مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

شہر—‏بحران کا شکار کیوں؟‏

شہر—‏بحران کا شکار کیوں؟‏

شہر‏—‏بحران کا شکار کیوں؟‏

‏”‏آؤ ہم اپنے واسطے ایک شہر اور ایک بُرج جسکی چوٹی آسمان تک پہنچے بنائیں .‏ .‏ .‏ ایسا نہ ہو کہ ہم تمام رُویِ‌زمین پر پراگندہ ہو جائیں۔‏“‏—‏پیدایش ۱۱:‏۴‏۔‏

یہ الفاظ ۰۰۰،‏۴ سال سے زیادہ عرصہ پہلے بابل کے عظیم شہر کی تعمیر کا اعلان کرتے وقت کہے گئے تھے۔‏

بابل مسوپتامیہ میں سنعار کے زرخیز میدانوں میں واقع تھا۔‏ تاہم،‏ عام رائے کے بالکل برعکس،‏ یہ بائبل ریکارڈ کا پہلا شہر نہیں تھا۔‏ شہروں کا آغاز تو دراصل طوفانِ‌نوح سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔‏ بائبل ریکارڈ کے مطابق سب سے پہلے شہر کی بنیاد اپنے بھائی کے قاتل،‏ قائن نے ڈالی تھی۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۱۷‏)‏ یہ شہر جس کا نام حنوک رکھا گیا کسی فصیل‌دار قصبے یا دیہات سے بڑا تھا۔‏ اس کے برعکس بابل ایک بہت ہی بڑا شہر اور جھوٹی پرستش کا اہم مرکز تھا جس کا نمایاں حصہ ایک قابلِ‌دید مذہبی بُرج تھا۔‏ تاہم،‏ بابل اور اس کا یہ نفرت‌انگیز بُرج خدا کے خلاف بغاوت کی علامت تھا۔‏ (‏پیدایش ۹:‏۷‏)‏ لہٰذا بائبل کے مطابق،‏ خدا نے مداخلت کر کے اُن کے اس نمودپسندانہ مذہبی منصوبے کو ختم کرنے کے لئے معماروں کی زبان میں اختلاف ڈال دیا۔‏ پس پیدایش ۱۱:‏۵-‏۹ بیان کرتی ہیں کہ خدا نے ”‏اُنکو وہاں سے تمام رویِ‌زمین میں پراگندہ کِیا۔‏“‏

یہ کوئی خلافِ‌توقع بات نہیں کہ لوگوں کے پھیلنے سے مختلف شہر بھی قائم ہو گئے۔‏ بہرصورت شہر دُشمن کے حملے سے تحفظ فراہم کرتے تھے۔‏ شہر ایسی جگہیں فراہم کرتے تھے جہاں کسان اپنی پیداوار کو جمع کرکے فروخت کر سکتے تھے۔‏ کاروباری علاقے نے شہر کے مکینوں کیلئے کھیتی‌باڑی کے علاوہ دیگر ذرائع‌معاش بھی ممکن بنائے۔‏ دی رائز آف سٹیز بیان کرتی ہے:‏ ”‏ایک مرتبہ تنگ‌دستی سے چھوٹ جانے کے بعد،‏ شہری باشندے ٹوکری‌سازی،‏ ظروف‌سازی،‏ دھاگاسازی،‏ کپڑاسازی،‏ چمڑاسازی،‏ لکڑی اور پتھر کے کام کے علاوہ ایسے دیگر بیشمار مخصوص پیشے اختیار کر سکتے تھے جنہیں مارکیٹ قبول کر سکتی تھی۔‏“‏

شہر ایسی مصنوعات کی فروخت کے مؤثر مراکز ثابت ہوئے تھے۔‏ مصر میں شدید قحط کی بابت بائبل سرگزشت پر غور کریں۔‏ وزیرِاعظم،‏ یوسف نے لوگوں کو شہروں میں آباد کرنا مفید پایا۔‏ کیوں؟‏ بدیہی طور پر اس لئے کہ یہ باقیماندہ خوراک کی مؤثر تقسیم کا باعث بن سکتا تھا۔‏—‏پیدایش ۴۷:‏۲۱‏۔‏

جب ذرائع آمدورفت سُست اور محدود تھے تو اُس وقت بھی شہروں نے لوگوں کے درمیان رابطے اور باہمی تعلقات کو فروغ دیا۔‏ یوں معاشرتی اور ثقافتی تبدیلی کی رفتار تیز ہو گئی۔‏ شہر نئی‌نئی چیزوں کی ایجاد کے مراکز بن گئے جس سے ٹیکنالوجی کو خوب فروغ ملا۔‏ جوں‌جوں نئے نظریات کو فروغ ملا،‏ سائنسی،‏ مذہبی اور فلسفیانہ اندازِفکر میں جدت پیدا ہوئی۔‏

اُدھورے خواب

موجودہ زمانے میں بھی شہروں سے ایسے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔‏ پس اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ لاکھوں لوگ شہروں کا رُخ کرتے ہیں—‏بالخصوص جن ممالک میں دیہی زندگی نہایت دشوارگزار ہے وہاں سے زیادہ لوگ شہروں میں آتے ہیں۔‏ تاہم،‏ نقل‌مکانی کر کے شہروں میں آباد ہونے والے بیشتر لوگوں کے لئے بہتر زندگی کے خواب اُدھورے رہ جاتے ہیں۔‏ کتاب وائٹل سائنز ۱۹۹۸ بیان کرتی ہے:‏ ”‏پاپولیشن کونسل کی حالیہ تحقیق کے مطابق،‏ ترقی‌پذیر دُنیا کے بیشتر شہری مراکز میں معیارِزندگی دیہی علاقہ‌جات سے کمتر ہے۔‏“‏ ایسا کیوں ہے؟‏

ہنری جی.‏ سسنیروس دی ہیومن فیس آف دی اربن انوائرنمنٹ میں لکھتا ہے:‏ ”‏جب غریب لوگ اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ غریب لوگوں،‏ بالخصوص اقلیتوں کا یہ رُجحان بیروزگاری،‏ فلاح‌وبہبود کے لئے حکومت پر انحصار،‏ صحت‌عامہ کے مسائل اور سب سے بڑھ کر جُرم میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔‏“‏ اسی طرح کتاب میگا سٹی گروتھ اینڈ دی فیوچر بیان کرتی ہے:‏ ”‏لوگوں کا بڑی تعداد میں نقل‌مکانی کرنا اکثر بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور کم تنخواہ پر روزگار ملنے کا باعث بنتا ہے کیونکہ مارکیٹ اتنے زیادہ لوگوں کو ملازمت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔‏“‏

بےگھر بچوں کی تعداد میں اضافہ بھی اُس غربت‌وافلاس کی ایک تلخ حقیقت ہے جو ترقی‌پذیر ممالک میں پائی جاتی ہے۔‏ بعض اندازوں کے مطابق،‏ پوری دُنیا میں تقریباً ۳۰ ملین بچے بےگھر نظر آتے ہیں!‏ کتاب میگا سٹی گروتھ اینڈ دی فیوچر بیان کرتی ہے:‏ ”‏غربت اور دیگر مسائل نے خاندانی رشتوں کو اس حد تک تہس‌نہس کر دیا ہے کہ بےخانماں بچے خود اپنی ضروریاتِ‌زندگی پوری کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‏“‏ ایسے بچے کوڑےکرکٹ کو ٹٹولنے،‏ بھیک مانگنے یا مقامی مارکیٹوں میں ادنیٰ کام کرنے سے بڑی تنگ‌دستی کا شکار ہیں۔‏

دیگر تلخ حقیقتیں

غربت جُرم کا باعث بن سکتی ہے۔‏ جدید فنِ‌تعمیر کیلئے مشہور ایک جنوبی امریکی شہر میں جُرم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ یہاں ہر گھر کے گِرد لوہے کی باڑ دکھائی دینے لگی ہے۔‏ تمام امیروغریب شہری اپنی املاک اور ذاتی تحفظ کیلئے لوہے کی باڑ لگا رہے ہیں۔‏ درحقیقت وہ پنجروں میں رہ رہے ہیں۔‏ بعض تو گھر کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی جنگلے لگا لیتے ہیں۔‏

بڑی آبادی،‏ شہر کے آب‌رسانی اور نکاسی‌آب کے نظام جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی راہ میں بھی حائل ہوتی ہے۔‏ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک ایشیائی شہر کے لئے ۰۰۰،‏۰۰،‏۵ عوامی بیت‌الخلا درکار ہیں۔‏ تاہم،‏ ایک حالیہ سروے نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اس وقت صرف ۲۰۰ بیت‌الخلا کام کر رہے ہیں!‏

حد سے زیادہ آبادی اکثر مقامی ماحول پر جو تباہ‌کُن اثرات مرتب کرتی ہے اُسے بھی نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا۔‏ جوں‌جوں شہروں کی حدود وسیع ہوتی ہیں قریبی زرعی علاقے ختم ہوتے جاتے ہیں۔‏ ریاستہائےمتحدہ کے تعلیمی،‏ سائنسی،‏ ثقافتی ادارے کے چیف فیڈریکو مائر کا کہنا ہے:‏ ”‏شہر بہت بڑی مقدار میں توانائی،‏ پانی اور خوراک استعمال کرتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ اُنکا طبیعی ماحول اسلئے کمزور پڑ گیا ہے کیونکہ یہ نہ تو مزید توانائی کو اپنے اندر سما سکتا ہے اور نہ ہی خارج کر سکتا ہے۔‏“‏

مغربی ممالک میں بڑے شہروں کے مسائل

مغربی ممالک میں صورتحال اگرچہ اتنی خراب نہیں تاہم یہاں بھی شہری بحران پایا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کتاب دی کرائسس آف امریکاز سٹیز بیان کرتی ہے:‏ ”‏آجکل امریکی شہروں میں غیرمعمولی تشدد پایا جاتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ امریکی شہروں میں تشدد اسقدر عام ہے کہ میڈیکل جرنلز اسے ہمارے زمانے میں صحت‌عامہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دینے لگے ہیں۔‏“‏ بِلاشُبہ،‏ دُنیابھر میں بیشتر بڑے شہروں میں تشدد ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔‏

شہری زندگی کی بدحالی کی وجہ سے بہتیرے شہر آجروں کی عدم‌توجہی کا شکار ہو گئے ہیں۔‏ کتاب دی ہیومن فیس آف دی اربن انوائرنمنٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏فیکٹریاں بند کر کے کاروبار مضافاتی علاقوں یا سمندر پار منتقل کر دئے گئے ہیں جس سے صرف بنجر اور آلودہ زمین پر خالی عمارتیں باقی رہ گئی ہیں جو زہریلے مادوں کی وجہ سے آبادکاری کے لئے بالکل غیرمناسب ہیں۔‏“‏ نتیجتاً،‏ بیشتر شہروں میں غریب لوگوں کی توجہ ایسے علاقوں پر مرکوز ہوتی ہے ”‏جہاں ماحولیاتی مسائل کو آسانی سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے—‏جہاں پانی کے نکاس کا نظام خراب ہوتا ہے؛‏ جہاں پانی کی صفائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے؛‏ جہاں موذی کیڑےمکوڑوں سے بھرے ہوئے کوڑے کے ڈھیر گھروں تک پہنچ جاتے ہیں؛‏ جہاں کمسن بچے عمارتوں کی دیواروں سے جھڑنے والا سیسہ ملا رنگ‌وروغن کھاتے ہیں .‏ .‏ .‏ اور جہاں ایسا لگتا ہے کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔‏“‏ ایسے ماحول میں،‏ جُرم،‏ تشدد اور مایوسی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔‏

مزیدبرآں،‏ مغربی شہروں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے۔‏ سن ۱۹۸۱ میں،‏ مصنّفین پیٹ چوآٹ اور سوزن والٹر نے ایک ڈرامائی عنوان والی کتاب امریکہ اِن رواِنز—‏دی ڈیکیئنگ انفراسٹرکچر ‏(‏امریکہ کے کھنڈرات—‏شکست‌وریخت کا شکار ایک ڈھانچہ)‏ تحریر کی۔‏ اُس میں اُنہوں نے بیان کِیا:‏ ”‏امریکہ کی عوامی سہولیات کے ناکارہ ہونے کی رفتار اُن کی بہم‌رسانی کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔‏“‏ مصنّفین کیلئے بڑے بڑے شہروں کے زنگ‌آلودہ پل،‏ ٹوٹی‌پھوٹی سڑکیں اور نکاسی‌آب کا بوسیدہ نظام تشویش کا باعث ہے۔‏

بیس سال بعد بھی نیو یارک جیسے شہروں کے ڈھانچے خستہ‌حال ہیں۔‏ نیو یارک میگزین کے ایک مضمون نے ایک بہت بڑی تیسری آبی سرنگ کے پروجیکٹ کا ذکر کِیا جو تقریباً ۳۰ سال سے چل رہا ہے اور جسے نصف مغربی دُنیا کا واحد بڑا پراجیکٹ قرار دیا گیا ہے۔‏ اس کی لاگت تقریباً پانچ بلین ڈالر ہے۔‏ جب یہ مکمل ہو جائیگا تو یہ سُرنگ نیو یارک شہر کو ہر روز ایک بلین گیلن تازہ اور صاف پانی فراہم کریگی۔‏ تاہم مصنف کہتا ہے کہ ”‏اس تمام کٹھن محنت کے باوجود،‏ اس سُرنگ کا مقصد اس صدی کے اوائل میں بچھائے گئے پائپوں کی پہلی دفعہ مرمت کرنا ہے۔‏“‏ دی نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق،‏ شہر کے باقی خستہ ڈھانچے یعنی اُسکے زمین‌دوز ریل کے نظام،‏ آب‌رسانی کے نظام،‏ سڑکوں اور پلوں کی مرمت کی لاگت اندازً ۹۰ بلین ڈالر ہوگی۔‏

نیو یارک ہی واحد شہر نہیں جسے درکار سہولیات فراہم کرنا مشکل ہے۔‏ دراصل،‏ کئی بڑے شہروں کو مختلف وجوہات کی بِنا پر نقصان پہنچا ہے۔‏ فروری ۱۹۹۸ میں،‏ آک‌لینڈ،‏ نیوزی‌لینڈ بجلی کے بند ہو جانے کی وجہ سے دو ہفتے سے زیادہ وقت کے لئے جزوی طور پر ناکارہ ہو گیا تھا۔‏ ایک پروڈکشن پلانٹ میں صنعتی حادثے کی بدولت گیس کی سپلائی بند ہو جانے کی وجہ سے میلبورن،‏ آسٹریلیا کے باشندے ۱۳ دن تک گرم پانی کی دستیابی سے محروم رہے۔‏

اس کے علاوہ تمام شہروں کو ٹریفک جام ہو جانے کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔‏ ماہرِتعمیرات موس سافدی کہتا ہے:‏ ”‏شہروں اور اُنہیں دستیاب ذرائع‌آمدورفت کے نظام کے مابین ایک بنیادی تنازع—‏ایک مسئلہ—‏پایا جاتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ قدیم شہروں کو آج جس ٹریفک کی بھرمار سے نپٹنا پڑتا ہے اُسکا اُنکی تعمیر کے وقت کوئی تصور بھی نہیں تھا۔‏“‏ دی نیو یارک ٹائمز کے مطابق،‏ قاہرہ،‏ بنکاک اور ساؤ پاؤلو جیسے شہروں میں ٹریفک جام ”‏معمول کی بات“‏ ہے۔‏

اِن تمام مسائل کے باوجود،‏ شہروں کی طرف نقل‌مکانی کرنے کے عمل میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ہے۔‏ دی یونیسکو کورئیر کے ایک مضمون کے مطابق ”‏خواہ یہ بات صحیح ہے یا غلط،‏ شہر ترقی،‏ آزادی اور ناقابلِ‌بیان عیش‌پرستی کے مواقع پیش کرتے ہیں۔‏“‏ تاہم دُنیا کے اِن بڑے شہروں کا مستقبل کیا ہے؟‏ کیا اُن کے مسائل کا کوئی حقیقت‌پسندانہ حل موجود ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۵ پر عبارت]‏

‏”‏لوگوں کا بڑی تعداد میں نقل‌مکانی کرنا اکثر بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور ناموافق روزگار کا باعث بنتا ہے“‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

ٹریفک جام بیشتر شہروں کیلئے وبالِ‌جان بنے ہوئے ہیں

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

لاکھوں بےگھر بچے اپنی کفالت خود کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

بہتر زندگی سے متعلق بہتیرے شہری باشندوں کے خواب اُدھورے رہ جاتے ہیں