حشرات کی حیرتانگیز دُنیا
حشرات کی حیرتانگیز دُنیا
سپین میں ”جاگو!!“ کے مراسلہنگار سے
کیا آپ سوچتے ہیں کہ حشرات محض وبالِجان ہی ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ دُنیا پریشانی کا باعث بننے والے ان کیڑےمکوڑوں سے پاک ہو؟ کیا آپ ہر وقت اُن پر اسپرے کرتے، اُنہیں مارتے یا اپنے پاؤں تلے کچل دیتے ہیں؟ اپنے راستے میں آنے والے ہر کیڑے کو مارنے سے پہلے کیوں نہ اُنکی دُنیا کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کریں؟ بہرصورت، آبادی کے لحاظ سے ہر ایک انسان سے تقریباً ۰۰۰،۰۰،۰۰،۲۰ زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ حشرات ہمیشہ ہمارے ساتھ رہینگے!
اس حیرتانگیز مخلوقات میں سے محض چند ایک کا مختصر سا جائزہ آپکو اس بات کا یقین دِلائیگا کہ حشرات آپکے پاسولحاظ کے مستحق ہیں۔
اُڑنے میں ماہر، دیکھنے میں تعجبخیز
بیشتر حشرات اُڑنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ چند مثالوں پر غور کریں۔ مچھر اُوپر نیچے ہر طرف اُڑ سکتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو بارش میں بھی بھیگے بغیر—جی ہاں، درحقیقت بارش کے قطروں سے بچتے ہوئے—اُڑ سکتے ہیں! گرممرطوب علاقوں کی بعض بھڑیں اور شہد کی مکھیاں ۴۵ میل فی گھنٹے کی رفتار سے بھنبھناتی پھرتی ہیں۔ شمالی امریکہ کی ملکہ تِتلی نقلمکانی کے اپنے سفر کے دوران ۰۱۰،۳ کلومیٹر اُڑتی ہے۔ زنبور مکھیاں—شکرخوروں سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ—ایک سیکنڈ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ اپنے پَروں کو پھڑپھڑا سکتی ہے۔ بھنبھیری یا کابلی مکھی اُلٹا اُڑ سکتی ہے، ایک ایسی حقیقت جس نے ماہرین کے تجسّس اور گہرے مطالعہ کے شوق کو اُبھارا ہے۔
اگر آپ نے کبھی کسی مکھی کو مارنے کی کوشش کی ہے تو آپ جانتے ہیں کہ ان حشرات کی نظر غیرمعمولی طور پر تیز ہونے کے علاوہ ہم سے دس گُنا تیز منعکسہ سے بھی لیس ہوتی ہے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ مکھی کی مرکب آنکھیں ہوتی ہیں جن میں ہزاروں شش طرفی عدسے لگے ہوتے ہیں جن میں سے ہر جداگانہ طور پر کام کرتا ہے۔ اسی لئے غالباً، مکھی کی حدِبصارت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوتی ہے۔
بعض حشرات بنفشی روشنی کو بھی دیکھ سکتے ہیں جسے انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ پس، ایک سفید تِتلی کی مدھم سی رنگت ہمیں غیردلچسپ معلوم ہو سکتی ہے مگر نر تِتلی کیلئے غیردلچسپ نہیں ہوتی۔ یقیناً، بنفشی روشنی میں دیکھا جائے تو مادہ کا جسم ایسے پُرکشش نقشونگار سے مزین ہوتا ہے جو جفتی نروں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے مثالی ہوتے ہیں۔
بیشتر حشرات کی آنکھیں کمپاس کے طور پر کام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، شہد کی مکھیوں اور بھڑوں کی آنکھیں سطح تقطیب کی روشنی کو پہچان سکتی
ہیں جس سے اُنہیں آسمان میں بادلوں میں چھپے سورج کی سمت کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس صلاحیت کی بدولت، یہ حشرات خوراک کی تلاش میں اپنے گھونسلوں سے دُور جا کر کسی بھی غلطی کے بغیر اپنے گھر واپس آ سکتے ہیں۔فضاؤں میں محبت
حشرات کی دُنیا میں، جفتی ساتھی کو تلاش کرنے کے لئے اکثر آوازوں اور خوشبوؤں کو استعمال کِیا جاتا ہے—بالخصوص اگر آپ کی زندگی محض چند ہفتوں کی ہو اور متوقع جفتی ساتھیوں کی تعداد بھی محدود ہو تو یہ واقعی ایک کارِنمایاں ہے۔
مادہ شاہپروانے نر ساتھی تلاش کرنے کیلئے ایک ایسی خاص خوشبو خارج کرتی ہیں کہ نر تقریباً سات میل دُور سے بھی اسے سونگھتا ہوا اُس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اُس کے حساس محاس اُس خوشبو کے چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کا بھی سراغ لگا لیتے ہیں۔
جھینگر، گھاس کے ٹڈے اور پردار حشرات آواز نکالنا پسند کرتے ہیں۔ ہم انسان بھی مستی میں آئے ہوئے پردار حشرات کی آواز سن سکتے ہیں جبکہ وہ آواز نکالنے کیلئے اپنے سارے جسم کو آوازگر بنا لیتے ہیں۔ اسی لئے، مستی میں آئے ہوئے ٹڈے ٹڈیوں کا ایک بڑا گروہ اتنا شوروغل کر سکتا ہے کہ ہوا میں کوئی اَور زوردار آواز بھی اُنکا مقابلہ نہیں کر سکتی! اس کے برعکس، بعض مادہ حشرات بالکل خاموش رہتی ہیں۔
جاگنا اور گرم ہونا
سرد آبوہوا والے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کیلئے خود کو گرم رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بات سرد خون والے حشرات کے بارے میں سچ ہے جو ہر صبح عملاً یخبستہ حالت میں بیدار ہوتے ہیں۔ سورج ہی اُنکا سہارا ہوتا ہے اور وہ اس سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
مکھیاں اور بھونگرے دن کے ابتدائی حصے میں سورج سے گرمی حاصل کرنے والے پھولوں اور پتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بعض بھونگرے اکثراوقات آسٹریلوی کنول کی طرف مائل ہوتے ہیں جو اپنے پھولوں کو اِردگِرد کے درجۂحرارت سے کہیں زیادہ یعنی ۳۶ ڈگری فارنہیٹ تک گرم کرتے ہوئے نباتیاتی چولہوں کا کام دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، تِتلیوں کے
اندر گرم رہنے کا فطری نظام ہوتا ہے۔ جب اُنہیں گرم ہونے کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنے پَر کھول لیتی ہیں جو کہ مستعد شمسی دِلوں (پینلز) کا کام دیتے ہیں اور اُنہیں سورج کے رُخ پر جھکا دیتے ہیں۔حشرات بہت کچھ کر سکتے ہیں!
حشرات کی دُنیا میں، تقریباً ہر ایک مختلف کردار ادا کرتا ہے جن میں سے بعض بالکل منفرد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض پتنگے بھینس کے آنسو چوسنے سے حیاتبخش نمک اور نمی حاصل کرتے ہیں۔ معقول مانعِانجماد سے لیس ہونے کی بدولت، دیگر حشرات پہاڑوں کی منجمد چوٹیوں پر بسیرا کرتے ہیں اور اپنی زندگیاں اُن کیڑےمکوڑوں کو کھانے میں گزار دیتے ہیں جو سردی کی وجہ سے دمتوڑ جاتے ہیں۔
جیسے کہ ہزاروں سال پہلے دانشمند بادشاہ سلیمان نے بیان کِیا تھا، بالخصوص چیونٹی بہت محنتی ہے۔ سلیمان نے لکھا: ”اَے کاہل! چیونٹی کے پاس جا۔ اُسکی روشوں پر غور کر اور دانشمند بن۔ جو باوجودیکہ اُسکا نہ کوئی سردار نہ ناظر نہ حاکم ہے۔ گرمی کے موسم میں اپنی خوراک مہیا کرتی ہے اور فصل کٹنے کے وقت اپنی خورش جمع کرتی ہے۔“ (امثال ۶:۶-۸) چیونٹیوں کی بعض بستیوں کی تعداد ۲۰ ملین سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اس لئے یہ بات اَور بھی حیرتانگیز معلوم ہوتی ہے کہ انکا کوئی حاکم نہیں ہوتا! تاہم، اس حشرے کی ”ریاست“ میں ہر کام بطریقِاحسن انجام پاتا ہے جہاں ہر چیونٹی اپنا مخصوص کام کرتی ہے تاکہ پوری کالونی کیلئے خوراک، تحفظ اور گھر فراہم کِیا جا سکے۔
حشرات میں گھر بنانے کی سب سے عمدہ مثال شاید دیمک کے گھروندے ہیں۔ ان میں سے بعض ۲۵ فٹ اُونچے ہوتے ہیں۔ * تعمیر کے یہ نادر نمونے جدیدترین ائیرکنڈیشن اور زمیندوز طفیلی نباتات پر مشتمل باغات سے آراستہ ہوتے ہیں۔ اس سے بھی حیرانکُن بات یہ ہے کہ ان اُونچے اہراموں کو تعمیر کرنے والی دیمک کی آنکھیں نہیں ہوتیں!
ہمیں حشرات کی ضرورت کیوں ہے
حشرات ہماری روزمرّہ زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ، ہماری ۳۰ فیصد خوراک کا انحصار شہد کی مکھیوں کی تخمریزی پر ہے جن میں سے بیشتر جنگلی مکھیاں ہوتی ہیں۔ تاہم، تخمریزی اُن مفید کاموں میں سے ایک ہے جو یہ حشرات انجام دیتے ہیں۔ مردہ نباتات اور جانوروں کو دوبارہ استعمال میں لانے کے اثرآفرین نظام کے ذریعے حشرات زمین کو صافستھرا رکھتے ہیں۔ اس طرح مٹی زرخیز ہوتی ہے اور جو مقوی چیزیں اس سے خارج ہوتی ہیں وہ پودوں کو بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ”حشرات کے بغیر،“ ماہرِحشرات کرسٹوفر اوٹول اپنی کتاب ایلیئن ایمپائر میں لکھتا ہے، ”ہم مُردہ بناتات اور جانوروں کی بہتات سے مغلوب ہو جائینگے۔“
حشرات کی کمی اُس وقت بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے جب اُنکا مخصوص کام اَور کسی بھی طرح انجام نہیں پاتا۔ غور کریں کہ آسٹریلیا میں کیا واقع ہوا جو اب لاکھوں مویشیوں کا گھر بن گیا ہے۔ بدیہی طور پر جانور ہر طرف گوبر کرتے ہیں۔ یہ گندگی نہ صرف آنکھوں کو ناگوار گزرتی تھی بلکہ اس سے بشمکھی کی افزائشِنسل بھی ہونے لگی جو انسانوں اور مویشیوں دونوں میں بیماری پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا یورپ اور امریکہ سے گوبریلے (گوبر پر پلنے والے کیڑے) درآمد کئے گئے۔ یوں یہ مسئلہ حل ہوا!
دوست یا دُشمن
سچ ہے کہ بعض حشرات فصلیں تباہ کرتے اور بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف ۱ فیصد کو تباہکُن خیال کِیا جاتا ہے جبکہ جسطرح سے انسان نے اپنے گردوپیش میں تبدیلیاں کیں ہیں اُس کے پیشِنظر ان میں سے بیشتر زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ملیریا پھیلانے والا مچھر شاذونادر ہی اُستوائی جنگلات میں رہنے والے علاقائی لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تاہم، جنگل کے آسپاس واقع قصبوں میں جہاں ساکن پانی کی افراط ہوتی ہے یہ تباہی مچا دیتا ہے۔
اکثر، فصلوں کو باری باری اُگانے یا طبعی شکارخوروں کو متعارف کروانے یا اُنکی حفاظت کرنے سے انسان عموماً نقصاندہ حشرات پر قابو پا سکتا ہے۔ ادنیٰ کناریپَر حشرے اور چتیدار بھونگرے مؤثر طور پر رُکھجُوؤں کی وباؤں پر قابو پا سکتے ہیں۔ علاوہازیں جنوبمشرقی ایشیا میں، پبلک ہیلتھ ورکرز نے دریافت کِیا ہے کہ بھنبھیری یا کابلی مکھی کے دو لاروے پانی کے ذخیرے کو مچھر کے لاروے سے پاک رکھ سکتے ہیں۔
پس، اپنی تمامتر خامیوں کے باوجود، حشرات ہماری طبعی دُنیا کا جزوِلازم ہیں جس پر ہم انحصار کرتے ہیں۔ جیسے کرسٹوفر اوٹول بیان کرتا ہے، حشرات تو ہمارے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں مگر ”ہم اُنکے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔“
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 20 انسانوں کیلئے یہ ایک ایسی کثیراُلمنازل عمارت کے مساوی ہے جسکی اُونچائی نو کلو میٹر سے زیادہ ہے۔
[صفحہ ۱۶، ۱۷ پر بکس/تصویریں]
قلبماہیت نئی شکل، نیا طرزِزندگی
بعض حشرات قلبماہیت کے ذریعے اپنی وضعقطع کو بالکل نیا بنا لیتے ہیں—حقیقت میں، ”شکلوصورت بدل جاتی ہے۔“ یہ تبدیلیاں کافی حد تک ڈرامائی ہو سکتی ہیں۔ پہلروپ مکھیوں میں بدل جاتے ہیں، کیٹرپلر تتلیاں بن جاتی ہیں اور آبی لاروے ہوا میں اُڑنے والی کابلی مکھیاں (بھنبھیریاں) بن جاتے ہیں۔ ہزارہا حشرات قلبماہیت سے گزرتے ہیں۔
ایسی بڑی تبدیلی—ایک ریلگاڑی کو ہوائی جہاز میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے—جس کے لئے ایک حشرے کے جسم میں حیرانکُن تبدیلیوں کا واقع ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، تِتلی پر غور کریں۔ جب لاروا ابھی پیوپا کی شکل کا ہوتا ہے تو اسکے بیشتر پُرانے نسیج اور بدن کے حصے الگ ہو جاتے ہیں اور پوری طرح سے نشوونما پائے ہوئے—پَروں، آنکھوں اور محاسوں جیسے نئے اعضاؤں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
اکثر، اس تبدیلی میں ایک نیا طرزِزندگی اختیار کرنا شامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، لاروے کی حالت میں، کابلی مکھی (بھنبھیری) چھوٹی مچھلی اور غوکچوں کا شکار کرتی ہے؛ مگر جب پوری طرح سے نشوونما پا لیتی ہے تو حشرات کو اپنی خوراک بنا لیتی ہے۔ یہ اُس شخص کے مترادف ہے جو اپنے پہلے ۲۰ برس سمندر میں تیرنے میں اور اپنی باقی زندگی ایک پرندے کی طرح اُڑنے میں گزار دیتا ہے۔
کیا ارتقا ان ناقابلِیقین تبدیلیوں کا باعث ہو سکتی ہے؟ کیسے ایک کیٹرپلر اس پروگرام کیساتھ منظرِعام پر آ سکتی ہے کہ وہ خود کو ایک تِتلی میں تبدیل کر لے گی؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے، کون پہلے تھا—کیٹرپلر یا تِتلی؟ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازموملزوم ہیں، کیونکہ صرف تِتلی ہی افزائشِنسل کرتی اور انڈے دیتی ہے۔
یقیناً، قلبماہیت کا عمل ہی ایک ماہر کاریگر کا قابلِیقین ثبوت فراہم کرتا ہے، وہ ہستی جسکی شناخت بائبل تمام چیزوں کے خالق، قادرِمطلق خدا کے طور پر کراتی ہے۔—زبور ۱۰۴:۲۴؛ مکاشفہ ۴:۱۱۔
[تصویریں]
اپنے پیوپا سے نکلی ہوئی تازہتازہ دوشاخہ دُمدار تِتلی اپنے پَر پھڑپھڑا رہی ہے
[صفحہ ۱۸ پرتصویریں]
اُوپر: زرگل کھاتا ہوا بھونگرا
اُوپر دائیں: اوس سے تر لیف بھونگرا پر تول رہا ہے
نیچے دائیں: رائنوسیروس بھونگرا
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
گھڑمکھی
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
افریقی چھوٹے سینگوں والا گھاس کا ٹڈا