نیوگرنج—سوال زیادہ جواب کم؟
نیوگرنج—سوال زیادہ جواب کم؟
آئرلینڈ سے جاگو! کا رائٹر
ابتدائی آئرش ادب میں، اس جگہ کو برونا بواِن کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ”بوئن کا مسکن یا ٹھکانا۔“ آجکل ڈبلن کے تقریباً ۵۰ کلومیٹر شمال میں دریائےبوئن کے کنارے واقع اس پُراسرار علاقے میں کھدائی کے دوران دُنیا کے چند قدیمترین مقبرے دریافت ہوئے ہیں۔ اِن میں سے ایک کا نام نیوگرنج ہے۔ کوئی بھی بالکل صحیح طور پر یہ نہیں جانتا کہ یہ کتنا پُرانا ہے مگر خیال ہے کہ یہ مصر میں غزہ کے ہرمِعظیم سے بھی پُرانا ہے۔ ہر سال سرمائی انقلاب کے وقت، سیاح قدیم لوگوں کی مہارتوں کے اِس قابلِدید شاہکار کا نظارہ کرنے کے لئے نیوگرنج آتے ہیں۔
یہ کیوں تعمیر کِیا گیا تھا؟
یہ پُراسرار یادگار اپنے معماروں کیلئے بہت اہم ہوگی۔ (صفحہ ۲۴ پر بکس دیکھیں۔) بصورتِدیگر، اس پر اتنا زیادہ وقت، محنت اور وسائل کیوں صرف کئے جاتے؟ اُنہوں نے یہ شاندار مقبرہ کیوں تعمیر کِیا؟
برونا بواِن نہ صرف مُقدس قبرستان بلکہ روایتی جائےپرستش بھی خیال کِیا جاتا تھا۔ اس جگہ کی کھدائی کرنے والے پروفیسر، مائیکل اوکلے نے بیان کِیا: ”برو کا تعلق نیکی کے دیوتا داغد، اس کی بیوی بواین اور اُسکے بیٹے اونگس کے ساتھ تھا جو تکدا قوم میں سے تھے۔ یہ لوگ گیلیوں اور کلٹیوں کی آمد سے پہلے آئرلینڈ میں آباد تھے اور بعدازاں آئرلینڈ میں واقع اُن ٹیلوں اور قلعوں میں چلے گئے جہاں پریاں رہتی تھیں۔ اُنہیں مافوقالفطرت مخلوقات خیال کِیا جاتا تھا جو فانی انسانوں سے کہیں زیادہ کام کر سکتے تھے۔“—نیوگرنج—آرکیالوجی، آرٹ اینڈ لیجنڈ۔
بواین ایک اساطیری دیوی تھی جسکے نام پر دریائےبوئن کا نام رکھا گیا تھا۔ جس ٹیلے پر یہ مقبرہ واقع ہے اُسکی تین اطراف میں دریا بہتا ہے اسلئے معماروں نے سوچا ہوگا کہ بواین اس جگہ کی حفاظت کریگی۔ محقق مارٹن برینان کے مطابق، اُنکا یہ خیال بھی تھا کہ بعض دیوتا سچمچ اس ٹیلے میں رہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایسے ٹیلوں سے وابستہ قدیم داستانیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ ”زندہ دیوی دیوتاؤں کے مسکن تھے جنکا جنم بھی یہیں ہوا تھا۔“—دی سٹارز اینڈ دی سٹونز۔
مگر نیوگرنج محض ایک مقبرہ اور دیوتاؤں کا مسکن نہیں تھا۔ یہ علمِہیئت کے اُصولوں کے مطابق تعمیرکردہ دُنیا کی قدیمترین یادگاروں میں سے ایک ہے۔ ماہرینِتعمیرات نے نہایت احتیاط کیساتھ طویل راہدری اور تدفینی حجرے کو اُفق کے ایسے رُخ پر تعمیر کِیا ہے جہاں سے سرمائی انقلاب کے وقت سورج طلوع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے مقبرے کے مدخل کے اُوپر خاص روشندان بنایا۔ اس سے طلوعِآفتاب کے وقت کرنیں مقبرے کے انتہائی اندورنی حصے تک پہنچتی ہیں۔
آج بھی سیاح ہر سرمائی انقلاب پر نیوگرنج میں جمع ہوتے ہیں جب سورج کی روشنی تقریباً ۱۵ منٹ تک اندرونی حجرے میں رہتی ہے۔ برونا بواِن کے مرکزِسیاح کا مینیجر کلار ٹفی کہتا ہے: ”بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹیلے
کے اندر داخل ہونے والی سورج کی روشنی ایک لحاظ سے زمین کی دیوی اور سورج دیوتا کی شادی کی نمائندگی کرتی ہے اور اُس زمانے کے لوگوں کا خیال تھا کہ اس سے اُنکی زمین زیادہ زرخیز ہوگی۔“حجری نقشونگار کا معما
جہاں تک ہمیں معلوم ہے، پُراسرار مقبرے کے معماروں نے کوئی تحریری ریکارڈ نہیں چھوڑا۔ لیکن اُنہوں نے حجری نقشونگار کی صورت میں اپنے نشان ضرور چھوڑے ہیں۔ چقماق یا سنگِمردار کے ٹکڑے اور پتھر کی ایک ہتھوڑی سے اُنہوں نے پتھروں پر گول، مرغولی، مستطیلی اور مثلثی اشکال کے علاوہ دیگر نقشونگار بھی بنائے تھے۔ برینان آئرلینڈ کیلئے انکی چھوڑی ہوئی میراث کو ”دُنیا میں عظیم حجری فن کا سب سے بڑا ذخیرہ“ قرار دیتا ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ اِن پُراسرار نقشونگار کی تعبیر ممکن ہے اور یہ فلکیات کے گہرے علم کی عکاسی کرتے ہیں۔ برینان کا خیال ہے کہ یہ شمسی اور قمری حرکات کی تصویرکشی کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: ”اغلب ہے کہ . . . یہ ٹیلے اور نقشونگار سورج اور چاند کے لئے مُقدس خیال کئے
جاتے تھے۔ اس بات کو جان لینے سے ہی بڑی حد تک اس فن کی سمجھ آ جاتی ہے۔“ مگر دیگر ماہرین مذکورہبالا مائیکل اوکلے کیساتھ متفق ہیں جس نے لکھا کہ یہ نقشونگار ”اُن لوگوں کے لئے ضرور مطلب رکھتے تھے جنہوں نے اسے دیکھا تھا مگر ہم شاید ہی اِن کا مطلب سمجھ پائیں۔ انہیں اُسی پُراسرار داستان کا حصہ رہنا چاہئے جو قدیم دیوتاؤں کے مسکن سے وابستہ ہے۔“”نہایت ذہین لوگ“
شاید ایسا معلوم ہو کہ نیوگرنج ایسے بیشمار سوالوں کو جنم دیتا ہے جنکا کوئی جواب نہیں ہے۔ برونا بواِن کے مقبرے اور اس کی طویل راہدری کے معماروں سے متعلق پُراسرار داستانیں بڑی حد تک معما ہی ہیں۔ مگر ایک بات تو واضح ہو گئی ہے۔ معمار جاہل لوگ نہیں تھے۔ بِلاشُبہ، اوکلے نے کہا کہ نیوگرنج کے معمار، آرٹسٹ اور دستکار ”بلند معیارِثقافت کے مالک تھے۔“ مصنف پیٹر ہاربیسن بیان کرتا ہے کہ معمار ”داستانوں میں بیانکردہ غاروں میں رہنے والے قدیم غیرمہذب لوگ ہرگز نہیں تھے . . . وہ نہایت ذہین لوگ تھے۔“
مانا کہ ہم برونا بواِن میں نیوگرنج کے قدیم نقشہسازوں اور معماروں کی بابت کچھ نہیں جانتے مگر خواہ وہ کوئی بھی تھے، یہ اُن کی ہنرمندی اور دانشمندی کا واضح ثبوت ہے۔
[صفحہ ۲۴ پر بکس/تصویر]
معمار اور عمارت
نیوگرنج کے معماروں کی بابت ہم کیا جانتے ہیں؟ برونا بواِن کے مرکزِسیاح کا مینیجر کلار ٹفی کہتا ہے: ”ہم اسکی بابت بہت ہی کم جانتے ہیں مگر ہمیں چند باتیں ضرور معلوم ہو گئی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ کسان تھے۔ وہ دولتمند بھی تھے کیونکہ ایسا شاندار مقبرہ تعمیر کرنے کیلئے وسائل کا ہونا ضروری تھا۔ نیز یہ کہ اُنکے پاس دھاتی اوزار نہیں تھے۔“
دس ٹن وزنی بڑی بڑی پتھر کی سلوں کو استعمال کرتے ہوئے، معماروں نے تقریباً ۶۰ فٹ لمبی، ۶ فٹ اُونچی اور کمازکم اتنی چوڑی راہدری تعمیر کی کہ ایک آدمی اُس پر آسانی سے چل سکتا تھا۔ یہ راہدری ۲۰ فٹ چوڑے تدفینی حجرے میں لیجاتی ہے جس میں تین خلوتخانے ہیں۔ راہدری اور تدفینی حجرہ لمبے کراس کی شکل کے ہیں۔
اِن ماہر معماروں نے اس مقبرے پر ۲۰ فٹ اُونچی چھت تیار کرنے کیلئے کسی مسالے کے بغیر بڑے بڑے پتھروں کو بھی جوڑا تھا۔ پھر اس مقبرے کے اُوپر اُنہوں نے ۲۷۰ فٹ قطر والا ۴۰ فٹ اُونچا ٹیلا تعمیر کِیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے گول پتھروں سے ایک حفاظتی دیوار تعمیر کرکے اُس کے سامنے کے حصے کو سنگِمردار کے چھوٹےچھوٹے ٹکڑوں سے سجایا۔ مقبرے کے چوگرد سنگحاشیے کیلئے اُنہوں نے ۹۷ بڑے بڑے پتھر لگائے جن میں سے ہر ایک کا وزن دو سے پانچ ٹن تھا۔ ماضی میں ایک وقت تھا جب یہ سنگحاشیے اور مقبرے کا مدخل زمین میں دبا ہوا تھا۔ سن ۱۶۹۹ میں پتھروں کو تلاش کرتے ہوئے ایک مزدور اس مدخل پر گِر پڑا اور یوں یہ قدیم مقبرہ منظرِعام پر آیا۔
[تصویر]
نیوگرنج کا مدخل
[صفحہ ۲۲ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
نیوگرنج
ڈبلن
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
اُوپر: ہر سال سرمائی انقلاب کے دوران سورج کی روشنی ۱۵ منٹ تک اندرونی حجرے میں رہتی ہے
نیچے: تدفینی حجرے کا انتہائی اندرونی حصہ؛ مرغولے نقوش پر غور کریں
[تصویر کا حوالہ]
All pictures on pages 22-3 except map: Dúchas, The Heritage
Service, Ireland
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
نیوگرنج کا بڑا ٹیلا اور مقبرہ
[تصویر کا حوالہ]
Dúchas, The Heritage Service, Ireland