”اُن کی محبت نے ہمارے دلوں کو چُھو لیا!“
پچّیس اپریل 2015ء کو نیپال میں ایک ہولناک زلزلہ آیا جس کی شدت 8.7 تھی۔ اِس زلزلے کا مرکز نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے تقریباً 80 کلومیٹر (50 میل) دُور شمال مغرب میں تھا۔ یہ نیپال کی تاریخ میں سب سے بدترین قدرتی آفت تھی جس میں 8500 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور 5 لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہو گئے۔ نیپال میں 2200 یہوواہ کے گواہ ہیں جن میں سے زیادہتر اُس علاقے میں رہتے تھے جو زلزلے سے متاثر ہوا۔ افسوس کی بات ہے کہ اِس زلزلے میں یہوواہ کی ایک گواہ اور اُس کے دو بچے بھی ہلاک ہو گئے۔
مشل نامی یہوواہ کی ایک گواہ نے بتایا: ”جو علاقہ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہاں زلزلے کے وقت یہوواہ کے گواہ اپنی عبادتگاہوں میں عبادت کر رہے تھے۔ اگر وہ اُس وقت اپنے گھروں میں ہوتے تو زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی۔“ لیکن اُن یہوواہ کے گواہوں کی جان کیوں بچ گئی جو زلزلے کے وقت عبادتگاہوں میں تھے؟ اِس کی ایک بڑی وجہ عبادتگاہوں کا ڈیزائن تھا۔
”اب ہم اِس کے فائدے دیکھ سکتے ہیں“
نیپال میں یہوواہ کے گواہوں کی عبادتگاہوں کو اِس طرح سے تعمیر کِیا جاتا ہے کہ یہ زلزلے کو برداشت کر سکیں۔ من بہادر جو نیپال میں یہوواہ کے گواہوں کی عبادتگاہوں کو تعمیر کرنے کا کام کرتے ہیں، کہتے ہیں: ”لوگ اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم اِتنی چھوٹی عمارت کے لیے اِتنی مضبوط بنیادیں کیوں ڈالتے ہیں۔ لیکن اب ہم اِس کے فائدے دیکھ سکتے ہیں۔“ زلزلے کے بعد یہوواہ کے گواہوں کے پیشواؤں نے عبادتگاہوں کو پناہگاہوں کے طور پر اِستعمال کرنے کی اِجازت دے دی۔ اگرچہ بعد میں بھی وقفے وقفے سے زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے لیکن اِن عبادتگاہوں میں یہوواہ کے گواہ اور اُن کے پڑوسی محفوظ محسوس کر رہے تھے۔
یہوواہ کے گواہوں کے پیشواؤں نے فوراً اپنی کلیسیا (یعنی جماعت) کے اُن ارکان کو تلاش کرنا شروع کر دیا جو لاپتہ تھے۔ بابیتا نامی یہوواہ کی ایک گواہ نے کہا: ”ہمارے پیشواؤں کو خود سے زیادہ کلیسیا کے ارکان کی فکر تھی۔ اُن کی محبت نے ہمارے دلوں کو چُھو لیا!“ زلزلے کے اگلے دن نیپال میں یہوواہ کے گواہوں کے کام کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے تینوں ارکان اور حلقے کے نگہبانوں نے کلیسیاؤں کا دورہ کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مقامی پیشواؤں کی مدد کر سکیں اور دیکھ سکیں کہ کس کس چیز کی ضرورت ہے۔
زلزلے کے چھ دن بعد امریکہ میں واقع یہوواہ کے گواہوں کے مرکزی دفتر سے گیری برو اپنی بیوی روبی کے ساتھ نیپال پہنچے۔ نیپال میں یہوواہ کے گواہوں کے کام کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے رُکن، رُوبن نے کہا: ”کھٹمنڈو میں صورتحال بہت خراب تھی اور وقفے وقفے سے زلزلے کے جھٹکے محسوس ہو رہے تھے اِس لیے ہمیں نہیں لگتا تھا کہ گیری برو نیپال آ پائیں گے۔ لیکن اُنہوں نے یہاں آنے کا پکا اِرادہ کِیا ہوا تھا۔ اُنہیں دیکھ کر مقامی یہوواہ کے گواہوں کو بہت تسلی ملی۔“
”ہم اپنے ہمایمانوں کے اَور قریب ہو گئے“
سیلاس جو نیپال میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں: ”جیسے ہی ٹیلیفون سروس بحال ہوئی، ہمیں فون پر فون آنے لگے۔ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ ہمارے لیے بہت فکرمند تھے۔ حالانکہ ہمیں اُن میں سے کچھ کی زبان سمجھ نہیں آتی تھی لیکن پھر بھی ہم محسوس کر سکتے تھے کہ وہ ہم سے کتنا پیار کرتے ہیں اور ہماری مدد کرنے کے لیے کتنے بےتاب ہیں۔“
زلزلے کے کئی دن بعد بھی مقامی یہوواہ کے گواہ عبادتگاہوں میں پناہ لینے والے متاثرین کے لیے کھانا لاتے رہے۔ اِس کے علاوہ ایک اِمدادی کمیٹی بھی قائم کی گئی۔ جلد ہی بہت زیادہ اِمداد پہنچنے لگی، خاص طور پر بنگلہدیش، بھارت اور جاپان سے۔ کچھ ہی دنوں میں یورپ سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نیپال پہنچ گئی۔ یہ سب ڈاکٹر یہوواہ کے گواہ تھے اور اُنہوں نے ایک مقامی عبادتگاہ میں اپنا مرکز قائم کِیا۔ وہ فوراً کام میں جت گئے۔ اُنہوں نے زلزلے کے متاثرین کی نہ صرف صحت کے حوالے سے مدد کی بلکہ جذباتی طور پر بھی اُن کا سہارا بنے۔
اُتیرا نامی عورت کے احساسات بالکل ویسے ہی تھے جیسے بہت سے لوگوں کے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”یہ زلزلہ بہت ہی خوفناک اور دل دہلا دینے والا تھا۔ لیکن اِس کے بعد ہم نے محسوس کِیا کہ ہم اپنے ہمایمانوں کے اَور قریب ہو گئے ہیں۔“ بےشک یہوواہ کے گواہ یہوواہ خدا اور ایک دوسرے سے بےحد محبت کرتے ہیں۔ اور اِس زلزلے کی وجہ سے یہ محبت کم نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی گہری ہو گئی ہے۔