مطالعے کا مضمون نمبر 1
گیت نمبر 2: یہوواہ تیرا نام ہے
یہوواہ کی تعظیم کریں
سن 2025ء کی سالانہ آیت: ”یہوواہ کی ایسی تعظیم کرو جو اُس کے نام کے شایانِشان ہو۔“—زبور 96:8۔
غور کریں کہ . . .
ہم یہوواہ کی اِس طرح سے تعظیم کیسے کر سکتے ہیں جس کا وہ حقدار ہے۔
1. آج بہت سے لوگوں کا دھیان صرف کس بات پر رہتا ہے؟
یقیناً آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج بہت سے لوگ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ خود پر اور اپنے کارناموں پر دِلانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ لیکن صرف کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنی واہ واہ چاہنے کی بجائے یہوواہ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ کی تعظیم کرنے کا کیا مطلب ہے اور ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہیے۔ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ ہم یہوواہ کی اُس طرح سے تعظیم کیسے کر سکتے ہیں جس کا وہ واقعی حقدار ہے اور مستقبل میں یہوواہ خود اپنے نام کی تعظیم کیسے کرے گا۔
یہوواہ کی تعظیم کرنے کا کیا مطلب ہے؟
2. یہوواہ نے کوہِسینا پر اپنی عظمت کیسے ظاہر کی؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
2 تعظیم کیا ہوتی ہے؟ بائبل میں لفظ ”تعظیم“ ہر اُس چیز یا بات کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو ایک شخص کو عظیم بنا دیتی ہے۔ یہوواہ نے اپنی شاندار عظمت کا ایک نظارہ اُس وقت دِکھایا جب بنیاِسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد ہوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا۔ ذرا اِس منظر کا تصور کریں: لاکھوں لاکھ اِسرائیلی اپنے خدا کی بات سننے کے لیے کوہِسینا کے نیچے جمع ہیں۔ پورے پہاڑ پر کالی گھٹا چھا گئی ہے۔ اچانک سے زمین شدید زلزلے سے کانپنے لگی ہے۔ پہاڑ سے لاوے کا دُھواں اُٹھ رہا ہے، بادل زور سے گرج رہے ہیں، بجلی چمک رہی ہے اور فضا میں نرسنگے کی آواز اِس قدر تیز ہے کہ ہر شخص کو بہرا کر دے۔ (خر 19:16-18؛ 24:17؛ زبور 68:8) ذرا سوچیں کہ جب بنیاِسرائیل نے یہوواہ کی عظمت کا یہ شاندار نظارہ دیکھا ہوگا تو وہ کتنی حیرت میں ڈوب گئے ہوں گے!
3. یہوواہ کی تعظیم کرنے کا کیا مطلب ہے؟
3 لیکن کیا ہم واقعی یہوواہ کی تعظیم کر سکتے ہیں جو پہلے سے ہی اِتنا عظیم ہے؟ بالکل! یہوواہ کی تعظیم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اُس کی حیرتانگیز طاقت اور دل چُھو لینے والی خوبیوں کے بارے میں بتائیں۔ ہم اُس وقت بھی یہوواہ کی تعظیم کر سکتے ہیں جب ہم اُس کی طاقت سے کیے گئے ہر کام کا سہرا اُس کے سر باندھتے ہیں۔ (یسع 26:12) بادشاہ داؤد نے یہوواہ کی تعظیم کرنے کے حوالے سے بڑی زبردست مثال قائم کی۔ داؤد نے بنیاِسرائیل کے سامنے یہوواہ سے جو دُعا کی، اُس میں اُنہوں نے یہوواہ سے کہا: ”اَے یہوواہ! تُو ہی عظیم ہے اور قدرت، خوبصورتی، شانوشوکت اور عظمت تیری ہے کیونکہ آسمان اور زمین کی ہر چیز تیری ہے۔“ پھر جب اُنہوں نے دُعا ختم کی تو ’ساری جماعت نے یہوواہ اپنے خدا کی بڑائی کی۔‘—1-توا 29:11، 20۔
4. یسوع مسیح نے یہوواہ کی تعظیم کیسے کی؟
4 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے تسلیم کِیا کہ وہ جو بھی معجزے کر رہے ہیں، وہ اپنے آسمانی باپ کی طاقت سے ہی کر رہے ہیں۔ (مر 5:18-20) یسوع نے جس طرح سے اپنے باپ یہوواہ کے بارے میں دوسروں کو بتایا اور جس طرح سے وہ دوسروں کے ساتھ پیش آئے، اُس سے بھی اُنہوں نے یہوواہ کی تعظیم کی۔ ایک دفعہ یسوع مسیح یہودیوں کی ایک عبادتگاہ میں تعلیم دے رہے تھے۔ جو لوگ اُن کی باتیں سُن رہے تھے، اُن میں ایک ایسی عورت بھی تھی جو 18 سال سے ایک بُرے فرشتے کے قبضے میں تھی۔ اُس بُرے فرشتے کی وجہ سے وہ کبڑی ہو گئی تھی اور سیدھی کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ اُس کی حالت بہت ترس کے لائق تھی۔ یسوع اُس کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اُس کے پاس گئے اور بڑے پیار سے اُس سے کہا: ”بیبی، آپ کو اِس بیماری سے چھٹکارا مل گیا۔“ پھر اُنہوں نے اُس عورت پر ہاتھ رکھے اور وہ فوراً سیدھی ہو گئی اور ”خدا کی بڑائی کرنے لگی۔“ اُس کی صحت اور کھوئی ہوئی عزتِنفس واپس لوٹ آئی۔ (لُو 13:10-13) اُس عورت کے پاس یہوواہ کی تعظیم کرنے کی بہت بڑی وجہ تھی اور آج ہمارے پاس بھی ایسا کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔
ہم یہوواہ کی تعظیم کیوں کرتے ہیں؟
5. ہمارے پاس یہوواہ کا احترام کرنے کی کون سی وجوہات ہیں؟
5 ہم یہوواہ کی تعظیم اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم اُس کا گہرا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے پاس یہوواہ کا احترام کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ یہوواہ لامحدود طاقت کا مالک ہے اور وہ کبھی نہیں تھکتا۔ (زبور 96:4-7) یہوواہ کی دانشمندی کی کوئی اِنتہا نہیں۔ یہ دانشمندی اُس کی بنائی ہوئی چیزوں سے صاف نظر آتی ہے۔ وہ ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے اور اُس نے ہمیں زندہ رہنے کے لیے بہت سی نعمتیں دی ہیں۔ (مُکا 4:11) وہ وفادار خدا ہے۔ (مُکا 15:4) وہ جو بھی کام کرتا ہے، اُس میں ضرور کامیاب ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔ (یشو 23:14) اِسی لیے تو یرمیاہ نبی نے یہوواہ کے بارے میں کہا: ”مختلف قوموں کے تمام دانشمند لوگوں میں اور اُن کی تمام مملکتوں میں، تیرے جیسا کوئی نہیں۔“ (یرم 10:6، 7، نیو اُردو بائبل ورشن) بےشک ہمارے پاس اپنے آسمانی باپ کا احترام کرنے کی بےشمار وجوہات ہیں۔ لیکن ہمارے شفیق باپ نے ہماری نظروں میں صرف عزت ہی نہیں کمائی بلکہ ہماری محبت بھی جیتی ہے۔
6. ہم یہوواہ سے محبت کیوں کرتے ہیں؟
6 ہم یہوواہ کی تعظیم اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم اُس سے دل سے محبت کرتے ہیں۔ ذرا یہوواہ کی کئی ایسی خوبیوں پر غور کریں جن کی وجہ سے ہم اُس سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ وہ رحمدل اور ہمدرد خدا ہے۔ (زبور 103:13؛ یسع 49:15) جب ہم تکلیف میں ہوتے ہیں تو اُسے یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔ (زِک 2:8) اُس نے ہمارے لیے یہ ممکن بنایا ہے کہ ہم بڑی آسانی سے اُس کے دوست بن جائیں۔ (زبور 25:14؛ اعما 17:27) وہ بہت فروتن ہے۔ ”وہ آسمان اور زمین کو دیکھنے کے لیے نیچے جھکتا ہے۔ وہ ادنیٰ شخص کو خاک سے . . . اُٹھاتا ہے۔“ (زبور 113:6، 7) بھلا کون اِتنے عظیم خدا کی تعظیم نہیں کرنا چاہے گا؟—زبور 86:12۔
7. ہمیں کون سا خاص اعزاز ملا ہے؟
7 ہم یہوواہ کی تعظیم اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے اُسے جانیں۔ بہت سے لوگ یہوواہ کے بارے میں سچائی نہیں جانتے۔ کیوں؟ کیونکہ شیطان نے یہوواہ کے بارے میں بہت سے بھیانک جھوٹ پھیلا کر لوگوں کی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے۔ (2-کُر 4:4) شیطان نے لوگوں کو اِس بات پر قائل کر لیا ہے کہ یہوواہ گُناہ کرنے والے لوگوں کو بالکل نہیں بخشتا، اُسے کسی کی پرواہ نہیں اور دُنیا میں پائی جانے والی زیادہتر مصیبتوں کے پیچھے اُسی کا ہاتھ ہے۔ لیکن ہم اپنے خدا کے بارے میں سچائی جانتے ہیں! ہمیں یہ خاص اعزاز ملا ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے شفیق اور مہربان خدا کے بارے میں بتائیں اور یوں اُس کی تعظیم کریں۔ (یسع 43:10) زبور 96 میں یہوواہ کی تعظیم کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جب ہم اِس زبور سے کچھ آیتوں پر غور کرتے ہیں تو ایسے طریقوں کے بارے میں سوچنے کی کوشش کریں جن سے آپ یہوواہ کی اُسی طرح سے تعظیم کر پائیں جس کا وہ واقعی حقدار ہے۔
یہوواہ کی اُس طرح سے تعظیم کریں جس کا وہ حقدار ہے
8. یہوواہ کی تعظیم کرنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟ (زبور 96:1-3)
8 زبور 96:1-3 کو پڑھیں۔ ہم اپنی باتوں سے یہوواہ کی تعظیم کر سکتے ہیں۔ اِن آیتوں میں یہوواہ کے بندوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’یہوواہ کے لیے ایک گیت گائیں،‘ ”اُس کے نام کی بڑائی“ کریں، ”اُس کے نجاتبخش کاموں کی خوشخبری“ سنائیں اور ”قوموں میں اُس کی عظمت کا اِعلان“کریں۔ ہم اِن سبھی طریقوں سے اپنی بولنے کی صلاحیت کو اِستعمال کرتے ہوئے اپنے آسمانی باپ کی تعظیم کر سکتے ہیں۔ پُرانے زمانے میں اور پہلی صدی عیسوی میں یہوواہ کے بندے اُس کے نام کا دِفاع کرنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے تھے۔ وہ بڑے جوش سے لوگوں کو اُن سب شاندار کاموں کے بارے میں بتاتے تھے جو یہوواہ نے اُن کے لیے کیے تھے۔ (دان 3:16-18؛ اعما 4:29) ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
9-10. آپ نے بہن کرسٹین سے کیا سیکھا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
9 ذرا امریکہ میں رہنے والی کرسٹین a نام کی بہن کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے اپنی نوکری کی جگہ پر بڑی دلیری سے یہوواہ کے نام کا دِفاع کِیا۔ وہ حال ہی میں ایک کمپنی میں نوکری کرنے لگی تھیں۔ اُنہیں ایک میٹنگ میں بُلایا گیا۔ وہاں کمپنی میں کام کرنے والے نئے لوگوں کو دوسروں کے سامنے اپنا تعارف کرانا تھا۔ کرسٹین نے کچھ تصویریں دِکھانے کا سوچا تاکہ وہ دوسروں کو بتا سکیں کہ وہ یہوواہ کی گواہ ہونے کی وجہ سے کتنی خوش ہیں۔ لیکن اُن کی باری آنے سے پہلے جو شخص اپنا تعارف کرا رہا تھا، اُس نے بتایا کہ اُس کی پیدائش یہوواہ کے گواہوں کے ایک گھرانے میں ہوئی۔ لیکن وہ خود یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔ اِس کے بعد وہ گواہوں کے عقیدوں کا مذاق اُڑانے لگا۔ بہن کرسٹین نے کہا: ”میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن پھر مَیں نے سوچا: ”کیا مَیں ایسے ہی چپچاپ کسی کو یہوواہ کے بارے میں جھوٹ بولنے دوں گی؟ یا پھر مَیں اُس کا دِفاع کروں گی؟““
10 پھر جب اُس شخص نے اپنی بات ختم کی تو بہن کرسٹین نے دل میں چھوٹی سی دُعا کی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے اُس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی نرمی سے کہا: ”مَیں بھی آپ ہی کی طرح یہوواہ کے گواہوں کے گھرانے میں پلی بڑھی اور مَیں اب بھی یہوواہ کی گواہ ہوں۔“ حالانکہ ماحول تھوڑا ٹینشن والا ہو گیا تھا لیکن بہن کرسٹین پُرسکون رہیں۔ پھر اُنہوں نے سب کو وہ تصویریں دِکھائیں جن میں وہ اور اُن کے دوست یہوواہ کی عبادت کر کے بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے بڑی سمجھداری اور احترام سے اپنے عقیدوں کے بارے میں سب کو بتایا۔ (1-پطر 3:15) اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ جب بہن کرسٹین نے اپنی بات ختم کی تو تب تک اُس شخص کا رویہ نرم ہو چُکا تھا۔ اُس آدمی نے تو اپنے بچپن کی کچھ ایسی اچھی باتیں بھی بتائیں جب وہ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ میل جول رکھتا تھا۔ بہن کرسٹین نے کہا: ”یہوواہ ایسا خدا ہے جس کا ہر صورت میں دِفاع کِیا جانا چاہیے۔ اُس کے نام کا دِفاع کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے۔“ ہمارے پاس بھی یہوواہ کی بڑائی اور تعظیم کرنے کا اعزاز ہے پھر چاہے دوسرے ایسا کریں یا نہ کریں۔
11. پُرانے زمانے سے لے کر اب تک یہوواہ کے بندوں نے زبور 96:8 میں پائے جانے والے اصول پر کیسے عمل کِیا ہے؟
11 زبور 96:8 کو پڑھیں۔ ہم اپنے پیسوں اور چیزوں سے یہوواہ کی تعظیم کر سکتے ہیں۔ شروع سے ہی یہوواہ کے بندوں نے اِس طریقے سے اُس کی تعظیم کی ہے۔ (اَمثا 3:9) مثال کے طور پر بنیاِسرائیل نے ہیکل کی تعمیر اور مرمت کے کام کے لیے پیسے اور قیمتی چیزوں کا عطیہ دیا۔ (2-سلا 12:4، 5؛ 1-توا 29:3-9) یسوع مسیح کے کچھ شاگردوں نے ”اپنے مالی وسائل سے“ یسوع اور اُن کے رسولوں کی خدمت کی۔ (لُو 8:1-3) اِس کے علاوہ جب پہلی صدی عیسوی کے کچھ مسیحی قحط کا شکار ہوئے تو دوسرے علاقوں میں رہنے والے مسیحیوں نے اُن کی مالی مدد کی۔ (اعما 11:27-29) آج ہم بھی عطیات دینے سے یہوواہ کی تعظیم کر سکتے ہیں۔
12. ہمارے عطیات سے یہوواہ کی تعظیم کیسے ہو سکتی ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
12 ذرا ایک مثال پر غور کریں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے عطیات سے یہوواہ کی کتنی تعظیم ہوتی ہے۔ 2020ء میں ملک زمبابوے میں شدید قحط پڑا جو کافی لمبے عرصے تک جاری رہا۔ لاکھوں لوگ بھوک کی وجہ سے مرنے کے خطرے میں تھے۔ اِن لوگوں میں ہماری بہن پرِسکہ بھی شامل تھیں۔ حالانکہ قحط کی وجہ سے لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی لیکن بہن پرِسکہ ہر بدھ اور جمعے کو مُنادی کرنے کے لیے جاتی تھیں، اُس وقت بھی جب اناج کے بیج بونے کے مہینے چل رہے تھے۔ بہن پرِسکہ کے پڑوسی اُن کا مذاق اُڑاتے تھے کہ وہ کھیتوں میں کام کرنے کی بجائے مُنادی کرنے جا رہی ہیں۔ وہ اُن سے کہتے تھے: ”تُم ضرور بھوکی مرو گی۔“ لیکن بہن پرِسکہ پورے اِعتماد سے کہتی تھیں: ”یہوواہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔“ اِس کے کچھ ہی وقت بعد اُنہیں ہماری تنظیم کی طرف سے اِمداد ملی۔ بہن پرِسکہ کو کھانے پینے اور ضرورت کی چیزیں ہمارے عطیات کی وجہ سے ہی مل سکیں۔ جب بہن پرِسکہ کے پڑوسیوں نے یہ دیکھا تو اِس کا اُن کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔ اُنہوں نے کہا: ”خدا نے آپ کو واقعی مایوس نہیں کِیا۔ ہم بھی آپ کے خدا کے بارے میں اَور جاننا چاہتے ہیں۔“ بہن پرِسکہ کے پڑوسیوں میں سے سات لوگ ہماری عبادتوں میں آنے لگے۔
13. ہمارے چالچلن سے یہوواہ کی تعظیم کیسے ہو سکتی ہے؟ (زبور 96:9)
13 زبور 96:9 کو پڑھیں۔ ہم اپنے چالچلن سے یہوواہ کی تعظیم کر سکتے ہیں۔ پُرانے زمانے میں جب کاہن ہیکل میں یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے جاتے تھے تو اُنہیں خود کو پاک صاف کرنا ہوتا تھا۔ (خر 40:30-32) لیکن ہمارے لیے اپنے جسم کو پاک رکھنے سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے چالچلن کو پاک رکھیں۔ (زبور 24:3، 4؛ 1-پطر 1:15، 16) ہمیں اپنی ’پُرانی شخصیت کو اُتار پھینکنے‘ یعنی اپنی ناپاک سوچ اور کاموں کو دُور کرنے کی سخت کوشش کرنی چاہیے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں ”نئی شخصیت کو پہننے“ کی بھی ضرورت ہے یعنی ہمیں ایسی سوچ اپنانے اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے ہمارے خدا کی شاندار خوبیاں نظر آئیں۔ (کُل 3:9، 10) یہوواہ کی مدد سے بدکار سے بدکار اور ظالم سے ظالم شخص بھی خود کو بدل سکتا ہے اور نئی شخصیت کو پہن سکتا ہے۔
14. آپ نے بھائی جیک سے کیا سیکھا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
14 ذرا جیک نام کے ایک بھائی کے تجربے پر غور کریں جو بہت ہی تشدد کرنے والے اور خطرناک مُجرم تھے۔ وہ اِتنے خطرناک تھے کہ اُن کا دوسرا نام ہی شیطان تھا۔ اُنہوں نے جو جُرم کیے تھے، اُس کے لیے اُنہیں سزائےموت سنائی گئی تھی۔ جب بھائی جیک سزائےموت ملنے کا اِنتظار کر رہے تھے تو ایک بھائی نے اُنہیں بائبل کورس کرنے کی پیشکش کی۔ یہ بھائی جیل میں قیدیوں کو گواہی دینے گیا تھا۔ بھائی جیک اُس سے بائبل کورس کرنے لگے۔ حالانکہ بھائی جیک نے اپنی زندگی میں بہت بُرے کام کیے تھے لیکن آخرکار اُنہوں نے اپنی پُرانی شخصیت کو اُتار دیا اور بعد میں یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ بھائی جیک اِتنا بدل گئے تھے کہ جب اُن کی سزائےموت کا دن آیا تو اُنہیں الوداع کہتے ہوئے جیل کے کچھ فوجیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایک فوجی نے تو کہا: ”ایک وقت تھا جب جیک یہاں کے سب سے بدترین قیدی تھے لیکن اب وہ سب سے بہترین قیدی ہیں۔“ بھائی جیک کی موت کے ایک ہفتے بعد جب کچھ بھائی ہفتے کے دوران ہونے والا اِجلاس کرانے جیل گئے تو اُن کی ملاقات ایک ایسے قیدی سے ہوئی جو پہلی بار اِجلاس میں آیا تھا۔ اُس قیدی نے اِجلاس میں جانے کا فیصلہ کیوں کِیا تھا؟ وہ بھائی جیک کے اچھے چالچلن سے بہت متاثر ہوا تھا اور جاننا چاہتا تھا کہ اُسے یہوواہ کی عبادت کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ اِس مثال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے چالچلن سے ہمارے آسمانی باپ یہوواہ کی تعظیم ہوتی ہے۔—1-پطر 2:12۔
بہت جلد یہوواہ اپنے نام کی تعظیم کیسے کرے گا؟
15. یہوواہ مستقبل میں پوری طرح سے اپنے نام کی تعظیم کیسے کرے گا؟ (زبور 96:10-13)
15 زبور 96:10-13 کو پڑھیں۔ زبور 96 کی اِن آخری آیتوں میں یہوواہ کو ایک نیک منصف اور بادشاہ کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔ یہوواہ بہت جلد مستقبل میں اپنے نام کی تعظیم کیسے کرے گا؟ اِنصاف سے عدالت کرنے سے۔ بہت جلد یہوواہ بابلِعظیم کو تباہ کر دے گا جس نے اُس کے پاک نام کو بہت بدنام کِیا ہے۔ (مُکا 17:5، 16؛ 19:1، 2) اِس کی تباہی کو دیکھ کر ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ مل کر یہوواہ کی عبادت کرنے لگیں۔ پھر یہوواہ ہرمجِدّون کی جنگ میں شیطان کی دُنیا کے ہر نظام کا نامونشان مٹا دے گا۔ وہ اُن سب لوگوں کو ہلاک کر دے گا جو اُس سے نفرت کرتے ہیں اور اُس کے بارے میں جھوٹ پھیلا کر اُس کے نام کو خراب کرتے ہیں۔ لیکن یہوواہ اُن سب لوگوں کو بچا لے گا جو اُس سے محبت کرتے ہیں، اُس کے حکموں پر چلتے ہیں اور اُس کی تعظیم کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ (مر 8:38؛ 2-تھس 1:6-10) پھر یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے بعد جب آخری اِمتحان ہوگا تو اِس کے بعد یہوواہ اپنے نام کو مکمل طور پر پاک ثابت کر لے گا۔ (مُکا 20:7-10) اُس وقت ”جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین[یہوواہ]کے جلال کے عرفان سے معمور ہوگی۔“—حبق 2:14۔
16. آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
16 وہ کتنا ہی شاندار وقت ہوگا جب زمین پر موجود ہر شخص یہوواہ کے نام کی اُس طرح سے تعظیم کرے گا جس کا یہوواہ حقدار ہے! لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہم ہر طرح سے یہوواہ کے نام کی تعظیم کرنے کی جی جان سے کوشش کرتے رہیں گے۔ اِس اہم معاملے کو نمایاں کرنے کے لیے گورننگ باڈی نے 2025ء کی سالانہ آیت کے لیے زبور 96:8 کو چُنا ہے۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”یہوواہ کی ایسی تعظیم کرو جو اُس کے نام کے شایانِشان ہو۔“
گیت نمبر 12: یہوواہ حمد کا حقدار ہے
a کچھ نام فرضی ہیں۔