مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تنوع—‏زندگی کیلئے ضروری

تنوع—‏زندگی کیلئے ضروری

تنوع—‏زندگی کیلئے ضروری

آئرلینڈ کی آبادی ۱۸۴۰ میں آٹھ ملین سے تجاوز کر گئی جس کی وجہ سے یہ یورپ کا سب سے گنجان‌آباد ملک بن گیا۔‏ آلو یہاں کی عام غذا تھی اور لم‌پرز کہلانے والی ایک خاص قسم سب سے زیادہ کاشت کی جاتی تھی۔‏

کسانوں نے ۱۸۴۵ میں معمول کے مطابق لم‌پرز کاشت کئے مگر پت‌روگ نے پوری کی پوری فصل تباہ کر دی۔‏ پول ریبرن نے اپنی کتاب دی لاسٹ ہاروسٹ—‏دی جنیٹک گیمبل دیٹ تھریٹنز ٹو ڈسٹروئے امریکن ایگریکلچر میں لکھا،‏ ”‏اس کٹھن سال میں آئرلینڈ کا بیشتر حصہ نقصان سے بچ گیا۔‏ تاہم تباہی اگلے سال آئی۔‏ کسانوں کے پاس آلوؤں کی وہی قسم بونے کے علاوہ اَور کوئی چارہ نہیں تھا۔‏ ان کے پاس دوسری قسمیں نہیں تھیں۔‏ پت‌روگ نے اس بار پہلے سے کہیں زیادہ تباہ‌کُن حملہ کِیا۔‏ یہ مصیبت واقعی ناقابلِ‌بیان تھی۔‏“‏ مؤرخین کے اندازے کے مطابق تقریباً ۱ ملین لوگ فاقہ‌کشی سے مر گئے جبکہ ۵.‏۱ ملین نقل‌مکانی کر گئے جن میں سے بیشتر نے ریاستہائےمتحدہ کا رُخ کِیا۔‏ باقیماندہ لوگ افلاس کی زد میں آ گئے۔‏

جنوبی امریکہ کے اینڈیز میں کسان آلوؤں کی کئی قسمیں کاشت کرتے تھے اور ان میں سے صرف چند پت‌روگ سے متاثر ہوئیں۔‏ لہٰذا،‏ اس سے کوئی مصیبت برپا نہ ہوئی۔‏ واضح طور پر اقسام اور ذیلی اقسام میں تنوع باعثِ‌تحفظ ہوتا ہے۔‏ صرف ایک قسم کی فصل اُگانا بقا کے اس بنیادی عمل کے برخلاف ہے اور نباتات کو بیماری یا کیڑےمکوڑوں سے نقصان کے خطرے سے دوچار کر دیتا ہے اور نتیجتاً پورے علاقے کی پیداوار تباہ ہو سکتی ہے۔‏ اسی وجہ سے کسان کیڑےمار،‏ جڑی‌بوٹیوں کے خاتمے اور فطرکش ادویات کے باقاعدہ استعمال پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں حالانکہ یہ کیمیائی مرکبات اکثر ماحولیاتی نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں۔‏

پس کسان کئی عام اقسام کی بجائے ایک قسم کی فصل کیوں بوتے ہیں؟‏ اسکی وجہ اکثر معاشی مشکلات ہوتی ہیں۔‏ ایک قسم کی فصل کاشت کرنا کٹائی میں آسانی،‏ معیار میں بہتری،‏ پیداواری نقصان کے خطرے سے تحفظ اور مقدار میں اضافے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔‏ یہ عمل ۱۹۶۰ میں زرعی انقلاب کہلانے والے دَور میں بہت زیادہ مقبول ہو گیا تھا۔‏

زرعی انقلاب

بڑی سرکاری اور تجارتی مہمات کے ذریعے ایسے علاقوں کے کسانوں کو مختلف اقسام کی بجائے بالخصوص چاول اور گندم جیسی زیادہ پیداوار پر مشتمل ایک ہی قسم کی فصل بونے کے لئے حوصلہ‌افزائی دی گئی جہاں قحط کا خطرہ ہوتا تھا۔‏ اس ”‏معجزاتی“‏ اناج کو دُنیا کی بھوک مٹانے کا حل خیال کِیا گیا۔‏ تاہم یہ سستے نہیں تھے—‏بیج کے دام عام قیمت سے تین گُنا زیادہ تھے۔‏ بڑی حد تک پیداوار کا انحصار کیمیاوی کھادوں سمیت کیمیاوی ادویات اور ٹریکٹر جیسے قیمتی آلات پر بھی تھا۔‏ تاہم،‏ حکومتی عطیات کے ذریعے زرعی انقلاب نے بہت جلد شہرت حاصل کر لی۔‏ ریبرن کے مطابق،‏ ”‏اگرچہ اس نے ہزاروں لوگوں کو فاقہ‌کشی سے بچا لیا توبھی یہ اب دُنیا کی غذائی رسد کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہے۔‏“‏

درحقیقت زرعی انقلاب نے شاید دائمی نقصانات کا خطرہ مول لے کر عارضی فوائد پہنچائے ہیں۔‏ فصل کی یکسانیت بہت جلد تمام برّاعظموں میں عام ہوگئی جبکہ کیمیاوی کھادوں کے شدید استعمال سے جڑی‌بوٹیوں کی پیداوار بڑھ گئی اور کیڑےمار ادویات نے مفیدومُضر دونوں طرح کے کیڑےمکوڑوں کو مار ڈالا۔‏ چاول کی فصلوں پر زہریلے کیمیاوی مادوں کے چھڑکاؤ نے مچھلیوں،‏ جھینگوں،‏ کیکڑوں،‏ مینڈکوں اور خوردنی جڑی‌بوٹیوں اور جنگلی پودوں کو تباہ کر دیا جن میں سے بہتیرے ضمنی خوراک کا اہم ذریعہ تھے۔‏ کیمیاوی مرکبات کے استعمال سے کسانوں کو بھی زہر سے نقصان پہنچا۔‏

برطانیہ میں بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ آف دی اوپن یونیورسٹی کے اُستاد ڈاکٹر مےوان ہو نے لکھا:‏ ”‏یہ بات اب ناقابلِ‌تردید ہے کہ ’‏زرعی انقلاب‘‏ کے دوران متعارف کی گئی ایک ہی قسم کی فصلوں نے دُنیابھر میں حیاتیاتی تنوع اور غذائی رسد پر بُرا اثر ڈالا ہے۔‏“‏ یواین فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق،‏ ایک صدی پہلے کاشت کئے جانے والے پودوں میں موجود ۷۵ فیصد جینیاتی تنوع بالخصوص صنعتی طریقہ‌ہائےزراعت کے باعث اب ختم ہو چکا ہے۔‏

ورلڈواچ انسٹیٹیوٹ کا شائع‌کردہ ایک کتابچہ آگاہ کرتا ہے کہ ”‏جینیاتی یکسانیت کو اپنانے سے ہم وسیع ماحولیاتی خطرات مول لے رہے ہیں۔‏“‏ اِن خطرات پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟‏ زرعی سائنسدان اور ذی‌اثر کیمیاوی مرکبات کے علاوہ کسانوں کو سرمایہ‌کاری کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔‏ تاہم،‏ کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔‏ جینیاتی یکسانیت ریاستہائےمتحدہ میں پت‌روگ سے مکئی کی فصل کی تباہی اور انڈونیشیا میں نصف ملین ایکڑ چاول کی پیداوار کو نقصان پہنچانے کا باعث بنی۔‏ تاہم،‏ حالیہ سالوں میں کاشتکاری میں ایک نیا انقلاب رونما ہوا ہے جو ایک بنیادی عنصر یعنی جین میں ردوبدل لانے سے زندگی کو متاثر کرتا ہے۔‏

جینیاتی انقلاب

جینیاتی مطالعے نے ایک منافع‌بخش نئی صنعت کو متعارف کرایا ہے جسے حیاتیاتی ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔‏ جیساکہ نام سے ظاہر ہے،‏ یہ عمل جنیٹک انجینیئرنگ جیسی تکنیک کے ذریعے حیاتیات اور جدید ٹیکنالوجی کو ہم‌آہنگ کرتا ہے۔‏ بعض نئے بائیوٹیک ادارے زراعت میں مہارت رکھتے ہیں اور زیادہ پیداوار دینے،‏ بیماری،‏ خشک‌سالی اور انجماد کی مزاحمت کرنے اور نقصاندہ کیمیاوی مرکبات کی ضرورت کو کم کرنے والے پیٹنٹ سیڈز ایجاد کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‏ ایسی کامیابیوں کا حصول نہایت فائدہ‌مند ثابت ہوگا۔‏ تاہم بعض لوگوں نے جنیٹک انجینیئرنگ کے ذریعے پیدا کی جانے والی فصلوں کی بابت تشویش کا اظہار کِیا ہے۔‏

کتاب جنیٹک انجینیئرنگ،‏ فوڈ اینڈ آور انوائرمنٹ بیان کرتی ہے،‏ ”‏فطرت میں جینیاتی تنوع کی کچھ حدود مقرر ہیں۔‏ ایک گلاب کسی دوسری نسل کے گلاب کیساتھ پیوند کِیا جا سکتا ہے مگر آلو کیساتھ اسے پیوند کرنا ناممکن ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اسکے برعکس جنیٹک انجینیئرنگ میں ایک خاص خصوصیت یا خوبی کو منتقل کرنے کیلئے ایک قسم کے جینز کو کسی دوسری قسم میں شامل کِیا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اس عمل میں ایک قطبی مچھلی (‏جیساکہ فلاؤنڈر)‏ سے ایسا جین منتخب کیا جا سکتا ہے جو مانعِ‌انجماد کی خصوصیات کا حامل کیمیاوی مرکب بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور پھر اُسے آلو یا سٹرابیری میں شامل کِیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی انجماد کی مزاحمت کرنے کے قابل بن جائے۔‏ اب بیکٹریا،‏ وائرس،‏ کیڑےمکوڑوں،‏ جانوروں اور انسانوں میں سے لئے جانے والے جینز سے پودوں میں ردوبدل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔‏“‏ * الغرض،‏ بائیوٹیکنالوجی سے اب انسان متعدد اقسام کو جُدا کرنے والی جنیٹک حدود کو پار کر گیا ہے۔‏

زرعی انقلاب کی طرح ’‏جینیاتی انقلاب‘‏ بھی جینیاتی یکسانیت کے مسئلے کو بڑھاتا ہے—‏بعض کے خیال میں یہ مسئلہ اَور بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ماہرینِ‌جینیات اب کلوننگ (‏قلم‌کاری)‏ اور ٹشو کلچر (‏نسیج پروری)‏ جیسی تکنیکیں استعمال کرنے سے ہوبہو نقل تیار کر سکتے ہیں۔‏ پس حیاتیاتی تنوع ختم ہونے کی بابت فکرمندی اب بھی قائم ہے۔‏ تاہم جینیاتی ردوبدل والے پودے نئے مسائل پیدا کرتے ہیں جیساکہ ہماری صحت اور ماحول پر انکے اثرات۔‏ ”‏ہم بڑی اُمیدوں،‏ معمولی رکاوٹوں اور مستقبل کے نتائج کی بابت بےبہرہ ہو کر بڑی تیزی سے زرعی حیاتیاتی ٹیکنالوجی کے نئے دَور میں قدم رکھ چکے ہیں،‏“‏ سائنسی مصنف جیریمی رِف‌کن نے بیان کِیا۔‏ *

اس کے برعکس،‏ جینیاتی ردوبدل سے زندگی میں تبدیلی لانے کی طاقت کے فوائد بیش‌قیمت ہیں لہٰذا نئے پیٹنٹ سیڈز ایجاد کرنے اور دیگر نامیاتی اجسام میں ردوبدل کے لئے مقابلہ‌بازی زوروں پر ہے۔‏ اسی دوران،‏ نباتات لگاتار ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔‏ جیساکہ پہلے بیان کِیا گیا تھا اس تباہی کو روکنے کے لئے بعض حکومتی اور نجی اداروں نے سیڈ بینک قائم کئے ہیں۔‏ کیا یہ بینک آئندہ نسلوں کو کاشتکاری اور کٹائی کے لئے مختلف اقسام کے بیج فراہم کر سکیں گے؟‏

سیڈ بینک—‏ناپیدگی سے بچاؤ کی ضمانت؟‏

انگلینڈ،‏ کیو میں دی رائل بوٹینک گارڈنز نے ایک ایسے منصوبے کا آغاز کِیا ہے جسے اُنہوں نے ”‏سب سے بڑا حفاظتی منصوبہ“‏—‏ملینیئم سیڈ بینک پروجیکٹ—‏قرار دیا ہے۔‏ اس پروجیکٹ کے بنیادی مقاصد یہ ہیں (‏۱)‏ سن ۲۰۱۰ تک پوری دُنیا میں موجود بیج‌دار نباتات کے ۱۰ فیصد حصے—‏۰۰۰،‏۲۴ سے زائد اقسام—‏کو جمع کرکے محفوظ کرنا اور (‏۲)‏ اس سے کافی پہلے پورے برطانیہ کے مقامی بیج‌دار نباتات کے بیج کو جمع کرکے انہیں محفوظ کرنا۔‏ دوسرے ممالک نے بھی سیڈ بینک قائم کئے ہیں جنہیں بعض‌اوقات جین بینک بھی کہا جاتا ہے۔‏

ماہرِحیاتیات جان ٹک‌سل بیان کرتا ہے کہ سیڈ بینک میں جمع کئے گئے لاکھوں بیجوں میں سے کم‌ازکم ۹۰ فیصد اہم غذائی اور کارآمد نباتات کے بیج ہیں جن میں سے چند گندم،‏ چاول،‏ مکئی،‏ جوار،‏ آلو،‏ پیاز،‏ لہسن،‏ گنا،‏ کپاس،‏ سویابین وغیرہ کے بیج ہیں۔‏ تاہم بیج جاندار نامیاتی اجسام ہیں جو اُس وقت تک کارآمد ثابت ہوتے ہیں جب تک انکے اندر موجود توانائی قائم رہتی ہے۔‏ لہٰذا سیڈ بینک کتنے قابلِ‌اعتبار ہیں؟‏

بینک کی مشکلات

ٹک‌سل کے مطابق،‏ سیڈ بینک چلانے کے لئے کافی رقم درکار ہے—‏ان کے سالانہ اخراجات تقریباً ۳۰۰ ملین ڈالر ہوتے ہیں۔‏ وہ مزید بیان کرتا ہے کہ یہ رقم بھی شاید کافی نہیں کیونکہ ”‏جین بینک کے صرف ۱۳ فیصد بیج طویل‌المیعاد ذخیرہ‌اندوزی کی بہتر سہولیات اور انتظامات کیساتھ محفوظ کئے گئے ہیں۔‏“‏ صحیح طرح سے ذخیرہ نہ کئے جانے والے بیج زیادہ دیر زندہ نہیں رہتے اسلئے انہیں جلد بونا پڑتا ہے تاکہ بیجوں کی اگلی نسل کاشت کی جا سکے ورنہ سیڈ بینک بیجوں کے قبرستان بن جاتے ہیں۔‏ واقعی،‏ اس کام میں زیادہ مزدوروں اور سرمایے کی ضرورت پڑتی ہے جسکی وجہ سے محدود وسائل والے بینکوں کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔‏

کتاب سیڈز آف چینج—‏دی لوِنگ ٹریژر وضاحت کرتی ہے کہ نیشنل سیڈ سٹورج لیبارٹری کولوراڈو،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ نے ”‏بجلی کی کمی اور ریفریجریشن کے ٹوٹے ہوئے آلات اور مزدوروں کی کمی سمیت متعدد مشکلات کا سامنا کِیا ہے جس کے باعث ڈھیروں بیجوں کی شناخت اور درجہ‌بندی ناممکن ہو گئی ہے۔‏“‏ سیڈ بینک سیاسی انقلابات،‏ معاشی تنزلی اور قدرتی آفات سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔‏

طویل‌المیعاد ذخیرہ‌اندوزی دوسرے مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔‏ نباتات اپنے قدرتی ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی محدود مگر اہم صلاحیت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بیماری اور دیگر چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔‏ لیکن ایک سیڈ بینک کے محفوظ ماحول میں کچھ پُشتوں بعد وہ مطابقت پیدا کرنے کی یہ خوبی کھو سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ بہتیرے پودوں کے محفوظ کئے گئے بیج صدیوں بعد بھی دوبارہ بوئے جا سکتے ہیں۔‏ ایسی بندشوں اور بےثبات حالتوں کے باوجود سیڈ بینکوں کی موجودگی نوعِ‌انسان کے لئے مستقبل میں خوراک فراہم کرنے والی فصلوں کی بابت بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتی ہے۔‏

واقعی ناپیدگی کو کم کرنے کا بہترین طریقہ نباتات کے قدرتی ماحول کو محفوظ رکھنا اور فصلوں میں تنوع کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔‏ تاہم ٹک‌سل کے مطابق،‏ ایسا کرنے کیلئے ہمیں ”‏انسانوں اور قدرت کی ضروریات کے درمیان ایک نیا توازن پیدا“‏ کرنا ہوگا۔‏ تاہم یہ خیال کسقدر حقیقت‌پسندانہ ہے کہ انسان صنعتی اور معاشی ترقی کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے قدرت کے ساتھ ”‏ایک نیا توازن“‏ پیدا کریں گے؟‏ جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ زراعت کا شعبہ بھی اب منافع‌بخش تجارتی اور تکنیکی دُنیا کا حصہ بن گیا ہے۔‏ اس کا حل کچھ اَور ہی ہوگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 13 انسانوں اور جانوروں کی صحت اور ماحول پر جینیاتی ردوبدل والی خوراک کے ممکنہ اثر کی بابت مختلف نظریات ابھی بھی زیرِبحث ہیں۔‏ بالکل فرق نامیاتی اجسام میں جینز کے اختلاط پر بعض لوگوں نے اخلاقی اعتراضات اُٹھائے ہیں۔‏—‏جولائی–‏ستمبر ۲۰۰۰ کے جاگو!‏ میں صفحہ ۱۶-‏۱۸ کا مطالعہ کریں۔‏

^ پیراگراف 14 نیو سائنٹسٹ رسالہ رپورٹ پیش کرتا ہے کہ یورپ کے چقندر ”‏جن میں ایک خاص نباتات‌کش دوا کی مزاحمت کرنے کے لئے جینیاتی ردوبدل کِیا گیا تھا ان میں غلطی سے کسی دوسری دوا کی مزاحمت کرنے والے جینز شامل ہو گئے ہیں۔‏“‏ یہ جین اُس وقت چقندروں میں داخل ہو گئے جب کسی اَور نباتات‌کش دوا کی مزاحمت کرنے کیلئے تیارکردہ چقندر کے زرگل غلطی سے اِن میں منتقل ہو گئے۔‏ بعض سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ نباتات‌کش دوا کی مزاحمت کرنے والی فصلیں ایسی طاقتور جڑی‌بوٹیوں کو پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں جن پر ان ادویات کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس/‏تصویر]‏

کسان ’‏ناپیدگی کے خطرے‘‏ میں؟‏

”‏سن ۱۹۵۰ سے تمام صنعتی اقوام میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے اور بعض علاقوں میں یہ کمی ۸۰ فیصد سے بھی زیادہ ہے،‏“‏ ورلڈ واچ جریدہ بیان کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ریاستہائےمتحدہ میں قیدیوں کی تعداد کسانوں سے زیادہ ہے۔‏ لوگ یہ پیشہ کیوں چھوڑ رہے ہیں؟‏

اسکے بنیادی عناصر آمدنی میں کمی،‏ زرعی قرضوں،‏ غربت اور میکانی طریقوں میں اضافہ ہے۔‏ سن ۱۹۱۰ میں ریاستہائےمتحدہ کا ہر خریدار اپنی خوراک پر جو رقم خرچ کرتا تھا اُسکی مناسبت سے ہر ڈالر پر کسانوں کو تقریباً ۴۰ سینٹ ملتے تھے لیکن ۱۹۹۷ تک یہ شرح گِر کر تقریباً ۷ سینٹ رہ گئی۔‏ ورلڈ واچ کے مطابق،‏ گندم کے کاشتکار کو ”‏روٹی پر خرچ کئے جانے والے ایک ڈالر پر صرف ۶ سینٹ ملتے ہیں۔‏“‏ اس کا مطلب ہے کہ خریدار کسان کو اس کی گندم کے لئے اتنے ہی پیسے دیتے ہیں جتنے وہ روٹی کے ریپر پر خرچ کرتے ہیں۔‏ ترقی‌پذیر ممالک میں کسانوں کی حالت اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔‏ آسٹریلیا یا یورپ کا ایک کسان کسی بُرے سال کے دوران صورتحال سے نپٹنے کیلئے بینک سے قرضہ لے سکتا ہے تاہم مغربی افریقہ کے کسان کو یہ موقع بھی نہیں ملتا۔‏ اُسے تو شاید اپنی جان کے لالے پڑ جائیں۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

‏”‏’‏زرعی انقلاب‘‏ کے دوران متعارف کی گئی یک‌جنسی فصلوں نے دُنیابھر میں حیاتیاتی تنوع اور غذائی تحفظ پر بُرا اثر ڈالا ہے۔‏“‏—‏ڈاکٹر مےوان ہو

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Background: U.S. Department of Agriculture

‏(Centro Internacional de Megoramiento de Maiz y Trigo )‎CIMMYT‎

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویریں]‏

انگلینڈ کا ملینیئم سیڈ بینک بیش‌قیمت پودوں کے بیج محفوظ کر رہا ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Trustees of Royal Botanic Gardens, Kew ©