتہائی ہلکے تعدد ’انفراساؤنڈ‘ کی آواز نکالتا ہے، ایسی گرج جو اسقدر دھیمی ہوتی ہے کہ انسانوں کو سنائی نہیں دیتی،“ لندن کا دی سنڈے ٹیلیگراف بیان کرتا ہے۔ انسان صرف ۲۰ ہرٹز سے اُونچی صوتی لہریں سن سکتے ہیں مگر شیر ”کی دھاڑ ۱۸ ہرٹز پر سنائی دیتی ہے تاہم اُسکی گرجنے کی آواز اس سے بھی دھیمی“ ہوتی ہے اور اس انسٹیٹیوٹ کی صدر الزبتھ مگنتھیلر کے مطابق اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان درحقیقت شیر کی دھاڑ کو محسوس کر سکتے ہیں ایک ایسا احساس جو عارضی طور پر جسم کو سُن کر دیتا ہے۔ عرصۂدراز سے شیروں کو تربیت دینے والوں کے تجربہ میں یہ بات آئی ہے۔
آتشگیر مادے سے گوشت گلانا
باورچی عموماً سخت گوشت کو نرم کرنے کے لئے باورچی خانے کے موگرے یا کسی ایسے پاؤڈر کا استعمال کرتے ہیں جس میں گوشت گلانے والے خامرے ہوتے ہیں۔ تاہم نیو سائنٹسٹ رسالہ بیان کرتا ہے کہ یو.ایس.اے.، میریلینڈ میں محققین نے طاقتور تصادمی موجوں سے گوشت گلانے کے طریقے پر تجربات کئے ہیں۔ محققین گوشت کو ایک سٹیل کی پلیٹ میں ڈال کر پانی سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے گاربج کین میں رکھ دیتے ہیں۔ اسکے بعد وہ اس ڈبے میں ایک لمبی پتلی ڈنڈی کی صورت میں ڈائنامائٹ کا ایک چوتھائی حصہ ڈال کر دھماکا کرتے ہیں۔ ”ڈبے میں موجود پانی گوشت کے اندر تصادمی موج منتقل کرتا ہے،“ رپورٹ بیان کرتی ہے، ”لیکن دھماکے سے کوڑاکرکٹ کا ڈبہ ریزہریزہ ہو جاتا ہے۔“ یہ عمل گوشت نرم کرنے کے علاوہ، ای. کولائی جیسے بکٹیریا بھی مار دیتا ہے جو فوڈ پوائزننگ کا باعث بن سکتے ہیں۔ تاہم جیساکہ امریکن میٹ انسٹیٹیوٹ سے رینڈی ہفمین بیان کرتا ہے: ”اس عمل کو روزمرّہ زندگی میں متعارف کرانا واقعی ایک حقیقی چیلنج پیش کریگا۔“
بحری جہاز بیماری پھیلاتے ہیں
لندن کا دی ڈیلی ٹیلیگراف بیان کرتا ہے، ”جہاز کے پیندے میں موجود پانی دُنیابھر میں بیماری پھیلا رہا ہے نیز انسانی، نباتاتی اور حیواناتی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔“ یہ پانی جہاز کے پیندے میں بھر دیا جاتا ہے تاکہ جہاز مستحکم رہے اور پھر اسے سمندر یا عارضی قیام کے لئے بنی بندرگاہوں میں بہا دیا جاتا ہے۔ ریاستہائےمتحدہ، میریلینڈ میں سمتھسونین انوائرمینٹل ریسرچ سینٹر کے محققین نے دریافت کِیا ہے کہ جہاز کو مستحکم رکھنے کے لئے جو پانی اس میں بھر دیا جاتا ہے اس میں لاتعداد بکٹیریا اور وائرس پائے جاتے ہیں۔ خلیج چزاپیک میں جن ۱۵ جہازوں میں بھرے پانی پر تحقیق کی گئی ان میں سے ہر ایک میں ہیضے کا سبب بننے والے بکٹیریا موجود تھے۔ اس پانی کے ایک لیٹر میں دیگر نامیاتی اجسام کی نسبت تقریباً ۸۳۰ ملین بکٹیریا اور ۴۰۰،۷ ملین وائرس موجود تھے۔
بہت زیادہ کھلونے
لندن کا دی سنڈے ٹائمز رپورٹ دیتا ہے، ”حالیہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ بچوں کو بہت زیادہ کھلونے اور گیمز دینے کی وجہ سے وہ مناسب کھیل کھیلنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔“ اس تحقیق کا محرک برطانیہ کے اندر پایا جانے والا یہ اندیشہ تھا کہ ”والدین بچوں کیساتھ وقت گزارنے کی بجائے اُنہیں کھلونے، کمپیوٹرز اور ٹیلیویژن فراہم کرنے سے ان کے بچپن میں ایک دائمی تبدیلی پیدا کر رہے ہیں۔“ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھی سلوا نے تین سے پانچ سال کے ۰۰۰،۳ بچوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بیان کِیا: ”جب ان کے پاس بہت سے کھلونے ہوتے ہیں توپھر ان میں انتشار کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے اور جب بچے انتشار میں پڑ جاتے ہیں تو وہ اچھی طرح سیکھنے یا کھیلنے میں ناکام رہتے ہیں۔“
جائےملازمت پر ڈپریشن
لندن کا دی گارڈین رپورٹ پیش کرتا ہے، ”جائےملازمت پر . . . پریشانی، تھکاوٹ اور ڈپریشن میں اضافہ قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔“ یواین انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، برطانیہ میں ہر ۱۰ میں سے ۳ ملازم ذہنی امراض کا تجربہ کر رہے ہیں اور ریاستہائےمتحدہ میں ہر ۱۰ میں سے ۱ کارکن ڈپریشن میں مبتلا ہے۔ جرمنی میں تقریباً ۷ فیصد قبلازوقت ریٹائرمنٹ کا سبب ڈپریشن ہے۔ فنلینڈ کے نصف سے زائد کارندے ذہنی دباؤ سے وابستہ علامات میں مبتلا ہیں۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے پولینڈ میں ۱۹۹۹ کے سال میں ذہنی پریشانی میں ۵۰ فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ خودکشی کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ پیشگوئی کرتی ہے کہ جائےملازمت پر نئی ٹیکنالوجی اور انتظامی طریقۂکار میں مستقل تبدیلی کیساتھ ساتھ ڈپریشن میں حیرتانگیز اضافے کی توقع ہے۔ نیز یہ خبردار کرتی ہے کہ ”۲۰۲۰ تک دباؤ اور ذہنی بیماریاں کام پر غیرحاضری کی بنیادی وجوہات جیساکہ سڑک پر حادثات، ایڈز اور تشدد پر سبقت لے جائینگی۔“
جرائم میں غیرمعمولی اضافہ
لندن کے دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق، ”انگلینڈ اور ویلز میں جرائم کی وجہ سے معاشرے کو ہر سال ۶۰ بلین پونڈ [۸۵ بلین ڈالر] کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔“ ہوم آفس کے مطابق یہ اعدادوشمار محتاط تخمینے پر مبنی ہیں اور قوم کی کُل مقامی پیداوار کے ۷.۶ فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خون اور قتلِعام نسبتاً سب سے زیادہ مہنگے جرائم ہیں اور ملک کو ان پر انفرادی طور پر اوسطاً ۱ ملین پونڈ [۴.۱ ملین ڈالر] کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ تشدد کے دیگر سنگین جرائم پر انفرادی طور پر اوسطاً ۰۰۰،۱۹ پونڈ [۰۰۰،۲۷ ڈالر] کا نقصان ہوتا ہے۔ کُل رقم کا تقریباً ایک تہائی حصہ فراڈ اور جعلسازی پر برباد ہو جاتا ہے۔ اخبار مزید بیان کرتا ہے کہ ان اعدادوشمار میں ”جرم کے خوف، متاثر ہونے والے اشخاص کے خاندانوں پر اسکا اثر، جرائم کی روکتھام کیلئے خرچ ہونے والا سرکاری پیسہ . . . یا انشورنس کے مطالبوں کی رقم“ شامل نہیں ہے۔
جڑیبوٹیاں کیڑےمار ادویات سے بہتر ہیں
نیو سائنٹسٹ رسالے کی رپورٹ کے مطابق، مشرقی افریقہ کے کسان اپنی مکئی کی فصل کو بہتر بنانے کیلئے کیڑےمار ادویات استعمال کرنے کی بجائے جڑیبوٹیاں اُگا رہے ہیں۔ مشرقی افریقہ میں مکئی کے کاشتکاروں کو دو قسم کے موذی کیڑوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک طفیلی پودا سٹریگا ہے جو سالانہ ۱۰ بلین ڈالر کی مالیت کی مکئی کی فصل کو تباہ کر دیتا ہے۔ کینیا کے محقق زیدین خان نے دریافت کِیا ہے کہ مکئی کی فصلوں کے درمیان اگر ڈیسموڈیم نامی جڑیبوٹی بو دی جائے تو پھر سڑیگا نہیں اُگتا۔ دوسرا لکڑی کے کیڑے کی سنڈی ہے جو بیشتر سالوں میں مکئی کی فصل کا ایک تہائی حصہ چٹ کر جاتی ہے۔ تاہم خان نے دریافت کِیا ہے کہ لکڑی کے کیڑے ایک مقامی جڑیبوٹی کھانا پسند کرتے ہیں جسے نےپیئر گراس کہتے ہیں۔ اس جڑیبوٹی کو اپنے کھیتوں میں بونے سے کسان حشرات کو مکئی کی فصل سے دُور رکھتے ہیں۔ گراس ایک چپکنے والا مادہ پیدا کرتی ہے جس میں یہ سنڈیاں پھنس کر مر جاتی ہیں۔ خان بیان کرتا ہے، ”یہ کیڑےمار ادویات سے بہتر بھی ہے اور سستی بھی۔ اسکی بدولت فصل کی پیداوار میں ۶۰ سے ۷۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔“
ماہرِاَثریات کا فریب
جاپان کا ایک مشہور ماہرِاَثریات جسے بظاہر اُس کی حیرانکُن دریافتوں کی وجہ سے اعلیٰترین حافر (ڈیوائن ڈِگر) کا خطاب دیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ فریبی ہے۔ اخبار مائنیچی شمبن کی طرف سے لگائے گئے ایک ویڈیو کیمرے نے کھدائی کیلئے آنے والی ٹیم کے وہاں پہنچنے سے پہلے اس ماہرِاَثریات کی اُس اَثریاتی جگہ پر جا کر کچھ پتھر کی مصنوعات چھپاتے ہوئے تصویر بنا لیں۔ اس ثبوت کو جھٹلانا ناممکن تھا لہٰذا ماہرِاَثریات نے تسلیم کِیا کہ وہ اپنی جمعکردہ چیزوں میں سے کچھ زمین میں چھپا دیا کرتا تھا۔ اب اسکے ۳۰ سالہ کام کے تمام نتائج کا تنقیدی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ نتیجتاً کتابوں کے پبلشرز آثارِقدیمہ کے متعلق کتابوں اور سکول کی درسی کتابوں پر دوبارہ نظرثانی کی بابت غور کر رہے ہیں۔
بچپن کے حادثات
اقوامِمتحدہ کے بچوں کی امداد کے اِدارے (یونیسیف) کے ۲۶ ممالک پر مبنی ایک مطالعہ کے مطابق، دُنیا کے امیرترین ممالک میں بچوں کی اموات کی بنیادی وجہ حادثات ہیں۔ جاپان کا مائنیچی ڈیلی نیوز رپورٹ پیش کرتا ہے کہ ”جن ممالک کا مطالعہ کِیا گیا وہاں ۱ سے ۱۴ سالہ بچوں میں کوئی ۴۰ فیصد اموات چوٹیں لگنے سے واقع ہوتی ہیں“ جسکا مطلب ہے کہ یہ ہر سال تقریباً ۰۰۰،۲۰ اموات کا باعث بنتی ہیں۔ بچپن میں چوٹ لگنے کے امکانات بڑھانے والے عناصر میں غربت، بچوں کی تنہا پرورش کرنے والے والدین، بڑے خاندان اور منشیات کا غلط استعمال کرنے والے والدین شامل ہیں۔ یونیسیف نے تاکید کی کہ ”زندگی بچانے والے ان آزمودہ طریقوں: خود، گنجانآباد علاقوں میں حدِرفتار، گاڑیوں میں بچوں کیلئے حفاظتی نشستیں، حفاظتی بند، بچوں کی حفاظت کیلئے ادویات کی بوتلوں پر مضبوط ڈھکنے، گھروں میں سموک ڈیٹیکٹرز [دھوئیں کی نشاندہی کرنے والے آلات] اور کھیل کے میدان میں حفاظتی تدابیر“ پر توجہ دی جانی چاہئے۔