مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

طب کے پہل‌کار

طب کے پہل‌کار

طب کے پہل‌کار

بیلجیئم کے ایک چھوٹے سے قصبے،‏ اپائی کے رہنے والے جوسی کو ۶۱ برس کی عمر میں یہ بتایا گیا کہ اُسے جگر کی پیوندکاری (‏ٹرانسپلانٹ)‏ کروانے کی ضرورت ہے۔‏ وہ کہتا ہے،‏ ”‏یہ میری زندگی کا سب سے بڑا المیہ تھا۔‏“‏ محض چار عشرے پہلے تک جگر کی تبدیلی بعیدازقیاس تھی۔‏ سن ۱۹۷۰ کے عشرے تک بھی،‏ اس کی کامیابی کی شرح تقریباً ۳۰ فیصد تھی۔‏ تاہم،‏ آجکل جگر کی تبدیلی ایک ایسا باقاعدہ عمل ہے جس میں کامیابی کی شرح بہت زیادہ ہے۔‏

تاہم اس کا ایک بڑا نقصان بھی ہے۔‏ جگر کی پیوندکاری کے دوران اکثر زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ڈاکٹر عموماً آپریشن کے دوران انتقالِ‌خون کو عمل میں لاتے ہیں۔‏ اپنے مذہبی اعتقادات کی وجہ سے،‏ جوسی خون لینا نہیں چاہتا تھا۔‏ لیکن وہ جگر تبدیل کروانا چاہتا تھا۔‏ ناممکن؟‏ بعض شاید سوچیں۔‏ تاہم چیف سرجن اور اُسکے ساتھیوں نے محسوس کِیا کہ خون کے بغیر کامیابی کیساتھ آپریشن کرنا ممکن ہے۔‏ لہٰذا اُنہوں نے ایسا ہی کِیا!‏ آپریشن کے صرف ۲۵ دن بعد جوسی واپس اپنی بیوی اور بچی کیساتھ اپنے گھر میں تھا۔‏ *

ٹائم میگزین جنہیں ”‏طب کے ہیرو“‏ کہتا ہے،‏ اُنکی بدولت خون کے بغیر طب‌وجراحی پہلے کی نسبت آجکل ہر جگہ عام ہے۔‏ تاہم اسکی اتنی زیادہ مانگ کیوں ہے؟‏ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے آیئے انتقالِ‌خون کی انتشارانگیز تاریخ کا جائزہ لیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 یہوواہ کے گواہ اعضا کی پیوندکاری کے سلسلے میں جراحی کو ذاتی ضمیر کا معاملہ سمجھتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

پوری دُنیا میں،‏ اس وقت ۰۰۰،‏۹۰ سے زائد ایسے ڈاکٹر ہیں جو یہوواہ کے گواہوں کا خون کے بغیر علاج کرنے کیلئے آمادہ ہیں