مطالعے کا مضمون نمبر 33
گیت نمبر 130: دل سے معاف کریں
کلیسیا سنگین گُناہ کرنے والوں کے بارے میں یہوواہ جیسی سوچ کیسے اپنا سکتی ہے؟
’اگر کوئی شخص گُناہ کرے تو ہمارا ایک مددگار ہے۔‘ —1-یوح 2:1۔
غور کریں کہ . . .
پہلی صدی عیسوی میں جب کُرنتھس کی کلیسیا میں ایک شخص نے سنگین گُناہ کِیا تو اِس مسئلے کو کیسے حل کِیا گیا اور ہم اِس سے کون سے اہم سبق سیکھتے ہیں۔
1. یہوواہ سب اِنسانوں کے لیے کیا چاہتا ہے؟
یہوواہ خدا نے سب اِنسانوں میں یہ صلاحیت ڈالی ہے کہ وہ خود اپنے لیے فیصلے لیں۔ جب آپ اپنی زندگی میں کوئی بھی فیصلہ لیتے ہیں تو آپ یہوواہ کی دی ہوئی صلاحیت کو اِستعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک شخص اپنی زندگی میں سب سے بڑا اور اہمترین فیصلہ تب لیتا ہے جب وہ اپنی زندگی یہوواہ کے نام کرتا ہے اور اُس کے خاندان کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہر شخص یہ فیصلہ لے۔ کیوں؟ کیونکہ یہوواہ سب اِنسانوں سے پیار کرتا ہے اور اُن کا بھلا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کے دوست بنیں اور ہمیشہ تک زندہ رہیں۔—اِست 30:19، 20؛ گل 6:7، 8۔
2. یہوواہ اُن لوگوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے جو اپنے گُناہ سے توبہ نہیں کرتے؟ (1-یوحنا 2:1)
2 لیکن یہوواہ کسی بھی شخص کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ اُس کی عبادت کرے۔ اُس نے ہر شخص کو خود یہ فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔ لیکن اگر کوئی بپتسمہیافتہ مسیحی سنگین گُناہ کر کے یہوواہ کا حکم توڑ دیتا ہے تو پھر کیا کِیا جانا چاہیے؟ اگر وہ اپنے گُناہ سے توبہ نہیں کرتا تو اُسے کلیسیا سے نکال دیا جانا چاہیے۔ (1-کُر 5:13) جب ایسا ہوتا ہے تو یہوواہ پھر بھی اِس بات کی اُمید نہیں چھوڑتا کہ گُناہ کرنے والا شخص ایک دن اُس کی طرف لوٹ آئے گا۔ دراصل اِسی وجہ سے تو اُس نے اِنسانوں کے لیے فدیہ فراہم کِیا ہے تاکہ اُن لوگوں کو معافی مل سکے جو اپنے گُناہ سے توبہ کرتے ہیں۔ (1-یوحنا 2:1 کو پڑھیں۔) ہمارا شفیق خدا گُناہ کرنے والے لوگوں سے بڑے پیار سے درخواست کرتا ہے کہ وہ توبہ کریں۔—زِک 1:3؛ روم 2:4؛ یعقو 4:8۔
3. اِس مضمون میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟
3 یہوواہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ گُناہ کو اور گُناہ کرنے والے شخص کو کیسا خیال کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اِن معاملوں کے بارے میں ہم اُس جیسی سوچ اپنائیں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ تو مضمون کو پڑھتے وقت اِن تین باتوں پر غور کریں: (1)پہلی صدی عیسوی میں جب کُرنتھس کی کلیسیا میں ایک مسیحی نے سنگین گُناہ کِیا تو پولُس نے اُس کلیسیا کو کیا کرنے کے لیے کہا؟ (2)جب اُس شخص نے اپنے گُناہ سے توبہ کی تو پولُس نے کلیسیا کو کیا کرنے کی ہدایت دی؟ اور (3)بائبل میں لکھے اِس واقعے سے ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ یہوواہ ایک گُناہگار شخص کو کیسا خیال کرتا ہے؟
پہلی صدی عیسوی میں سنگین گُناہ کے مسئلے کو کیسے حل کِیا گیا؟
4. پہلی صدی عیسوی میں کُرنتھس کی کلیسیا میں کون سا مسئلہ کھڑا ہوا تھا؟ (1-کُرنتھیوں 5:1، 2)
4 پہلا کُرنتھیوں 5:1، 2 کو پڑھیں۔ جب پولُس اپنے تیسرے مشنری دورے پر تھے تو اِس دوران اُنہوں نے ایک کلیسیا کے بارے میں ایسی بات سنی جو بڑی پریشانی کا باعث تھی۔ یہ کُرنتھس کی کلیسیا تھی جو ابھی ابھی قائم ہوئی تھی۔ اُس کلیسیا میں ایک مسیحی کے اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ یہ بہت ہی شرمناک حرکت تھی۔ ایسی حرکت تو ”غیرایمان والے بھی نہیں کرتے“ تھے! اُس کلیسیا کے مسیحیوں نے نہ صرف اُس شخص کی اِس حرکت پر آنکھیں بند کی ہوئی تھیں بلکہ شاید وہ تو اِس بات پر فخر بھی محسوس کر رہے تھے کہ وہ اِس حرکت کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ شاید کچھ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کرنے سے وہ یہوواہ کی طرح رحمدلی دِکھا رہے ہیں۔ لیکن یہوواہ اپنے بندوں کے بیچ ہونے والی کسی بھی بُرائی کو بالکل برداشت نہیں کرتا۔ بےشک اُس مسیحی کے اِس گھناؤنے کام کی وجہ سے کلیسیا کی نیکنامی خراب ہو رہی تھی۔ اِس کے علاوہ وہ اُن مسیحیوں پر بھی بُرا اثر ڈال سکتا تھا جن کے ساتھ اُس کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ تو پولُس نے کلیسیا کو کیا کرنے کی ہدایت دی؟
5. پولُس نے کلیسیا سے کیا کرنے کے لیے کہا اور اُن کی بات کا کیا مطلب تھا؟ (1-کُرنتھیوں 5:13) (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
5 پہلا کُرنتھیوں 5:13 کو پڑھیں۔ پولُس رسول نے یہوواہ کی پاک روح کی رہنمائی میں کُرنتھس کی کلیسیا کو ایک خط لکھا جس میں اُنہوں نے اُسے یہ ہدایت دی کہ وہ توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے نکال دے۔ یہوواہ سے محبت کرنے والے مسیحیوں کو اُس شخص کے ساتھ کیسے پیش آنا تھا؟ پولُس نے اُن سے کہا: ”اُس کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا بالکل چھوڑ دیں۔“ پھر اُنہوں نے آگے کہا: ”اُس کے ساتھ کھانا تک نہ کھائیں۔“ (1-کُر 5:11) کیوں؟ کیونکہ جب ہم کسی کے ساتھ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو ہم اُس شخص کے ساتھ وقت گزار رہے ہوتے ہیں اور اُس کے ساتھ اپنی دوستی بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ تو پولُس کی بات کا یہ مطلب تھا کہ کلیسیا کو اُس شخص کے ساتھ میل جول نہیں رکھنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے کلیسیا اُس شخص کے بُرے اثر سے بچ سکتی تھی۔ (1-کُر 5:5-7) اِس کے علاوہ اُس شخص میں بھی یہ احساس جاگ سکتا تھا کہ وہ یہوواہ سے کتنا دُور چلا گیا ہے، اُسے اپنے کیے پر شرمندگی ہو سکتی تھی اور وہ توبہ کرنے کی طرف مائل ہو سکتا تھا۔
6. پولُس کے خط کا کُرنتھس کی کلیسیا اور گُناہ کرنے والے شخص پر کیا اثر ہوا؟
6 کُرنتھس کی کلیسیا کو خط بھیجنے کے بعد پولُس یہ سوچنے لگے کہ ”پتہ نہیں کلیسیا کو خط میں لکھی ہدایتیں پڑھ کر کیسا لگا ہوگا؟“ لیکن پھر طِطُس نے پولُس کو ایک ایسی خبر دی جسے سُن کر پولُس کا دل خوش ہو گیا۔ پولُس کو پتہ چلا کہ کلیسیا نے اُن کے خط میں لکھی ہدایتوں پر عمل کِیا ہے۔ (2-کُر 7:6، 7) اِس کے علاوہ پولُس کے خط بھیجنے کے کچھ مہینے بعد گُناہ کرنے والے شخص نے بھی توبہ کر لی تھی۔ اُس نے اپنی روِش اور سوچ بدل لی تھی اور وہ یہوواہ کے پاک معیاروں پر چلنے لگا تھا۔ (2-کُر 7:8-11) تو اب پولُس نے کلیسیا کو کیا کرنے کے لیے کہا؟
کلیسیا کو توبہ کرنے والے شخص کے ساتھ کیسے پیش آنا تھا؟
7. گُناہ سے توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے نکال دینے کا کیا فائدہ ہوا؟ (2-کُرنتھیوں 2:5-8)
7 دوسرا کُرنتھیوں 2:5-8 کو پڑھیں۔ پولُس رسول نے کہا: ”اُس شخص کے لیے وہ سزا کافی ہے جو آپ میں سے زیادہتر نے اُسے دی ہے۔“ دوسرے لفظوں میں کہیں تو اُس شخص کو جس مقصد سے سزا دی گئی تھی، وہ مقصد پورا ہو گیا تھا۔ کون سا مقصد؟ یہ کہ وہ توبہ کی طرف مائل ہو۔—عبر 12:11۔
8. پولُس نے کلیسیا کو آگے کیا کرنے کے لیے کہا؟
8 پولُس نے کلیسیا کو یہ ہدایت دی کہ وہ گُناہ سے توبہ کرنے والے مسیحی کو اب ”دل سے معاف کر دیں اور اُسے تسلی دیں“ اور ”اُسے یقین دِلائیں کہ[وہ]اُس سے پیار کرتے ہیں۔“ غور کریں کہ پولُس صرف یہی نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے ہمایمان اُس مسیحی کو واپس کلیسیا کا حصہ بنا لیں بلکہ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ بہن بھائی اُس مسیحی کو اپنی باتوں، اپنے رویے اور اپنے کاموں سے یقین دِلائیں کہ اُنہوں نے اُسے دل سے معاف کر دیا ہے اور وہ اُس سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اِس طرح وہ یہ ثابت کر سکتے تھے کہ اُنہوں نے اُس شخص کو کلیسیا میں قبول کر لیا ہے۔
9. کُرنتھس کے کچھ مسیحیوں کو شاید کس وجہ سے اُس مسیحی کو معاف کرنا مشکل لگ رہا ہوگا جس نے اپنے گُناہ سے توبہ کر لی تھی؟
9 کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کُرنتھس کی کلیسیا میں کچھ مسیحی شروع شروع میں اِس بات پر خوش نہ ہوئے ہوں کہ وہ شخص پھر سے کلیسیا کا حصہ بن گیا ہے؟ بائبل میں اِس بارے میں نہیں بتایا گیا لیکن یہ ممکن ہے کہ ایسا ہوا ہو۔ دیکھا جائے تو اُس کے کاموں سے پوری کلیسیا کو ہی مشکل وقت دیکھنا پڑا تھا اور شاید کچھ مسیحیوں کو تو اُس کی وجہ سے بہت شرمندگی بھی اُٹھانی پڑی تھی۔ اُس کلیسیا میں مسیحیوں نے اپنے چالچلن کو یہوواہ کے اصولوں کے مطابق پاک رکھنے کے لیے بہت سخت محنت کی تھی۔ اِس وجہ سے شاید اُن میں سے کچھ کو لگا ہو کہ یہ تو بڑی نااِنصافی کی بات ہے کہ اُس شخص نے اِتنا سنگین گُناہ کِیا ہے اور اِس کے بعد بھی اُسے بانہیں کھول کر کلیسیا میں قبول کِیا جا رہا ہے۔ (لُوقا 15:28-30 پر غور کریں۔) تو یہ اِتنا ضروری کیوں تھا کہ کلیسیا اُس شخص کے لوٹنے پر اُس کے لیے سچی محبت دِکھاتی؟
10-11. اگر کُرنتھس کی کلیسیا کے بزرگ گُناہ کرنے والے شخص کو معاف نہ کرتے تو کیا ہو سکتا تھا؟
10 ذرا سوچیں کہ اگر کلیسیا کے بزرگ دل سے توبہ کرنے والے اُس شخص کو پھر سے کلیسیا کا حصہ بننے کی اِجازت نہ دیتے یا کلیسیا اُس شخص کے لوٹ آنے کے بعد اُس کے لیے محبت نہ دِکھاتی تو کیا ہو سکتا تھا۔ اِس طرح تو وہ شخص ”اپنے غم کے بوجھ تلے دب“ سکتا تھا۔ وہ بڑی آسانی سے اِس سوچ کا شکار ہو سکتا تھا کہ اب وہ کبھی بھی یہوواہ کی خدمت کرنے کے لائق نہیں بن سکتا۔ وہ تو شاید پھر سے یہوواہ کے ساتھ دوستی کرنے کی اُمید ہی کھو بیٹھتا۔
11 اور نقصان صرف اُس شخص کا ہی نہیں بلکہ کلیسیا کے بہن بھائیوں کا بھی ہونا تھا۔ اُس شخص کو معاف نہ کرنے سے یہوواہ کے ساتھ اُن کی اپنی دوستی بھی داؤ پر لگ سکتی تھی۔ کیوں؟ کیونکہ یوں وہ یہوواہ کی طرح رحمدلی نہیں بلکہ شیطان کی طرح بےحسی اور بےرحمی دِکھا رہے ہوتے۔ ایک لحاظ سے وہ شیطان کو یہ موقع دے رہے ہوتے کہ وہ اُن کے ذریعے اُس بھائی کو بالکل بےحوصلہ اور یہوواہ سے دُور کر دے۔—2-کُر 2:10، 11؛ اِفِس 4:27۔
12. کُرنتھس کی کلیسیا یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتی تھی؟
12 تو پھر کُرنتھس کی کلیسیا شیطان کی بجائے یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتی تھی؟ وہ گُناہ سے توبہ کرنے والے شخص کے ساتھ اُسی طرح سے پیش آ سکتی تھی جیسے یہوواہ اُس شخص کے ساتھ پیش آ رہا تھا۔ غور کریں کہ بائبل کو لکھنے والے خدا کے کچھ بندوں نے یہوواہ کے بارے میں کیا کہا۔ داؤد نے کہا: ”یہوواہ! تُو اچھا ہے اور معاف کرنے کو تیار رہتا ہے۔“ (زبور 86:5) اور میکاہ نبی نے لکھا: ’تجھ سا خدا کون ہے جو بدکرداری معاف کرے اورخطاؤں سے درگذرے؟‘ (میک 7:18) اِس کے علاوہ یسعیاہ نبی نے کہا: ”بُرا شخص اپنی بُری راہ کو چھوڑ دے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والا اپنے بُرے خیالوں کو؛ وہ یہوواہ کے پاس لوٹ آئے جو اُس پر رحم کرے گا، ہاں، ہمارے خدا کے پاس کیونکہ وہ دل کھول کر معاف کرے گا۔“—یسع 55:7، ترجمہ نئی دُنیا۔
13. یہ کیوں مناسب تھا کہ کُرنتھس کی کلیسیا میں توبہ کرنے والے شخص کو بحال کرنے میں دیر نہ لگائی جاتی؟ (بکس ” کُرنتھس کی کلیسیا میں سنگین گُناہ سے توبہ کرنے والے شخص کو کب بحال کِیا گیا؟“ کو دیکھیں۔)
13 کُرنتھس کی کلیسیا کو یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے توبہ کرنے والے اُس شخص کو پھر سے کلیسیا میں قبول کرنا تھا اور اُسے اپنی محبت کا یقین دِلانا تھا۔ پولُس نے کہا تھا کہ اگر کلیسیا اُس مسیحی کو معاف کر دے گی تو وہ ”فرمانبرداری“ دِکھا رہی ہوگی۔ (2-کُر 2:9) سچ ہے کہ اُس شخص کو کلیسیا سے نکالے ہوئے کچھ ہی مہینے ہوئے تھے لیکن اِصلاح کا مقصد پورا ہو چُکا تھا۔ اُس نے اپنے گُناہ سے توبہ کر لی تھی۔ تو ایسی کوئی بھی وجہ نہیں تھی جس کی بِنا پر اُسے کلیسیا میں بحال کرنے میں دیر لگائی جاتی۔
یہوواہ کی طرح اِنصاف اور رحمدلی ظاہر کریں
14-15. کُرنتھس کی کلیسیا میں معاملے کو جس طرح سے حل کِیا گیا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (2-پطرس 3:9) (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
14 کُرنتھس کی کلیسیا میں کھڑے ہونے والے معاملے کو جس طرح سے حل کِیا گیا، اُسے یہوواہ نے اپنے کلام میں ”ہماری ہدایت کے لیے“ لکھوایا۔ (روم 15:4) اِس واقعے سے ہم سیکھتے ہیں کہ یہوواہ اپنی کلیسیا میں ایسے لوگوں کو بالکل برداشت نہیں کرتا جو سنگین گُناہ کرنے پر توبہ نہیں کرتے۔ شاید کچھ لوگوں کو لگے کہ ”یہوواہ بہت ہی رحمدل خدا ہے اِس لیے وہ ایسے شخص کو بھی کلیسیا میں رہنے دے گا جس نے سنگین گُناہ سے توبہ نہیں کی۔“ لیکن یہ یہوواہ کے رحم دِکھانے کا طریقہ نہیں ہے۔ بےشک یہوواہ رحمدل ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک شخص کوئی بھی گُناہ کرتا رہے اور یہوواہ اِسے نظرانداز کر دے۔ اِس کے علاوہ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہوواہ صحیح اور غلط کے حوالے سے اپنے معیار بدل لے۔ (یہوداہ 4) اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اُس کی رحمدلی کے بالکل خلاف ہوگا کیونکہ اِس طرح وہ کلیسیا کے باقی لوگوں کے لیے رحم نہیں دِکھا رہا ہوگا جو خطرے میں ہوں گے۔—اَمثا 13:20؛ 1-کُر 15:33۔
15 لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہوواہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو۔ جہاں تک ممکن ہے، وہ لوگوں کو بچانا چاہتا ہے۔ وہ اُن لوگوں پر رحم کرتا ہے جو اپنی سوچ اور اپنے کاموں کو بدل لیتے ہیں اور اُس دراڑ کو بھرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی میں آ گئی ہے۔ (حِز 33:11؛ 2-پطرس 3:9 کو پڑھیں۔) اِس لیے جب کُرنتھس کی کلیسیا میں گُناہ کرنے والے شخص نے توبہ کی اور اپنی روِش بدل لی تو یہوواہ نے پولُس کے ذریعے کلیسیا کو سمجھایا کہ وہ اُس شخص کو معاف کر دے اور اُسے دل سے قبول کرے۔
16. کُرنتھس کی کلیسیا میں معاملے کو جس طرح سے حل کِیا گیا، اُس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
16 کُرنتھس کی کلیسیا کی مثال سے ہم یہ دیکھ پائے کہ ہمارا خدا یہوواہ کتنا زیادہ نیک، اِنصافپسند اور محبت کرنے والا باپ ہے۔ (زبور 33:5) کیا اب آپ کے دل میں اپنے آسمانی باپ کی اَور بڑائی کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی؟ ہم سبھی عیبدار ہیں اور ہم سبھی کو اُس کی طرف سے معافی کی ضرورت ہے۔ ہم سبھی کے پاس فدیے کے بندوبست کے لیے یہوواہ کا شکرگزار ہونے کی وجہ ہے کیونکہ اِس کے ذریعے ہمارے لیے اپنے گُناہوں سے معافی حاصل کرنا ممکن ہوا۔ ہمیں یہ جان کر کتنی اُمید اور تسلی ملتی ہے نا کہ یہوواہ اپنے بندوں سے بےپناہ محبت کرتا ہے اور اُن کا بھلا چاہتا ہے!
17. اگلے مضامین میں کس بارے میں بات کی جائے گی؟
17 آج جب کلیسیا میں کوئی شخص سنگین گُناہ کرتا ہے تو اِس معاملے کو کیسے حل کِیا جاتا ہے؟ کلیسیا کے بزرگ یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے توبہ کرنے والے شخص کے لیے محبت کیسے دِکھا سکتے ہیں اور اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ کلیسیا کو اُس وقت کیا کرنا چاہیے جب بزرگ کسی کو کلیسیا سے نکال دینے یا اُسے پھر سے بحال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں؟ اِن سوالوں کے جواب اگلے مضامین میں دیے جائیں گے۔
گیت نمبر 109: دل کی گہرائی سے محبت کریں